Click Here to Verify Your Membership
Others چڑیل

اور بیچ راستے میں بندھی ہوئی ریڑھیاں اور سامان پڑا ہوتا ہے، جسے رات کو  ان کے مالک چوکیدار کے آسرے پر چھوڑ چلے جاتے ہیں، اور تنگ راستے میں ان رکاوٹوں سے بچ کر چلنا پڑتا ہے۔ میں بھی احتیاط سے سائیکل چلاتا ہوا ایک  بڑا سا خاکی کنٹوپ پہنے  چوکیدار کے آگے سے گزرا، جو سرد رات کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ  لکڑی کی بیکارپھٹیوں اور بھوسے کو جلا کر اکڑوں بیٹھا ہوا ہاتھ سینک رہا تھا، اور ساتھ ساتھ بیڑی کے کش لگا لیتا تھا۔ مجھے دیکھ کر چوکیدار ہوشیار ہوگیا اور بولا، "باو جی، دیکھ کر جائیے گا، علاقے میں چڑیل آئی ہوئی ہے۔ میں "اچھا" کہتے ہوئے آگے نکل آیا۔ ایک لمحہ ہی گزرا تھا کہ بجلی بھی چلی گئی اور تنگ گلیاں جو کہ کچھ دیر قبل پرانے بلبوں کی پیلی روشنی میں نہا رہی تھیں، یکدم اندھیرے میں ڈوب گئیں۔

رکاوٹوں سے بچنے کے لئے میں سائیکل سے اتر آیا اور ہینڈل تھامے پیدل چلنے لگا۔ عجب ویرانہ سا تھا،اور ہر طرف ایک ہو کا سا عالم چھایا تھا۔صرف میرے قدموں کی گونجتی تھاپ سنائی دیتی، یا پھر قدموں میں آتے ہوئے رستے میں پڑے بھوسے یا اخباری کاغذوں کی سرکراہٹ۔اچانک دور سے آتی کسی انسانی کراہ سن کر میں ٹھٹھک گیا، اور بلا آواز کیے آہستہ چلتا گیا۔ نزدیک آتی ہوئی آواز مزید واضح ہوتی گئی، جو کہ ایک ریڑھی کے نیچے سے آرہی تھی، کسی کی منمناہٹ کرتی ہوئی آواز۔۔ جیسے کہ کوئی کسی کو باندھ کر گلاگھونٹ رہا ہو۔۔۔۔!!

خوف اور تجسس کے اس عالم میں میں نے جھک کر ریڑھی کے نیچے دیکھا، مگر جو سین چلتا دیکھا، اسے دیکھ کر میرا بایاں ہاتھ غیر ارادی طور پر میری شلوار کی طرف چلا گیا۔



Quote


میں حسین آگاہی بازار میں کپڑا رنگنے کا کام کرتا ہوں۔ ایک دفعہ روزوں میں عید کا آڈر مکمل کرنے کے لئے رات تین بجے کے قریب فارغ ہوا اور اپنی سائیکل پر سوار گھر کی طرف نکل پڑا۔ جیسا کہ آپ کو پتہ ہوگا کہ بازار کی گلیاں کافی تنگ ہیں، اور بیچ راستے میں بندھی ہوئی ریڑھیاں اور سامان پڑا ہوتا ہے، جسے رات کو  ان کے مالک چوکیدار کے آسرے پر چھوڑ چلے جاتے ہیں، اور تنگ راستے میں ان رکاوٹوں سے بچ کر چلنا پڑتا ہے۔ میں بھی احتیاط سے سائیکل چلاتا ہوا ایک  بڑا سا خاکی کنٹوپ پہنے  چوکیدار کے آگے سے گزرا، جو سرد رات کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ  لکڑی کی بیکارپھٹیوں اور بھوسے کو جلا کر اکڑوں بیٹھا ہوا ہاتھ سینک رہا تھا، اور ساتھ ساتھ بیڑی کے کش لگا لیتا تھا۔ مجھے دیکھ کر چوکیدار ہوشیار ہوگیا اور بولا، "باو جی، دیکھ کر جائیے گا، علاقے میں چڑیل آئی ہوئی ہے۔ میں "اچھا" کہتے ہوئے آگے نکل آیا۔ ایک لمحہ ہی گزرا تھا کہ بجلی بھی چلی گئی اور تنگ گلیاں جو کہ کچھ دیر قبل پرانے بلبوں کی پیلی روشنی میں نہا رہی تھیں، یکدم اندھیرے میں ڈوب گئیں۔

رکاوٹوں سے بچنے کے لئے میں سائیکل سے اتر آیا اور ہینڈل تھامے پیدل چلنے لگا۔ عجب ویرانہ سا تھا،اور ہر طرف ایک ہو کا سا عالم چھایا تھا۔صرف میرے قدموں کی گونجتی تھاپ سنائی دیتی، یا پھر قدموں میں آتے ہوئے رستے میں پڑے بھوسے یا اخباری کاغذوں کی سرکراہٹ۔اچانک دور سے آتی کسی انسانی کراہ سن کر میں ٹھٹھک گیا، اور بلا آواز کیے آہستہ چلتا گیا۔ نزدیک آتی ہوئی آواز مزید واضح ہوتی گئی، جو کہ ایک ریڑھی کے نیچے سے آرہی تھی، کسی کی منمناہٹ کرتی ہوئی آواز۔۔ جیسے کہ کوئی کسی کو باندھ کر گلاگھونٹ رہا ہو۔۔۔۔!!

خوف اور تجسس کے اس عالم میں میں نے جھک کر ریڑھی کے نیچے دیکھا، مگر جو سین چلتا دیکھا، اسے دیکھ کر میرا بایاں ہاتھ غیر ارادی طور پر میری شلوار کی طرف چلا گیا۔

Quote

ریڑھی کے نیچے ایک سفید سی مردانہ ٹانگ صاف ننگی دکھائی دے رہی تھی، جس پر ہلکے ہلکے بال تھے، اور گھٹنا اوپر کو کیے مڑی ہوئی تھی اور ہلکے ہلکے سے ہل رہی تھی، کہ جیسے دھیمے سے کوئی چپو چلا رہا ہو، جبکہ دوسری ٹانگ نسواری رنگ کی شلوار میں ہی تھی اور لمبی پساری ہوئی تھی، اور لمبا سا بھرا بھرا پھندے والا ازاربند بھی واضح تھا۔ قمیص بھی تھوڑا اوپر کو اٹھی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ایک خوبصورت سا پیٹ واضح تھا، جبکہ بندے کا منہ اندھیرے میں ہونے کی وجہ سے دکھ نہیں رہا تھا ۔ پاس ہی پڑے بندھے ہوئے قالین کے بنڈل پڑے ہوئے تھے، جس سے اندازہ ہورہا تھا کہ یہ کوئی قالین فروش جواں پٹھان ہوگا جو رات پڑنے پر یہیں گلی میں چادر بچھا کر سو گیا تھا۔ ہلکورے کھاتی ہوئی ننگی ٹانگ اورزیریں ناف ٹکی مٹھی جوکہ پورا گھیرا نہ پڑپانے سے مکمل بند نہ ہو پارہی تھی لگاتار جھٹکوں میں ہل رہی تھی عیاں کرتی تھی کہ صاحب کسی مشکوک حرکت سے لذت اٹھا رہے تھے۔ مجھے ہنسی سی آئی، جسے میں ایک لڑکی کی ٹانگ سمجھ کر ٹھٹھکا تھا وہ تو ایک بڑے اعضاء کے مالک پٹھان کی تھی۔ دل تو چاہا کہ رنگے ہاتھ پکڑ کر اس کی دھلائی کردوں، مگر غریب کی عیاشی پر ترس کھا کر یہ خیال جھٹک دیا اور آگے چل دیا۔

جاری ہے!

Quote

آخری قسط


"اگلے دن صبح  میں دکان پر واپس آیا تو ساتھ والی دکان سے پتہ چلا کہ اسی ریڑھی کے نیچے وہ  پٹھان مردہ پایا گیا ہے۔ صاحب ہر کسی کا یہی کہنا ہے کہ وہ بندہ سردی سے ٹھٹھر کر مرا ہے، مگر مجھے پکا یقین ہے کہ اس پٹھان کو محلے کی چڑیل نے سیکس کرکے مارا ہے۔"

اس طرح اپنی داستاں سنا کر وہ رنگریز چپ سادھ کر بیٹھ گیا ، جبکہ اس کی متفکر نگاہیں گرد آلود فرش کو ایک ٹک گھورے جا رہی تھیں۔ ایک ممی ڈیڈی شکل کا ڈیسنٹ آدمی سامنے بیٹھا اس کی کہانی اپنی نوٹ بک میں قلمبند کرچکا تھا، وہاں سے اٹھا اور  واپس حسین آگاہی بازار چوک میں باٹا شوز کے سامنے پارک کی ہوئی اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اور  اپنے ریسرچ روم جو کہ شہر کے جنوبی حصے میں واقع تھا کی طرف جانےکےلئے نکل پڑا۔   یہ آدمی آغا شبر شمبرانی  تھا جو کہ عمر میں پینتیس  سال کا تھا اور شہر میں واقع قومی یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات میں "جرم اور مابعد طبیعاتی وجود کا تعلق" کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کا ریسرچ مقالہ لکھ رہا تھا۔

آغا شبر شمبرانی اپنی بڑی کار چلاتا ہوا شہر کے وسط یعنی ڈاون ٹون میں واقع ایک چوک سے گزر ہی رہا تھا کہ اس کی نظر سڑک کے ایک تاریک کونے میں کھڑی ایک سرخ نقاب میں ملبوس خاتون پر پڑی جو درمیانے اور تھوڑے بھارے جسم کی حامل تھی، اور بے چینی سے ادھر ادھر پلٹ رہی تھی، اور کبھی ایک ساتھ میں کھڑے رکشہ کے ڈرائیور سے کچھ بات کرکے پھر دوبارہ ادھر ادھر چلنے لگ جاتی۔ آغا شبر شمبرانی کو پکا یقین ہو گیا کہ یہ کوئی مطلب کا پنچھی ہے، اور یہ سوچ کر اس نے گاڑی تھوڑا آگے کرکے فٹ پاتھ کے ساتھ لگا دی۔ وہ عورت چلتی ہوئی آئی اور کار میں ساتھ والی اگلی سیٹ میں آکر بیٹھ گئی، اور باریک آواز میں بولی،

خاتون: "مجھے پلیز راستے میں آٹھ نمبر چونگی پر ڈراپ کردیجئے گا پلیز"۔
آغا شبر شمبرانی نے خاتون کے وجود پر غور سے نظر دوڑائی۔ کاجل کی زیادتی میں دبی ہوئی بڑی بڑی  مردانہ کالی آنکھوں کے گرد جھریوں کے باعث وہ خاتون کوئی چالیس پینتالیس سال کی کی معلوم ہو تی تھی۔
آغا شبر شمبرانی: " ضرور"
تھوڑی دیر بعد خاتون بناوٹی سے  لہجے میں گلابی اردو میں  گویا ہوئی۔
خاتون: "وہ میں اپنے ایک دوست سے مل کر آرہی ہوں۔"
آغا شبر شمبرانی: "اچھا"
خاتون: "میرا نام شاہدہ ہے، اور میں ایک بوتیک چلاتی ہوں۔ آپ میرا فون نمبر لے لیں۔ اگر مجھ سے کوئی کام کروانا ہو تو مجھ سے رابطہ کر لینا۔۔۔۔۔۔ میرے پاس اور بھی لڑکیاں آتی ہیں جو ہمسایہ ہیں یا بوتیک میں کام کرتی ہیں دن میں اور شام میں میرے اڈے پر موجود ہوتی ہیں"
گو آغا شبر شمبرانی بھی دل لگی میں بہک گیا تھا مگر ابھی تک وہ محتاط تھا۔ اور اب دھیرے دھیرے وہ بھی کھل رہا تھا اور نٹ کھٹ باتیں کرکے محظوظ ہورہا تھا۔ اتنے میں شاہدہ نے اس کو دعوت دی کہ وہ پانچ سو روپے کے عوض گاڑی میں ہی اس کو مزا دے سکتی ہے۔ مگر آغا شبر شمبرانی نے اسے کو منع کر دیا  یہ کہ کر کہ گاڑی میں ایسے کام کرنا مناسب نہیں مبادا کہ کوئی دیکھ لے گا۔ مگر شاہدہ مسلسل اصرار کرتی رہی اور وہ ٹالتا رہا۔ بالآخر شاہدہ نے اپنا ہاتھ آغا شبر شمبرانی کی پینٹ کے خاص حصے پر رکھ دیا جو کہ مستی کے جوبن کی وجہ سے اکڑ رہا تھا، اور شاہدہ دبانے لگی اور بولی کہ تھوڑا کرکے دکھاتی ہوں۔ آغا شبر شمبرانی نے پھر منع کردیا مگر ہوس کے آگے وہ بھی آہستہ آہستہ کمزور پڑ رہا تھا۔ 

شاہدہ: "زپ کھولیں پلیز، اسے باہر نکالیں ناں پلیز"۔

  یہ کہ کر اس نے زپ کھول کر آغا شبر شمبرانی  کا آلہ تناسل باہر نکال لیا اور اپنے ہاتھ میں کے کر گرفت نرم کرکے دبانے لگی۔ آغا شبر شمبرانی  کا آلہ پورا سخت ہوگیا۔ آغا شبر شمبرانی نے اپنا ہاتھ شاہدہ کی ٹانگ پر رکھتے ہوئے آگے کھسکایا تو اسے شاہدہ کے انڈرویر کا کنارہ صاف محسوس ہوا، مگر وہ اس سے پہلے کہ مزید آگے جاتا، شاہدہ کا ہاتھ حرکت میں آیا اور اس نے آغا شبر شمبرانی کا ہاتھ پکڑ کر پرے دھکیل دیا۔ پھر وہ بولی۔

شاہدہ: "دیکھیں میں اس کو اپنے منہ میں لے کر چوس کر دکھاتی ہوں، آپ چلتی ہوئی گاڑی کو سروس روڈ پر لے لیں، کوئی نہیں دیکھے گامیرا سر نیچے کو چھپا ہوگا،یا پھر سامنے تاریک گلی میں گاڑی لےجائیں، اوہو آپ اتنا ڈر کیوں رہے ہیں، کچھ بھی نہیں ہوگا۔"

شاہدہ اپنا منہ آغا شبر شمبرانی کے آلہ کی طرف لے گئی، مگر آغا شبر شمبرانی نے اس کو پرے دھکیلا، سڑک پر لوگ نظر آرہے تھے ، مگر شاہدہ گویا اپنے حواس کھورہی تھی اور اب وہ  ان لوگوں کی پرواہ کیے بغیر زبردستی پر اتر آئی تھی۔ گاڑی، شاہدہ کا سر اس کی گود میں پڑتا سر، اور آغا شبر شمبرانی کا بچاؤ کرتا ہاتھ مسلسل حرکت میں تھے۔ آغا شبر شمبرانی کے کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی تھی، اور حلق خشک ہورہا تھا، اسے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ شاہدہ کی اس کشمکش میں اس کے کوٹ کی اندرونی جیب میں موجود بٹوہ حرکت میں لایا جا رہا ہے، اور اب اس کا خوف حقیقت کا روپ لے رہا تھا،  یہاں تک کہ اس کا آلہ خوف کے مارے ایک دم سادھ کر ڈھیلا ہو کر ڈھلک گیا۔

آغا شبر شمبرانی بولا: " دیکھو، میں نے کہا تھا نہ، کہ یہاں گاڑی میں ٹھیک نہیں ہے، دیکھو میرا سو گیا ہے۔" 

مگر شاہدہ کی پھرتیوں میں کمی نہ آئی اور وہ جنونیوں کی طرح اپنا سر اس کی گود میں لیجانی کی کوششوں میں تھی، اور صاف معلوم پڑ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ آغا شبر شمبرانی کی اندرونی جیب میں بٹوے پر حرکت کررہے تھے، مگر آغا شبر شمبرانی مسلسل اپنی جیب اپنے ہاتھ سے بچا رہا تھا۔  بالآخر وہ ایک دبی دبی سی باریک آواز میں چلائی "بچاؤ، یہ میرے ساتھ زبر دستی کر رہا رہے"۔

آغا شبر شمبرانی نے ایک سرعت میں اپنے تمام حواس سمیٹے اور غرا کر کہا:
آغا شبر شمبرانی:" دیکھ میں تجھے تھانے میں پکڑواتا ہوں، اور میں گاڑی ہجوم والی جگہ میں روکتا ہوں"۔
شاہدہ: "میں بھی لوگوں کو تمہاری کھلی ہوئی زپ کے بارے میں بتاؤں گی۔
آغا شبر شمبرانی نے اسی اثنا میں گاڑی کوکٹ مار کر ایک شاپپنگ پلازے کے سامنے بریک لگادی، جہاں دو سیکیورٹی گارڈز  سامنے کھڑے تھے۔ 

شاہدہ نے ڈر کے مارے اپنا ہاتھ واپس کھینچا جس میں کاغذ سا تھا، اور اس نے یہ کہتے ہوئے ہاتھ چھپا لیا،

شاہدہ: "اچھا، اچھا، میں جاتی ہوں۔۔۔"
یہ کہ کر اس نے دروازہ کھولا اور باہر کو نکلنے لگی۔ اترتے وقت اس کی سائیڈ میں ہٹی ہوئی قمیص کی وجہ سے اس کی صاف مگر مردانہ سی ننگی کمر اور ہلکے نیلے رنگ کا انڈرویرٔ واضح ہورہے تھے۔

آغا شبر شمبرانی چلایا:  "اوئے لونڈے!!"

نقاب پوش شاہدہ جا چکا تھا، اور بدحواس آغا شبر شمبرانی خود کو سمیٹنے کی کوشش میں تھا۔ گاڑی کا پچھلا حصہ سڑک پر آڑے ترچھا تھا، اور اوپر سے نادان ٹریفک، ایک رش سا لگ گیا تھا، جس میں سے وہ بڑی مشکل سے گاڑی ریورس کر سکا اور آگے گاڑی لے گیا۔

تھوڑا آگےجا کر اس کوایک نزدیکی چوک میں کھڑا ایک نقاب سے عاری بھاری میک اپ اور زرق برق زنانہ لباس پہنے مردانہ سختی کے حامل چہرے کا مالک ایک شخص نظر آیا۔ شید یہ وہ ہی تھا، یا پھر کوئی اور۔۔۔ جو بھی تھا۔۔۔ مگر آغا شبر شمبرانی مزید کوئی فکر کیے بغیر آگے نکل آیا۔

واپس ریسرچ سینٹر پہنچ کر اس نے پیسے گنے جو کہ بظاہر پورے دکھتے تھے، مگراسے  پھر بھی احساس ہورہا تھا کہ اس کا کچھ کھو سا گیا تھا، شاید پیسے ہی!!! مگر اسے ایک خوشی بھی تھی،کہ  آج اس نے سچ مچ کی چڑیل دیکھ لی تھی۔

Quote






adult nursing erotic storiesnamard patimallu pics gallerytelugu latest sex storysசதை பிடிப்பான தொப்புள்nri lesbiansasin sex storiessex story free hindimallu sex gallerybangli chatidesi big gandmallu aunties hot picturetelugu sex stories in mobileaunties in exbiimagir gudxx3 video bluedesi porn forummadhuri pornmallu mula pictureslund ka chaskadesi hottiedesi story hindi fontdesi breast feeding picsen thangachi pundaiதிர்ஷா செக்ஷ் போட்டோஸ்xxx urdu kahanyanarpita aunty pics10inch dick picbehan ki phudi marisophie dee anal creampieurdo sexy sotrykhanki magir gudshakeela galleryincist comicspoorna hot hipsexy aunt picturesprostitute nude picexbii hot desinepali chikako kathatv actress exbiidesi xxx girlsania mirza full nudefamily incest sex storyindian flue filmleah jaye picmallu aunties pictures hothindi sexy storeysexy girls undressedhindi crossdressing storiesnew desi kahaniyaurdu sexy stories latestxxx mms videoaunty sex kadhaisex kadakal malayalamanjali in tarak mehtawww.telugu buthu kadalutamil swx storiesdesi scandals clipsdesi sexi kahaniakamasutra for lesbianstv actress fakespinoy sex stories collectionsuhagraat ki moviehindi fonts storiesmom ki sexy storyammavin pavadaistories of chudai in hindihot saree aunty photosbhabhi sex hindi storieskantutan tagalog storysex story in tanglishdesi aunty hot sareetamil sex stories peperonitythamil story sexsex story breastfeeding