Click Here to Verify Your Membership
First Post Last Post
All In One وطن کا سپاہی

4 pages ok

Quote

4 page ok

Quote

امجد کے پرانے ٹھکانے پر جیسے ہی کرنل وشال کی ٹیم پہنچی انہوں نے سب سے پہلے اس گھر کو گھیرے میں لے لیا اور کمانڈو ایکشن کرتے ہوئے پہلے اندر بے ہوش کرنے والی گیس کے راونڈ فائر کیے اور پھر دیواریں پھلانگتے ہوئے اندر چلے گئے، باری باری دونوں کمروں کی اور پھر کچن کی تلاشی لینے پر بھی جب انہیں کوئی شخص نہ ملا تو انہوں نے کرنل وشال کو اطلاع دی کہ وہ یہاں سے نکل چکے ہیں ۔ کرنل وشال جو باہر موجود گاڑیوں میں ہی ایک گاڑی میں بذاتِ خود موجود تھا وہ اب خود گھر کے اندر داخل ہوا اور خود اپنی تسلی کے لیے ایک مرتبہ دوبارہ سے گھر کی تلاشی لی مگر وہاں کوئی ہوتا تو ملتا۔ پھر کرنل وشال نے وہاں موجود چند رائفلز کو اپنے قبضے میں لیا اور اپنے جوانوں کو کہا ان رائفلز کے ساتھ جدید اسلحہ بھی شامل کر دو اور میڈیا کو بلوا کر ویڈیو بنواو کے یہ جدید اسلحہ دہشت گردوں کے ٹھکانے سے ملا ہے۔ 

اسکے بعد کرنل وشال باہر آگیا اور سیٹلائیٹ فون کے ذریعے فوری رابطے کے لیے اپنی آئی ٹی ٹیم کو فون کیا جو پہلی ہی بیل پر ریسیو ہوگیا، کرنل وشال نے اپنی آئی ٹی ٹیم کو وہی موبائل نمبر ٹریس آّوٹ کرنے کو کہا جو کچھ دیر پہلے تانیہ کے پاس تھا، کرنل کی ٹیم نے محض چند منٹوں میں نمبر ٹریس کر لیا اور کرنل کو بتایا کہ آپکی لوکیشن سے محض 5 کلومیٹر آگے وہ فون ایک کچے گھر کے قریب موجود ہے۔ اور نمبر بھی آن ہے۔ کرنل نے اپنے سپیشل ٹیبلیٹ پر جی پی ایس کے ذریعے اس موبائل نمبر کی ایگزیکٹ لوکیشن منگوائی اور اپنی ٹیم کو لیکر آگے چل پڑا۔ کچھ ہی دور جا کر کرنل نے جب اپنے ٹیبلیٹ کی سکرین پر دیکھا تو اب اس میں ایک سرخ رنگ کی لائٹ بلنک کر رہی تھی جسکا مطلب تھا کہ کرنل اب میجر دانش سے 2 کلومیٹر ہی دور ہے۔ اور ٹیبلیٹ پر یہ فاصلہ مسلسل کم ہورہا تھا۔ بالاآخر سبز رنگ کی لائٹ جو کرنل کی اپنی لوکیشن بتا رہی تھی اور سرخ رنگ کی لائٹ جو میجر دانش کی لوکیشن ہونی چاہیے تھی اب ایک دوسرے کے اوپر آگئی تھیں۔ یہاں ایک چھوٹا سا گھر تھا جو مٹی کی دیواروں سے بنا تھا اور شاید اس میں ایک ہی کمرہ تھا،

کرنل وشل کے حکم پر تمام گاڑیوں نے اس گھر کے اطراف میں گھیرا ڈال لیا اور ایک بار پھر بے ہوشی والی گیس کے راونڈ فائر کیے اور کمانڈو ایکشن کے ماہر جوانوں نے ماسک چڑھا کر اس کچے مکان پر دھاوا بول دیا۔ محض 2 منٹ کے بعد کمانڈوز باہر نکلے تو انکے ہاتھ میں وہی موبائل فون تھا۔ کرنل کو جب کمانڈوز نے موبائل لا کر دیا تو اس نے غصے سے موبائل زمین پر دے مارا۔ اسکا خیال تھا کہ اب میجر دانش مل جائے گا مگر وہ یہاں بھی کرنل کو چکما دے گیا تھا۔ اب کرنل وشال نے اپنے قافلے کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے کو کہا۔ ابھی کرنل کا قافلہ کچھ ہی آگے بڑھا تھا کہ اسے ایک فون کال ریسیو ہوئی۔ یہ کال سی آئی ڈی کے اے سی پی کی تھی۔ اس نے کرنل وشال کو بتایا کہ کچھ ہی دیر پہلے ہائی وے نمبر 6 پر ایک نیلے رنگ کی ماروتی سے 2 لوگ ریلائنس گیس سٹیشن کی ٹک شاپ پر شاپنگ کرنے آئے تھے جن میں ایک سکھ تھا جبکہ دوسرا شخص بڑی مونچھوں والا سفید شلوار قمیص میں تھا۔ 

سکھ دوکاندار سے باتیں کرتا رہا جبکہ دوسرے شخص نے وہاں سے جوس کے 8 ڈبے اور چپس کے کچھ پیکٹس خریدے اور جاتے ہوئے دکاندار کا موبائل چوری کر لیا۔ دکاندار نے اس شخص کے جانے کے بعد جب اپنا موبائل اٹھانا چاہا تو وہ وہاں موجود نہیں تھا ۔ ٹک شاپ میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے دکاندار نے دیکھ لیا کہ اسکا موبائل اسی شخص نے اٹھایا جو کچھ ہی دیر پہلے اسکی دکان میں موجود تھا اور پھر پٹرول ڈلوا کر وہاں سے نیلے رنگ کی ماروتی میں نکل گئے۔ لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے گاڑی کا نمبر وہ نوٹ نہیں کر سکا اور نہ ہی کوئی کیمرہ اس جگہ موجود تھا جو گاڑی کا نمبر نوٹ کرتا۔ 

Quote

یہ اطلاع ملتے ہی کرنل وشال نے سی آئی ڈی کو حکم دیا کہ وہ جامنگر سے جونا گڑھ اور راجکوٹ جانے والے تمام راستوں پر اپنے لوگوں کو ہائی الرٹ کر دے اور جہاں بھی یہ سکھ اور بڑی مونچھوں والا شخص نظر آئے اسکو فوری گرفتار کر لیا جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ ٹک شاپ والے کے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج بھی کرنل وشال نے منگوالی اور اسکا موبائل نمبر بھی منگوایا۔ کرنل کو کچھ ہی دیر میں فوٹیج اور نمبر موصول ہوگئے۔ نمبر کرنل وشال نے آئی ٹی ٹیم کو دیا جو کہ اب بند تھا اور ٹریس نہیں ہو پا رہا تھا، البتہ اسکی آخری لوکیشن اب سے کوئی 20 منٹ قبل جامنگر بائی پاس روڈ پر تھی جہاں سے ایک سڑک راجکوٹ کی طرف جبکہ ایک سڑک جونا گڑھ کی طرف جاتی تھی۔ تیسری سڑک انڈیا کے بڑے شہر احمد آباد کی طرف جاتی تھی مگر وہ یہاں سے بہت دور تھا اسلیے اس بات کا احتمال کم تھا کہ میجر دانش اور اسکے ساتھی احمد آباد جائیں گے۔ 

یہ ہدایات دے کر کرنل وشال نے اپنے سمارٹ فون میں موصول ہوئی ویڈیو دیکھی جس میں میجر دانش بڑی بڑی مونچھوں کے ساتھ میک میں تھا اور خریداری کر رہا تھا۔ جب میجر دانش بل کی ادائیگی کے لیے امجد کے پاس آیا تو یہاں پر وہ کیمرے کے بالکل سامنے اور بہت قریب تھا، کرنل وشال نے فورا ہی پہچان لیا کہ یہ میجر دانش ہی ہے جس نے حلیہ چینج کر رکھا ہے البتہ امجد کی شکل سے وہ واقف نہیں تھا کہ یہ شخص کون ہے۔ اب کرنل نے اپنی ٹیم کو فورا واپسی کا حکم دیا اور جامنگر بائی پاس روڈ کی طرف جانے لگا۔ کرنل نے اپنی ایک ٹیم کو بائی پاس روڈ سے راجکوٹ جانے والے راستے کی طرف بھیج دیا اور خود جونا گڑھ جانے والے رستے پر چل دیا جہاں سے کچھ دیر قبل ہی میجر دانش اور امجد کے ساتھی مختلف بسوں میں بیٹھ کر جونا گڑھ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ کرنل وشال کو پورا یقین تھا کہ اب کی بار وہ میجر دانش کو پکڑ لے گا اور وہ کرنل کے ہاتھوں سے بچ نہیں پائے گا۔ 

=================================================

تانیہ اپنی سیٹ پر بالکل خاموشی کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ دانش کرنل وشال کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اب اس گھر میں میجر دانش کو نہ پاکر اور اس موبائل تک پہنچ کر جو میجر نے گاڑی سے باہر پھینکا تھا کرنل وشال کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوسکتا ہے؟؟ بس بھی دھیمی رفتار سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ میجر دانش مطمئن تھا کہ اسکے پاس ابھی کچھ ٹائم ہے جونا گڑھ جا کر ہی اب وہ کرنل وشال کے بارے میں سوچے گا۔ 

اب میجر نے اپنی توجہ خاموش بیٹھی تانیہ کی طرف کی اور اس سے پوچھا کہ وہ کب سے امجد اور اسکی ٹیم کے ساتھ کام کر رہی ہے؟؟؟ تو تانیہ نے بتایا کہ وہ امجد کی منہ بھولی بہن ہے اور بچپن سے ہی اس نے دیکھا ہے کہ انڈین آرمی نے کس طرح مسلمانوں پر ظلم کیے ۔ تانیہ نے بتایا کہ اسکا تعلق کشمیر سے ہے اور وہاں انکا پورا خاندان انڈین آرمی کے مظالم کی بھینٹ چڑھ گیا۔ تب سے امجد نے کشمیری مجاہدین کے ساتھ مل کر انڈین آرمی کے خلاف جہاد شروع کیا اور اب پچھلے 3 سال سے وہ انڈیا کے مختلف علاقوں میں انڈین آرمی کو نشانہ بناتے ہیں اور کشمیری مظلوم لوگوں کے ظلم کا بدلہ لیتے ہیں۔ 

میجر دانش نے پوچھا کہ تمہاری عمر کیا ہے تو تانیہ نے بتایا کہ وہ 20 سال کی ہے اور پچھلے 10 سال سے امجد کے ساتھ ہے۔ پہلے وہ بچی تھی تو امجد کے لیے جاسوسی کا کام کرتی تھی انڈین فوجی بچی سمجھ کر تھانے میں بھی آنے دیتے تھے اور اپنی چوکیوں تک بھی رسائی دیتے تھے تانیہ کو، تانیہ انکے لیے چائے بنا کر لیکر جاتی اور ایک چائے کا کپ 5 روبے میں بیچتی۔ لیکن اسکا اصل مقصد امجد کے لیے جاسوسی کرنا ہوتا تھا۔ 

دانش نے تانیہ کے سینے پر نظر ڈال کر دل ہی دل میں سوچا کہ 20 سال کی عمر میں ہی تانیہ کے ممے کافی زبردست ہیں، لگتا ہے جیسے کسی 28 سال کی پکی عمر والی عورت کے ممے ہوں۔ پھر میجر دانش نے تانیہ سے پوچھا کہ وہ پڑھی لکھی ہے تو تانیہ نے بتایا کہ کشمیر میں وہ پانچویں کلاس تک پڑھ سکی تھی اسکے بعد سکول چھوڑ دیا مگر امجد کے ساتھیوں میں کچھ پاکستان سے آئے ہوئے پڑھے لکھے لوگ تھے جو امجد اور اسکے ساتھیوں کو پڑھاتے تھے۔ انکی پڑھائی کا مقصد سکول کالج کی ڈگری نہیں بلکہ امجد کے ساتھیوں کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ کسی بھی ہائی لیول پروفائل سے ملیں تو اسے یہ محسوس نہ ہو کہ وہ کسی اجنبی سے بات کر رہا ہے۔ اور پھر تانیہ نے 3 سال پہلے انڈیا کے ایک کالج میں ایڈمیشن لے لیا تھا جہاں وہ اپنی تعلیم مکمل کر رہی تھی۔ یہاں بھی تانیہ کا اصل مقصد ڈگری کی بجائے اپنے آپ کو سوسائٹی کے ساتھ اپ ٹو ڈیٹ رکھنا تھا، کمپیوٹر کی تعلیم اور اس میں مہارت کے ساتھ ساتھ تانیہ کو موبائل ٹیکنالوجی کا بھی شوق تھا۔ یہ بات سن کر دانش نے کہا ویسے تمہیں موبائل ٹیکنالوجی کا شوق ہے اور اتنا نہیں پتا کے دشمن کے علاقے میں پاکستانی قیدی کو چھڑوانے آئی ہو اور ساتھ اپنا موبائل بھی لائی ہو۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے میجر دانش کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، تانیہ اسکی بات سنکر شرمندہ ہوئی اور بولی مجھے معلوم نہیں تھا کہ کرنل وشال اتنا تیز ہوگا۔ میجر دانش نے تانیہ کو کہا وہ کرنل ہے کوئی عام فوجی نہیں، میں میجر ہوکر اس چیز کو سمجھ گیا تو وہ تو مجھ سے بہت زیادہ ذہین اور شاطر انسان ہے اسکے ساتھ ساتھ راء کا سرگرم رکن بھی ہے وہ۔ اگر وہ چاہے تو اس ٹک شاپ والے کے موبائل سے بھی ہمیں ٹریس کر سکتا ہے۔ ۔۔

Quote

یہ بات کر کے دانش کچھ لمحوں کو خاموش ہوا اور پھر فورا ہی اسکے زہن میں خطرے کی گھنٹی بجی۔ جو بات ابھی اس نے تانیہ کو کہی تھی وہ پہلے اس نے خود کیوں نہیں سوچی؟؟؟ پھر میجر دانش نے اپنے زہن پر زور دیا تو اسے یاد آیا کہ ٹک شاپ پر سیکیورٹی کیمرے بھی موجود تھے جس میں یقینا میجر دانش کا چہرہ نظر آیا ہوگا۔ یہ سوچتے ہی میجر دانش نے تانیہ سے پوچھا کہ بس کا سٹاپ کہاں ہوگا تو تانیہ نے بتایا کہ بس کچھ ہی دور جا کر ایک چھوٹا سا قصبہ آئے گا وہاں بس کچھ منٹس کے لیے رکے گی۔ میجر نے تانیہ کہ کہا بس پھر اس سٹاپ پر اترنے کے لیے تیار ہوجاو۔ اور جوس کے ڈبے اور دوسرے کھانے کی اشیا تانیہ کو پکڑا دیں اسکے بعد میجر نے تانیہ کو کہا کہ وہ کنڈیکٹر سے ٹکٹ کے پیسے واپس لینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اگر آگے جا کر اس بس کی تلاشی لی جائے اور بس والے سے انویسٹیگیشن ہو تو اسکو کسی قسم کا شک نہیں ہوگا دانش اور تانیہ پر۔ کیونکہ عام لوگ ہی کرائے کے لیے لڑائی کرتے ہیں اسطرح کے خفیہ ایجینسی کے لوگ تو پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں ۔ میجر دانش اپنی سیٹ سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ تانیہ نے اسکو بازو سے پکڑ کر واپس کھینچ لیا ۔ 

میجر دانش جھٹکے سے واپس بیٹھا تو تانیہ اسکا دایاں بازو تانیہ کے سینے پر لگا اور اسے تانیہ کے نرم نرم مموں کا لمس محسوس ہوا۔ تانیہ نے بھی شاید اس بات کو محسوس کر لیا تھا مگر اس نے فورا ہی اس چیز کو اگنور کرتے ہوئے دانش کو کہا تم بیٹھو میں بات کرتی ہوں۔ میجر نے پوچھا کیوں مجھے کیا ہے؟؟ تو تانیہ نے اس سے پوچھا کیا تمہیں گجراتی بولی آتی ہے؟؟؟ میجر دانش نے نفی میں سر ہلایا تو تانیہ نے کہا اسی لیے کہ رہی ہوں مجھے بات کرنے دو تاکہ اسے لگے ہم گجرات کے ہی رہنے والے ہیں۔ اس طرح بالکل بھی شک نہیں ہوگا۔ اب پہلی بار میجر دانش نے تانیہ کو تعریفی نظروں سے دیکھا اور تانیہ آگے جا کر بس والے سے کہنے لگی کہ ہمیں اگلے ہی سٹاپ پر اتار دو میری طبیعت خراب ہے میں یہاں خالہ کے گھر رکوں گی، مگر ہمارا ٹکٹ جونا گڑھ تک کا ہے تو ہمیں باقی کا کرایہ واپس کر دو۔ 

تانیہ یہ سب باتیں گجراتی میں کر رہی تھی، دانش دور بیٹھا اسکی بولی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا، کچھ باتوں کا مطلب دانش کو سمجھ میں آیا مگر کچھ باتیں اسکے سر کے اوپر سے گزر گئیں۔ تھوڑی سی تکرار کے بعد تانیہ آدھا کرایا واپس لینے میں کامیاب ہوگئی اور اتنے میں بس سٹاپ بھی آگیا۔ میجر دانش اور تانیہ بس سٹاپ پر اتر گئے۔ میجر نے سب سے پہلے بس سٹاپ پر موجود واش روم کا استعمال کیا اور اپنی مونچھیں اتار نے کے ساتھ ساتھ اپنا منہ بھی پانی سے اچھی طرح دھویا تاکہ میک اپ اتر سکے جو سرمد نے کیا تھا۔ اب دانش اپنے اصل حلیے میں تھا اور کافی وجیہ لگ رہا تھا۔ منہ دھونے کے بعد دانش واپس نکلا تو دوسری جانب جامنگر جانے والی بس کھڑی تھی۔ میجر دانش تانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اس باس کی طرف گیا اور 2 ٹکٹ جامنگر کے لیکر بس میں سوار ہوگیا۔ 

Quote

تانیہ نے پریشان نظروں سے پوچھا کہ ہم نے تو جونا گڑھ جانا ہے، میں سمجھی تم بس تبدیل کرنا چاہتے ہو مگر یہ واپسی کیوں؟؟؟ دانش نے تانیہ کہ کہا کیونہ اگر ہم نے واپسی کا سفر نا کیا تو جونا گڑھ جانے والی ہر بس کی تلاشی ہوگی اور کرنل وشال کے آدمی مجھے با آسانی پکڑ لیں گے جبکہ جامنگر جانے والی بسوں کی تلاشی نہیں ہوگی کیونکہ کرنل وشال کے مطابق ہم لوگ جامنگر چھوڑ کر باہر کسی شہر کی طرف جائیں گے اسلیے صرف جامنگر سے باہر جانے والی بسوں کی تلاشی ہوگی۔ اس پر تانیہ نے کہا مگر کرنل وشال کو ہمارے بارے میں کیسے پتہ ہوگا کہ ہم جونا گڑھ جا رہے ہیں اور کار کی بجائے بس میں ہیں؟؟ میجر دانش نے تانیہ کو گھورتے ہوئے دیکھا اور بولا کیونکہ وہ کرنل وشال ہے، تانیہ نہیں۔ یہ کہ کر میجر دانش ایک سیٹ پر بیٹھ گیا، اور تانیہ بھی اسکے آگے سے ہوتی ہوئی اسکے ساتھ والی شیسے والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ جب تانیہ میجر دانش کے آگے سے گزری تو اسکی ٹائٹ پینٹ میں سے تانیہ کے چوتڑ واضح نظر آرہے تھے ، پینٹ ٹائٹ اور چوتڑ بڑے ہوں تو وہ کسی بھی مرد کو دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ میجر دانش کے لیے بھی یہ ایک لمحے کا نظارہ دیوانہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ اس سے پہلے کہ میجر دانش تانیہ کے چوتڑوں کو بغور دیکھتا تانیہ اپنی سیٹ پر بیٹھ چکی تھی اور دانش دل ہی دل میں تانیہ کی خوبصورتی کا قائل ہوگیا تھا۔ 

جامنگر واپس جاتے ہوئے تانیہ اور امجد نے دیکھا کہ انکی بس کے پاس سے گاڑیوں کا ایک قافلہ تیزی سے گزرا ہے جو جونا گڑھ کی طرف جا رہا تھا۔ یہ وہی قافلہ تھا جس نے امجد کے پرانے ٹھکانے پر حملہ کیا تھا۔ قافلہ گزر گیا تو دانش نے تانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا دیکھ لو، میں نے کہا تھا نہ کہ کرنل وشال کوئی معمولی شخص نہیں اسکی کھوپڑی میں شیطان کا دماغ ہے۔ اسے پتہ لگ گیا کہ ہم جونا گڑھ جا رہے ہیں۔ اب دعا کرو امجد انکے ہاتھ نہ لگے کیونکہ وہ اسی گاڑی میں جا رہا جس گاڑی کو کرنل وشال نے ٹریک کیا ہے۔ یہ سن کر تانیہ پریشان ہوگئی اور امجد اور باقی دونوں کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی۔ 

کوئی 30 منٹ کے بعد تانیہ اور دانش جامنگر کے بس سٹیند پر اتر گئے اور پیدل ہی چلتے ہوئے بس سٹینڈ سے دور ایک سائیڈ پر جانے لگے جہاں کچھ چہل پہل تھی۔ رات کے 1 بجنے والے تھے مگر جامنگر میں ابھی بھی چہل پہل تھی اور کاروبارِ زندگی کسی نہ کسی حد تک چل رہا تھا۔ چلتے چلتے اچانک میجر دانش نے تانیہ سے پوچھا کہ اب ہم کہاں جائیں گے؟؟؟ تو تانیہ بھی سوچ میں پڑ گئی کہ جامنگر میں اس ٹھکانے کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور ہو سکتا ہے وہاں ابھی بھی جاسوس موجود ہوں۔ دانش نے بھی کہا کہ ہاں وہاں تو ہم نہیں جا سکتے کوئی اور جگہ ڈھونڈنی ہوگی۔ اب تانیہ اور دانش دونوں ہی سوچ میں گم تھے۔ میجر دانش نے پہلے کسی ہوٹل میں قیام کا سوچا مگر پھر یہ سوچ کر اپنا ارادہ ترک کر دیا کہ مبادہ کرنل وشال نے تمام ہوٹلز میں دانش کی تصویر دے رکھی ہو اور وہ جیسے ہی ہوٹل میں جائے ہوٹل انتظامیہ کرنل وشال کو اسکی اطلاع دے دیں۔ 

ابھی دانش یہی سوچ رہا تھا کہ تانیہ بولی یہاں سے تھوڑی ہی دور ایک ڈانس کلب ہے جو ساری رات کھلا رہتا ہے۔ وہاں چلتے ہیں۔ میجر دانش نے تانیہ کی طرف غور سے دیکھا اور بولا تمہیں معلوم بھی ہے کہ ڈانس کلب کا ماحول کیسا ہوتا ہے؟؟؟ اس پر تانیہ نے کہا کہ میں جاسوسی کا کام بھی کرتی ہوں، اور ایسے ڈانس کلب میں اکثر اوقات انڈین آرمی کے کتے بھی آتے ہیں عورتوں کے جسم کا مزہ اٹھانے تو میں مختف ڈانس کلب میں نہ صرف جاسوسی کر چکی ہوں بلکہ یہاں کے ایک ڈانس کلب میں بطور ڈانسر بھی پرفارم کر چکی ہوں۔۔۔۔ میجر دانش نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے تانیہ کی طرف دیکھا اور بولا تم اور ڈانسر؟؟؟؟ تو تانیہ نے کہاں ہاں اس میں ایسی کونسی بات ہے؟ جاسوسی کرنے کے لیے یہ سب کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ پھر تانیہ بولی بلکہ ایسا کرتے ہیں اسی ڈانس کلب میں چلتے ہیں جہاں میں ڈانسر ہوں، وہاں کا مینیجر مجھے جانتا بھی ہے، وہ ہمیں بغیر شک کیے رات گزارنے کے لیے کمرہ بھی دے دیگا اور ہماری رات بھی سکون سے گزر جائے گی۔۔۔۔ 

میجر دانش نے تانیہ کی طرف شرارتی نظروں سے دیکھا اور بولا تو تمہارا کہنے کا مطلب ہے کہ تم اور میں ایک ہی کمرے میں سوئیں گے؟؟؟ تانیہ نے میجر کی بات سمجھتے ہوئے کہا ہاں جی۔۔۔ اور صرف سوئیں گے اور کسی چیز کی امید نہ رکھنا۔ البتہ مینیجر کے سامنے تم نے یہی شو کرنا ہے کہ تم میرے بوائے فرینڈ ہو اور ہم "اسی" مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں۔ میجر دانش نے انجان بنتے ہوئے کہا کونسے مقصد کے لیے؟؟ تانیہ نے غصے سے میجر کی طرف دیکھا اور بولی ویسے تو تمہیں ہر بات سمجھ آجاتی ہے کرنل وشال کیا کرے گا کدھر جائے گا یہ بھی سمجھ آجاتی ہے، میری بات کی سمجھ کیوں نہیں آئی تمہیں؟؟؟ تانیہ کی یہ بات سن کر میجر کھلکھلا کر ہنس پڑا اور بولا اچھا بابا ٹھیک ہے غصہ کیوں کرتی ہو۔ چلو چلیں۔ مگر میری شرط ہے کہ آج رات میں تمہارا ڈانس دیکھوں گا۔ تانیہ بولی ہاں ٹھیک ہے ویسے بھی ہمارے پاس پیسے کم ہیں تو مینیجر سے کچھ پیسے آیڈوانس مانگوں گی تو وہ دے دیگا مگر اسی شرط پر دے گا کہ میں آج رات وہاں ڈانس کروں۔ ۔۔۔

کچھ ہی دیر میں تانیہ اور میجر دانش ایک لوکل ٹھابے کے سامنے موجود تھے جہاں پان سگریٹ اور بوتلیں وغیرہ دستیاب تھیں۔ تانیہ ٹھابے والے کے پاس گئی اور اس سے پوچھا کہ سکسینا آیا ہے آج؟ ٹھابے والے نے تانیہ کے بڑے بڑے مموں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہاں آیا ہوا ہے۔ اور آج بڑے بڑے لوگ آئے ہیں اگر پیسے چاہیے تو آج ایک گرما گرم ڈانس کر دے۔ یہ سن کر تانیہ دانش کا ہاتھ پکڑے ٹھابے کی بیک سائیڈ پر گئی جہاں بہت سی گاڑیاں کھڑی تھیں اور سامنے ہی ایک گیٹ موجود تھا۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ تانیہ نے گیٹ کھولا اور سیدھی اندر چلی گئی، میجر دانش بھی اسکے پیچھے پیچھے چلا گیا۔ اب انہیں ہلکے ہلکے میوزک کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ جیسے جیسے میجر تانیہ کے پیچھے پیچھے اندر جا رہا تھا میوزک کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔ پھر تانیہ نے ایک کمرہ کھولا اور میجر کو اندر لے گئی۔ اندر مختلف ٹیبلز لگے ہوئے تھے جہاں مرد و خواتین کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ مردوں کی تعداد زیادہ تھی خواتین 5 سے 6 ہی تھیں۔ مگر وہ شکل سے ہی آوارہ قسم کی خواتین لگ رہی تھیں جو اپنے کسی عاشق کے پاس رات بتانے آئی ہو۔ 

Quote

تانیہ نے میجر دانش کو ایک کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور بولی میں مینیجر سے ملنے جا رہی ہوں تم یہیں رہنا اور کسی سے زیادہ بات چیت کرنے کی ضرورت نہیں بس چپ کر کے سامنے موجود لڑکیوں کا ڈانس دیکھتے رہو۔ میجر نے اوکے کہا اور تانیہ اسی دروازے سے واپس چلی گئی جس دروازے سے آئی تھی۔ اب میجر سامنے موجود سٹیج کی طرف دیکھنے لگا جہاں دو ڈانسرشیلا کی جوانی پر بہت ہی سیکسی ڈانس کر رہی تھیں۔ ہاف ڈیپ نیک بلاوز پہنے یہ ڈانسرز کبھی اپنا لک ہلاتیں تو کبھی اپنے ممے ہلا ہلا کر سامنے بیٹھے لوگوں کو دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔ دانش اپنی جگہ سے اٹھا اور تھوڑا آگے جا کر بیٹھ گیا جہاں سے وہ ان ڈانسرز کے جسم کا صحیح طرح معائنہ کر سکے۔ دونوں ڈانسر کی رنگت گوری تھی اور ممے کم سے کم بھی 38 کے تھے۔ جب وہ آگے جھک کر اپنے ممے ہلاتی تو ہال میں موجود تمام مرد سیٹیاں بجاتے۔ 

میجر کے ساتھ اسی ٹیبل پر ایک اور مرد بھی بیٹھا تھا جس نے کافی پی رکھی تھی اور وہ بار بار ایک ڈانسر کی طرف فلائینگ کس اچھال رہا تھا۔ اب گانا چینج ہوگیا تھا اور سلمان خان کی فلم کا مشہور گانا منی بدنام ہوئی چل رہا تھا۔ اس پر بھی دونوں ڈانسرز کا جسم تھرکنے لگا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک ڈانسر جس نے سرخ رنگ کا بلاوز پہن رکھا تھا، بلکہ یہ بلاوز کم اور برا زیادہ تھا جس میں اسکے 38 سائز کے مموں کا زیادہ تر حصہ نظر آرہا تھا اپنا لک ہلاتی ہوئی سٹیج سے نیچے اتر آئی اورمیجر دانش کے ٹیبل پر بیٹھے دوسرے شخص کے سامنے آکر ڈانس کرنے لگی، اس نے اپنی پیٹھ اس شخص کی طرف کی اور چوتڑ باہر نکال کر انہیں ہلانے لگی، اس شخص نے ڈانسر کے چوتڑوں پر ایک چماٹ ماری اور اپنی جیب سے اپنا بٹوہ نکال کر اسمیں سے کچھ پیسے نکالے اور ڈانسر کا لہنگا اپنی طرف کھینچ کر اس میں پیسے پھنسا دیے۔ 

اب یہی ڈانسر میجر دانش کی طرف آئی اور اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر میجر دانش کے گھٹنے پر رکھ دی، ڈانسر کا گھاگھرا سائڈ کٹ والا تھا لہذا ٹانگ اٹھاتے ہی گھاگھرا سائیڈ پر سرک گیا اور اسکی سفید بالوں سے پاک ٹانگ تھائیز تک ننگی ہوگئی، میجر دانش نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اسکی نرم نرم تھائیز پر پھیرنے لگا۔ اب ڈانسر نے اپنی ٹانگ واپس نیچے رکھی اور میجر دانش کی گود میں بیٹھ گئی، اس نے اپنے دونوں گھٹنے میجر دانش کی گودمیں رکھے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔ اب وہ اپنے جسم کو گول دائرے میں گھمانے لگی، اسکے بڑے بڑے ممے دانش کی آنکھوں کے سامنے تھے جنکو دیکھ کر دانش کی شلوار میں اسکے لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ میجر دانش نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک نوٹ نکالا اور اس ڈانسر کا برا پکڑ کر تھوڑا سا کھینچا اور وہ نوٹ اسکے برا میں پھنسا دیا، اس دوران میجر دانش نے ڈانس کے نرم نرم مموں کا لمس اپنے ہاتھوں پر محسوس کیا اور نوٹ اسکے برا میں رکھتے ہوئے اپنی ایک انگلی سے اسکے نپل کو بھی چھو لیا تھا جس پر ڈانسر نے ڈانس کرتے کرتے ایک سسکی بھری اور میجر دانش کو مسکرا کر دیکھا اور پھر اسکی گود سے اتر کو دوسرے ٹیبل کی طرف چلی گئی۔ اب میجر دانش کے ساتھ والا شخص دوسری ڈانسر کو بھی اپنی طرف بلانے لگا اور شراب کے نشے میں دھت ہو کر بولا آجا بے بی تجھے بتاوں ایک آرمی آفیسر کے ساتھ رات گزارنے کا کتنا مزہ آتا ہے۔۔۔۔ میجر کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو وہ چوکنا ہوگیا اسکے ساتھ بیٹھا شخص انڈین آرمی کا جوان تھا مگر اس وقت اسنے خو پی رکھی تھی۔ میجر دانش نے دیکھا کہ اسکی جیب سے اسکا بٹوہ باہر نکلا رہا ہے ، میجر نے ہاتھ آگے بڑھایا اور چپکے سے اسکا بٹوہ نکال کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔ 

میجر جیب کاٹنے میں ماہر تھا کیونکہ آئی ایس آئی میں ٹرینگ کے دوران اسے ان چیزوں کی بھی تربیت دی گئی تھی، تاکہ وقت پڑنے پر وہ کسی بھی جاسوس یا دہشت گرد کی جیب پر ہاتھ ڈال سکیں، مبادہ کوئی کام کی چیز ہی مل جائے۔ اسکے علاوہ بھکاری بن کر کسی جگہ پر بھیک مانگنا تاکہ جاسوسی کی جا سکے ، سبزی کی ریڑھی لگا کر محلوں میں جا کر سبزی بیچنا، پٹھان کے روپ میں چھوٹی چھوٹی چیزیں گلی محلوں میں بیچنا ان سب چیزوں کی باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے آئی آیس آئی میں۔ اور میجر دانش بھی یہ ٹریننگ حاصل کر چکا تھا لہذا اس نے بغیر اس شخص کےعلم میں لائے اسکا بٹوہ چپکے سے نکال لیا اور اپنی جیب میں رکھ لیا۔ 

اب اچانک ہی ہال میں بجنے والا گانا بند ہوگیا اور مائیک پر ایک شخص نے اناونس کیا : تمام لوگ اپنے اپنے دل دھام لیں، کیونکہ اب آپکے سامنے آرہی ہے اس ڈانس کلب کی رونق، جوان قاتل حسینہ، آپکے دلوں پر راج کرنے والی ڈانسر، مِس تانیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تانیہ کا نام سنتے ہی ہال تالیوں سے گونجنے لگا۔ میجر کو اندازہ ہوگیا تھا کہ تانیہ واقعی اس ڈانس کلب کی مشہور ڈانسر ہوگی اور یہاں سب لوگ ہی اسکے ڈانس کے دلدادہ تھے۔ 

اب سٹیج پر ایک دم اندھیرا ہوگیا اور پھر اچانک ایک سپاٹ لائٹ آن ہوئی جس میں ایک لڑکی کھڑی تھی، لڑکی نے اپنے جسم کے آگے دونوں ہاتھوں سے اپنے لہنگے کے کپڑے کا کچھ حصہ کیا ہوا تھا اور اسکا سر نیچے جھکا ہوا تھا۔ یہ کپڑا لڑکی کے چہرے، سینے اور پیٹ تک کو چھپا رہا تھا جبکہ اسکے نیچے لڑکی کی ٹانگیں تقریبا ننگی ہی تھیں۔ اس لڑکی نے بھی سائیڈ کٹ لہنگا پہن رکھا تھا، مگر یہ لہنگا سائیڈ کٹ کے ساتھ ساتھ فرنٹ اور بیک کٹ بھی تھا۔ یعنی باریک کپڑے کی محض 4 پٹیاں تھیں جو اسکے کولہوں سے ہوتی ہوئیں پاوں تک آرہی تھیں مگر اسکی ٹانگوں کا زیادہ تر حصہ نظر آرہا تھا۔ 

میجر دانش سمیت پورے ہال میں موجود مردوں کا دھیان اب تانیہ کی طرف تھا جبکہ باقی دونوں ڈانسر اب یہاں سے جا چکی تھیں۔ اب ایک عربی میوزک سٹار ہوا تو تانیہ نے اپنا لک ہلانا شروع کیا، حیرت انگیز طور پر تانیہ کا پورا جسم ساکت تھا محض اسکا لک دائیں بائیں ہل رہا تھا۔ جیسے جیسے میوزک چینج ہوتا تانیہ کے لک کی حرکت بھی اسی کے حساب سے چینج ہوتی۔ اب تانیہ نے منہ دوسری طرف کر لیا اور اپنی پیٹھ ہال کی طرف کی تو میجر دانش تو یہ نظارہ دیکھ کر بے ہوش ہی ہوگیا، تانیہ کی کمر مکمل ننگی تھی محض اسکے برا کی ڈوریاں موجود تھیں کمر پر اور نیچے اسکے لہنگے کا کمر بند تھا جو محض اسکے چوتڑوں کو چھپا رہا تھا اور نیچے وہی 4 پٹیاں جو تانیہ کی ٹانگوں کو چھپانے کے لیے ناکافی تھیں۔ میجر دانش کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ تانیہ اس درجے کی سیکسی ڈانسر ہوگی۔ 

Quote

تانیہ ابھی بھِی اپنی پتلی کمریا ہال کی جانب کیے اپنے کولہوں کو ہلا رہی تھی پھر اچانک میوزک رکا تو تانیہ کے لک کی حرکت بھی رک گئی، پھر اچانک سے ہی میوزک دوبارہ سٹارٹ ہوا تو تانیہ نے دوبارہ اپنا چہرہ ہال کی طرف کیا اور اس بار وہ کپڑا جو اس نے اپنے ہاتھوں سے جسم کے آگے کر رکھا تھا وہ نیچے گرا دیا، تانیہ نے چہرے پر عربی لڑکیوں کی طرح باریک سےکپڑے کا نقاب کر رکھا تھا جس پر سنہرے رنگ کے موتی لگے ہوئے تھے اور تانیہ کا برا اسکے مموں کے اوپر والے حصوں کو چھپانے کے لیے ناکافی تھا۔ ٹائٹ برا نے تانیہ کے مموں کو آپس میں ملا کر بہت ہی خوبصورت کلیویج لائن بنا رکھی تھی اور نیچے اسکا دودھیا بدن قیامت ڈھا رہا تھا۔ اب تانیہ نے عربی میوزک پر بیلی ڈانس شروع کر دیا تھا۔ 

میوزک کی تھاپ کے ساتھ ساتھ تانیہ کبھی اپنے کولہوں کو ہلاتی تو کبھی اپنے پیٹ کے مسلز کو حرکت دیتی اور کبھی اپنے مموں کو ہلاتی۔ تانیہ بیلی ڈانس میں ماہر تھی، کسی پروفیشنل کی طرح جب وہ اپنے ممے ہلاتی تو اسکا پورا جسم ساکت ہوتا محض اسکے ممے اوپر نیچے یا دائیں بائیں ہلتے تھے۔ میجر دانش کو بیلی ڈانس بہت پسند تھا اور وہ اکثر یو ٹیوب پر عربی یا کویتی لڑکیوں کا بیلی ڈانس دیکھتا تھا، مگر آج وہ لائیو تانیہ جیسی جوان اور گرم حسینہ کا بیلی ڈانس دیکھ رہا تھا۔ 5 منٹ تک یہ عربی میوزک چلتا رہا اور تانیہ اپنے جسم کے مختلف حصوں کو حرکت دے کر ہال میں موجود مردوں کے لوڑوں کو بغیر چھوئے کھڑا کرتی رہی۔ 

اب میوزک رکا اور انڈین ریمکس سانگ پردیسیا یہ سچ ہے پیا لگ گیا۔ اب اس گانے پر تانیہ نے دیسی انڈین ڈانس شروع کیا اور اسکے جسم کے ہر ٹھمکے پر ہال مِں موجود لوگوں سیٹیاں بجاتے اور اسکو داد دیتے۔ تانیہ نے اب اپنے چہرے پر موجود برائے نام نقاب اتار دیا تھا اور اب وہ بھی سٹیج سے اتر کر نیچے آگئی جہاں وہ سب سے پہلے ایک ٹیبل پر بیٹھے مرد اور عورت کے درمیان میں جا کر بیٹھ گئی، تانیہ صوفے پر گھٹنے رکھ کر بیٹھ گئی اور اپنا چہرہ عورت کی طرف اور اپنی پیٹھ مرد کی طرف کر دی، مرد تانیہ کی پتلی کمر اور موٹی گانڈ دیکھ کر پاگل ہوگیا اور اسنے جیب سے پیسے نکال کر تانیہ کے لہنگے کے کمر بند میں پھنسا دیےجبکہ تانیہ نے عورت کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر ایک کس کی جس سے پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور اس عورت نے بھی اپنے برا میں ہاتھ ڈال کر کچھ پیسے نکالے اور تانیہ کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنا ہاتھ اسکے لہنگے میں ڈال کر پیسے اسکی پینٹی میں پھنسا دیے اور تانیہ کے لبوں پر ایک کس کر دی۔ اب تانیہ اس ٹیبل سے اٹھی اور دوسرے ٹیبل پر گئی وہاں بھی بیٹھے مرد وں نے تانیہ کے کپڑوں میں پیسے ٹھونس دیے پھر تانیہ میجر دانش کے ٹیبل کی طرف آئی اور اسکی گود میں بیٹھ گئی۔ 

میجر دانش کا لن تانیہ کا جسم دیکھ کر پہلے ہی کھڑا ہو چکا تھا، جیسے ہی تانیہ اپنی گانڈ میجر کی گود میں رکھ کر بیٹھی نیچے سے لن نے مزید سر اٹھا لیا، تانیہ کو اپنی گانڈ پر میجر کا لن محسوس ہوا تو اس نے حیرانگی سے میجر کی طرف دیکھا مگر میجر نے ایسے ظاہر کیا جیسے اسے علم ہی نہ ہو کہ اسکا لوڑا کھڑا ہے۔ تانیہ میجر کی گود میں بیٹھ کر آدھی لیٹ گئی اور میجر کی گردن میں بانہیں ڈال دیں اور اپنی ٹانگیں ساتھ بیٹھے دوسرے شخص کی گود میں رکھ دیں، اس نے اپنے دونوں ہاتھ تانیہ کی گرم ٹانگوں پر پھیرنا شروع کیے جبکہ میجر نے اپنا ہاتھ تانیہ کی گردن سے لیکر اسکی ناف تک پھیرا۔ درمیان میں تانیہ کے پہاڑ جیسے ممے بھی آئے جن پر میجر دانش نے بلا جھجک اپنا ہاتھ پھیرا اور آہستہ سے انکو دبا بھی دیا، تانیہ نے بھی ایک ہلکی سی سسکی لی۔ اب میجر دانش نے اپنی جیب سے ایک اور نوٹ نکالا اور تانیہ کے برا میں پھنسا دیا، اس دوران میجر دانش نے پہلے کی ہی طرح تانیہ کے مموں کو پکڑ کر دبا دیا جس سے تانیہ نے شکایتی نظروں سے میجر کی طرف دیکھا۔

اب تانیہ میجر کی گود سے اٹھنے لگی تو میجر نے اپنا منہ تانیہ کے کانوں کے قریب کر لیا اور اسے سرگوشی میں کہا کہ ساتھ والا شخص انڈین آرمی کا جوان ہے، اس پر کچھ خاص توجہ دو، شاید کوئی کام کی بات نکل سکے۔ یہ کہ کر میجر نے تانیہ کو اپنی گود سے اتارا اور ہال سے باہر نکل گیا، جبکہ تانیہ اب میجر کی بات کے مطابق دوسرے شخص کی گود میں بیٹھی اسے اپنے جسم کا نظارہ کروانے لگی۔ 

میجر دانش کمرے سے باہر نکلا تو وہ اب واش روم کی تلاش میں تھا، کیونکہ پہلے والی ڈانسر کے نپل کو چھو کر اور اب تانیہ کے مموں کا لمس پا کر اسکی گانڈ کو اپنے لن پر محسوس کر کے میجر کا لن بری طرح سخت ہورہا تھا اور میجر کو اب مٹھ مارنی تھی۔ میجر ابھی ادھر ادھر ہی گھوم رہا تھا کہ ایک کمرے سے وہی ڈانسر نکلی جو تانیہ سے پہلے منی بدنام ہوئی گانے پر ڈانس کر رہی تھی۔ اس نے میجر کو دیکھا تو آنکھ ماری اور بولی، صاحب حکم کرو اگر میں آپکے کسی کام آسکتی ہوں تو بتاو۔ میجر اسکا اشارہ سمجھ گیا تھا، میجر نے اسکو کمر سے پکڑ کر اپنے نزدیک کیا اور بولا ایک تم ہی ہو جو اس وقت میرے کام آسکتی ہو۔ میجر کی یہ بات سن کر اس ڈانسر نے میجر کو بازو سے پکڑا اور کھینچتی ہوئی اپنے کمرے میں لے گئی۔ 

================================================== ==================

کرنل وشال اب جونا گڑھ جانے والی روڈ پر اپنے قافلے کے ساتھ بہت تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ کرنل کی گاڑی سب سے آگے تھی، کچھ ہی دیر بعد کرنل کو دور ایک گاڑی نظر آئی۔ قریب جانے پر معلوم ہوا کہ یہ سوزوکی ماروتی ہے جو نیلے رنگ کی ہے۔ مگر اسکا نمبر وہ نہیں جو میجر دانش کی گاڑی کا تھا۔ کرنل وشال سمجھ گیا تھا کہ انہوں نے نمبر تبدیل کر لیا ہے۔ اس نے ڈرائیور کو کہا کہ اس گاڑی کو روکے۔ ڈرائیور نے کراسنگ کرتے ہوئے اپنی گاڑی سوزوکی ماروتی کے ساتھ لگائی اور کراس کرنے کے بعد اسکے سامنے جا کر ایک زور دار بریک ماری جس کی وجہ سے پچھلی گاڑی میں جوجود امجد کو بھی بریک مارنی پڑی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ کرنل وشال کی ہی گاڑی ہوگی جو معلوم نہیں کیسے بیدی روڈ کو چھوڑ کر انکے پیچھے جونا گڑھ جانے والے راستے تک پہنچ گئے ہیں۔ 

گاڑی رکی تو امجد نے فورا ہی اپنے چہرے کے تاثرات ایسے بنا لیے جیسے وہ اس اچانک حملے سے بہت زیادہ ڈر گیا ہو۔ کرنل وشال نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا اور نیچے اتر آیا ، اس سے پہلے کہ کرنل وشال امجد کی گاڑی تک پہنچتا کرنل وشال کے کمانڈوز نے امجد کی گاڑی کا دروازہ کھول کر اسکو باہر نکال لیا تھا اور پچھلے دروازے سے بھی چیک کر چکے تھے کہ گاڑی کے اندر کوئی اور موجود نہیں ہے۔ جب کرنل وشال امجد کے قریب آیا تو امجد کے ہاتھ اسکی کمر پر باندھے ہوئے تھے اور اسکو گاڑی کے بونٹ کے اوپر اندھا کیا ہوا تھا کمانڈوز نے۔ 

کرنل وشال نے امجد کے قریب آکر پہلے گاڑی میں جھانکا جہاں کوئی نہیں تھا اور پھر امجد کو سیدھا کھڑا کیا۔ جونہی امجد نے کرنل وشال کی طرف منہ کیا ایک زور دار طمانچہ امجد کے گال پر پڑا اور اسکو تارے نظر آنے لگے۔ ساتھ ہی کرنل وشال کی کرخت آواز آئی اور وہ بولا کہاں بھیجا ہے باقی لوگوں کو؟؟؟ امجد نے رونی شکل بنا کر کہا بھا جی میں کدرے نئی بھیجیا اونہا نو، او تے آپئی میری گڈی تو تھلے لے گئے سی ۔ کرنل وشال نے ایک اور تھپڑ مارا اور بولا سیدھی طرح بتا کہاں ہیں تیرے ساتھی؟؟؟ اب کی بار امجد نے واقعی میں روتے ہوئے کہا کہ صاحب جی میری گل دا یقین کرو، او ایک کڑی سی تے 2 منڈے۔ اونہاں نے میری گڈی کھو لئی سی تے مینو ایک پرانی جئی جگہ وچ قید کر دِتا سی۔ آج شامی او منڈا گڈی لے کے آیا تے اودے نال ایک کڑی تے ایک منڈا ہور وی سی ۔۔۔ کڑی دی عمر 20 سال تو لے کے 23 سال تک ہوئے گی تے دونوں منڈیاں دی عمراں 30 سال تو 35 سال تک ہونگیاں۔ اونہاں نے میرے تے بڑا ای ظلم کیتا جے۔ پہلے میں اونہاں کولوں کُٹ کھائی اے تو ہن توسی مینو مار ریے ہو میں پوچھداں آخر میرا قصور کی اے۔ 

Quote

یہ کہتے ہوئے امجد زمین پر بیٹھ گیا اور رونے لگا۔ کرنل وشال اب اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھنے لگا کہ یہ کیا نیا ڈرامہ ہے؟؟؟ مگر پھر اس نے امجد کو اسکے سر کے بالوں سے پکڑا اور بال کھینچتے ہوئے دوبارہ کھڑا کر دیا۔ اور بولا سچ سچ بتا اس گیس پمپ پر تم دونوں اکٹھے تھے سی سی ٹی فوٹیج میں دیکھ لیا میں نے دوسرے شخص نے کچھ چیزیں خریدیں اور تم نے اسکے پیسے دیے۔ تم ملے ہوئے ہو انکے ساتھ اور گاڑی کا نمبر بھی جعلی لگا کر گاڑی چلا رہے ہو۔۔۔ سچ سچ بتاو کہاں دہشت گردی کا پروگرام ہے تمہارا۔۔۔

یہ سن کر امجد بولا نہ صاحب نہ، میں دہشت گرد نئی۔ بابا گرو نانک دی سو، میں دہشت گرد نئی جے۔ گیس پمپ تے پیسے میں ہی دتے سی، پر میں ہور کر وی کی سکداں ساں؟ اس منڈے کولوں پستول سی، تے میری گڈی چے دوسری کڑی تے ایک منڈاں ہور وی سی۔ مینو دسوں میں اونہا دے کہے پیسے نا دندا تے او مینو چھڈدے بھلا؟؟؟ تے رہی گل میری گڈی دے نمبر دی، تسی چیک کر لو بالکل اصلی نمبر ہیگا میری گڈی دا، میری اپنی گڈی اے۔ کرنل وشال نے اپنے ٹیبلیٹ پر امجد کی گاڑی کا نمبر اینٹر کیا تو وہ واقعی رجسٹرد نمبر تھا اور اسی گاڑی کا تھا۔ اب میجر تھوڑا ٹھنڈا ہوا اور اور امجد سے اس کا نام پوچھا تو امجد نے اپنا نام سردار سنجیت سنگھ بتایا ۔ کرنل نے امجد کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسکی جیب سے اسکا ڈرائیونگ لائسنس اور راشن کارڈ برآمد ہوا ۔ اس پر بھی اسکا نام سردار سنجیت سنگھ درج تھا۔ اب کرنل وشال اور ڈھیلا پڑ گیا۔ مگر اسے ابھی بھی کہیں نہ کہیں شک تھا کہ یہ میجر دانش کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اس نے امجد سے پوچھا کہ تم اب کہاں جارہے ہو؟؟؟ تو امجد نے بتایا کہ وہ جونا گڑھ جا رہا ہے۔ کرنل نے پوچھا جونا گڑھ کس کے پاس جا رہے ہو تم تو امجد نے بتایا کہ مجھے نہیں پتا، بس ان لوگوں نے ایک بس سٹاپ پر اتر کر مجھے کہا کہ تم یہاں سے سیدھے جونا گڑھ جاو گے اور وہیں ہم تمہیں ملیں گے۔ 

کرنل نے پوچھا کہ وہ تم سے جونا گڑھ میں کب اور کہاں ملیں گے؟؟؟ تو امجد نے بتایا یہ میں نہیں جانتا صاحب، بس انہوں نے مجھے اتنا ہی کہا تھا کہ جونا گڑھ شہر میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر پٹرول پمپ آئے گا تم اپنی گاڑی وہاں لگا دینا۔ اور خبردار جو پولیس کو کال کرنے کی کوشش کی نہیں تو تمہاری لاش کے پرخچے اڑا دیے جائیں گے۔ پھر امجد مزید مسکین شکل بناتا ہوا بولا، صاحب مجھے تو وہ بہت خطرناک لوگ لگتے ہیں، خاص طور پر ان دونوں کے ساتھ جو لڑکی تھی وہ بہت تیز تھی اور اسی نے گن پوائنٹ پر میرے سے دوپہر میں گاڑی چھینی تھی۔ اور گن کا پچھلا حصہ میری گردن میں مار کر مجھے بے ہوش کیا تھا۔ 

اب کرنل وشال نے امجد کو کہا تم ہمارے ساتھ جونا گڑھ چلو گے اور اس پٹرول پمپ پر کھڑے ہوجاو گے ہم دور سے تمہاری نگرانی کریں گے۔ یہ سن کر امجد نے کرنل وشال کو کہا سر مجھے نہیں لگتا کہ وہ جونا گڑھ جائیں گے۔ بھلا کوئی دہشت گرد ایسے بھی کرتا ہے کہ اپنے ملنے کا ٹھکانہ اتنی آسانی سے بتا دے۔ یہ ضرور انکی چال ہے تاکہ اگر میں پولیس کو اطلاع دوں بھی صحیح تو پولیس انکی تلاش میں جونا گڑھ کے پٹرول پمپ کی نگرانی کرتے رہے اور وہ تسلی سے اپنی کاروائی کر سکیں۔ امجد کی یہ بات سن کر کرنل وشال سوچ میں پڑگیا تھا۔ اب اس نے امجد سے پوچھا کہ وہ لوگ کہاں اترے تھے تمہاری گاڑی سے تو امجد نے ٹھیک وہی جگہ بتا دی جہاں وہ اترے تھے۔ کرنل وشال نے کہا اسکا مطلب ہے کو وہ بس میں جائیں گے جونا گڑھ ۔ یہ کہ کر کرنل وشال نے سی آئی ڈی کو کال کر کے تمام بسوں کی چیکنگ کا کہا اور ایک لڑکی جسکی عمر 20 سے 25 سال ہوگی اور 2 آدمی جو 30 سے 35 سال کی عمر کے ہونگے انکو ہر بس اور ہر پبلک ٹرانسپورٹ میں اچھی طرح تلاش کیا جائے اسکے علاوہ کوئی بھی پرائیویٹ گاڑی بغیر چیکنگ کے چیک پوسٹ سے نہ گزر سکے۔ 

کرنل کی بات ختم ہوئی تو امجد بولا صاحب وہ بس پر تو بیٹھے ہی نہیں تھے، وہ تو سڑک سے اتر کر ایک کچے راستے کی طرف پیدل ہی چل نکلے تھے۔ شاید انکا ٹھکانہ کسی گاوں میں ہو۔ اور انہوں نے پولیس کو چکمہ دینے کے لیے مجھے جونا گڑھ پہنچنے کا کہا ہو۔۔۔ امجد کی بات سن کر کرنل نے امجد کو کہا اگر تمہیں ایسا ہی لگتا ہے تو پھر تم جونا گڑھ کیوں جا رہے ہو؟؟ اس پر امجد نے کہا کہ وہ غریب آدمی ہے، اسکے پاس یہی ایک گاڑی ہے جو وہ ٹیکسی کے طور پر چلاتا ہے ، یہ تو صرف میرا خیال ہی ہے، لیکن اگر میرا خیال غلط ہوا اور وہ لوگ واقعی جونا گڑھ چلے گئے اور وہاں مجھے نہ پایا تو وہ تو مجھے جان سے ہی ماردیں گے۔ پھر میرے بیوی بچوں کا کیا بنے گا۔ 

کرنل نے ایک لمبی ہونہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی اور پھر بولا ٹھیک ہے تم ہمیں اسی جگہ لے چلو جہاں تم نے ان لوگوں کو اتارا تھا، وہ ہم سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ اتنے میں ایک اہلکار کرنل وشال کے پاس آیا اور کرنل کو ایک شاپر دیتے ہوئے بولا سر گاڑی میں سے یہ چیزیں برآمد ہوئی ہیں۔ کرنل نے شاپر میں دیکھا تو 2 جوس کے ڈبے، ایک چپس کا پیکٹ اورکچھ بسکٹ تھے۔ کرنل نے امجد کی طرف دیکھا اور بولا یہ کیا ہے؟؟؟ امجد نے کہا یہ تو وہی سامان ہے جی جو گیس پمپ سے خریدا تھا انہوں نے۔ جاتے ہوئے وہ یہ مجھے دے گئے کہ راستے میں بھوک لگے تو استعمال کر لینا مگر میری جیب سے سارے پیسے لے کے نکل گئے وہ۔ اب کرنل وشال کو یقین ہوگیا تھا کہ سردار سنجیت سنگھ دہشت گردوں کے ساتھ نہیں کیونکہ اسکی گاڑی کا نمبر بھی اصلی تھا اور گاڑی سردار سنجیت سنگھ کے نام پر ہی رجسٹر تھی اور ساتھ ہی امجد نے صحیح صحیح بتا دیا تھا کہ وہ 2 مرد اور ایک لڑکی تھی۔ کرنل اس بات کو بھی سمجھتا تھا کہ دہشت گرد عموما اپنی گاڑی کا استعمال نہیں کرتے بلکہ وہ کسی بھی شہری کی گاڑی چھین کر اس پر واردات کرتے ہیں۔ یہی کام اس لڑکی نے کیا سردار کی گاڑی چھین کر اسکی نمبر پلیٹ چینگ کر کے وہ بھاٹیا سوسائٹی میں آئی اور وہاں سے دانش کو چھڑوا کر واپس سردار کے ٹھکانے پر پہنچی جہاں اسکے ساتھیوں نے سردار پر تشدد بھی کیا اور اسکو ڈرا دھمکا کر جونا گڑھ جانے کو کہا تاکہ کرنل وشال کو دھوکے میں رکھا جائے۔ 

Quote

جبکہ امجد نے بھی یہاں چالاکی کا مظاہرہ کیا تھا جسکی وجہ سے وہ بچ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ آگے جگہ جگہ پر ناکے لگے ہونگے، اگر وہ پکڑا گیا اور گاڑی کی نمبر پلیٹ جعلی ہوئی تو پولیس اسکو نہیں چھوڑے گی۔ اس لیے اس نے اصلی نمبر پلیٹ گاڑی پر لگا لی تھی جسکے کاغذات بھی اسکے پاس موجود تھے۔ یہ کسی سردار سنجیت سنگھ کی ہی گاڑی تھی جسکو مرے ہوئے 2 سال ہوگئے تھے۔ اسکا آگے پیچھے کوئی نہیں تھا اور وہ امجد کا دوست بھی تھا۔ مرنے سے پہلے اس نے امجد کو کہا تھا کہ میرے بعد میری گاڑی تم رکھ لینا اور اسکے پاس کوئی جائداد تھی نہیں۔ وہ ٹیکسی ڈرائیور تھا۔ امجد اسکے مرنے کے بعد ہر جگہ اسی کی شناخت کو اپنا لیتا تھا تاکہ وہ ایک عام شہری ہی معلوم ہو۔ پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی کسی کے مرنے پر اسکا اندراج کرنے کی روایت نہیں، ڈیتھ سرٹیفیکیٹ صرف وہ لوگ بنواتے ہیں جنکو مرنے والے کی جائداد میں سے حصہ ملنا ہو۔ ورنہ کون مر گیا کون زندہ ہے اس چیز کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ 

اسکے ساتھ ساتھ تانیہ اور دانش کو بس پر چڑھانے کے بعد امجد نے اپنی جیب سے سی آئی ڈی انسپیکٹر کا کارڈ نکال کر پھینک دیا تھا اور پیسے سرمد اور رانا کاشف کو دے دیے تھے۔ جبکہ گاڑی کی ڈگی میں موجود کپڑے اور جعلی نمبر پلیٹ اس نے راستے میں ایک گندے نالے میں پھینک دیے تھے۔ تاکہ جہاں بھی وہ پکڑا جائے جعلی نمبر پلیٹ یا زنانہ کپڑوں کی وجہ سے اس پر شک نہ کیا جا سکے۔ امجد کی اسی عقلمندی نے اسے بچا لیا تھا ورنہ وہ اب تک کرنل وشال کے قہر کا نشانہ بن چکا ہوتا۔ 

کرنل وشال کو امجد نے اس بس سٹاپ تک واپس پہنچا دیا جہاں اس نے دانش اور تانیہ کو اتارا تھا۔ اور وہاں موجود ایک کچے راستے کی طرف امجد نے اشارہ کیا جو ایک گاوں کی طرف جاتا تھا اور کرنل وشال کو بتایا کہ وہ لوگ اسی راستے پر پیدل نکل گئے تھے۔ کرنل وشال نے وہاں موجود ایک اہلکار سے پوچھا کہ یہ راستہ کدھر جاتا ہے؟؟؟ وہ اہلکار جامنگر کا ہی تھا اسلیے وہ ان علاقوں کے بارے میں جانتا تھا، اس نے بتایا کہ سر یہ راستہ ایک گاوں کی طرف جاتا ہے جہاں چھوٹے چھوٹَ 3 قصبے ہیں۔ ان قصبوں میں زیادہ تر آوارہ اور اوباش قسم کے اور جرائم پیشہ لوگ رہتے ہیں۔ اور چوری کی گاڑیاں بھی زیادہ تر انہی لوگوں کے قبصے سے برآمد ہوتی ہیں۔ کرنل دانش نے اندازہ لگا یا کہ دانش اس لڑکی اور دوسرے ساتھی کے ساتھ اسی گاوں میں گیا ہوگا جہاں سے کسی بھی مجرم کو پیسے کی لالچ دے کر اسکی گاڑی میں وہ جونا گڑھ تک جا سکتے ہیں۔ 

کرنل نے امجد کو کہا تم واپس جونا گڑھ ہی جاو اور اسی پٹرول پمپ پر جا کر کھڑے ہوجانا، جبکہ ہم اس گاوں پر ریڈ کریں گے اور یہاں کے لوگوں سے پوچھیں گے کہ انہوں نے ایک لڑکی اور 2 آدمیوں کو آتے دیکھا ہو۔ یا کسی نے انکی مدد کی ہو اور انہیں جونا گڑھ کی طرف لے جا رہا ہو تو اسکی بھی معلومات لیں گے۔ یہ کہ کر کرنل وشال اپنی ٹیم کے ساتھ اس کچے راستے پر نکل گیا جبکہ امجد اپنی گاڑی میں بیٹھا اور جونا گڑھ کی طرف سفر شروع کر دیا۔ کرنل وشال کے سامنے تو اس نے اپنے دماغ کا خوب استعمال کیا تھا مگر اب اسکے پسینے نکل رہے تھے اور وہ سوچ رہا تھا کہ بال بال بچ گئے اگر جعلی نمبر پلیٹ وہ گاڑی سے باہر نہ پھینکتا اور پیچھے پڑے کپڑے گاڑی سے نہ نکالتا تو آج امجد برا پھنسا تھا۔ 

================================================== =================

سرمد اور رانا کاشف بس میں بیٹھے سو رہے تھے، کہ اچانک شور کی وجہ سے انکی آنکھ کھلی۔ سرمد نے تھوڑا سا اوپر اٹھ کر دیکھا تو ایک انڈین آرمی کا جوان تمام سواریوں کو گاڑی سے اترنے کا کہ رہا تھا۔ سرمد نے رانا کاشف کو کہنی ماری اور کہا چل چپ چاپ اتر جا۔ یہ نہ ہو کہ انہیں ہم پر شک ہوجائے۔ نیچے اترکر رانا کاشف اور سرمد لائن میں کھڑے ہوگئے باقی تمام سواریاں بھی لائن بنائے کھڑی تھیں جبکہ انکے ساتھ 3 پولیس کے جوان اور 2 آرمی کے جوان تھے۔ بس میں 3 لڑکیاں بھی موجود تھیں جن میں 2 کی عمر لگ بھگ 15 سے 18 سال ہوگی جبکہ ایک کی عمر 23 سے 25 سال کے قریب ہوگی۔ سب سے پہلے فوجی جوان نے اس لڑکی کو اپنے پاس بلایا اور اس سے نام پتا پوچھنے لگا۔ اور یہ بھی پوچھا کہ وہ کس کے ساتھ ہے۔ تو پیچھے کھڑی لائن میں سے ایک شخص بولا کہ سر یہ میرے ساتھ ہے۔ اس انڈین آرمی کے جوان نے اس شخص کو بھی اپنے پاس بلا لیا اور اسکی تلاشی لینے لگا۔ پھر اس نے اسکے چہرے پر پانی ڈلوایا اور اسکی مونچھیں بھی چیک کیں مبادا نقلی لگائی ہوں۔ 

مگر ایسا کچھ نہیں تھا، انڈین آرمی کے جوان نے کافی دیر اس لڑکی اور مرد سے پوچھ گچھ کی مگر وہ انکے مطلوبہ لوگ نہیں تھے پھر انہیں بس میں بیٹھنے کو کہا گیا۔ پھر باری باری سب کی اسی طرح تلاشی لی گئی اور ان سے پوچھ گچھ ہوئی۔ سرمد نے کاشف کو کہا کہ انہیں اپنے بارے میں سٹوری نمبر 3 سنانی ہے۔ امجد نے ایسے حالات کے لیے کچھ کہانیاں گھڑ رکھی تھیں جو موقع کی مناسبت سے سنائی جا سکتی تھیں۔ تاکہ اگر ان لوگوں سے علیحدہ علیحدہ پوچھ گچھ ہو تو انکے بیانات میں تضاد نہ ہو ۔ تضاد ہونے کی صورت میں سیکورٹی ایجینسیز ان پر شک کریں گی۔ لہذا مختلف مواقع کے لیے امجد نے مختلف کہانیاں بنا رکھی تھیں ۔ اور ابھی اس میں سے کہانی نمبر 3 کا سرمد نے انتخاب کیا تھا۔ جب سرمد کی باری آئی تو اس نے بتایا کہ وہ اور اسکا دوست کاشف جونا گڑھ اپنی انٹرنیٹ فرینڈ سے ملنے جا رہے ہیں۔ 

Quote






malayalamtoplesdesi school fuckaish exbiitamil sex book pdfteri chudaisexy setorieshot marathi kathanaked boibsindian aunty wetfree adult comics xxxtamil sex stories in tanglishneha chutsex bichy chudai bhabi photos boor .incollage girl strippinghot stories in hindi fontssakshi tanwar sexy picspyaar ki kahaniyanmaa beta indian sex storieshotties in sareelactation fantasy storiesinces storytamil incent storyhot aunty navel showjokes sexy hindilund chut sexexbii tamilkutte ke sathmiss muffyshakeela aunty hot videosexy behan storiescartoon incestsdidi hindi sex storiesindian blouse cleavagetamil mami hottamilsex storeisindians fucking picsnude ladkixxx telugu sex videosshakeela topless photosmallu aunty picture gallery xxx bichy bhabi photossex story latest in hinditamil 18yersnudeincent kahanichandrima bhabhi fuck videosexcomics pdftopless college girlnepali aunty xossipindain xxx storieskerala porn picstelugu sex stories in english formatwww.xxxvideos.commsakila hot sexdesi bumstamil sex kathaigal in tamilhot tamil aunty imagecopvsnl.netsexy desi aunties photosincest kahaniyannew telugu sexy storiesland or chutmallu aunty picturesdesisared bhabhidesi lesbian picssaali ke saath ek raatincent indian storysexy andhra auntysexy sweaty armpitssexy gandTamilbahi xxxaunty tamil storiesnangi salihema malini thighsbollywood actresses nude wallpaperssania mirza fake photosdesi big tits sexshakeela nude imageभाभी भिगा बदन देवर ने छु लिया nude xvideossister ki sexy storydesi sexi hindi storiesshreya saran hot assantravasan hindi sex storiesindian blojobkerala erotictelugu boothu sex kathalu