Click Here to Verify Your Membership
First Post Last Post
All In One وطن کا سپاہی

میجر دانش کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ آگے سے فون بند کر دیا گیا۔ امجد نے مسکراتے ہوئے میجر دانش کی طرف دیکھا اور پوچھا یہ کیا فلم ہے جناب؟؟ میجر دانش نے آنکھ مارتے ہوئے کہا میری پرانی گرل فرینڈ ہے سوچا اسکو تھوڑا تنگ ہی کر لوں۔ میجر کی بات سن کر امجد نے قہقہ لگایا اور بولا نہیں میجر صاحب گرل فرینڈ کو تنگ کرنے کے لیے تو آپ فون نہیں کریں گے ایسی صورتحال میں۔ تو میجر دانش نے اسے بتایا کہ یہ میجر علینہ کا فون تھا۔ میجر علینہ میجر دانش کے ساتھ ہی کیڈٹ کالج میں پڑھتی تھی اور دونوں نے اکٹھے ہی آرمی جوائن کی تھی۔ اور اب میجر دانش کی پوسٹنگ کراچی میں تھی جبکہ میجر علینہ کی پوسٹنگ لاہور میں تھی۔ فون کرنے کا مقصد اپنے صحیح سلامت ہونے کی اطلاع پاکستان بھجوانا تھی۔ وٹس ایپ کی کالز ابھی انڈین آرمی یا پاکستان آرمی ٹریس آوٹ نہیں کر سکتی اسی لیے وٹس ایپ سے کال کی ہے۔ لیکن واضح طور پر اس لیے نہیں بتایا کہ احتیاط لازم ہے۔ کیا معلوم انڈین آرمی کے پاس وٹس ایپ کے ڈیٹا بیس تک رسائی ہو مگر پاکستانی آرمی کو اسکا علم نہ ہو اسلیے واضح پیغام نہیں دیا۔ امجد نے کہا مگرآگے موجود خاتون نے تو فون بند کر دیا غصے میں؟؟ تو میجر دانش نے کہا کہ وہ بھی پاک آرمی کی ٹرینڈ میجر ہے اسے بھی معلوم ہے کہ فون پر کیا بات کرنی ہے اور کیا نہیں۔ اس نے میری آواز پہچان لی ہے اتنا کافی ہے۔ اب وہ اعلی افسران تک خود ہی یہ بات پہنچا دے گی۔ 

میجر دانش کی بات ختم ہوئی تو انہیں پیچھے سے ایک اور بس آتی دکھائی دی۔ امجد نے تانیہ کو کہا چلو تم اپنا بیگ اٹھاو اور میجر صاحب کے ساتھ اس بس میں جونا گڑھ پہنچو میں اسی گاڑی پر جونا گڑھ تک آوں گا۔ تانیہ جو اب فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی اس نے پیچھے مڑ کر اپنا بیگ اٹھایا اور گاڑی سے اتر گئی میجر دانش بھی گاری سے اترا اور امجد کو اپنا خیال رکھنے کا کہ کر بس پر سوار ہوگیا۔ بس قریب قریب خالی ہی تھی۔ رات کا ٹائم تھا اسلیے بس میں زیادہ سواریاں موجود نہیں تھیں۔ 

میجر دانش پیچھے والی سیٹس پر گیا اور تانیہ کو بھی وہیں بلا لیا، تانیہ آئی اور شیشے والی سائیڈ پر بیٹھ گئی جبکہ میجر دانش اسکے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میجر کے ہاتھ میں بھی کچھ جوس کے ڈبے اور کھانے کا سامان تھا، جبکہ موبائل فون میجر نے بس میں چڑھنے سے پہلے اسکے ٹائر کے نیچے رکھ دیا تھا۔ جیسے ہی بس چلی موبائل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور میجر کی یہاں موجودگی کا ثبوت مٹ گیا۔ 

=========================

Quote

کال ڈسکونیکٹ کرتے ہی میجر علینہ نے خوشی سے یاہو کا نعرہ لگایا اور اپنے کمرے میں خوشی کے مارے ڈانس کرنے لگی۔ اس نے میجر دانش کی آواز پہچان لی تھی اور وہ جان گئی تھی کہ میجر دانش اب دشمن کی قید سے آزاد ہو چکا ہے۔ کچھ دیر خوشی سے پاگلوں کی طرح ناچنے کے بعد اسے خیال آیا کہ اسے یہ اطلاع فوری طور پر ہیڈ کوارٹر دینی چاہیے۔ اس نے فورا ہی اپنے کمرے میں موجود ٹیلیفون اٹھایا اور ہیڑ کوارٹر کال ملائی۔ آگے سے میجر سہیل نے فون اٹینڈ کیا تو میجر علینہ نے فوری میجر جنرل اشفاق سے بات کروائے، میجر سہیل نے ہولڈ کرنے کو کہا اور میجر جنرل اشفاق کی ایکسٹینشن ملا دی۔ رات کے 11 بجے میجر جنرل نے اپنے ٹیلیفون پر کال ریسیو کی تو میجر علینہ نے ایک ہی سانس میں انہیں اپنے اور میجر دانش کے درمیان ہونے والی گفتگو کا بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اس نے واضح بات نہیں کی بس اپنی آواز سنانے کے لیے اس طرح کی بے ڈھنگی سی کال کی ہے تاکہ اگر کسی طرح کال ٹریس بھی ہوجائے تو ایسا لگے جیسے انڈیا سے کوئی تھرڈ کلاس عاشق پاکستان میں کسی لرکی کو کال کر کے تنگ کر رہا ہے۔ میجر جنرل نے یہ خوشخبری سنی تو انہوں نے علینہ کو بھی مبارک باد دی اور بولے شکر ہے امجد نے اپنا کام کر دکھایا وگرنہ مجھے بالکل بھی امید نہِں تھی کہ وہ اس کام میں کامیاب ہونگے کیونکہ آج تک جو بھی کرنل وشال کی قید میں گیا ہے وہ زندہ سلامت واپس نہیں آیا۔ 

میجر جنرل کو یہ اطلاع دینے کے بعد علینہ نے فوری عمیر کے موبائل پر کال کی۔ عمیر ہنی مون سے واپس آچکا تھا اور اب اپنے کمرے میں بیوی کے ساتھ مصروف تھا۔ عمیر جو اس وقت نادیہ کو چودنےمیں مصروف تھا اسے نادیہ کی وحشی سسکیوں میں اپنا موبائل اٹینڈ کرنے کا ہوش ہی نہیں تھا۔ نادیہ عمیر کے لن پر بیٹھی پوری طاقت کے ساتھ اچھل کود میں مصروف تھی۔ ایک بار کال اٹینڈ نہیں ہوئی تو میجر علینہ نے دوبارہ سے کال کی، اب کی بار عمیر نے فون کی طرف دیکھا کہ اس ٹائم کون تنگ کر رہا ہے۔ نادیہ نے عمیر کے لن پر چھلانگیں مارتے مارتے عمیر کو فون اٹینڈ کرنے سے روکا مگر اتنی دیر میں اسکی نظر اپنے موبائل کی سکرین پر پڑ گئی تھی وہ میجر علینہ کا نام دیکھ چکا تھا۔ میجر علینہ کا نام دیکھتے ہی اس نے نادیہ کو اپنے لن سے اترنے کو کہا اور خود ہی اٹھ کے بیٹھ گیا، نادیہ کو اس طرح عمیرا کا فون اٹیند کرنا بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا کیونکہ وہ اس وقت عمیر کے لن سے پوری طرح لطف اندوز ہورہی تھی۔

عمیر نے کال اٹینڈ کرتے ہی کہا جی عالیہ کچھ پتا لگا بھائی کا؟؟؟ تو عالیہ نے چہکتے ہوئے کہا ہاں جی وہ جناب صاحب آجکل انڈیا کی سیر پر نکلے ہوئے ہیں اور کچھ ہی دیر پہلے میرے ساتھ فون پر فلرٹ کر کے ہٹے ہیں۔ یہ سنتے ہی عمیر کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ عالیہ نے عمیر کو کہا تم یہ خبر جلدی سے آنٹی کو بھی دو اور عفت کو بھی بتاو کہ انہیں بھی سکون ملے ۔ یہ کہ کر علینہ نے کال اینڈ کر دی اور عمیر نے فوری اپنی پینٹ اور شرٹ پہنی اور شرٹ کے بٹن بند کیے بغیر ہی بھاگا بھاگا امی جان کے کمرے میں گیا اور انہیں دانش کے صحیح سلامت ہونے کی اطلاع دی۔ امی جان یہ خبر سنتے ہی سجدے میں گر گئیں رب کا شکر ادا کرنے لگیں، سجدے سے اٹھنے کے بعد انہوں نے عمیر کو اپنے گلے سے لگا لیا اور بولیں کہ چل جلدی سے بھابھی کو بھی بتا۔ 

عمیر اب اسی حالت میں عفت کا دروازہ بجانے لگا۔ عفت اپنی نائٹی پہنے سو رہی تھی گوکہ عفت کے پاس کوئی نہیں تھا جسکے لیے وہ نائٹی پہنتی مگر اسکو عادت تھی کم کپڑوں میں سونے کی اور ہلکی پھلکی نائٹی پہننے سے اسکو سکون کی نیند آتی تھی۔ دروازے پر دستک کی آواز سن کروہ بستر سے اتری اور پوچھنے لگی کون ہے؟؟؟ باہر سے آواز آئی بھابھی میں عمیر۔۔۔ آپکے لیے خوشخبری ہے، دانش بھائی سے رابطہ ہوگیا ہے۔۔۔۔۔ یہ سنتے ہی عفت کی نیند اڑ گئی اور وہ دوڑتی ہوئی دروازے تک آئی اور دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھولتے ہی وہ دوبارہ عمیر سے مخاطب ہوئی اور بولی پھر کہو کیا کہ رہے تھے تم؟؟؟ اسکی آنکھوں میں خوشی کے ساتھ ساتھ بے یقینی کے تاثرات تھے۔ عمیر نے ایک بار پھر کہا کہ دانش بھائی سے رابطہ ہوگیا انکی کولیگ میجر علینہ کا فون آیا ہے بھائی نے انسے بات کی ہے اور اپنے خیر خیریت سے ہونے کی خبر دی ہے۔

Quote

یہ سنتے ہی عفت بے اختیار عمیر سے لپٹ گئی اور رونے لگی، عمیر بھی اس بات سے بے خبر کے اسکی اپنی شرٹ کے بٹن کھلے ہیں اور اسکی بھابھی اس وقت ایک سیکسی نائٹی پہنے ہوئے ہے عفت کی کمر کے گرد اپنے بازو لپیٹ دیے۔ گوکہ اس وقت عمیر یا عفت دونوں کےذہن کسی بھی گندی سوچ یا برے خیال سے پاک تھے مگر ایک بھابھی نائٹی پہنے اپنے جوان دیور کے سینے سے لگی کھڑی تھی ۔ کچھ دیر بعد عمیر کو اپنے سینے پر بھابھی کے نرم نرم مموں کا لمس محسوس ہوا تو اس نے ایک دم عفت کو غور سے دیکھا جو ابھی تک اپنا سر عمیر کے سینے پر رکھے رو رہی تھی۔ یہ خوشی کے آنسو تھے، اسلیے عمیر نے عفت کو رونے سے نہیں روکا مگر اب اسکی نظریں اپنی بھابھی کے جسم پر تھیں۔ عفت کے کندھے بالکل ننگے تھے اور پیچھے سے کمر بھی مکمل ننگی تھی، محض عفت کے چوتڑوں کے اوپر ایک سکرٹ نما چھوٹی سی نیکر موجود تھی اور نیچے اسکی گوری گوری ٹانگیں دیکھ کر عمیر کو اپنے جسم میں سوئیاں چبھتی ہوئی محسوس ہونگے لگیں۔ پھر عمیر نے عفت کو اپنے سینے سے تھوڑا پیچھے ہٹایا تو عفت پیچھے ہوگئی مگر اسکے ہاتھ اپنی آنکھوں پر تھے اور وہ ابھی بھی مسلسل روئے جا رہی تھی۔ 

جبکہ عمیر کی نظریں اپنی بھابھی کے گورے جسم کا نظارہ کرنے میں مصروف تھیں۔ کالے رنگ کی نیٹ کی نائٹی میں سے عفت کا گورا جسم ایسے جھلک رہا تھا جیسے کسی پتھر میں موتی ہو۔ نائٹی کا گلا گہرہ ہونے کی وجہ سے عفت کے مموں کا ابھار بھی بہت واضح تھا۔ عفت کے ممے گو کہ نادیہ کے مموں سے چھوٹے تھے مگر انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنی بیوی کے علاوہ ہر عورت کا جسم ہی خوبصورت لگتا ہے اور اس وقت عمیر کا بھی یہی حال تھا۔ اسکا دل کر رہا تھا کہ وہ اپنے ہاتھ اٹھائے اور اپنی بھابھی کے مموں کو زور سے دبا دے، مگر اس نے اپنے اوپر کنٹرول رکھا اور ایسی کسی بھی حرکت سے اپنے آپ کو باز رکھا۔ اب عمیر کی نظریں اپنی بھابھی کی گوری چٹی تھائیز کا معائنہ کر رہی تھیں جو گوشت سے بھری ہوئی تھیں اور انکو دبانے کا یقینی طور پر بہت مزہ آنے والا تھا مگر اب کی بار بھی عمیر نے اپنے آپ کو بہت مشکل سے کسی بھی ایسی حرکت سے باز رکھا۔ ابھی وہ عفت کے جسم سے اپنی آنکھیں سیکنے میں مصروف تھا کہ عفت کی آواز ااسکے کانوں میں پڑی ، عفت کہ رہی تھی کہ امی جان کو بھی بتا دو کہ دانش خیریت سے ہے۔ عفت کی آواز سن کر عمیر ہوش میں واپس آیا تو اس نے عفت کو کہا کہ وہ میں بتا چکا ہوں۔ بس اب آپ دعا کریں کہ بھائی خیریت سے وطن واپس آجائیں۔ یہ سن کر عفت نے آمین کہا اور بولی میں امی سے مل آوں، یہ کہ کر عفت کمرے سے نکلی اور دانش کی والدہ کے کمرے کی طرف جانے لگی تو اب کی بار عمیر نے ہاتھ آگے بڑھا کر عفت کے کندھے پر رکھ دیا اور بولا رکیں بھابھی۔۔۔ عفت نے رک کر عمیر کو دیکھا اور کہا ہاں بولو؟؟ عمیر نے نظریں نیچے جھکا لیں اور بولا بھابھی آپ اپنے کپڑے پہن لیں۔ یہ کہ کر وہ ایسے ہی نظریں جھکائے واپس اپنے کمرے میں چلا گیا اور عفت نے جب اپنے اوپر غور کیا تو اسے ایک جھٹکا لگا کہ وہ نائٹی پہنے کتنی دیر عمیر کے سینے پر سر رکھ کر کھڑی رہی اور ابھی بھی امی جان سے ملنے جا رہی تھی۔ عفت کو ایک جھر جھری سی آئی اور اپنے اوپر غصہ بھی آیا کہ وہ ایسی حالت میں کمرے سے باہر کیوں آگئی۔ مگر پھر یہ سوچ کر مسکرانے لگی کہ دانش کی اطلاع ملنے پر اسے اپنا ہوش ہی کہاں تھا ۔۔۔ یہ سوچ کر وہ مسکراتی ہوئی واپس کمرے میں چلی گئی اور کپڑے پہننے لگی۔ 


میجر علینہ کو جب سے دانش کی آواز سنائی دی تھی وہ بہت خوش تھی۔ وہ میجر دانش سے بے پناہ محبت کرتی تھی ، میجر دانش بھی اسے پسند کرتا تھا مگر کچھ وجوہات کی وجہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک نہیں ہوسکے تھے۔ علینہ کو اس بات کا دکھ تھا مگر وہ ایک میچور لڑکی تھی، روایتی لڑکیوں کی طرح اس نے عفت سے کوئی لڑائی مول نہیں لی بلکہ اسنے خوشدلی کے ساتھ عفت کو میجر دانش کی بیوی تسلیم کر لیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دانش سے بات ہوتے ہی ہیڈ کوارٹر اطلاع دینے کے بعد اسے فورا عفت کا ہی خیال آیا، مگر عفت کا نمبر پاس نہ ہونے کی وجہ سے اس نے عمیر کو کال کی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ جب سے میجر دانش لا پتہ ہوا ہے عفت کی اداسی کسی لمحے بھی ختم نہیں ہوسکی اسلیے اسے یہ اطلاع فوری دینا بہت ضروری تھا۔ 

Quote

عمیر سے فون پر بات کرنے کے بعد اب وہ دوبارہ سے میجر دانش کے خیالوں میں گم تھی ۔ جب سے میجر کی شادی طے ہوئی تھی دانش اور علینہ کی ملاقات نہیں ہوسکی تھی نہ ہی علینہ میجر کی شادی پر جا سکی تھی کیونکہ شادی والے روز میجر علینہ اپنی ڈیوٹی میں مصروف تھی اور اسے چھٹی نہ مل سکی تھی۔ علینہ کو اب میجر دانش کی شرارتیں یاد آرہی تھیں جو وہ علینہ کے ساتھ کرتا تھا۔ یوں تو دونوں کالج کے زمانے سے اچھے دوست تھے مگر دونوں میں پہلی بار جسمانی تعلق تب قائم ہوا جب میجر دانش اور علینہ دونوں کیپٹن کے عہدے پر تھے۔ گوکہ دونوں کی پوسٹنگ الگ الگ شہروں میں تھی مگر ایک مشن کے دوران دانش اور علینہ میجر افتخار کے ساتھ ٹرین پر بہاولپور سے لاہور جا رہے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے اور ریلوے کی حالت انتہا درجے کی خراب ہونے کے باعث ریلوے میں مسافروں کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ میجر افتخار بہت سخت طبیعت کے افسر تھے اور وہ ہمیشہ علینہ اور دانش کو ایکدوسرے سے دور رکھنے کی کوشش کرتے تھے مگر انکی اپنی نظریں علینہ کے جسم کو 24 گھنٹے گھورتی رہتی تھیں۔ 

علینہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ تھی کہ میجر افتخار اسکے جسم کا دیوانہ ہے مگر اس نے کبھی اس بات کا برا نہیں منایا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسکے جسم کی بناوٹ ہے ہی اتنی سیکسی کے کوئی بھی مرد اسکو پانے کی خواہش کر سکتا ہے ، اس لیے اس نے کبھی کسی کو نہیں روکا کہ وہ اسے گھور گھور کے کیوں دیکھتا ہے۔ اس سفر کے دوران بھی میجر افتخار ہر وقت کیپٹن علینہ کو اپنے دائیں جانب اور کیپٹن دانش کو اپنے بائیں جانب رکھتے اور خود دونوں کے بی میں ہی رہتے، جہاں کہیں انہیں موقع ملتا وہ بہانے بہانے سے کبھی کیپٹن علینہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتے تو کبھی اسکی کمر پر تھپکی دے کر اپنی ٹھرک پوری کرتے۔ 

آج رات کے 2 بجے بہاولپور سے قراقرام ایکسپریس لاہور کے لیے چلی تو میجر افتخار نے ٹرین کے فرسٹ کلاس پارلر حصے میں اپنی سیٹ بک کروائی۔ میجر نے پہلے علیینہ کو ٹرین پر چڑھنے کی دعوت دی، علینہ نے جیسے ہی سیڑھی پر پاوں رکھا تو دانش نے بھی کوشش کی کہ وہ علینہ کے پیچھے ہی چڑھ جائے مگر درمیان میں میجر افتخار آگئے اور انہوں نے ہاتھ سے کیپٹن دانش کا راستہ روک لیا تھا۔ دانش بھی جانتا تھا کہ میجر کی نیت خراب ہے علینہ پر مگر وہ بھی اسے کچھ نہیں کہ سکتا تھا۔ ایک تو وہ سینئیر تھا اور دوسرے جب علینہ نے کبھی اس بات کا برا نہیں منایا تو دانش کیونکر برا مناتا۔ علینہ ابھی ٹرین کی دوسری سیڑھی پر ہی تھی کہ افتخار نے بھی دوسری سیڑھی پر اپنا پیر رکھ دیا۔ میجر افتخار کا جسم علینہ کے جسم سے ٹکرایا تو علینہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور میجر افتخار کو قہر انگیز نظروں سے گھورا، میجر کا خیال تھا کہ شاید علینہ مائنڈ نہیں کرے گی مگر اسکی نظروں میں موجود غصہ دیکھ کر میجر بلا اختیار سوری بول پڑا۔ 

اسکے بعد تینوں ٹرین میں موجود اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ چونکہ یہ اے سی بزنس کمپارٹمنٹ تھا اس میں مختلف کیبن بنے ہوئے تھے ، ہر کیبن میں 6 برتھ تھے اور کیبن کو دروازہ بند کر کے لاک کیا جا سکتا تھا۔ علینہ سب سے پہلے اندر داخل ہوئی اور اس نے اوپر والی برتھ پر قبضہ کر لیا جبکہ میجر افتخار اور کیپٹن کاشف نیچے والی برتھ پر بیٹھ گئے۔ ٹرین بہاولپور سٹیشن سے چلی تو میجر افتخار نے علینہ کو برتھ سے نیچے آنے کا کہا، علینہ نیچے آئی اور کیپٹن دانش کی برتھ پر اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔ اب میجر افتخار نے دونوں کو آپریشن کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ اور دونوں کو سمجھانے لگا کہ کیسے دشمن پر قابو پانا ہے اور کسطرح سے دشمن کی نظروں میں آئے بغیر تینوں نے رابطے میں رہنا ہے۔ شجاع آباد تک میجر کا لیکچر جاری رہا جسکو سن کر اب علینہ کو نیند آنے لگی تھی۔ مگر خوش قسمتی سے میجر کا لیکچر یہیں ختم ہوگیا تھا تو اس نے علینہ کو بیگ سے چپس نکالنے کے لیے کہا جو اس نے بہاولپور ائیر پورٹ سے خریدے تھے۔ 

علینہ نے ایک پیکٹ افتخار کو نکال کر دیا اور دوسرا پیکٹ دانش کے ساتھ شئیر کر لیا۔ میجر افتخار کا تو جیسے دل ہی ٹوٹ گیا مگر وہ کچھ نہیں کہ سکتا تھا۔ پھر علینہ نے جوس کے پیکٹ نکالے تو تینوں نے جوس پیے اسکے بعد علینہ نے دانش کو بیت بازی کا مقابلہ کرنے کو کہا اور دونوں نے ایک سے بڑھ کر ایک شعر سنانا شروع کر دیا۔ میجر افتخار جو عمر میں دونوں سے کافی بڑے تھے اور شعرو و شاعری کا شوق بھی نہیں تھا انہیں نیند آنے لگی تو انہوں نے اوپر والی برتھ پر قبضہ کیا اور چادر لیکر سوگئے۔ کچھ ہی دیر میں میجر کے خراٹے شروع تھے ۔ 

Quote

ٹرین خانیوال پہنچی تو بیت بازی کے بعد یسو پنجو کھیل کھیل کر بھی اب دونوں تھک چکے تھے۔ 25 سالہ علینہ کالج کے زمانے سے ہی دانش کو پسند کرتی تھی جسکی عمر اب 26 سال تھی۔ جب مزیر کرنے کو کچھ نہیں رہا تو دونوں ایک ہی برتھ پر ایکدوسرے کے قریب ہوکر بیٹھ گئے اور اپنے مستقبل کے بارے میں باتیں کرنا شروع کر دی۔ جو کچھ دیر کے بعد عشق و عاشقی کی باتوں میں تبدیل ہوگئیں۔ علینہ اب اپنا سر دانش کے کندھے پر رکھ کی بیٹھی تھی اور اسے اپنے گھر والوں کے بارے میں بتانے لگی۔ جبکہ دانش نے بھی کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کو تمہارے گھر بھیجے گا تاکہ وہ میرے لیے تمہارا ہاتھ مانگ سکیں۔ 

علینہ نے دانش کے کندھوں سے اپنا سر اٹھایا اور خوشی سے بولی سچ؟؟؟ کیپٹن دانش نے اسکے ماتھے پر ایک بوسہ دیا اور کہا ہاں میری جان واقعی سچ۔ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ یہ کہ کر دانش نے علینہ کے خوبصورت ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور ایک لمبا بوسہ دیا، اس دوران علینہ کی آنکھیں بند تھیں جیسے اگر اس نے آنکھیں کھولیں تو یہ سپنا ٹوٹ جائے گا۔ دانش بھی دنیا سے بے خبر اپنے ہونٹ علینہ کے ہونٹوں پر رکھ کر سب کچھ بھول گیا تھا کہ اچانک انہیں میجر افتخار کی آواز سنائی دی۔ دونوں ہڑبڑا کر پیچھے ہٹے اور میجر کی طرف دیکھنے لگے جو بے ہوشوں کی طرح سو رہا تھا، اصل میں یہ آواز میجر افتخار کے خراٹوں کی تھی، علینہ اور دانش نے ایکدوسرے کی طرف دیکھا اور بے اختیار ہنسنے لگے، پھر دانش آگے بڑھا اور اس نے ایک بار پھر اپنے ہونٹ علینہ کے ہونٹوں پر رکھد یے اور انہیں چوسنے لگا۔ 

علینہ بھی کیپٹن دانش کا ساتھ دینے لگی اور اپنے ہونٹوں کو گول گھما کر کیپٹن دانش کے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ علینہ کے ہاتھ کیپٹن دانش کی گردن پر تھے جبکہ دانش نے اپنے ہاتھ علینہ کی کمر پر رکھے اور آہستہ آہستہ علینہ کو اپنے قریب کھینچتے ہوئے اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔ 

یوں تو دونوں میں یہ چوما چاٹی کالج کے زمانے سے ہی چل رہی تھی مگر آج اسکی شدت میں کافی بہت زیادہ تھی۔ علینہ مکمل جوان اور جذبات سے بھرپور ایک کنواری لڑکی تھی اور آج کافی دنوں کے بعد وہ اپنے محبوب ے ہونٹوں کا رس چوس رہی تھی۔ علینہ نے اپنا منہ کھول کر دانش کو زبان اندر کرنے کی اجازت دی اور پھر دانش کی زبان سے اپنی زبان کو ٹکرانے لگی۔ دانش اور علینہ دونوں کی کوشش تھی کہ وہ اپنی زبان کو دوسرے کے منہ میں داخل کریں اور اندر تک مزہ اٹھائیں۔ دانش کا ایک ہاتھ سرکتا ہوا علینہ کی کمرے سے اسکے کولہوں تک آ چکا تھا اور وہاں سے پھرے گوشت کے بھرے ہوئے چوتڑ دانش کے ہاتھ میں تھے۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ دانش نے اپنا ہاتھ علینہ کے چوتڑوں پر رکھا تھا اس سے پہلے انکے درمیان بوس و کنار ضرور ہوا تھا مگر کبھی علینہ کے ممے یا اسکے چوتڑوں پر دانش نے ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ اور آج اگر علینہ کے چوتڑ پکڑے بھی تو اپنے سئینیر کے سامنے جو اوپر والی برتھ پر زور دار خراٹے مار رہاتھا۔ 

اپنے چوتڑوں پر مردانہ ہاتھ کی گرفت کو محسوس کر کے علینہ کے جذبات اور بھی مچلنے لگے اور اب اس نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر دانش کی کمر کے گرد کری تو دانش نے اسکے چوتڑ سے پکڑ کر اسے گود میں اٹھا لیا اور علینہ نے اپنی دونوں ٹانگیں دانش کی کمر کے گرد لپیٹ دیں۔ علیینہ کے 36 سائز کے چوتڑ دانش کے ہاتھ میں تھا اور وہ انہیں دبانے کے ساتھ ساتھ علینہ کے ہونٹوں کو بھی بھرپور مزے سے چوس رہا تھا۔ ہونٹوں سے ہوتے ہوئے دانش کے ہونٹ اب علینہ کی گردن کو چوسنے میں مصروف تھے اور علینہ اپنا سر پیچھے کی طرح گرائے دانش کو پورا موقع دے رہی تھی کہ وہ اسکی گردن کے زیادہ تر حصے کو اپنے ہونٹوں سے چوم سکے۔ دانش کبھی علینہ کی صراحی دار گردن پر اپنی زبان پھیرتا تو کبھی اسکو دانتوں سے کاٹنے لگا اور علینہ کی اف اف ، آہ آہ کی سسکیاں دانش کے کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ 

دانش اب چلتا ہوا ٹرین کی کھڑکی کے ساتھ ہوا اور علینہ کی کمر ٹرین کے ساتھ لگا کر سہار دیا علینہ نے ابھی بھی اپنی ٹانگیں دانش کی کمر کے گرد لپیٹ رکھی تھیں۔ اب ایک بار پھر دونوں نے ایکدوسرے کے ہونٹ چوسنا شروع کر دیے تھے جبکہ دانش کا ہاتھ اب علینہ کے چوتڑوں کو چھوڑ کر اسکی گردن کا مساج کر رہا تھا۔ یہ ہاتھ گردن کا مساج کرتے ہوئے علینہ کے سینے تک آیا اور پھر علینہ کے دائیں ممے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ 36 سائز کے ممے دانش کے ہاتھ میں آئے تو اسے لگا جیسے کوئی خزانہ مل گیا ہو، اس نے علینہ کے مموں کو ذور سے دبایا تو علینہ کے منہ سے ایک لمبی سسی نکلی آوچ چ چ چ چ چ چ چ چ ۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کے درمیان یہ سب کچھ پہلی بار ہورہا تھا مگر حیرت کی بات تھی کہ علینہ نے نا تو دانش کو چوتڑ پکڑنے سے روکا تھا اور نہ ہی ممے دبانے پر کچھ کہا۔ شاید وہ آج اپنی جوانی دانش پر نچھاور کرنے کے لیے تیار تھی اور اپنی پیاس بجھانے کے لیے بھی بے تاب تھی۔ 

تبھی دانش کے ہاتھ علینہ کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگے۔ 3 بٹن کھولنے کے بعد دانش نے علینہ کی شرٹ کو سائیڈ پر ہٹایا تو سرخ رنگ کے برا میں چھپے مموں کا اوپر والا حصہ دانش کو نظر آنے لگا۔ دانش نے اپنا ہاتھ ایک بار پھر علینہ کے دائیں ممے پر رکھا اب کی بار اسکے ہاتھ نے علینہ کے برا کو چھوا تھا۔ جیسے ہی دانش نے علینہ کے ممے کو ہاتھ سے دبایا تو ایک دم سے ٹھک ٹھک کی زوردار آواز آئی۔ کمپارٹنمنٹ میں باہر ٹی ٹی آیا تھا ۔۔۔۔۔ دروازے پر ناک سنتے ہی علینہ نے دانش کی کمر کے گرد لپٹی ٹانگوں کو سائیڈ پر پھیلایا اور اسکی گود سے نیچے اتر کر اپنی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگی جبکہ دانش نے کچھ دیر گہرے گہرے سانس لیے اور پھر دروازہ کھول دیا۔ 

Quote

علینہ کو ابھی تک سانس کنٹرول کرنا مشکل ہورہا تھا اسکا سانس تیز تیز چل رہا تھا۔ ٹی ٹی نے دونوں کو بغور دیکھا اور بولا ٹکٹ چیک کراو، تو دانش نے اپنی جیب سے اور علینہ نے اپنی جیب سے ٹکٹ نکال کر چیک کروا دیا۔ ٹی ٹی بغور علینہ کے کھلے ہوئے بالوں کا جائزہ لے رہاتھا جو اس عمل کے دوران بکھر گئے تھے اور اسکی آنکھوں میں سیکس کا نشہ ابھی تک موجود تھا، پھر ٹی ٹی نے کہا یہ تیسرے صاحب جو ہیں انکا ٹکٹ؟ تو دانش نے انکے بیگ سے ٹکٹ نکال کر چیک کروا دیا، ٹی ٹی اب وہاں سے چلا گیا مگر جاتے جاتے اسکے چہرے پر ذو معنی ہنسی تھی ، وہ سمجھ گیا تھا کہ دونوں گرم جوانیاں ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف تھیں اور اسنے آکر ڈسٹرب کر دیا۔ ٹی ٹی کے جاتے ہی دانش نے دروازہ بند کیا تو علینہ ایک بار پھر چھلانگ مار کر دانش کی گود میں چڑھ گئی اور جنگلی بلی کی طرح اسکی شرٹ کے بٹن کھول کر اسکے سینے پر پیار کرنے لگی۔ 

تھوڑی دیر کے بعد علینہ پہلی برتھ پر لیٹی ہوئی تھی اور دانش نے اسکی شرٹ اتار دی تھی۔ علینہ کی لو ویسٹ جینز ( Low Waist Jeans) اور اسکے بدن پر سرخ رنگ کا برا دانش کے لن کو کھڑا کرنے کے لیے کافی تھا۔ دانش علینہ کے اوپر جھکا اور اسکے فوم والے انڈر وائرڈ برا سے بننے والی علینہ کی کلیوج کے درمیان اپنی زبان پھیرنے لگا۔ علینہ کے برا نے علینہ کے مموں کو آپس میں ملا کر رکھا ہوا تھا اور انہیں اوپر بھی اٹھایا ہوا تھا جسکی وجہ سے اسکی کلیویج بہت سیکسی بن رہی تھی اور ایسے لگ رہا تھا جیسے علینہ کے ممے 36 کی بجائے 38 کے ہونگے۔ کچھ دیر کے بعد جب دانش نے خوب جی بھر کر علینہ کی کلیویج یں زبان پھیر لی تو اسنے علینہ کا برا بھی اتار دیا۔ برا کی قید سے آزاد ہوتے ہی علینہ کے ممے ایسے تھرکنے لگے جیسے جیلی اپنے برتن سے نکل کر ہلتی ہے۔ 

گورے ملائی جیسے مموں پر ہلکے براون رنگ کا چھوٹا سا دائرہ اور اس پر براون نپل جیسے فریش کریم کیک کے اوپر چیری کا دانہ پڑا ہو۔ دانش نے اپنی زبان منہ سے باہر نکالی اور زبان کی نوک سے اس چیری کو یعنی کہ علینہ کے نپل کو چھیڑنے لگا۔ جیسے ہی دانش کی زبان کی نوک نے علینہ کے نپل کو چھوا اسکے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا، اسکا جسم درمیان سے دہرا ہوا کمر ہوا میں اوپر اٹھ گئی اور ممے بھی اسی حساب سے اوپر آگئے اور سر پیچھے کی طرف جھک گیا۔ علینہ کی اوپر اٹھی کمر کے نیچے دانش نے ہاتھ دیا اور اسکے اوپر لیٹ کر علینہ کے نپل کو زبان سے چھیڑنے لگا۔ جیسے ہی نپل سے زبان لگتی علینہ کی ایک سسکی نکلتی اور وہ اپنی ہر سسکی پر میجر افتخار کی طرف دیکھتی مبادا وہ اٹھ جائے۔ مگر ہر بار اسکو میجر افتخار زور دار خراٹے مارتا ہوا نظر آتا۔ 

Quote

میجر افتخار کی نیند پوری رجمنٹ میں مشہور تھی سب جانتے تھے کہ میجر افتخار ایک بار سوجائے تو اپنی نیند پوری کیے بنا اسکی آنکھ نہیں کھلتی اور یہ بات کیپٹن دانش اور علینہ اچھی طرح سے جانتے تھے اسی لیے وہ بے خوف ہو کر ایکدوسرے کے جسم سے اپنی گرمی مٹانے میں مصروف تھے۔ 5 منٹ تک علینہ کے مموں کو چسنے کے بعد کیپٹن دانش علینہ کے بل کھاتے پیٹ پر اپنی زبان پھیرتا ہوا اسکی ناف تک لے آیا اور پھر اپنی زبان کی نوک علینہ کی ناف میں گھمانے لگا جس سے علینہ کو عجیب سا سرور ملنے لگا۔ علینہ اس سرور سے بالکل ناواقف تھی۔ اسکی سسکیوں میں مزید اضافہ ہوگیا تھا مگر اسکی آہ آہ آہ، آوچ آوچ چ چ ، اف ، اف ام ام کی آوازیں ٹرین خی چھک چھک میں کہیں گم ہورہی تھیں۔ ناف سے ہوتا ہوا اب دانش زیرِ ناف علینہ کے جسم کو چوس رہا تھا جس سے علینہ کی بےتابی اور بڑھنے لگی تھی

پھر دانش نے علینہ کی جینز کا بٹن کھول کر اسکی زپ کھولی تو علینہ نے فورا ہی اپنے چوتڑ ہوا میں اٹھا کر دانش کو جینز اتارنے کی دعوت دے ڈالی۔ دانش نے بھی بغیر ٹائم ضائع کیے علینہ کی جینز مکمل اتار دی۔ علینہ کی سرخ رنگ کی پینٹی چوت کے اوپر سے گہرے سرخ رنگ کی ہورہی تھی جسکا مطلب تھا کہ علینہ کی چوت سے نکلنے والا ابتدائی پانی علینہ کی پینٹی کو کافی دیر سے گیلا کر رہا تھا۔ دانش نے علینہ کی گیلی پینٹ دیکھتے ہی اپنی زبان اسکی پینٹی پر رکھ دی اور اس جگہ پر اپنی زبان پھیرنا شروع کی، سرخ رنگ کی پینٹی اسکے گورے جسم پر قیامت ڈھا رہی تھی اسکی پتلی پتلی ٹانگیں بالوں سے پاک تھائیز تھائیز پر نرم مگر گرم گرم گوشت دانش کی پیاس کو مزید بڑھا رہے تھے۔ دانش نے جیسے ہی اپنی زبان علینہ کی پینٹی پر رکھی اس نے ایک بار اپنی ٹانگوں کو کھولا اور پھر دانش کے سر کو بیچ میں لیکر دبا لیں۔ کچھ دیر دانش علینہ کی چوت کو پینٹی کو اوپر سے ہی چوستا رہا اور پھر اس نے پیچھے ہٹ کر علینہ کی پینٹی بھی اتار دی۔ 

پینٹی اترتے ہی علینہ نے اپنی چوت کو دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا، اسکی آنکھوں میں شرارت تھی، دانش نے اسکی طرف دیکھا اور بولا اپنی اس پیاری سی چوت چومنے نہیں دو گی؟؟؟ تو علینہ نے کہا یہ چوت اتنی عام نہیں کہ ہر کسی کو دکھائی جائے۔۔۔۔ اس پر دانش بولا میں ہر کسی نہیں میں تو تمہارا سب سے اچھا دوست ہوں اور اچھے دوست کو چوت دکھانے میں کوئی ہرج نہیں۔ یہ سن کر علینہ نے ایک ادا سے اپنے ہاتھ چوت سے ہٹائے اور چوت دانش کے سامنے کر دی جیسے اس پر کوئی احسان کر رہی ہو۔ دانش نے علینہ کی چوت کے لب دیکھے جو آپس میں ملے ہوئے تھے اور بالوں سے پاک تھے، اسکی چوت کا دانہ بھی نظر نہیں آرہا تھا ، دانش نیچے جھکا اور اپنی زبان علینہ کی ان چھوئی چوت کی لبوں کے درمیان رکھ دی جس سے علینہ کے جسم میں ایک کرنٹ دوڑ گیا اور اس نے اپنی دونوں ٹانگیں دانش کی گردن کے گرد لپیٹ دیں ۔ دانش نے بھی جی بھر کر علینہ کی کنواری چوت کو کھایا اور خوب چوسا، کچھ ہی دیر کے بعد انعام کے طور پر علینہ کی چوت نے دانش کی خدمت سے خوش ہوکر گرما گرم شربت نکال دیا جسکو دانش بغیر رکے پیتا چلا گیا۔ 

اب دانش پیچھے ہٹا اور دوسری سائیڈ والی برتھ پر لیٹ کر علینہ کو اپنے پاس آنے کو کہا، علینہ برتھ سے اٹھی اور دانش کی طرف آنے لگی دانش نے اسکے گول گول سڈول ممے دیکھے جو چلنے سے ہل رہے تھے مگر بغیر برا کے بھی اسکے ممے نیچے نہیں ڈھلکے تھے بلکہ اوپر کو اٹھے ہوئے آپس میں جڑے ہوئے اب بھی کافی خوبصورت کلیویج بنا رہے تھے۔ علینہ دانش کے اوپر جھکی اور اسکے نپل پر اپنی زبان پھیرنے لگی جب کہ دانش اپنا ہاتھ علینہ کے پیچھے لے گیا اور اسکےنرم نرم گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں کو دبانے لگا۔ دانش نے علینہ کا ایک ہاتھ پکڑا اور اپنے لن کے اوپر رکھ دیا۔ علینہ کو جب اپنا ہاتھ لوہے کے سخت راڈ پر پڑتا محسوس ہوا تو اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سےدانش کی پیںٹ کی طرف دیکھا جہاں سے دانش کے لن کی بناوٹ کافی واضح نظر آرہی تھی۔ اتنا بڑا لن دیکھ کر علینہ کی آنکھوں میں خوف کے آثار نظر آنے لگے وہ سمجھ گئی تھی کہ آج اسکی کنواری چوت کی خیر نہیں۔ 

دانش نے علینہ کو کہا ایسے کیا دیکھ رہی ہو چلو پینٹ اتارو اور قلفی چوسو۔ علینہ دانش کی بات سن کر مسکرائی اور پینٹ اتارتے ہوئے بولی ٹھنڈی ٹھنڈی قلفی تو بہت بار چوسی ہے آج دیکھتے ہیں یہ آگے سے بھری ہوئی قلفی کیسی ہوتی ہے جیسے ہی علینہ نے دانش کی پینٹ اتاری دانش کا 8 فٹ کا لن کسی سپرنگ کی طرح کھڑا ہوکر باہر نکل آیا۔ دانش نے نیچے سے انڈر وئیر نہیں پہنا تھا۔ ابھی دانش کی پینٹ گھٹنوں تک ہی اتری تھی کہ علینہ دانش کے لن کا سائز دیکھ کر اسی کو دیکھتی رہ گئی۔ دانش نے پوچھا ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟؟ تو علینہ نے کہا یہ تو بہت بڑا ہے۔ مجھے بہت تکلیف ہوگی۔ دانش نے علینہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا فکر نہیں کرو سب کے لن اتنے ہی ہوتے ہیں اور ہر لڑکی کی چوت میں جاتا ہے لن صرف پہلی بار تکلیف ہوتی ہے پھر بہت مزہ ملتا ہے۔ مگر علینہ نے کہا نہیں میری آپا نے بتایا ہے کہ انکے شوہر کا لن بس 5 انچ ہی لمبا ہے اور موٹائی میں ایک انچ ہے جبہکہ تمہارا لن 7 سے 8 انچ لمبا ہے اور 2 انچ موٹا ہے ۔۔۔

دانش نے کہا میری جان تم فکر نہیں کرو کچھ نہیں ہوگا بہت مزہ آئے گا تمہیں۔ یہ کہ کر دانش نے علینہ کو کہا چلو اب اپنی قلفی کو چوسو، علینہ دانش کے لن پر جھکی اور اسکی ٹوپی پر اپنی زبان کی نوک پھیرنے لگی۔ علینہ کی زبان کو دانش کے لن کی ٹوپی سے نمکین پانی نکلتا محسوس ہوا ، علینہ زبان منہ میں واپس ڈال کر اسکے ذائقے کو محسوس کرنے لگی تو دانش نے پوچھا کیسی ہے میری مزی؟؟؟ علینہ بولی کافی عجیب ذائقہ ہے مگر اچھا ہے ۔ یہ کہ کر وہ ایک بار پھر دانش کے اوپر جھکی اور اسکی ٹوپی پر اپنی زبان پھیرنے لگی ۔ پھر وہ اپنی زبان دانش کے لن پر پھیرتی ہوئی اسکی جڑ تک لے گئی اور وہاں سے پھر زبان اوپر کی طرف پھیرنی شروع کی۔ کچھ دیر ایسے کرنے کے بعد اب علینہ نے اپنے نرم اور گرم ہونٹ دانش کے لن پر رکھے اور اسکو چومنے لگی ، پہلے لن کی ٹوپی چوما پھرپورے لن پر اپنے ہونٹ پھیرنے لگی۔ دانش کو یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اب علینہ نے اپنا منہ کھولا اور دانش کی ٹاپی منہ میں لیکر اس پر اپنی زبان پھیرنے لگی پھر علینہ نے دانش کا لن مزید اندر کیا اور دانش کے لن کے چوپے لگانے لگی۔ علینہ کا چوپے لگانے کا یہ پہلا تجربہ تھا مگر وہ پورن فلموں میں کافی مرتبہ چوپے لگانا دیکھ چکی تھی اس لیے وہ اسی طرح چوپے لگا رہی تھی جیسے اس نے فلموں میں دیکھا تھا۔ کچھ دیر جب وہ دانش کے چوپے لگا چکی تو دانش اپنی جگہ سے اٹھ کر بیٹھ گیا اور علینہ کو برتھ پر لیٹنے کو کہا۔ علینہ برتھ پر لیٹی اور اپنی ٹانگیں کھول دیں۔

Quote

وہ چدائی کے لیے تیار تھی مگر دانش نے علینہ کی ٹانگیں واپس ملا دیں اور اسکے پیٹ کے اوپر اپنی ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا۔ علینہ نے پوچھا یہ کیا؟ تو دانش بولا تمہاری چوت سے پہلے تمہارے ان نرم نرم مموں کی چدائی کرنا چاہتا ہوں۔ علینہ نے مموں کی چدائی بھی فلموں میں دیکھ رکھی تھی اور اسکے ممے تھے بھی چودنے لائق۔ علینہ نے دانش کا لن پکڑا اور اسکو اپنے دونوں مموں کے درمیان پھنسا کر اپنے مموں کو دونوں ہاتھ سے پکڑ کر اور قریب کر لیا جس سے دانش کا لن علینہ کے نرم نرم مموں کے اندر پھنس گیا۔ اب دانش نے گھسے لگانے شروع کی تو اسکا لن علینہ کے مموں میں پھنسنے لگا۔ علینہ نے مموں سے لن نکالا اور ایک منہ میں لیکر اس پر اچھی طرح تھوک مل دیا پھر دوبارہ سے اس نے اپنے مموں کے بیچ دانش کا لن رکھا اور مموں کو آپس میں جکڑ کر پکڑ لیا۔ اب کی بار دانش نے گھصے لگائے تو لن گیلا ہونے کی وجہ سے بڑی روانی سے علینہ کے مموں میں گھسے لگانے لگا۔ 

Quote

دانش کو علینہ کے نرم نرم مموں کا احساس بہت اچھا لگ رہا تھا اور اسکا دل کر رہا تھا کہ انہی مموں کو چودتا چودتا وہ اپنی منی خارج کر دے۔ علینہ بھی بہت مزے کے ساتھ اپنے ممے چدوا رہی تھی وہ بڑے اشتیاق سے لن کو اپنے مموں سے نکلتا ہوا دیکھتی اور پھر فورا ہی لن واپس علینہ کے مموں کی کلیویج سے نیچے جاتا ہوا اسکے مموں میں گم ہوجاتا۔ کچھ دیر ایسے ہی علینہ کے مموں کو چودنے کے بعد دانش نے علینہ کو برتھ پر بٹھایا اور خود کھڑا ہوگیا اور ایک بار پھر علینہ کے مموں کی چدائی شروع کر دی۔ علینہ بھی نظریں جھکائے مموں سے لن کا نکلنا اور پھر سے واپس غائب ہوجانا بہت شوق سے دیکھ رہی تھی۔ سب سے پہلے مموں سے ٹوپی نکلتی ہوئی نظر آتی اور پھر آدھا لن باہر نکل آتا جو علینہ کی گردن کے قریب آکر واپس چلا جاتا۔ 

دانش 3 منٹ تک ایسے ہی علینہ کے مموں کو چودتا رہا اب اسکے مموں کے درمیان والی جگہ سرخ ہوچکی تھی۔ اب دانش نے علینہ کے مموں کو چھوڑا اور اسکو دوبارہ لیٹنے کو کہا۔ علینہ دوبارہ لیٹ گئی تو دانش نے اپنی لن کی ٹوپی علینہ کی چوت پر رکھ اور اسکو زور زور سے چوت پر مارنے لگا۔ جس سے علینہ کی بے تابی اور لن کی طلب اور بڑھنے لگی۔ اسکے ساتھ ساتھ علینہ کی چوت نے تھوڑا تھوڑا پانی بھی چھوڑنا شروع کر دیا جو اب کیپٹن دانش کی ٹوپی سے لگ چکا تھا۔ 

جب دانش نے دیکھا کہ اب علینہ چدائی کے لیے بالکل تیار ہے تو اس نے علینہ کو اشارہ کیا کہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے ۔ علینہ سمجھ گئی کہ اسکی کنواری چوت کے پھٹنے کا ٹائم آگیا ہے۔ اسنے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے منہ پر رکھ کر زور سے دبا دیا اور انتظار کرنے لگی کہ کب اسکی چوت سے خون کی دھار نکلتی ہے اور اسکی کنواری چوت کلی سے پھول بنتی ہے۔ دانش نے اپنا ایک گھٹنا برتھ پر رکھا اور علینہ کی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھی اور لن کو چوت کے اوپر رکھ کر اپنے ہاتھ سے علینہ کی چوت کے لب کھول کر انکے درمیان لن کی ٹوپی پھنسائی۔ پھر ایک دھکا جو مارا دانش نے علینہ کا پورا جسم ہل کر رہ گیا اور اسکے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی، اگر اس نے اپنے منہ کو ہاتھوں سے دبا کر نہ رکھا ہوتا تو اسکی یہ چیخ یقینا اوپر سوئے ہوئے میجر افتخار کو نیند سے اٹھا دیتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا ۔ البتہ علینہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور وہ درد بھری نظروں سے دانش کو دیکھ رہی تھی۔ 

دانش جانتا تھا کہ اگر اس موقع پر علینہ پر رحم کیا تو اسکو آگے آنے والا مزہ نہیں دے سکے گا اس لیے اس نے علینہ کے آنسوں کی پرواہ کیے بغیر ایک اور دھکا مارا تو علینہ کو لگا جسیے لوہے کا گرم راڈ اسکے جسم میں داخل ہوکر اسکو چیرتا ہوا آگے نکل گیا ہو۔ کیپٹن دانش کے لن کا قریب 6 انچ حصہ علینہ کی چوت میں غائب ہوچکا تھا۔ اور علینہ کی ایک دلخراش چیخ نے پورے کمپارٹمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ تو شکر کے پورا کمپارٹنمنٹ خالی تھا وگرنہ دوسرے لوگوں تک علینہ کی یہ دلخراش چیخ ضرور جاتی ۔ البتہ اس چیخ سے اوپر لیٹے میجر افتخار کی نیند میں اتنا خلل ضرور پڑا کہ انہوں نے ایک بار اپنے کان میں انگلی پھیری اور کروٹ لیکر دوسری طرف منہ کر کے پھر سے خراٹے لینے لگے۔ 

نیچے دانش علینہ کے اوپر جھک کر اسکے ہونٹوں کو چوس رہا تھا تاکہ اسکا درد کچھ کم کیا جا سکے۔ مگر وہ اپنے لن کو بالکل بھی حرکت نہیں دے رہا تھا۔ علینہ کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو دانش نے اپنے ہونٹوں سے پی لیے تھے ۔ کافی دیر دانش علینہ کے ہونٹ چوستا رہااور جب علینہ کے چہرے پر تکلیف کے آثار کچھ کم ہوئے تو نیچے سے کیپٹن دانش نے اپنے لن کو آہستہ آہستہ حرکت دینا شروع کی وہ کوئی ایک انچ کے قریب لن باہر نکالتا اور پھر آہستا سے اتنا ہی لن واپس اندر ڈال دیتا۔ 5 منٹ تک اسی طرح چدائی کرنے کے بعد اب علینہ کی تھوڑی تھوڑی سسکیاں شروع ہوگئیں تھیں جسکا مطلب تھا کہ اب اسکو لن کی حرکت سے مزہ آنے لگا ہے۔ اب دانش نے اپنے کولہوں کو تھوڑا تیز تیز ہلانا شروع کیا تو علینہ کی سسکیوں میں بھی اضافہ ہونے لگا، گو کہ اسکو ابھی تک تکلیف ہو رہی تھی مگر اس تکلیف کے ساتھ ساتھ ملنے والا مزہ بھی کچھ کم نہ تھا۔ 

اب کیپٹن دانش سیدھا بیٹھ کے علینہ کی دونوں ٹانگوں کو پھیلا کر اسکی ٹائٹ پھدی میں سپیڈ کے ساتھ دھکے لگا رہا تھا جس سے کبھی علینہ کے منہ سے چیخ نکلتی تو کبھی وہ آہ آہ، آوچ، ام ام ام ام کی آوازیں نکلانے لگتی۔ دانش کا 8 انچ کا لن اپنی جڑ تک علینہ کی چوت میں جا رہا تھا ۔ تھوڑی دیر اسی طرح دھکے لگانے کے بعد اب دانش نے علینہ کو کھڑا ہونے کو کہا، علینہ کھڑی ہوگئی تو دانش نے اسے بولا کہ اوپر والی برتھ کر پکڑ کر کھڑی ہوجائے اور گانڈ میری طرف کر لے، علینہ نے ایسے ہی کیا، جس برتھ پر میجر افتخار سو رہا تھا علینہ نے اس برتھ پر اپنے ہاتھ جما لیے اور اپنی پیٹھ دانش کی طرف کر کے گانڈ باہر نکال کر کھڑی ہوگئی دانش نے علینہ کو ٹانگیں کھولنے کو کہا تو علینہ نے اپنی ٹانگیں مزید کھولیں، دانش نے اپنا ایک بازو علینہ کے پیٹ کے گرد حائل کیا اور دوسرے ہاتھ سے لن کو پکڑ کر علینہ کی چوت پر رکھ دیا اور آہستہ آہستہ دباو بڑھانے لگا۔

Quote

چوت گیلی ہونے کی وجہ سے لن آہستہ آہستہ چوت کے اندر پھسلتا ہوا اتر گیا۔ جب مکمل لن علینہ کی چوت میں چلا گیا تو دانش نے ایک بار پھر پیچھے سے دھکے لگانے شروع کیے جس سے علینہ کے ممے ہوا میں رقص کرنے لگے۔ دانش نے جیلی کی طرح ہلتے ہئے مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا اور انہیں دبانے لگا اور اس دوران اس نے اپنے دھکوں کی رفتار میں مزید اضافہ کر دیا۔ علینہ کی چوت ایک بار پہلے پانی چھوڑ چکی تھی اور ایک بار پھر اسکو اپنی چوت میں پانی جمع ہوتا محسوس ہورہا تھا، جب دانش نے اپنے دھکوں کو پانچواں گئیر لگایا تو چند منٹ میں ہی علینہ کی چوت نے دانش کے لن پر اپنی گرفت مظبوط کر لی اور اسکے لن کو زور سے دبایا اور ساتھ ہی چوت کی دیواروں سے پانی بہنے لگا۔ ٹائٹ چوت میں پھنسے ہوئے لن پر جب گرما گرم پانی گرا تو اس نے بھی جواب دینا مناسب سمجھا اور اپنی ٹوپی سے گرما گرم دھاریں مارنا شروع کر دیں۔

اچانک دروازے پر دستک ہوئی تو علینہ کو ہو آیا، دانش کے ساتھ ہونے والی یہ پہلی چودائی یاد کر کے علینہ کا ہاتھ اسکو شلوار میں جا چکا تھا اور وہ اپنی چوت سہلا رہی تھی، مگر دروازے پر دستک نے اسکو خیالوں کی دنیا سے باہر نکالا تو اسے ہوش آیا کہ وہ اس وقت دانش کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے کمرے میں اکیلی دانش کے لن کو یاد کر کر کے اپنی چوت کو تنگ کر رہی تھی۔

Quote






hindi chikeko kathakajal agarwal fuckedshakila sex picturessexi hindi kahaniyansexy stories hindi language readingsexy aunties telugu storieschithi sex storyxnxx gay sex storiesdesipapa stories incect page 981gujarati sex story pdfgaand main lundtelugu hot hot sex storiesexbii tamil storybangladesi xxx.comkamasutra kathaluindian flue filmindian mms video scandalhot sexi pixaunty in bathroomindian school mms scandalssexy story in hindi pdfanjali of tarak mehtahindi sex stories on exbiibangali boobstelugu sex stories on teluguleah jaye picssex கதை பல ஆண்கள் ஒரு பெண்னை 18 வயது பயங்கரமான blackmail கதைmalayalam sex story blogsStory.bhabhi ki chodhaeichudai gand kidesi hindi xxxbava moddagaand main lundwww.akkasexkathaigal.inJhatka Laga diya tumne detector partybada bandabluefilm xxxinsest cartoonsmuh se kadva pani aanashakila boobhuge titednangi betibbw teen selfiesgirl stripps nakedpapa ka lund dekhafleshy auntiesurdo sexy storeyshakeela sex nudearotic picsavita aunty comicmandira bedi fakescallgaralbangla adult forumbhabhi in chaddimallu xxx pornchoti salishriya armpitstelugu panimanishi sex storieshot kama kathaluhairy armpit galleryindian aunties picsmrathi sexy storynew malayalam sex kathakalurdu font sexy khanianhindi sex kahani 2013big boobs threadaunty blouse photosnadiya moidu actresstelugu incest stories in pdftelugu hot kathalu in telugureena kixxx video auntytamil sex storyes.comsexy desi girls picaunty desi storiestamil sexeyporn videos mmsindian incest hot storiesforceful gangbangkantutan tagalog storyshakila actress photostelugu teachers sex storiestelugu hot boothu kathalutollywood nudesbadi gaandsmoking desi girlamazingindianspussylick vidsbangladesh free xxxgand chut lundhot desi aunties in brajokes dirty in hindiurdu sexy storeysuhagrat sex storieshindi wife swapping stories