Click Here to Verify Your Membership
First Post Last Post
Desi تمھارا ساتھ کافی ھے


[b]
تمھارا ساتھ کافی ھے 
[/b]

Quote



تمھارا ساتھ کافی ھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! " 


"یار، ویسے یہ بہت غلط بات ھے، کہ تمھاری معشوقہ کے فرمائشی کاموں میں تو ھم دونوں برابر کے حصّہ دار بنیں، اور جب آم چوسنے کی بات آئے، تو تم ھمیں پوچھے بنا اکیلے اکیلے ھی مزے لوٹ کر آ جاؤ۔" 
یہ بات اکرم نے کی تھی، جو اس وقت دلشاد پر اچھّا خاصا جلا بھنا بیٹھا تھا۔ بیچارے کی انگلی زخمی ھو چکی تھی، اور وہ اس پر پٹّی باندھے، اوپر پانی ڈالنے میں مصروف تھا۔ میں اس کی اس بات پر مسکرایا، اور دلشاد کی بغل میں کہنی ماری۔ اس کے منہ سے اوغ کی آواز نکلی، اور وہ ھنستے ھوئے دوھرا ھو گیا۔ 
ھم تین دوست اس وقت دلشاد کی معشوقہ کے باپ کی زمین پر موجود تھے، اور 
گندم کی کٹائی کر رھے تھے۔ ویسے تو ھمارے گاؤں میں گندم مزدوری پر ھی کاٹی جاتی ھے، مگر ھم ایسے مزدور تھے، کہ جنہوں نے محنت تو برابر کرنی تھی، مگر اس کی مزدوری اکیلے دلشاد نے ھی وصول کرنا تھی۔ ، ، ، اسی کمینے کی محبوبہ کی ایک فرمائش پر ھم دونوں ایک بار پھر سے اس گرمی میں گدھے کی طرح کام کر رھے تھے۔ جب بھی میں نے کٹائی ختم کر کے گھر جانے کی بات کی، دلشاد نے منّت سماجت کر کے ھمیں روک لیا۔ اور اسی دوران اکرم کا ھاتھ درانتی سے زخمی ھو گیا تھا۔ 
دلشاد، میں اور اکرم بچپن کے کلاس فیلو تھے۔ اکرم تو میری طرح تعلیم اور کام کاج کے سلسلے میں شہر (میں اسلام آباد آ گیا تھا، جبکہ اکرم فیصل آباد چلا گیا تھا۔) چلا گیا تھا، مگر دلشاد اسی گاؤں میں رہ کر کھیتی باڑی کرتا رھا۔ اس کے مطابق ، اس کے لئے میٹرک بھی بہت تھی۔ ویسے اس کی بات ٹھیک بھی تھی۔ اس کے باپ کی اچھّی خاصی زمین تھی، جس کا وہ اکلوتا وارث تھا۔ اس کی والدہ اس کے پیدا ھوتے ھی مر گئی تھی، اورر اس کے باپ نے اس کے بعد دوسری شادی نہیں کی تھی۔ شائد بیچارے کو کسی نے رشتہ ھی نہیں دیا تھا، ورنہ تو اس نے کوشش کی ھو گی۔ بہر حال، یوں وہ آج ایک پکّا زمین دار تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے ایک معاشقہ بھی پال رکھّا تھا۔ 
گاؤں کے سب سے بڑے چوھدری کی سب سے چھوٹی بیٹی، جس کا نام عارفہ تھا، اس کے ساتھ دلشاد کا چکّر چل رھا تھا۔ میری معلومات کے مطابق پچھلے دو سال سے وہ دونوں ایک دوسرے سے محبّت کر رھے تھے۔ دلشاد کے مطابق، عارفہ کے ساتھ اس چکّر میں ابتدائی پیش قدمی مکمّل طور پر عارفہ کی طرف سے کی گئی تھی۔ دلشاد تو ھر وقت اپنے کھیتوں میں کام میں مصروف رھتا۔ عارفہ ان دنوں نئی نئی جوان ھوئی تھی۔ وہ کبھی کبھی اپنے رقبے پر جایا کرتی تھی۔ ان کی زمینیں مالٹے اور آم کے باغات سے بھری ھوئی تھیں۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گرمیوں میں آم، تو سردیوں میں مالٹے کھانے جاتی رھتی تھی۔ دلشاد کا رقبہ راستے میں پڑتا تھا ، جہاں دلشاد تندہی سے کام کاج میں مصروف رھتا۔ اسی دوران عارفہ نے دلشاد کو کام کرتے ھوئے دیکھا تھا۔ 

Quote


دلشاد ایک خوبصورت جوان تھا۔ اس کے باپ نے اس کو اچھّی خوراک کھلائی تھی، جس کے نتیجے میں وہ ایک گبھرو مرد لگتا تھا۔ رنگ روپ بھی قدرت نے دے رکھّا تھا۔ پھر کام کرتے ھوئے وہ ایسے مگن ھوتا، جیسے اسے اس کے علاوہ اسے اس دنیا میں اور کوئی کام ھے ھی نہیں۔ 

اس کی مردانہ وجاھت عارفہ کو پہلی ھی نظر میں بھا گئی تھی۔ 
پہلے تو عارفہ کبھی کبھی کھیتوں پر جاتی تھی، مگر دلشاد کو دیکھنے کے بعد سے، وہ اکثر کھیتوں پر جانے لگی تھی۔ اس کے گھر میں موجود افراد میں اس کی ایک والدہ تھی، جو کبھی باھر کے کاموں میں دخل دینے کی مجاز نہیں تھیں۔ عارفہ کی دو بڑی بہنیں شادی کے بعد اپنے اپنے گھروں کی ھو چکی تھیں۔ عارفہ کا باپ چوھدری خادم ، ایک انتہائی مصروف انسان تھا۔ وہ اکثر گھر سے باھر ھی رھتا تھا۔ ویسے بھی عارفہ ان سب کی لاڈلی تھی۔ اس کے باپ کا حکم تھا، کہ عارفہ کی ھر خواھش پوری کی جانی چاھئے، اسی وجہ سے حویلی میں کسی کی بھی جرّاٴت نہیں تھی، کہ وہ اس کے کھیتوں پر جانے پر کسی قسم کی قدغن لگا سکے۔ 
عارفہ کی اس آزادی کا نتیجہ یہ ھوا، کہ اس کے دلشاد تک پہنچنے میں کوئی بھی رکاوٹ پیدا نہ ھوئی، اور آخر ایک دن 

عارفہ نے اس کے سامنے اظہار محبّت کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔ !

دلشاد اس لڑکی کی جرّاٴت پر انگشت بدنداں کھڑا تھا۔ وہ اس وقت کھیتوں میں پانی لگا رھا تھا، جب عارفہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اس کے پاس چلی آئی تھی۔ دلشاد نے اس کے کھنکارنے کی آواز سن کر سر اٹھا کر دیکھا تھا۔
یہ دوپہر کا وقت تھا، جب اس نے اپنے سامنے عارفہ اور کچھ قدم پر اس کی ایک سھیلی کو کھڑے پایا ۔ وہ کچھ حیران تو ھوا، لیکن ابھی تک اس کے دماغ میں کوئی منفی خیال پیدا نہیں ھوا تھا۔ 
وہ سمجھ رھا تھا، کہ شائد چوھدری کی بیٹی کو پیاس لگی ھے، اور وہ اس سے پانی مانگنے آئی ھے ، کیونکہ اس نے اکثر عارفہ کو اپنی سہیلیوں کے ھمراہ پگڈنڈی سے گزر کر اپنی زمینوں کی طرف جاتے ھوئے دیکھا تھا۔ گرمی کے موسم میں کھیتوں کی طرف جاتے ھوئے، یا واپس آتے ھوئے پیاس لگنا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی ۔ گرمی کے موسم میں پیاس لگ ھی جاتی ھے، لیکن عارفہ کی سھیلی ان سے چند قدم کے فاصلے پر ھی رک گئی تھی۔ یہ معاملہ دلشاد کی سمجھ سے باھر تھا۔ 
اور جب عارفہ نے اس سے اپنی حالت بیان کی تھی، تو دلشاد جہاں اس کی بات سن کر حیران ھوا تھا، وہیں وہ اس لڑکی کی بے باکی اور ھمّت پر دل ھی دل میں عش عش کر اٹھّا تھا ۔ اس نے کئی لڑکوں سے سن رکھّا تھا، کہ چوھدری کی سب سے چھوٹی بیٹی بہت دلیر اور اتّھری ھے۔ اس نے اس کی دلیری کے اکّا دکّا واقعات بھی سن رکھّے تھے، لیکن آج اس نے عارفہ کی دلیری کا ایک حیرت انگیز عملی مظاہرہ دیکھ لیا تھا۔ 
لیکن دلشاد ، عارفہ کے باپ، چوھدری خادم کو اور اس کے غصّے کو بھی جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا، کہ چوھدری کی بیٹی سے عشق لڑانا اپنی موت کو دعوت دینے کے برابر ھو گا۔ اس نے چند ایک بار چوھدری کو غیض و غضب کی حالت میں دیکھ رکھّا تھا۔ 
دلشاد نے عارفہ کے اظہار محبّت کے جواب میں اس سے معذرت کر لی تھی، اور اس کو وجہ بھی بتا دی تھی۔ اس نے عارفہ سے صاف صاف کہ دیا تھا، کہ اگر وہ عارفہ کی بات کا مثبت جواب دیتا ھے، تو اس کو عارفہ کے باپ کے قہر سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ 
اس دن پہلی بار عارفہ نے دلشاد سے اپنے دل کی بات کا اظہار کیا تھا، اس لئے وہ اس موقعے کو گنوانا نہیں چاھتی تھی۔ اس نے بڑی کوشش کی، کہ دلشاد مان جائے، 

مگر دلشاد نے بنا کوئی سخت بات کئے، عارفہ کو ٹال دیا۔ عارفہ سخت مایوس ھوئی تھی۔ اس نے واپس جانے سے پہلے اسے آخری بار پوچھا، تو بھی دلشاد نے اس کو انکار کر دی
عارفہ دلشاد کی اس بات کو سن کر رو پڑی۔ شائد اس نے اس بات مین اپنی تذلیل محسوس کی تھی۔ لیکن جاتے جاتے اس نے دلشاد کو آخری بار سوچنے کو کہا، اور یہ کہ وہ کل پھر آئے گی، اور دلشاد سے اس کا آخری فیصلہ معلوم کرے گی۔

دلشاد عارفہ کے جانے کے بعد، کتنی ھی دیر تک گم صم کھڑا رھا۔ اسے جہاں عارفہ کے اس سے اظہار محبّت پر ایک احساس تفاخّر محسوس ھوا تھا، وھیں اس کی فطری بزدلی کے باعث اس کی جانب سے کئے جانے والے انکار نے اس کو احساس شرمندگی اور افسوس میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ ایک عجیب سوچ کے گرداب میں پھنس گیا تھا۔ ، ، دل چاھتا تھا، کہ وہ عارفہ کی محبّت کی پیش کش کو بنا سوچے سمجھے قبول کر لے، مگر اسی وقت اس کی آنکھوں کےسامنے وہ منظر آ جاتا، جب اس کے باپ نے ایک لڑکے کو صرف اس گناہ کی پاداش میں دو گھنٹے تک الٹا لٹکائے رکھّا تھا، کہ اس نے چوھدری کے باغ سے دو مالٹے توڑ کر کھا لئے تھے۔ جو انسان ایک کھانے والی عام سی چیز پر اس قدر سیخ پا ھو سکتا ھے، وہ اپنی بیٹی کے ساتھ عشق کرنے والے کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ یہی وہ منظر تھا جو اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا، جب عارفہ اس کے سامنے اظہار محبّت کر رھی تھی۔ چوھدری کا خوف اس کے اور عارفہ کے درمیان ایک گہرے سمندر کی مانند حائل ھو گیا تھا ، جسے عبور کرنا کم از کم دلشاد کے لئے تو ممکن نہیں تھا۔ 

اپنے دماغ کو خیالات کی دنیا سے کھینچ کر واپس لاتے ھوئے اس نے اس طرف دیکھا، جہاں عارفہ کھڑی تھی۔ وہ حیران رہ گیا، کہ عارفہ اب کہیں نظر نہیں آ رھی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا، کہ وہ کافی دیر تک اپنی سوچوں میں غلطاں کھڑا رھا تھا۔ 
دلشاد کے لئے اس کے بعد ممکن ھی نہیں رھا، کہ وہ کھیتوں میں دلجمعی کے ساتھ کام کر سکے۔ نتیجتاْ وہ گھر آ گیا۔ 

گھر آ کر بھی اس کے خیالات نے اس کا پیچھا نہ چھورا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار عارفہ کا معصوم چہرہ آ رھا تھا۔ دو موٹی موٹی سیاہ آنکھیں، جن میں پانی بھرا تھا۔ جوں جوں اس کے پردہٴ تصوّر پر یہ منظر ابھرتا، توں توں اسے اپنے سینے سے ایک درد بھری ٹیس سی اٹھتی ھوئی محسوس ھوتی۔ وہ بے چین ھو کر ادھر ادھر ٹہلنے لگ جاتا۔ جب بے چینی حد سے بڑی، تو وہ گھر سے نکل آیا۔ 

Quote



دلشاد اور عارفہ کی محبّت انتہائی خاموشی اور رازداری سے پروان چڑھ رھی تھی ۔ ابھی تک انہوں نے اس معاملے میں صرف ایک ھی انسان کو رازدار بنایا تھا، اور وہ عارفہ کی ھی قابل بھروسہ سہیلی تھی ، جس کا نام شکیلہ تھا۔ یہ وھی سہیلی تھی ، جو شروع دن سے ھی عارفہ کے ساتھ دلشاد کے پاس آ رھی تھی ۔


( میں اور اکرم بعد میں دلشاد کے ھمراز بنے تھے، جب کافی عرصے بعد عید پر گاؤں میں، ھماری مشترکہ ملاقات ھوئی تھی۔ )

وہ دونوں یہ سمجھتے تھے، کہ وہ اپنی محبّت کو گاؤں میں ھر کسی سے چھپانے میں کامیاب ھیں، مگر یہ ان کی غلط فہمی تھی ۔ وہ نہیں جانتے تھے ، کہ ان کو ملتے ھوئے کئی آنکھیں دیکھ رھی تھیں۔ ایک گاؤں میں رھتے ھوئے اپنی محبّت کو چھپانا بہت مشکل ھو جاتا ھے، خصوصاْ اس وقت جب آپ اپنی معشوقہ سے ھر دوسرے تیسرے دن باھر کہیں پر ملتے بھی ھوں۔ ) 

دلشاد اور عارفہ اب اکثر ھی ملنے لگے تھے۔ دلشاد اپنے کھیت میں کام کرتا رھتا، اور عارفہ اپنے گھر سے پھل کھانے کے بہانے نکل آتی ۔ یوں نہ صرف ان دونوں کو ایک دوسرے کا دیدار انتہائی آسانی سے میسّر آ جاتا ، بلکہ وہ دونوں دلشاد کے کھیت میں کہیں نہ کہیں چھپ کر ملاقاتیں بھی کر لیتے تھے۔ البتّہ کسی دن جب عارفہ لیٹ ھو جاتی، یا عارفہ کے آنے پر دلشاد کا باپ بھی کھیت میں موجود ھوتا ، تو وہ اپنی آنکھوں کی پیاس دور دور سے ھی بجھانے پر اکتفا کرتے،

لیکن اس دن وہ دونوں ھی بہت بے چین رھتے ۔

دلشاد کی حالت اس انداز میں خراب ھوتی تھی ، کہ وہ پھر کھیت میں کام ھی نہ کرپاتا۔ اور گھر چلا جاتا ، لیکن گھر آ کر بھی وہ بے سکونی محسوسی کرتا رھتا ۔

یہی حال عارفہ کا بھی ھوتا ۔ بلکہ وہ تو اپنے فطری غصّے کے باعث کچھ زیادہ ھی اس بات کا اثر قبول کرتی ۔

جس دن ان دونوں کی ملاقات ھوا کرتی، وہ دن ان دونوں کے لئے عید سے کم نہ ھوتا۔ عارفہ ھر روز ھی اپنے آپ کو سجا سنورا کر کھیتوں کا رخ کیا کرتی تھی۔ وہ یہ سب دلشاد کے لئے ھی کرتی تھی، اور دلشاد بھی اس سے ملنے کے دوران اس کے ھونٹوں کی سرخی چٹ کر جاتا تھا۔ یہی نہیں ، بلکہ آھستہ آھستہ دلشاد اور وہ ایک دوسرے کے جسم کی بھوک اپنے اندر محسوس کرنے لگے تھے۔ یہ اور بات، کہ ابھی تک انہوں نے ابھی تک کوئی بڑی غلطی نہیں کی تھی۔ معاملہ ابھی تک اس حد تک گیا تھا، کہ چند ماہ میں دلشاد نے عارفہ کے ھونٹ اور چہرے کے علاوہ صرف ممّے ھی چند ایک بار دیکھے اور چوسے تھے۔ دلشاد مزید پیش قدمی بھی کرنا چاھتا تھا، مگر عارفہ کسی نہ کسی طرح سے اسے ٹال جاتی۔ وہ اسے کہتی تھی، کہ یہ سب کام شادی کے بعد کے ھیں، جنہیں شادی سے پہہلے انجام دینا کسی طور بھی مناسب نہیں ھے۔ دلشاد کو بھی مجبوراْ عارفہ کی بات ماننا پڑتی، کہ وہ بھی عارفہ کو ناراض کر کے ایک خوبصورت لڑکی کا ساتھ گنوانا نہیں چاھتا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا، کہ عارفہ اس سے ناراض ھو ھی نہیں سکتی تھی، کہ اسے تو دلشاد سے حقیقی عشق ھو چکا تھا۔ اور وہ جو کچھ بھی کرتی تھی، اپنی خوشی سے نہیں، بلکہ صرف اور صرف اپنے محبوب ، دلشاد کی خواھش کے احترام میں کرتی تھی۔
عارفہ دلشاد کے معاملے میں شروع دن سے ھی سنجیدہ تھی۔ اگر کبھی ان کی ملاقات نہ ھو پاتی، تو وہ اس سے ملے بغیر جاتے ھوئے اتنی پریشان ھو جایا کرتی، کہ اکثر واپسی پر گھر پہنچتے پہچنتے اس کی آنکھیں رو رو کر سرخ ھو جاتیں ۔ 

وہ دلشاد سے ملنے کا ارادہ باندھ کر ایک بار جب گھر سے نکل آتی تھی ، تو پھر اس کے بعد، دلشاد سے ملے بغیر گھر جانا اسے کسی طور قبول نہ تھا ۔
۔

اس کی سہیلی شکیلہ اس کی اس کیفیّت کو بہت گہرائی سے نوٹ کرتی چلی آ رھی تھی ۔ ابتدا میں تو اس نے عارفہ سے اس بارے میں کچھ خاص بات نہ کی ، لیکن جب اس نے دیکھا ، کہ دلشاد سے ملاقات میں ناکام رہنے پر ھر بار وہ حد سے زیادہ آؤٹ آف کنٹرول ھو جاتی ھے ، تو اس نے عارفہ کو سمجھانا شروع کر دیا ۔ اس کے مطابق عارفہ کو ھر حال میں اپنا آپ قابو میں رکھنا چاھئے ۔ اسے اپنے کسی بھی انداز سے یہ محسوس نہیں کروانا چاھئے ، کہ اس کی عادات میں کسی قسم کی کوئی بھی تبدیلی رو نما ھو چکی ھے ، اور اس کے اندر کسی قسم کے جذبے نے پرورش پانا شروع کر دی ھے ۔ ورنہ اگر کسی طرح سے اس کے باپ کو معلوم پڑ گیا، تو عارفہ کے لئے تو یہ سب خطر ناک ھو گا ھی، مگر دلشاد کے لئے تو یہ بے حد خطر ناک ھو گا۔
اس کی نصیحتوں کے جواب میں عارفہ محبّت کرنے والوں کے سے انداز میں اوٹ پٹانگ باتیں کرنا شروع کر دیتی۔ کبھی وہ شکیلہ کو محبّت سے نابلد قرار دیتی ، 

Quote


شکیلہ کو محبّت سے نابلد قرار دیتی ، تو کبھی وہ اپنی کیفیّت کو محبّت کا ھی ایک رنگ قرار دیتی ۔ ھاں ، البتّہ کبھی کبھی وہ مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ھوئے اپنی اس بے بسی پر اداس بھی ھو جاتی تھی ، اور اس کے گلے لگ کر رو دیتی ۔ شکیلہ اس وقت اسے انتہائی پیار سے سمجھاتی رہتی ، اور ساتھ ساتھ اس کا حوصلہ بھی بڑھاتی رھتی ۔

شکیلہ تقریباْ ھر ملاقات میں ھی ان کے معاون کے طور پر موجود رھتی ۔ ایک آدھ بار ھی ایسا ھوا تھا ، جب عارفہ شکیلہ کے بغیر آئی تھی ، مگر اس دن اس نے کسی اور سہیلی پر بھروسہ کرنے کی بجائے اکیلے آنا مناسب سمجھا تھا۔

شائد گاؤں میں ھونے والے چند واقعات اسے معلوم تھے ، جن میں دو خاموش محبّت کرنے والوں کے راز کو ان ھی کے بھروسہ مند راز دانوں نے کسی نہ کسی صورت اگل دیا تھا ۔
عارفہ ھر قدم انتہائی پھونک پھونک کر رکھ رھی تھی ۔ وہ کسی بھی عام سہیلی پر اعتماد کرنے پر تیّار نہ تھی۔ اس کی اسی احتیاط کی وجہ سے وہ ابھی تک گاؤں میں ھر کسی کا موضوع گفتگو بننے سے بچے ھوئے تھے۔ جن چند افراد کو معلوم ھوا بھی تھا، وہ چوھدری سے اس قدر خوفزدہ تھے، کہ کسی کے سامنے بات کرتے ھوئے ھی ان کی جان جاتی تھی، کہ معاملہ چوھدری کی بیٹی کا تھا۔ یوں، عارفہ اور دلشاد ابھی تک کسی بڑے خطرے سے محفوظ چلے آ رھے تھے۔
************************************************** ***************
ایک دن دلشاد کو کھیت میں کام کاج کے دوران ایک لڑکی ملی ۔وہ لڑکی بھی گاؤں ھی کی رھنے والی تھی، اور اس کے کردار کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں بھی گاؤں میں گردش کرتی رھتی تھیں۔ اس کا نام شہزادی تھا ۔ کہنے والے کہتے تھے ، کہ شہزادی جب بھی کسی مرد کو اکیلا پا لیتی، تو اپنی اداؤں سے اس کو رجھاتی تھی۔ ایک مرد کی رال کسی لڑکی کے رجھانے پر اسی طرح ٹپکتی ھے، جیسے خربوزے کے ھرے بھرے اور لاوارث کھیت کو سامنے دیکھ کر ایک گیدڑ کی رال ٹپکتی ھے۔ اس طرح سے وہ مردوں کو چند منٹ کی جسمانی تسکین فراھم کر کے بدلے میں ان سے جو کچھ بھی ملتا ، لے لیتی ۔ یوں اس کا چسکا بھی چلتا رھتا ، اور گھر کی دال روٹی بھی ۔ 

لیکن اس نے آج تک کبھی کسی کو مفت میں سیراب نہیں کیا تھا ۔

شہزادی ایک قبول صورت لڑکی تھی، لیکن غریبی اور لا پروائی سے رہنے کی عادت نے اس کے حسن کو گہنا دیا تھا ۔ اوپر سے گاؤں کے گردو غبار سے اٹے ھوئے ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے اس کی باقی ماندہ صاف رنگت بھی بالکل ھی ماند پڑگئی تھی ۔

شہزادی کی عادتیں اور کردار کی کمزوری اپنی جگہ، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود تھی، کہ شہزادی نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی تھی ، اور اپنے گھر کے کسمپرسی کے حالات سے تنگ آ کر اس نے ھوش سنبھالتے ھی اعلان بغاوت کر دیا تھا۔ لیکن اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا، سوائے اس کے ، کہ اپنے جسم کو ھی ھتھیار کے طور پر استعمال کرے ۔ اسی وجہ سے وہ اس کام پر لگ گئی تھی ۔

Quote



یہ دوپہر کا وقت تھا۔ سخت گرمی پڑ رھی تھی۔ اور اس موسم میں اس وقت، شہزادی دلشاد سے صرف چند قدم کے فاصلے پر ھی موجود تھی ۔ دلشاد نے جب اسے دیکھا، تو اس کے دماغ میں وہ کہانیاں گونجنے لگیں، جو اس نے اس کے کردار کے حوالے سے سن رکھّی تھیں۔ اس نے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ اسے دور دور تک کوئی آدمی دکھائی نہیں دے رھا تھا۔ اگر کوئی اپنے کھیت میں موجود بھی تھا، تو کسی درخت کے سائے میں لیٹا آرام کر رھا تھا۔ دلشاد اس وقت اپنے کماد کو پانی لگا رھا تھا، اور اسی وجہ سے وہ ابھی تک اپنے کھیت میں موجود تھا، ورنہ تو وہ بھی اس وقت تک گھر چلا جایا کرتا تھا۔

اس کی چھٹی حس نے اسے جیسے خبر دار کیا۔ دلشاد نے کچھ سوچتے ھوئے شہزادی کو اشارے سے پوچھا۔ جواب میں شہزادی اس کے پاس آ گئی۔ دلشاد اور بھی محتاط ھو گیا ۔
دلشاد نے شہزادی کی حرکتوں اور اس کے انداز سے اندازہ لگا لیا، کہ وہ آج پھر اپنے ممکنہ شکار کی تاڑ میں ھے، اور دلشاد پر اس کی نیّت ٹھیک نہیں ھے۔ دلشاد نے بھی اپنے اندر ایک مضبوط ارادہ کر لیا، کہ وہ کسی طور بھی شہزادی کے جال میں نہیں پھنسے گا۔ اور اگر اس نے شور مچانے کی دھمکی دی، تو وہ خود ھی ارد گرد سے کسانوں کو اکٹھّا کر لے گا۔ اسے قوی امّید تھی، کہ شہزادی اپنی دعوت گناہ پر دلشاد کا انکار سن کر اگر اس پر کسی قسم کا کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرتی، تو گاؤں والے اور کھیتوں میں موجود کسان، شہزادی جیسی لڑکی کے مقابلے میں یقیناْ دلشاد کو زیادہ معتبر خیال کرتے۔ 

دلشاد نے اپنے طور پر شہزادی کو انکار کا مصمّم ارادہ کر لیا تھا، لیکن جب شہزادی نے اس سے بات شروع کی، تو دلشاد ایک دم سے کانپ گیا ۔


شہزادی نے سیدھا عارفہ کا نام لے کر بات شروع کی تھی ۔

دلشاد نے سنبھلنے کی کوشش کرتے ھوئے عارفہ کا نام سن کر لا علمی کا اظہار کیا، کہ وہ اس نام کی کسی لڑکی کو نہیں جانتا ۔ لیکن شہزادی نے بھی پکّا کام کیا ھوا تھا۔ اس نے دلشاد سے کہا، کہ وہ نہ صرف ان کو کئی دنوں سے ملتے ھوئے دیکھ رھی تھی، بلکہ اس نے ایک گواہ بھی بنا لیا تھا۔ گویا دلشاد اور عارفہ کی ملاقاتوں کا احوال شہزادی کے علاوہ کسی اور کو بھی معلوم تھا۔

دلشاد پہلے تو انکار پر قائم رہا، لیکن جب شہزادی یہ کہ کر جانے لگی، کہ وہ پھر چوھدری کے پاس جا رھی ھے، اور شام کو اس سے چوھدریوں کی چوپال پر ھی ملاقات ھو گی، تو دلشاد کی سانس خشک ھو گئی۔ اس کی آنکھون کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ پردہٴ تصوّر پر اس نے اپنے آپ کو چوھدری کے کتّوں کے سامنے پڑے ھوئے پایا، جسے چوھدری کے کتّے بڑی بے رحمی سے بھنبھوڑ رھے تھے۔

یہ تصوّر کرتے ھی وہ جھنجھنا اٹھّا۔ اس نے بھاگ کر شہزادی کو روکا، اور اس کی منّت کرتے ھوئے روک لیا۔ شہزادی مسکرا دی، اور دلشاد کو جپھی ڈالنا چاھی، مگر دلشاد ایک دم سے پیچھے ھٹ گیا۔ شہزادی دوبارہ مسکرا دی ۔ اس نے دلشاد سے کہا، کہ اگر وہ اس کے جسم اور حسن سے مستفید نہیں ھونا چاھتا، تو اس کی مرضی۔ ساتھ ھی اس نے رازداری کے بدلے میں دلشاد کو اپنی جیب مین موجود ساری رقم شہزادی کو دینے کا حکم دیا، مزید ستم یہ کہ، اس نے دلشاد کو ڈھائی من گندم اپنے گھر میں پہنچانے کا حکم دیا۔ دلشاد نے پیسے تو دے دئے، مگر گندم والی بات پر پس و پیش سے کام لینا چاھا، لیکن شہزادی اپنی بات پر بضد رھی۔ آخر دلشاد کی منّت سماجت، اور کئی منٹ کی تکرار کے بعد، شہزادی ایک من گندم پر مان گئی۔
گندم دلشاد نے اس کے گھر میں آج رات کو پہنچانا تھی

Quote



شہزادی نے دلشاد کی الجھن دور کرنے کے لئے اس کو بتا دیا تھا، کہ اس کا بوڑھا باپ دو دن کے لئے گاؤں سے باھر گیا ھوا ھے، اور اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کے سامنے اس کو کوئی مسئلہ نہیں ھو گا۔ رہی اس کی ماں، تو وہ خود شہزادی کے ھر کام میں اس کی حامی اور خاموش مدد گار تھی۔

دلشاد اپنی فطری بزدلی کے باعث شہزادی کے پہلے ھی وار میں پسپا ھو گیا تھا۔ اگر اس وقت وہ ذرا سی عقل مندی سے کام لیتا، تو شہزادی اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی تھی۔ اس لئے ، کہ شہزادی نے ابھی تک صرف ان کو ملاقات کرتے ھوئے دیکھنے کی بات کی تھی۔ اس کے پاس ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔ اور صرف شہزادی کے زبانی کلامی بتانے پر چوھدری اتنی آسانی سے اس کا یقین نہیں کرتا۔ الٹا شہزادی ھی پھنس جاتی۔ چوھدری اپنی بیٹی پر اس قسم کے الزامات، اور وہ بھی شہزادی کی زبانی، سن کر، یقیناْ شہزادی کو ھی الٹا لٹکا دیتا ۔ 

لیکن دلشاد کے اندر اتنی عقل نہیں تھی، یا پھر وہ اچانک حملے سے وقتی طور پر اتنا حواس باختہ ھو گیا تھا، کہ اتنی آسانی سے شہزادی کے سامنے کھل گیا۔
اسے معلوم نہیں تھا، کہ اس کا اس طرح سے شہزادی جیسی لڑکی کے سامنے اعتراف کر لینا، کل اسے کتنی بڑی مصیبت سے دوچار کر سکتا ھے۔ 
*********************

دلشاد رات کے گیارہ بجے شہزادی کے گھر کے باھر موجود تھا۔ گھر کیا تھا، ایک کچّا سا مکان تھا، جس کے گرد کچّی دیوار بنا کر شہزادی کے غریب باپ نے اس کو گھر میں تبدیل کیا ھوا تھا۔ ادھر ادھر کا جائزہ لینے کے بعد، دلشاد شہزادی کے گھر میں داخل ھوا ۔ اس نے جیسے تیسے کر کے ایک من گندم اس کے گھر میں پہنچا دی تھی۔ دلشاد نے گندم اپنے کندھے پر اٹھّا رکھّی تھی، جو اس نے شہزادی کے بتائے ھوئے کمرے میں رکھّ دی ۔ اور جونہی وہ کمرے میں گندم رکھ کے پلٹا تھا، تو ایک دم سے کوئی اس کے سینے سے آ لگا تھا۔
اس اچانک افتاد پر دلشاد گھبرا گیا تھا۔ اس نے سنبھلتے ھوئے غور کیا، تو اسے معلوم پڑا ، کہ یہ شہزادی ھی تھی۔
اس نے غور کیا، تو وہ سٹپٹا گیا، کہ شہزادی اس وقت مکمّل طور پر ننگی تھی، اور اس نے کمرے کی کنڈی بھی لگا دی تھی۔ 

دلشاد تو جیسے پتھّر کا ھو گیا تھا۔ اس کے وھم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ شہزادی اس طرح سے بھی اسے گھیر سکتی ھے۔ آج جب کھیت میں اس نے شہزادی کی پیش قدمی پر اسے ردّ کر دیا تھا، تو شہزادی کے انداز سے اسے یہی محسوس ھوا تھا، کہ وہ اب اس سے اس طرح کی کوئی امّید نہیں رکھتی۔ اسے کیا معلوم تھا، کہ شہزادی نے اس کے لئے کیا منصوبہ سوچ رکھّا تھا۔ 

دلشاد نے کوشش کی، کہ شہزادی کی گرفت سے نکل سکے۔ گو کہ دلشاد شہزادی کے مقابلے میں انتہائی طاقتور تھا، لیکن اس وقت اس نے محسوس کیا، کہ اس کا دفاعی انداز انتہائی کمزور ھے۔ وہ شہزادی کو اپنے سے الگ کرنے کی کوشش تو کر رھا تھا، مگر یہ بھی ایک سچّائی تھی، کہ اسے شہزادی کو ننگا دیکھ کر اور اپنے ساتھ یوں وارفتگی سے چمٹے ھوئے محسوس کر کے دلشاد کو بہت مزہ آ رھا تھا۔ 

بڑے سے بڑا پرہیزگار اور پاکباز قسم کا مرد بھی تنہائی میں اپنے سامنے ایک ننگی لڑکی کو دیکھ کر لڑکھڑا سکتا ھے، کہ یہ چیز انسان کی جسمانی ضروریات میں سے ایک ھے، اور انسان کی جبلّت میں شامل ھے۔ ایک مکمّل مرد کسی بھی ننگی عورت کو تنہا دیکھ کر اس کی جانب مقناطیسی انداز میں کھنچتا چلا جاتا ھے۔ دلشاد کے ساتھ بھی یہی ھو رھا تھا۔ وہ نہ چاھتے ھوئے بھی شہزادی کے ساتھ لپٹ رھا تھا۔ اس کی گول ، سڈول اور بڑی بڑی چھاتیوں کے لمس نے اس کے اندر جنسی اشتعال پیدا کر دیا تھا۔ اس کا ھتھیار کھڑا ھو چکا تھا۔ اس نے ابتدا میں جو کمزور دفاعی انداز اختیار کئے تھے، اب وہ بھی نہیں کر رھا تھا، اور آخر اس نے شہزادی کو اپنی بانھوں میں بھر لیا۔ شہزادی بھی یہی چاھتی تھی۔ جب اس نے دیکھا، کہ دلشاد نے رضامندی ظاھر کر دی ھے، تو شہزادی نے اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ یہ مکمّل خود سپردگی تھی۔ دلشاد نے بھی اسے اپنے وجود میں سما لیا۔ 
دلشاد نے اسے چار پائی پر لٹا لیا۔ شہزادی نے جلدی جلدی اسے کپڑے اتارنے کا کہا۔ دلشاد بھی اب بے بس ھو چکا تھا۔ اس نے جلدی جلدی اپنی شلوار اتاری، اور شہزادی کے اوپر لیٹ گیا۔ شہزادی کے ھونٹوں اور جسم پر اپنے ھونٹوں کے نشان ثبت کرتے ھوئے اس نے اس کے ممّوں کی کسّنگ شروع کر دی۔ اس سے شہزادی تڑپ اٹھّی۔ اس نے لمبے لمبے سانس لینے شروع کر دئے۔ دلشاد کی اپنی حالت بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔ چند منٹ کی کسّنگ کے بعد ھی دلشاد کے لئے اپنے آپ پر قابو رکھنا دوچند ھو گیا۔ چنانچہ اس نے شہزادی کی ٹانگیں پکڑیں، اور اوپر کو اٹھا دیں ۔ شہزادی خود بھی چدائی کروانے میں ماھر تھی۔ 

Quote



اس نے فوراْ ھی اپنا زاویہ ایسے کر لیا، کہ دلشاد آسانی سے اس کی پھدّی مار سکے۔ جب دلشاد اس کی پھدّی پر اپنا لن سیٹ کر رھا تھا، شہزادی اس کے لن کو دیکھ کر مسکرائی۔ اسے دلشاد کا لن پسند آیا تھا۔ دلشاد نے اس کی پھدّی پر اپنا لن سیٹ کیا، اور ایک ھی جھٹکے سے سارا لن اندر دھکیل دیا۔

دلشاد اس وقت اپنے جذبات پر قابو پانے میں ناکام ھو رھا تھا۔ گاؤں کے سادہ ماحول میں رہنے والے کسی لڑکے کو جب پہلی پہلی بار کسی لڑکی کو چودنے کا موقع ملتا ھے، تو وہ ایسے ھی باؤلہ ھو جاتا ھے، جیسے دلشاد ھو رھا تھا۔ اس نے شہزادی کو اسیے چودا ، کہ باوجود کئی مرتبہ چدوائی کروانے کے، شہزادی رو پڑی۔ دلشاد نے جم کر اس کی پھدّی ماری، اور اس کی پھدّی کے اندر ھی فارغ ھو گیا۔ 
اس کام سے فارغ ھونے کے بعد، دلشاد کے اوسان بحال ھوئے، تو اسے اپنے کئے پر شرمندگی ھونے لگی۔ اسے محسوس ھوا، کہ اس کے سامنے عارفہ کھڑی اسے اس حالت میں دیکھ رھی ھے۔ اس خیال کے آتے ھی وہ انتہائی خجالت محسوس کرنے لگا۔ شہزادی کپڑے پہنے اسے دیکھ رھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں شرارت رقصاں تھی۔ وجود کی گرمی نکل جانے پر وہ انتہائی سکون سے لیٹی ھوئی تھی۔ 
دلشاد نے جلد سے جلد وہاں سے ھٹ جانے میں ھی عافیّت جانی، کہ وہاں کھڑے رھنے سے اس کے اندر احساس شرمندگی بڑھتا ھی چلا جا رھا تھا۔ شہزادی نے بھی اس کے جانے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ دلشاد دیوار پھلانگ کر اس کے گھر سے نکل آیا۔ 
دلشاد اپنے تئیں کسی کی نظرون میں آئے بغیر وہاں سے نکل آیا تھا، مگر اسے معلوم نہیں تھا، کہ اس وقت اسے کوئی دیکھ رھا تھا، اور وہ دیکھنا والا کوئی اور نہیں، بلکہ شکیلہ ھی تھی۔ 
وھی شکیلہ، جو اس کی اور عارفہ کی دستان محبّت کی واحد ھمراز تھی ۔

شکیلہ کا گھر عارفہ کے گھر سے کچھ ھی فاصلے پر واقع تھا۔ شکیلہ کو اس وقت نیند نہیں آ رھی تھی، اور وہ اس وقت اپنے گھر کی چھت پر کھڑی ٹہل رھی تھی، جب اس نے دلشاد کو شہزادی کے گھر کی دیوار پھاند کر اس کے گھر سے نکلتے دیکھا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر ساکت رہ گئی۔ 

Quote


شکیلہ کی کیفیّت ایسی ھو چکی تھی، کہ کتنی ھی دیر تک تو وہ وہاں کھڑی اس طرف دیکھتی رھی، جس طرف دلشاد غائب ھوا تھا۔ حالانکہ اسے اندھیرے میں کچھ بھی نظر نہیں آ رھا تھا۔ دلشاد کب کا جا چکا تھا، لیکن شکیلہ مسلسل اسی جانب گھورے جا رھی تھی۔ پھر ایک آواز نے اسے ھوش کی دنیا میں واپس لا پھینکا تھا ۔
یہ اس پہرے دار کی آواز تھی ، جو گاؤں کی گلیوں میں ٹہل رھا تھا، اور " جاگتے رہنا " کی آواز لگا کر ، پہرے پر اپنے موجود ھونے کا احساس دلا رھا تھا ۔ 

شکیلہ نے دوبارہ اس طرف دیکھا، مگر اسے کہیں بھی دلشاد نظر نہ آیا۔ وہ تو کب کا جا چکا تھا۔ شکیلہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھری، اور چھت پر موجود چارپائی پر بیٹھ گئی۔ رات کے اس پہر، دلشاد کا شہزادی کے گھر سے یوں چوروں کی طرح سے نکلنا، شکیلہ کو بہت کچھ سمجھا گیا تھا۔ وہ بھی اسی گاؤں میں رہتی تھی، جہاں شہزادی کے کردار کی داستانیں مشہور تھیں، چنانچہ وہ بھی شہزادی کو اچھّی طرح جانتی تھی۔ بلکہ ایک لڑکی ھونے کے ناطے ، اسے تو شہزادی کے کردار کے بارے میں کئی ایسی باتیں بھی معلوم تھیں، جو کئی لڑکوں اور دوسرے گاؤں والوں تک پہنچ بھی نہیں پاتی تھیں۔ 
اور اسی شہزادی کے گھر سے اس کی عزیز از جان سہیلی ، عارفہ کے محبوب دلشاد کی اس وقت برآمدگی، یقیناْ دلشاد اس وقت شہزادی کے وجود سے جسمانی تسکین پانے کے لئے ھی اس کے گھر گیا ھو گا۔ 

شکیلہ کو ایسے لگا، جیسے اس کے اندر کوئی شے ٹوٹ گئی ھو ۔ اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ حالانکہ دلشاد اس کی پسند نہیں تھا۔ لیکن اسے اپنی سہیلی اپنی جان سے بھی بڑھ کر عزیز تھی ۔ اچانک اس کی چھٹی حس نے اسے خبر دار کیا۔ 

"آج اگر دلشاد شہزادی جیسی لڑکی کے جسم کی خاطر بھٹک گیا تھا، تو کیا خبر، کل کو وہ عارفہ کی عزّت سے بھی کھیل جائے ۔ " ، اور یہ خیال آتے ھی وہ تڑپ گئی ۔ 

"نہیں ، ، نہیں ، ، ایسا نہیں ھو سکتا ۔ میں ھر گز ایسا ھونے نہیں دوں گی ۔ "

شکیلہ کا دماغ تیزی سے سوچنے میں مصروف تھا۔ اس کے اندر سوال و جواب کا ایک سلسلہ شروع ھو گیا تھا۔ 


" لیکن اسے کرنا کیا چاھئے ؟ " 

Quote


اسے فوراْ عارفہ کو خبر دار کرنا چاھئے۔"

شکیلہ نے کھڑے ھو کر سوچا، مگر اسی لمحے اس کے اندر ایک اور سوال نے جنم لیا۔ 

" کیا عارفہ دلشاد کے بارے میں کوئی بھی منفی بات سن کر شکیلہ پر یقین بھی کرے گی ؟ کہیں ایسا نہ ھو، کہ دلشاد کے بارے میں اس کی زبانی ایسی بات سن کر عارفہ، الٹا اس کو ھی اپنی اور دلشاد کی محبّت کا دشمن سمجھ بیٹھے، اور اسی سے دوستی ختم کر لے ؟ "
اور شکیلہ ایک دم سے بیٹھ گئی۔ 
اس کے اندر ایک کشمکش سی چل پڑی تھی ۔ گو کہ وہ اور عارفہ بچپن کی سہیلیاں تھیں، لیکن وہ دوستی اور محبّت کی الگ الگ طاقت سے واقف تھی ۔ 
وہ عارفہ کو بچپن سے جانتی تھی، اور اس کی ضدّی طبیعت سے واقف تھی ۔ عارفہ نے ایک چوھدری کے گھر میں جنم لیا تھا۔ ایک لڑکی ھونے کی وجہ سے اس کا دل بے شک نرم ھی تھا، مگر یہ بھی حقیقت تھی، کہ ضد کے معاملے میں عارفہ سیدھی اپنے باپ پر گئی تھی ۔ 
اسے معلوم تھا، کہ اس کی بچپن کی سہیلی دلشاد کے معاملے میں اتنی آگے جا چکی ھے، کہ وہ شکیلہ سے دوستی تو ختم کر سکتی ھے، لیکن دلشاد کو چھوڑنے کا وہ تصوّر بھی نہیں کر سکتی ۔

اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار عارفہ کا معصوم چہرہ آ رھا تھا۔ اسے اچھّی طرح سے معلوم تھا، کہ عارفہ دلشاد کے معاملے میں کتنی زیادہ سیرئس ھو چکی تھی۔ وہ جانتی تھی، کہ اس کی عزیز از جان سہیلی، عارفہ کی سوچ دلشاد سے شروع ھوتی تھی، اور صرف اور صرف دلشاد پر ھی ختم ھو جاتی تھی۔ 
عارفہ صحیح معنوں میں دلشاد کی محبّت میں گرفتار ھو چکی تھی ۔
مگر دلشاد کیا کر رھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟
کتنی ھی دیر تک وہ یونہی سوچوں کے اندھے جنگلوں میں بھٹکتی رہی، اور عارفہ کو دلشاد کے بارے میں خبر دار کرنے کے لئے مناسب طریقہ تلاش کرتی رہی ۔ لیکن اسے کچھ سمجھ نہ آئی ۔ آخر اس نے سوچا، کہ فی الحال وہ کل صبح عارفہ سے اشارے کنائے میں بات کر کے معلوم کرنے کی کوشش کرے گی، کہ اگر دلشاد اس سے دست درازی کی کوشش کرتا ھے ، تو وہ کیا ردّ عمل اختیار کرے گی۔ اور اگر عارفہ نے مثبت جواب دیا، تو ھی وہ بات بڑھائے گی، ورنہ خاموشی سے ھی عارفہ کا اس انداز سے خیال رکھّے گی، کہ دلشاد چاھے بھی، تو عارفہ کی عزّت سے نہ کھیل سکے ۔ وہ عارفہ کو دلشاد کے پاس زیادہ دیر تک تنہائی میں نہیں بیٹھنے دے گی ۔ 
اسی طرح سوچتے سوچتے وہ چھت پر ھی سو گئی ۔ 

1 user likes this post  • Pyasi Behan
Quote






stories exbiibangali hot sexysexys storysshakeela sex boobsGanne ki mithas puri Kahani photo sahitanna vadinaxxx archanaaunty clevagemaa sex story in hindimms clips indianaunty story in hindibhai bahan storyRu pundaiyil irandu poolxsex storiesindian sexy bhabisshameless girls nudechoot baalpunjabi hot girl picmarathi new sexy storybhai ke saathtelugu sex hot storiespregnent kiyama ke sath sexsexy storrystamil insent storywww.sexystories.netsavita bhabhi bra sellerdesi prn videoraat ki hawasbig desi cocklatest desi scandallicks her own pussychoot main lundgujarati sex audiotamil pussy videosdesi breastfeedsexy sister story hinditulgu sexadult xxx jokessexy desi exbiiaunty sex telugu kathalutamil speaking sex videosxnxx se storiesindian aunties hot navelbhai bahen ki sex storykannada font sex storiesread online hindi sex comicsdoodh sex storydesi wet auntyxxx urdu font storiesdesi lesbienstelugu kama sexdesi punjabi boobsteri gand mepronstars pictureshindi sexys storytamil sex kathaikkalBurchodbhaiamma magan sex stories in tamildesi aunties chootmalayalam aex storiesshakeela xbollywood heroins nude picchachi kooffice blackmail storiesurdo sexy khaniyahairy armpits of desi girlsbap beti kahanimms indian clipexbii desi beautysax storieshot telugu katalubengali xxdex storieskaal meisie fotosinscest comicsandhra desi auntiesexbii hot photosgirls watching jerk offdesi hindi kahanihot gaandWww.dawnlod ashaywo.com