Click Here to Verify Your Membership
First Post Last Post
All In One Sarfarosh سرفروش ٭٭

قسط نمبر 5 ۔۔۔۔


اگلی صبح بڑی دلکش تھی ۔۔۔میں بڑے اطمینا ن سے اٹھا ۔۔آنکھ کھلی تو کچھ عجیب سامنظر لگا۔۔۔۔پھر یاد آیا کہ میں مندر میں موجود ہوں ۔۔۔۔۔جیوتی میرے برابر میں اب تک تھی ۔۔۔۔۔۔۔جسم پر سفید چادر پڑی تھی جس سے دلکش ابھار جھلک رہے تھے ۔۔۔میں نے جلدی سے اٹھ کر اپنی پجاری والی حالت میں واپس آگیا ۔۔۔۔آئی فون میں کیم سوفٹ وئیر کھولا ۔۔۔۔مندر کے معمولات ویسے ہی جاری تھی ۔۔۔۔اتنے میں جیوتی کی آنکھ کھلی ۔۔مجھے قریب دیکھ آنکھوں میں نشہ سا آیا تھا۔۔۔۔خود کو چادر میں دیکھ کر کچھ سمٹی ، شرمائی اور اٹھ کر ساڑھی پہننے لگی ۔ساڑی پہن کر وہ بیڈ پر بیٹھی ۔۔اور کہنے لگی کہ مہاراج ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں آپ کی داسی بن کر یہیں رہ لوں ۔۔۔اب واپس جانے کا من نہیں ہوتا ۔۔۔آپ کا ہر کام اور سیوا کروں گی ۔۔۔بس اپنے چرنوں میں جگہ دے دیں ۔۔۔میں نے ایک نظر اس حسن کی دیوی کو دیکھا ۔۔۔اور کہا اچھا پہلے ناشتے کا بندوبست کریئے ۔۔۔رات کا بھوجن بھی نہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔جیوتی کو تیار ہونے کا کہہ کرمیں نے گھنٹی بجا ئی ۔۔ ۔۔۔چھوٹا پجاری انتظار میں تھا ۔دوسرے فلور کے کمرے سے نکل کر وہ اوپر آنے لگا۔۔۔اس کا بستر بھی خالی نہیں تھا ۔۔ایک نسوانی وجود وہاں بھی لیٹا ہوا تھا ۔۔پجاری جیوتی کو لے کر چلا گیا۔۔۔میں نے عاصم کوکال کی کہ ۔۔کہ حلیہ تبدیل کر کے رادھا کشن مند ر چلے آؤ ۔۔اور بڑے پجاری سے ملنے کا بولو۔۔وہ کچھ حیران تو ہو ا مگر سوال پوچھے بغیر بیس منٹ میں پہنچنے کا کہا ۔۔میں نے چھوٹے پجاری کو بتا دیا کہ آنے والے کو کمرہ میں پہنچا دیا جائے ۔۔۔۔

آدھے گھنٹے بعد عاصم میرے سامنے تھا ۔۔۔وہ مجھے پہلی نظر میں پہچان گیا تھا ۔۔۔۔لپٹ کر بولا سرکار بہت تیز جا رہے ہو۔۔۔کل تک ہمارا غریب خانہ ۔۔۔اور آج اس عالیشان کمرے میں ۔۔۔۔

میں نے اسے پوری صورتحال سمجھا دی ۔۔اور آگے کو پوچھا ۔۔وہ بھی سیریس ہو گیا ۔۔

راجہ صاحب ۔۔آپ نے آتے ہی اسپیڈ ماری ہے ۔۔اب تک پورا پلان میرے دماغ میں تھا ۔اس لئے کہیں نوٹ نہیں کیا تھا ۔۔اب ضرورت پڑی ہے تو بتاتا ہوں ۔۔۔۔

اس نے ایک کاغذ اٹھا اورمیرے سامنے بیٹھ گیا ۔۔اور پینسل سے ڈرائنگ بنانے لگا۔۔۔۔یہ راج گڑھ سے شملہ تک کا روڈ ہے ۔۔۔۔شملہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی دائیں طرف ایک روڈ نکل رہا ہے ۔۔جو کانگرا کی طرف نکل رہا ہے ۔۔۔اس روڈ پر ہی انڈر گراؤنڈ وہ ہیڈ کوارٹر بنا گیا ہے ۔۔۔۔جس کی میں نے رپورٹ دی تھی ۔۔یہ ہیڈ کوارٹر مکمل طور پر انڈرگراؤنڈ ہے ۔یہاں صرف کنٹرولنگ سسٹم ہے ۔۔۔۔باقی ڈرون طیارےشملہ کے ہی ایک آرمی بیس میں خفیہ طور پر رکھے ہیں ۔۔وہ وہیں سے ہی اڑتے ہیں ۔۔دوسرا اسٹاپ پٹھان کوٹ ائیر بیس میں ہے ۔۔ان دونوں جگہ پر ڈرون طیارے رکھے گئے ہیں ۔۔۔۔اب یہ شملہ والے ہیڈ کوارٹر میں۔سامنے مین انٹرنیس ہے ۔۔۔اسٹاف بھی اندر رہتا ہے ۔۔ایک مہینے بعد اسٹاف تبدیل ہوتا ہے ۔۔جب اسٹاف آتا ہے تو اندر بیٹھے ہوئے لوگ کیمرہ میں دیکھ کرانٹرنیس کھولتے ہیں ۔۔اور اب تک کی معلومات کے مطابق فیس ڈیٹکٹ کرنے کے علاوہ ریٹینا اسکینر بھی لگائے گئے ہیں ۔۔غلط بندہ اندر داخل کرنا مشکل ہے ۔اور پیچھے والی انٹرنس ایمر جنسی حالت میں کھولی جاتی ہے۔۔۔۔ہیڈ کوارٹر کے کئی کلو میٹر تک فضائی نگرانی اور زمینی نگرانی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔

عاصم نقشے کے ساتھ بتاتا بھی جار ہا تھا ۔۔۔۔۔آخر میں بات ختم کرکے وہ رکا۔۔۔۔اور سر اٹھایا ۔۔

ایک مہینے تک جو اسٹاف اندر رہتا ہے ۔۔اس کا کھانا پینا اور دوسری چیزیں کیسے پوری ہوتی ہیں ؟میں نے پوچھا ۔

عاصم مسکرایا ۔۔میں اسی سوال کی آپ سے توقع کر رہا تھا ۔۔یہاں راج گڑھ میں آرمی کا سپلائی سنٹر ہے ۔۔۔ہر دس دن بعد یہاں سے فروزن فوڈ ، اور دوسری چیزیں یہاں سے اسپیشل ٹرک سے بھیجے جاتے ہیں ۔ٹرک کا اپنا مخصوص روٹ ہے ۔۔۔۔اور اس ٹرک کی خاص بات یہ ہے کہ یہ باقاعدہ ٹریک کیا جاتا ہے ۔۔۔راستے میں کہیں بھی رک جائے تو فورا ہی چیکنگ کرتے ہیں ۔۔کسی بھی مشکل میں یہ ٹرک پورا خودہی بلاسٹ ہو جاتا ہے ۔یہ ٹرک پچھلی انٹرنس سے ہر دس دن بعد اندر داخل ہوتا ہے ۔۔۔اور اندر کا کوڑا کچرا لئے باہر آتا ہے ۔۔۔۔۔اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہو گاکہ میں یہاں راج گڑھ میں کیا کر رہا ہوں ۔۔۔

اس ہیڈ کوارٹر کی سیکورٹی میجر راجیش کے ذمے ہے ۔۔یہ آرمی کی اسپیشل فورس سے انٹیلی جنس میں ٹرانسفر ہوا تھا ۔۔۔اور ٹرک لینے یہ خود آتا ہے ۔۔۔۔اس کے ساتھ بلیک کیٹ کمانڈوز کا دس رکنی دستہ ہے جن کو ہر قسم کے اختیارات بھی حاصل ہیں ۔۔۔

میں یہ سب معلومات سن کر سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔اب تک پلان بنانے کاکچھ خاص تجربہ نہیں تھا ۔۔بس فوری ایکشن میں ہی میرا دماغ تیز چلتا تھا۔۔۔۔مجھے سوچ میں دیکھ کر عاصم بولا ۔۔۔۔راجہ صاحب میں خوش قسمتی سے سپلائی سینٹر میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔آفیسر رینک کے کچھ لوگ ہیں ۔۔۔اب صرف اس ٹرک کے ڈرائیور کو ٹریس کرنے میں لگا ہوا ہوں ۔۔۔۔۔اگلی سپلائی کل ہی جانے والی ہے ۔۔آج رات یہ میجر راجیش راج گڑھ آئے گا اور صبح چار بجے ٹرک لے کر شملہ پہنچے گا۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے ہی کچھ کرنا ہو گا۔۔۔

میں نے عاصم سے پوچھا ۔۔۔اگر ہیڈکوارٹر سے میجر راجیش نہ آئے تب ٹرک کی چیکنگ کی کیا صورتحال ہو گی ۔۔۔۔۔۔

پھر کافی آسانی ہے ہم ٹرک میں اپنے لئے جگہ بنا لیں گے ۔۔۔سپلائی آفیسر ہی اپنا بندہ ہے ۔۔۔انہیں بھی میجر راجیش کا ہی ڈر ہوتا ہے۔۔ورنہ یہ تو اس میں بھی اپنے کھانچے نکا ل لیں ۔۔عاصم نے پرجوش آواز میں کہا۔

تو پھر سمجھو کہ اس مرتبہ میجر سپلائی لینے نہیں آئے گا۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔

عاصم اچھل ہی پڑا تھا ۔۔۔۔کیا مطلب ۔۔الہ دین کا چراغ تو آپ کو نہیں مل گیا ۔۔۔

الہ دین کا چراغ تو نہیں ملا مگر میجر راجیش کی بیوی ضرور مل گئی ہے ۔۔۔۔۔اور مجھے یقین ہے کہ وہ راجیش کو روکنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔۔۔میں نے پچھلی رات کی کہانی عاصم کو سنا دی ۔۔وہ بھی ہنسنے لگا۔

اور پھر کہا کہ راجہ صاحب پلان بالکل واضح ہے ۔۔آپ راجیش کو کسی طرح رکوا دیں ۔۔۔سپلائی سینٹر والا اپنا بندہ ہے ۔۔۔۔اس سے ملنے کے بہانے جائیں گے اورٹرک کے نیچے ہی جگہ بناتے ہیں ۔۔۔میں دو چار بیلٹ کا انتظام کر لیتا ہوں جس سے ہم ٹرک کے نیچے خود کو باندھ سکیں ۔۔۔ایک مرتبہ ہیڈ کوارٹر میں داخل ہو جائیں تو پھر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔میں نے بھی ہامی بھر لی ۔عاصم کو تجوری دکھائی کہ اس کا کیا کرنا ہے ۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولا آپ کی دولت ہے ۔۔آپ جانیں آپ کا کام ۔۔ہم تو پرندوں کی طرح ہیں ۔۔آج یہاں تو کل وہا ں ۔۔۔۔میں نے بیل بجا کرچھوٹے پجاری کو بلوا لیا۔۔وہ عاصم کو باہر چھوڑ کر آ گیا ۔۔

Quote

جیوتی بھی فریش ہو کر آ گئی تھی ۔۔۔اس کے گالوں کی سرخی پہلے سے بڑھی ہوئی تھی ۔۔۔۔وہ میرے لئے ناشتہ لے آئی تھی ۔۔۔ کل جب میں نےدیکھا تھا تو چہرے پر اداسی تھی ۔۔مگر آج وہ اداسی دور ہو چکی تھی ۔۔۔۔جیوتی کے انداز بھی تبدیل ہو چکےتھے ۔۔وہ راجیش کو چھوڑنے کو تیار تھی ۔۔۔اور ناشتہ کے دوران وہ کئی بار اس کا اظہار بھی کر گئی ۔۔۔۔۔۔میں خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔۔ناشتے کے بعد میں نے پوچھا کہ تمہارا گھر کہاں ہے ۔۔اس نے بتایا کہ راج گڑھ میں وہ ساس سسر کے ساتھ رہتی ہے ۔۔جبکہ شملہ میں اس کا اپنا بھی ایک گھر ہے ۔۔۔میں نے ایڈریس اور نمبر لے لیا ۔۔اور پھر تجوری کی طرف بڑھا ۔۔۔۔زیورات کا ایک خوبصورت سیٹ نکال کر جیوتی کو دیا ۔۔۔۔۔اس نے انکار کیا کہ مہاراج ان چیزوں کی مجھے ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔میں نے کہاکہ یہ میری نشانی سمجھ کر رکھو ۔۔۔وہ خوش ہو گئی ۔اور وہیں پہن کر دکھانے لگی ۔۔۔اتنے میں میں نے ایک چادر اٹھا کر بیڈ پر بچھا دی ۔۔۔اور تجوری نکال کر خالی کرنے لگا۔جیوتی اتنی دولت دیکھ کر حیران رہ گئی ۔۔۔میں نے ساری دولت اٹھا کر باندھ دی ۔۔اور جیوتی سے کہا کہ اب غور سے میری بات سنو ۔۔۔تم ابھی یہاں سے اپنے گھر جا رہی ہو ۔۔یہ دولت اپنے ساتھ لے جاکر چھپا کررکھنی ہے ۔۔۔میں تمہیں فون کروں گا ۔تو تم یہ لے کرآؤ گی ۔۔۔اس دولت سے تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ میں تم پر کتنا بھروسہ کرتا ہوں ۔یہاں مندر پر مجھے کسی پر بھروسہ نہیں ہے ۔۔یہ لوگ مجھے مار کر چھوٹے پجاری کو آگے لانا چاہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔سیاہ آنکھیں مجھ پر جمائے جیوتی غور سے پوری بات سن رہی تھی ۔۔۔۔اب کرنے والا کام سنو ۔۔۔۔۔آج رات کو تمہار ا پتی راج گڑھ آ رہا ہے ۔۔۔صبح وہ شملہ کے لئے نکلے گا۔۔تم کچھ بھی کرو ۔۔اسے کل ناشتے تک اپنے پاس روک لو ۔۔آنے والی رات اس کے لئے بہت اشبھ ہے ۔۔۔۔ اگر کل وہ جانا چاہے تو خیر ہے جانے دینا ۔۔۔جیوتی کا ذہن کچھ کنفیوژ ہوا تھا کہ مجھے کیسے پتا راجیش نے آج رات آنا ہے ۔۔مگر وہ اسے بھی میری کوئی کرامت سمجھی اور سر ہلاتے ہوئے راضی ہو گئی ۔۔۔۔جاتے ہوئے جیوتی پھر لپٹنے لگی ۔۔۔مہاراج میں آپ کے فون کا انتظار کروں گی ۔۔اس کے گارڈ مندر میں ہی تھے ۔۔اور مجھے یقین تھا کہ حفاظت سے یہ دولت لے جائےگی ۔۔۔۔۔۔جیوتی کو رخصت کرنے کے بعد میں نےپجاری کو کھینچ کر باہر نکالا۔وہ مجھے اپنی جگہ پر براجمان بیٹھا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اس کی حالت پتلی ہوئی وی تھی ۔۔۔ایک ہاتھ کھول کر دوسر اس کے پیروں سے باندھ دیا اور رات کا باسی کھانا کھانے کو دیا۔۔۔۔کھانا کھاتے ہوئے میں اسے دیکھ رہا تھا۔۔ایک رات کی قید نے اس کی اکڑ ختم کر دی تھی ۔۔۔۔سالہا سال کی ہڈ حرامی نے اسےکام چور اور نکھٹا بنا دیا تھا ۔۔۔اور بزدل تو یہ قوم ہمیشہ سے ہے ۔۔۔کھانا کے بعد میں نے اسے سمجھانا شروع کیا کہ میں تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔۔۔۔میرے جانے کے بعد کوئی شورشرابہ نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔ورنہ دوبار آ کر جان سے ماروں گا ۔۔اسے اچھے سے سمجھا کر میں نے ا س کا آئی فون اٹھایا اور ساری ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں ۔۔۔پھر خیال آیا تو موبائل ہی نیچے مار کو توڑ دیا ۔۔۔میں نے اس کے منکے اور انگوٹھی اتار کے اس کے حوالے کی ۔۔۔اور اپنے پہلےوالے حلیئے میں آ گیا۔عاصم کو مندر کے پیچھے آنے کا کہ میں۔۔بیگ لے کر باہر آیا ۔۔۔۔موبائل ٹوٹنے کیوجہ سے وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔میں نے اس کے کمرے کی چھت سے باہر نکلتی ہوئی ٹائل کو پکڑ کر جھولا اور اوپر چڑ ھ گیا ۔۔بیٹھے بیٹھے میں درخت تک پہنچا ۔۔۔اور درخت سے ہوتا ہو ا نیچے آ گیا ۔۔۔۔۔عاصم پہنچ چکا تھا ۔۔اس کے ساتھ بائک پر بیٹھا اور واپس گھر آ گیا ۔۔۔۔۔۔ چائے کی شدت سے طلب تھی ۔۔اور ہم دونوں میں بھی یہ مشترک بات تھی ۔۔۔عاصم کچن کی طرف بڑھ گیا ۔۔اور کچھ دیر بعد چائے لے کر آیا ۔۔۔چائے کے بعد میں نے عاصم سے ایکسپلوزو کے بارے میں پوچھا کہ ریموٹ کنٹرول اور دوسرے طرح کے مل جائیں گے ۔۔۔اس نے کہا راجہ صاحب آپ بالکل فکر نہ کریں ۔۔جس سپلائی سنٹر سے کل مال جا رہا ہے ۔۔اسی میں اپنی سیٹنگ ہے ۔۔۔۔میں نے سامان کی لسٹ بنانی شروع کر دی ۔۔۔چائے پی کر آرام کرنے لیٹ گیا ۔۔پچھلی رات بھی سکون سے نہیں گذری اور اگلی رات کا کچھ پتا نہیں تھا ۔۔۔عاصم لسٹ لے کر فون کے ساتھ مصروف ہو گیا ۔۔۔شام کو میری آنکھ کھلی تھی ۔۔عاصم باہر گیا ہوا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر میں وہ آ گیا ۔۔ایک بیگ میں مطلوبہ سامان تھا۔۔۔۔۔عاصم بیگ میرے سامنے رکھتے ہوئے بولا ۔۔سرکار سامان حاضر ہے ۔۔۔میں بیگ کھولا اور دیکھ کر حیران رہ گیا ۔۔یہ سی فور چارجز تھے ۔۔۔جو ایک انچ کی مقدار میں ایک ہزار انچ کی تباہی مچاتے تھے ۔مختلف قسم کے ڈیٹو نیٹرز تھے ۔۔آٹو ٹائمر اور دوسرے ریموٹ کنٹرولڈ۔۔۔ساتھ ہی مشین پسٹل ، سائلنسر اور ایمونیشن وغیرہ تھے ۔۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہ ہیڈکوارٹر کی بارات کا مکمل انتظار کر کے لائے ہو ۔۔۔۔۔۔شام ہو چکی تھی ۔۔۔اور عاصم کی معلوما ت کے مطابق راجیش رات کو ہی راج گڑھ آتا ہے ۔۔اور صبح 3بجے فکس یہاں سے نکلتا ہے ۔۔۔۔اوراگرجیوتی راجیش کو اپنے پاس روکتی ہے ۔۔تب کیا سیٹنگ بنتی ہے اس کا کچھ نہیں پتا تھا ۔۔۔عاصم نے ایک بندہ اس کام پر لگا دیا تھا ۔۔۔رات کا کھانا ہم نے گھر میں ہی کھایا تھا ۔۔۔اس کے بعد چائے کا دور چلا ۔۔۔۔رات 1 بجے میں اور عاصم باہر نکلے تھے ۔۔۔۔ہم آرمی والوں کی سپلائی سینٹر پہنچے تھے ۔۔عاصم مین گیٹ سے اندر گیا ۔۔۔اور کچھ دیر بعد ایک پچھلا گیٹ کھلوا کر مجھے اندر لے گیا ۔۔یہ چور راستہ تھا ۔۔۔شراب و شباب کی انٹرنیس کے لئے یہاں سے راستہ نکالا تھا ۔۔۔۔ایک بڑے سے اسٹوریج ہال میں عاصم مجھے چھوڑ کر دوبارہ اندر گیا ۔۔۔۔۔۔یہ ایک گھنٹہ میں نے ایسے ہی گذارا تھا ۔۔۔۔۔اس وقت ٹرک شاید لوڈ ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے لے جا کر دور سے ٹرک دکھادیا۔۔۔کچھ بیلٹ لا کر دیں کہ آپ نیچے جا کر جگہ بنائیں ۔۔۔۔۔میں ان کے سامنے مین گیٹ سے جا کر پچھلے گیٹ سے واپس آؤں گا۔۔۔۔میں بیلٹ لئے ٹرک کے نیچے گھس گیا ۔۔۔۔ٹرک بڑا اور جدید تھا ۔۔۔میں نے آسانی سے بیلٹو ں کی مدد سے دو جھولے بنا لیے ۔۔۔اور بیگ کو رکھ کر ایک جھولے پر نیم دراز ہو گیا ۔۔۔کچھ دیر میں عاصم بھی چھپتا چھپاتا آ گیا ۔۔۔ایک جھولا اس نے سمبھال لیا۔۔۔تین بجنے میں دس منٹ ہی باقی تھے ۔۔۔۔کچھ دیر میں ہمیں قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔۔اور پھر ٹرک اسٹارٹ ہو گیا۔۔۔ 


٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Quote

سیدھے روڈ پر ٹرک کاسفر جاری تھا ۔۔عاصم کی معلومات کے مطابق ٹرک کے اندرونی اسکیننگ کا کوئی سسٹم نہیں تھا ۔۔مرسڈیز کمپنی کا یہ ٹرک پہلے ہی آرمرڈ تھا ۔۔۔اور سپلائی بھی آرمی ہاؤس سے ہوتی تھی ۔۔۔اور درمیان میں کہیں رکنے کی گنجائش بھی نہیں تھی ۔۔اس لئے ہم بے فکری سے ٹرک کے نیچے بیلٹ سے بندھے ہوئے سفر کر رہے تھے ۔۔۔۔عاصم نے بیگ بھی ایک بیلٹ سے اٹکا دیا تھا ۔۔۔اس کے چہرے پر جوش کے آثار تھے ۔۔جو یقینا بہادری کی علامت تھی ۔۔۔۔۔۔میری گھڑی میں ٹائم کے ساتھ اسپیڈو میٹر بھی تھا ۔۔۔اور ٹرک اس وقت سو کلو میٹر کی اسپیڈ سے بھاگ رہا تھا ۔صبح کے اجالے پھیل رہے تھے ۔۔۔۔۔بیس منٹ کا سفر رہ چکا تھا ۔۔۔عاصم نے لیٹے لیٹے ہی بیگ کی زپ کھولی اورایک سائیلنسر لگا پسٹل نکال کر مجھے پکڑا دیا ۔۔۔میں نے میگزین نکال کر چیک کیا ۔۔۔۔اور پھر سائیڈ ہولسٹر میں اٹکا دی ۔۔۔۔ٹرک کی اسپیڈ کچھ آہستہ ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ہم نے چاروں طرف باڑ لگے ہوئے ایریے کو دیکھ لیا تھا ۔۔۔ اور پھر ایک گیٹ سے اندر جا کرٹرک رک گیا تھا ۔۔۔۔ڈرائیور اتر کرباہر آیا ۔۔ ۔۔اور کچھ قدم آگے جا کر رک گیا ۔۔۔۔اور پھر واپس آ کر ٹرک میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔میں نے ہائیڈرولک سسٹم کی مخصوص آواز سنی ۔۔۔۔۔اور ٹرک کے سامنے سے ایک روڈ کا ایک ٹکڑا اندر کی طرف جھکتا چلا گیا۔۔۔۔۔اس پورے ایریئے کو زبردست طریقے سے کیمو فلاج کیا گیاتھا ۔۔۔۔ٹرک آگے بڑھا۔۔۔میں نے دماغ میں کیلکولیشن کر لی ۔ہم زمیں پر رگڑے بغیر اندر پہنچ سکتے تھے ۔۔۔۔۔اور پھر ٹرک اندر ایک بڑے سے گیراج میں جاکر رکا ۔۔۔اگلی سیٹ سے ڈرائیور اترا ۔۔اور پھر تیز قدموں سے ایک طرف بڑھتا چلا گیا ۔۔۔عاصم نے کہا کہ یہ حاضری اور سامان کی لسٹ دینے گیا ہو گا۔۔۔۔۔اترنے کی کریں ۔۔۔۔۔
میں نے بیلٹ میں پھنسے ہوئے پیر نکالے ۔۔۔اور ہاتھوں کے بل پر نیچے لیٹتا گیا ۔۔۔اور کروٹ لے کر سیدھ ہوا ۔۔۔چاروں طرف کا جائز ہ لیا ۔قریب ہی کچھ اور گاڑیاں کھڑی تھیں ۔۔۔۔میں ایک گاڑی کے پیچھے جا کراس کی اوٹ میں ہو گیا ۔آس پاس کیمرے نہیں لگے تھے۔پچھلی سائیڈ پر ایک گیٹ تھا۔۔۔۔۔۔عاصم بھی میرے پاس آ پہنچا ۔۔اس کے ہاتھ میں بھی پسٹل تھی۔۔۔۔جوگرجنے کے بجائے برسنے کے لئےتیار تھی ۔۔۔عاصم مجھے روک کر آگے بڑھا ۔۔جس طر ف ڈرائیور گیا تھا ۔۔۔اور میں گاڑیوں کا جائزہ لینےلگا ۔۔۔یہ مخصوص اندا ز کی آرمرڈ جیپ تھیں ۔۔۔اور شاید میجر راجیش کی ٹیم کی تھیں ۔۔۔۔۔میں نے جیپ سے چھیڑ چھاڑ کا ارادہ موخر کر دیا ۔۔۔۔۔الارم سسٹم اور دوسری چیزیں کی موجودگی کا خطرہ تھا۔۔۔۔عاصم تھوڑی ہی دیر میں واپس آیا تھا ۔۔۔اور بات کرنے کے بجائے دبک کر وہیں بیٹھ گیا ۔۔۔۔میں بھی چپ رہا ۔۔۔اتنے میں قدموں کی چاپ ابھری ۔۔۔۔یہ ٹرک کا ڈرائیور تھا ۔۔۔کوئی فائل اندر ٹرک میں پھینک کر ہماری طرف آیا ۔۔۔ہم اور زیادہ دبک گئے ۔۔۔۔ڈرائیور ہمارے برابر سے ہوتا ہوا پچھلی طرف ایک گیٹ کی طرف گیا تھا ۔۔۔گیٹ پر اسکیننگ مشین تھی ۔۔وہاں اپنا کارڈ سوئیپ کرتا ہوا کھڑا ہی تھا کہ ہم اس کے سر پر پہنچے ۔۔۔ادھر اس نے کارڈ جیب میں ڈالا ادھر میں نے اس کی گردن ناپ لی تھی ۔۔۔مخصوص تکنیک تھی ۔۔۔اس کا آواز اور سانس بھی دب چکی تھی ۔۔۔۔عاصم نے گیٹ کھولااور اندر داخل ہوا۔۔۔اور پھر اوکے کا اشارہ کرتےہوئےہاتھ ہلایا۔۔۔میں نے ڈرائیور کی گردن کو دباتے ہوئے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ڈرائیور بھی شاید کمانڈو ۔ہی تھا ۔۔۔اس نے دروازے کے درمیاں پہنچتے ہی تیزی سے جھک کر مجھے اچھالنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔اگر وہ سمجھ رہا تھا کہ میں اچھلتا ہوا سامنے جا گرتا تو یہ اس کی بھول تھی ۔۔۔۔میں اسی تیزی سے اپنے پاؤں اٹھا کر اس کی گردن سے جھول چکا تھا ۔جھولتے ہوئے میں نیچے بیٹھا تھے ۔اور اسے بھی اپنی گود میں گھسیٹ لیا تھا۔۔۔۔میرے وزن نے اس کے جھٹکے کو بھی برابر کرتے ہوئے اسے پیچھے کھینچا تھا ۔۔۔۔اس کی آنکھیں باہر آئیں تھیں ۔ہاتھ مارنے کی پوری کوشش کی تھی ۔۔مگر۔اگلے تیس سیکنڈ میں وہ بے ہوشی کی نیند سو چکا تھا ۔۔۔۔۔میں نے اٹھتے ہوئے دائیں بائیں نظریں دوڑائیں ۔۔۔۔۔یہ ایک رہائشی حصہ تھا ۔۔یہاں ایک مہینے جو لوگ رہتے تھے ۔۔وہ یہاں پر آرام کرتے ہیں ۔۔۔۔اس کے بعدعاصم نے الماری اور دوسری چیزوں کی تلاشی لینی شروع کر دی ۔۔۔۔۔سیکورٹی کارڈ وہ اپنی جیب میں ڈال چکا تھا ۔۔۔اس کے بعد ہم اگلے کمرے میں پہنچے ۔۔یہ بھی فرنش کمرے کی طرح سجا ہوا تھا۔۔۔اسی طرح اگلے کمرے میں ۔۔۔یہ کل چھ کمرے تھے ۔۔۔عاصم تیزی سے تلاشی لیتا ہوا بڑھ رہا تھا ۔۔اور آخری کمرے کی الماری کی تلاشی لیتے ہوئے وہ ٹھٹکا تھا ۔۔راجہ صاحب یہ دیکھیں ۔۔۔میں اس کے قریب پہنچا یہ ایک اسرائیلی پاسپورٹ تھا ۔۔۔اور ایسے تین اور پاسپورٹ ملے ۔۔اس کا مطلب اس بلڈنگ میں ابھی بھی تین اسرائیلی موجود تھے ۔۔۔میرے خون نے جوش مارا تھا ۔۔انڈیا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کا سنا تھا ۔۔آج پہلی بار دیکھ بھی لیا۔۔۔

یہ ٹوٹل چھ کمرے تھے ۔۔۔اور کمرے میں دو دو بیڈ تھے ۔۔صرف آخری کمرے میں تین بیڈ تھے ۔۔ اس کا مطلب 13 بندے اس وقت بندے موجود تھے ۔۔باقی رہی میجر راجیش کی ساتھ کی سیکورٹی کی وہ دس کے قریب اسپیشل کمانڈوز تھے ۔۔۔۔

میں نے عاصم سے ڈرائیور کو ہوش میں لانے کا کہا اور پیچھے اس کی طرف چل پڑے ۔۔۔اس کو ہوش میں لانے کے بعد عاصم نے کچھ ڈوز دی اور وہ منہ کھولنے پر تیار ہو گیا ۔۔۔اور اس سے ہمارے اندازے کی تصدیق بھی ہو گئی تھی ۔۔۔یہاں13 کے قریب بندے تھے ۔۔جب کہ کمانڈوز پانچ تھے ۔۔باقی پانچ راجیش کے ساتھ تھے ۔۔جو کسی بھی وقت پہنچنے والے تھے ۔۔ڈرائیور نے آرام کر کے دوپہر تک واپس جانا تھا ۔۔۔۔۔۔اور بلڈنگ کا اس نے بتایا کہ جیسے چھ کمرے یہ ہیں ۔۔ویسے ہی آفس کے اس طرف ایک بڑا ہال اور دو چھوٹے کمرے ہیں ۔جبکہ باقی ہال اسٹوریج اور پاور سپلائی کے کام آتے تھے ۔۔۔۔۔میرے ذہن میں پلان بننے لگا تھا ۔۔۔۔میں نے پسٹل نکال لی۔۔ڈرائیور کی کنپٹی پر پڑنے والی ضربوں نے اسے پھر سے ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیا ۔۔میں نے تیزی سے اس کے کپڑے اتارنے شروع کر دیئے ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں ڈرائیور زمین پر ننگا پڑا تھا ۔۔میں کمرے کے شیشے کی طرف بڑھا اور اس کے کپڑے پہننے لگا۔۔اس کا لباس مجھے کچھ تنگ تھا۔۔۔ایک کمرے سے مجھےآرمی ٹوپی ملی ۔۔وہ پہن کر میں تیار تھا ۔۔۔عاصم کو میں نے کور دینے کا کہا اور آفس کی طرف جانے کے لئے تیار ہو گیا ۔۔۔۔ٹوپی قدرے جھکی ہوئی تھی ۔۔۔میں سر جھکا کر چلنے لگا۔۔۔گیراج کراس کر کے آگے آیا ۔۔سامنے ہی ایک کمرہ تھا ۔میں آہستہ قدموں سے سر جھکائے چلا جا رہا تھا۔۔۔کہ میری نظر بائیں طرف پڑی ۔۔۔ بائیں طرف سے ایک بڑے ہال کر دروازہ دکھ رہا تھا ۔۔۔اور کوئی بھی مجھے دیکھ سکتا تھا ۔۔اب واپس تو جا یا نہیں سکتا تھا ۔۔میں تیز قدموں سے آفس میں داخل ہو گیا ۔۔۔کمرے میں ایل سی ڈی کے سامنے بیٹھے شخص نے ایک نظر مجھے دیکھ کر کہا ۔۔کیا ہوا دوبارہ کیوں آ گئے ہو ۔۔اور پھر اسکرین دیکھنے لگا۔۔۔۔اسے کچھ تبدیلی کا احساس ہوا تھا ۔۔مگر دیر ہو چکی تھی ۔۔میں لپک کر اس کے پیچھے پہنچا تھا ۔۔۔۔گردن شکنجے میں آگئی۔۔۔اس نے ٹانگ مارنے کی کوشش کی تھی ۔۔میں نے کرسی سمیت اسے پیچھے گھسیٹا تھا ۔۔مگروہ آتے آتے بھی ایل سی ڈی گرا چکا تھا۔۔ دھڑام کی آواز سے ایل سی ڈی پیچھے گری تھی ۔۔۔۔میں نے گردن پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اسے کرسی سے اٹھا یا اور نیچے پٹخ دیا ۔اس کی کمر پر سوار ہوتے ہوئے۔گردن کو مخصوص انداز میں مروڑا ۔۔کڑاک کی آواز کے ساتھ اس کی گردن مڑتی چلی گئی ۔۔۔میں اٹھ کر مڑا اور ساکت ہو گیا ۔۔سامنے ہی ایک کمانڈو میرے سامنے گن تانے کھڑا تھا ۔ہالٹ۔۔۔۔میں نے ہاتھ اٹھا دیئے ۔۔۔۔وہ ایک قدم آگے بڑھا تھا ۔۔تیز نظروں سے آفس کا جائز ہ لے رہاتھا ۔۔مگر موت اس کی پیچھے تھی ۔۔عاصم کا چہر ہ نمودار ہوا تھا ۔۔پسٹل اس کے سر کے پیچھے تھے ۔۔۔ہلکی سی چوں کی آواز آئی۔گولی اس کا ہیلمٹ توڑی ہوئی آگے نکلی تھی ۔۔۔۔میں تیزی سے آگے آیا ۔اور اسے پکڑ کر زمیں پر لٹا دیا ۔بلٹ پروف جیکٹ اورہیلمٹ پہنے یہ کمانڈو اپنی منزل پر پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔اس کے کان سے مائکرو فون نکالتا ہوا کان سے لگایا۔۔۔انگلش میں کوئی بولا تھا ۔۔ہیلو راکیش ۔۔ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔۔مجھے خطرے کی بو آئی۔۔۔وہ لوگ ہوشیار ہو گئے تھے۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی انساس اٹھا لی ۔ ۔۔جی تھری گن میں شمار یہ گن انڈیا کی اپنی میڈ تھی ۔۔۔میں نے رائفل اٹھا کر کاندھے سے لگائی ۔۔اور آفس کے دروازے سے ٹیک لگا لی ۔۔۔مائکرو فون ابھی بھی میرے کان میں تھا ۔۔۔جہاں ہیلو ہیلو کے بعد اب خاموشی تھی ۔۔۔۔عاصم میرے پیچھے تیار تھا ۔۔۔۔میں نے باہر بائیں طرف جھانکا ۔۔۔ہال کے دروازے کی دونوں سائیڈ پر کمانڈوز آچکے تھے ۔۔۔۔میں تیزی سے پیچھے ہوا۔اور۔گن باہر نکال کر میں نے برسٹ چلا یا تھا ۔۔۔۔گن کی گرج کے ساتھ بارود کی بو پھیلنے لگی ۔۔۔۔میں نے پھر جھانکا ۔۔۔۔کمانڈوز اوٹ لے چکے تھے ۔۔۔۔۔میں نے ایک چھوٹا برسٹ اور چلایا تھا ۔۔۔تبھی عاصم میرے برابر سے بھاگتا ہوانکلا ۔۔آفس سے نکل کر وہ گیراج کی سائیڈ پر گیا تھا ۔۔جہاں اسے اوٹ میسر تھی ۔۔اب ہم دو سائیڈ سے مقابلہ کر سکتے تھے ۔۔اتنے میں دو رائفل ایک ساتھ گرجیں تھی ۔۔۔دو لمبے برسٹ آئے تھے ۔۔۔آفس کی اس دیوار پر سےبہت سا پلستر اکھڑا ۔۔میں تیزی سے اندر اوٹ میں ہو گیا ۔۔۔تبھی ایک اسموک گرینیڈ میرے سامنے آ گر ا۔۔۔۔اور کثیف سا دھواں پھیلنے لگا۔۔۔میں نے گن نکال کر ایک برسٹ اور مار ا۔۔۔یہ دھواں تیزی سے پھیلا تھا ۔۔اور باہر راہداری اور آفس کے اندر بھرنے لگا۔۔۔مجھے کھانسی آئی تھی ۔۔۔۔میں منہ پر ہاتھ رکھے تیزی سے دروازے کی اوٹ میں ہو گیا ۔۔قدموں کی آہٹ آئی ۔۔۔۔تبھی میں نے مائکرو فون میں ون ٹو ۔۔کی آواز سنی ۔۔۔تھری کی آواز کے ساتھ ہی گیس ماسک پہنےایک کمانڈو دروازے سے اندر داخل ہوا ۔۔۔رائفل اس کی میرے برابر سے گزر رہی تھی۔۔ ۔۔میں نے اپنی رائفل رکھتے ہوئے پسٹل نکالی اور اس کی رائفل پر ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔رائفل کی نال میری ہاتھ کے زور سے اوپر اٹھی تھی ۔۔۔کمانڈو نے ٹانگ مارتے ہوئے مجھےا چھالنے کی کوشش کی مگر پسٹل کی گولی اس سے تیز تھی ۔۔پہلی گولی اس کے گھٹنے پر پڑی تھی ۔۔اور دوسر ی چہرے کو پھاڑتی ہوئی پیچھے نکلی ۔۔۔تبھی سامنے سے ایک برسٹ آیا ۔۔مگر ادھورا تھا۔۔۔عاصم نے بیک وقت فائر کرتے ہوئے پیچھے ون ٹو کہنے اور برسٹ مارنے والے کمانڈو کو خاموش کر وادایا تھا ۔۔۔تین کمانڈوز شکار ہو چکے تھے ۔۔میں نے باہر جھانکا میدان صاف تھا۔۔۔۔میگزین تبدیل کرتے ہوئے میں راہداری میں آیا اور آگے بڑھنے لگا ۔۔۔دوسرے شکار کے پاؤچ سے مجھے ہینڈ گرنیڈ مل چکا تھا ۔۔۔۔میں تیزی سے دیوار کی سائیڈ لیتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔۔۔۔۔قریب پہنچ کر میں نے پن کھینچی اور اندر پھینک دیا ۔۔فرش پر دھاتی گرنیڈ کے گرنے کی ٹن ٹن گونجی تھی ۔۔ساتھ ہی میں نےدوڑنے کی کچھ آواز سنی ۔۔۔۔میں دروازے کے اندر آچکا تھا ۔۔۔سائیڈ کونے پر ٹیبل کے ساتھ کور لئے کمانڈو نے گن سیدھی کرنے کی کوشش کی ۔۔۔برسٹ اس کے چہرے پر پڑا ۔۔۔وہ پیچھے کو گرا ۔۔۔۔میں تیزی سے دوسری طر ف مڑا ۔۔آخری کمانڈو اپنے ہی ایک بندے کی اوٹ میں لئے ہوئے فائر کرنے کو تیار تھا ۔۔میں نے تیزی سے لوٹ لگائی۔۔اور اوٹ میں گیا ۔۔عاصم پیچھے پہنچ گیا تھا۔۔۔اس نے پسٹل کا پورا میگزین اس طرف خالی کیا ۔۔۔۔وہ دونوں ریت کی بوری کی طرح گرے تھے ۔۔۔۔میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور جائز ہ لینے لگا۔۔۔کشادہ ہال میں مین فریم کمپیوٹر کے ساتھ دس کے قریب بڑی اسکرین لگی ہوئ تھی ۔۔۔۔جن کے سامنے ہینڈل اور بٹن لگے ہوئے ایک بڑا سا کنٹرول پینل تھا ۔۔۔۔دوسری طرف ایکدوسرے کی اوٹ لیتے ہوئے لوگ تھے ۔۔۔یہ کسی رحم کے محتاج تو تھے نہیں ۔۔۔۔۔عاصم نے کمانڈو کی گن اٹھا ئے ہوئے سب صفایا کردیا ۔۔اسرائیلی ایجنٹ بھی انہی کے درمیان تھے ۔۔۔۔میں مین فریم کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہو گیا ۔۔۔۔۔اگلے دس منٹ میں یہ ہال اجڑ چکا تھا۔فائرنگ اور بارود کی بو پھیل چکی تھی ۔۔۔۔۔ہم نے ہال کا ایک چکر اور لگایا ۔۔۔اور پھر نکلنے لگے ۔۔۔۔گیراج کی طرف آئے ۔عاصم نے ایکسپلوز نکال کر بلڈنگ میں فکس کرنے لگا ۔۔۔ٹائم بیس منٹ بعد کا رکھا 

Quote

اس کے بعد میں آرمرڈ جیپ کی طرف بڑھا ۔۔۔اتنے میں عاصم اندر رہائشی علاقے کی طرف گیا ۔۔۔۔واپس آ کر بتا یا کہ ڈرائیور کو بھی ٹھکانے لگا دیا ہے ۔۔۔میں نے جیپ کھولی اندر چابیاں نہیں تھی ۔۔عاصم آگے آیا اوراسٹیرنگ کے نیچے ہاتھ ڈال کر بیٹھ گیا ۔۔۔اس کے ہاتھ تیزی سے تاروں کو ٹٹول رہے تھے ۔۔۔اور پھر دو تاروں کو توڑتے ہوئے اس نے آپس میں اسپارک کرنا شروع کیا ۔۔۔گاڑی کا انجن جاگ گیا ۔۔۔عاصم نے مجھے کارڈ دے کر گیراج کا گیٹ کھولنے کا کہا ۔۔۔میں سیکورٹی کارڈ لئے گیٹ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔سرر کی آواز کے ساتھ فرش نیچے بیٹھا تھا ۔۔۔۔عاصم جیپ آگے بڑھاتا گیا ۔۔۔میں بھی جیپ میں سوار ہو گیا۔۔ہمارا واپس کا سفر شروع ہو گیا ۔صبح اچھے سے پھیل چکی تھی ۔۔۔جیوتی نے اپنا کام کر دکھایا تھا ۔۔۔۔راجیش اب تک منظر سے غائب تھا ۔۔اور جب وہ ہیڈ کوارٹر پہنچتا ۔۔وہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہوتی ۔۔۔۔۔عاصم ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ہم دو کلو میٹر دور آ کر شملہ ہائی وے پر پہنچے ہی تھے کہ پیچھے سے بلندآوازدھماکے کی آواز آئی تھی ۔۔۔عاصم نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ اور گاڑی۔۔راج گڑھ کی طرف جانے کے بجائے لدھیانہ کی طرف گاڑی موڑ دی ۔شاید اس کی چھٹی حس نے بروقت اشارہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہی وقت تھا کہ میں نے راج گڑھ والے روڈ سے ایک ایسی ہی آرمرڈ جیپ آندھی اور طوفان کی طرح آتے دیکھی ۔۔۔۔عاصم نے بھی دیکھ لیا تھا ۔۔ہوشیار کی آواز لگاتے ہوئے اس نے اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔۔پچھلی جیپ ہمارے پیچھے ہی آئی تھی ۔۔۔۔اور پھر تعاقب شروع ہوگیا ۔۔۔عاصم نے بھی تیزرفتاری کے سارے ریکارڈ توڑے ۔۔۔مگر ایک تو سیدھا روڈ تھا ۔۔۔دوسر ا پچھلا ڈرائیور بھی مشاق تھا۔۔۔۔۔پچھلی گاڑی قریب آتی جارہی تھی ۔۔اور پھر فائرنگ کے برسٹ کی آواز گونجی ۔۔۔پچھلی گاڑی سے دو گنیں گنگنائیں تھیں ۔۔۔۔ٹائروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔عاصم نے اور اسپیڈ تیز کر دی ۔۔۔۔فائرنگ ابھی بھی جاری تھی ۔۔۔۔میں نے پسٹل نکالتے ہوئے پیچھے فائر کیے۔۔۔مگر اس کا کوئی فائد ہ نہیں تھا ۔۔آرمرڈ جیپ پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔۔عاصم پوری اسپیڈ پر گاڑی کو بھگائے جار ہا تھا۔۔۔خالی روڈ پر عام گاڑی اس اسپیڈ پر نہیں جا سکتی تھی اور وہ ٹریفک میں اس اسپیڈ پر جا رہاتھا ۔۔۔۔میں نے میٹر دیکھا۔۔۔جیپ 160 کلومیٹر سے اوپر کی اسپیڈ پر تھی ۔۔۔۔۔۔تبھی عاصم نے مجھے کہا راجہ صاحب ہم لدھیانے کے قریب ہیں ۔۔۔۔میں تیزی سے کچھ موڑ کاٹتے ہوئے آپ کو اتاروں گا۔۔۔۔آپ اوٹ لے لیں ۔۔جب تک میں ان کو ٹھکانے لگاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔آپ لدھیانے پہنچ کر اس نمبر پر کال کیجئے گا۔۔۔عاصم تیز لہجے میں نمبر بتانے لگا۔۔۔میں اسے روکتا ہی رہا ۔۔مگر وہ اپنی بات پر بضد تھا ۔۔۔۔اور پھر اس نے تیزی سے گاڑی ایک کچے میں اتاری ۔۔اور اسپیڈ دیتا گیا۔۔۔۔ناہموار رستے پر بھی گاڑی کا سسپنش کمال کا تھا ۔۔۔۔ایک چھوٹے رہائشی علاقے کی طرف گاڑی مڑی ۔۔۔۔یہ ایک رہائش علاقہ تھا ۔۔۔۔عاصم نے تین چار روڈوں پر گاڑی تیزی سے گھمائی اور پھر ایک چوک پر گھماتے ہوئے مجھے اترنے کا کہا۔۔۔میں جیپ کے دروازے سے باہر کو نکلا تھا ۔۔۔اور پیر ٹکاتے ہوئے بھاگتے ہوئے اترا ۔۔یہ کوئی بازار ٹائپ کا علاقہ تھا ۔۔۔ایکطرف لوگوں کو رش تھا ۔۔میں بھاگتے ہوئے ان میں شامل ہونے لگا۔۔۔۔عاصم کی جیپ نے اسپیڈ ماری تھی ۔۔۔اور سیدھی اڑتی چلی تھی ۔۔۔پچھلی جیپ بھی اسی طرح چوک گھوم کر اسکے پیچھے چلی گئی ۔۔میں نے گہری سانس کھینچی اورروڈ کے کنارے چلنے لگا۔۔۔تبھی ایک شخص چلتا ہوا میرےپیچھے آیا ۔۔۔بھاری چادر اوڑھے ہوئے اس شخص کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار تھا جس کی نوک میری کمر سےلگی تھی ۔۔۔قریب آ کر وہ تیز لہجے میں بولا۔سیدھا چلتا رہ ۔۔۔ورنہ ادھر ہی سوراخ کر دوں گا۔۔۔۔میں قدم بڑھتا گیا ۔۔۔۔وہ مجھے لیتا ہو ا کچھ گلیوں میں گھسا اور ایک دروازے کے سامنے کھٹکھٹانے کو کہا ۔۔۔دروازہ کھلا اور ہم اندر پہنچ گئے ۔۔۔گھر کچا بنا ہوا تھا ۔۔سامنے مٹی کا فرش اور تین کمرے تھے ۔۔جبکہ باہرصحن تھا چھوٹا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اندر 3 افراد مزید تھے ۔۔۔پگڑیاں پہنے ہوئے یہ نوجوان ہتھیار بند بیٹھے تھے۔۔۔۔اوئے بلبیرے اے کنوں چک لایاجے ۔۔۔۔۔۔آگے بیٹھے نوجوان نے آواز لگائی تھی ۔۔پیچھے والا بلبیرے نے مجھے آگے کو دھکا دیا تھا ۔۔۔۔یہ اس راجیش کی گاڑی سے اترا تھا ۔۔اسی کا بندہ ہے ۔۔۔۔۔میں سمجھ گیا کہ کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔مگر بندے ٹھیک ہیں ۔۔میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں مانے ۔۔۔ایک سکھ اندر سے رسی لے آیا اورمیرے ہاتھ پیچھے کر کے باندھ دیئے ۔۔۔
اوئے بلبیرے تو جس کام سے گیا تو وہ کیا کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔پیلی پگڑی والےنے پھر ہانک لگائی تھی ۔۔

ہاں شیر سنگھ کام ہو گیا ہے ۔۔۔گاڑی ا پنی کلدیپ لا رہی ہے ۔۔میں اسے دیکھ کر رستے میں اتر گیا تھا ۔۔۔۔بس آتی ہی ہو گی 

میر ی سمجھ میں یہی آ رہا تھا کہ یہ سکھ خالصوں کا کوئی گروپ ہے ۔۔۔اور شاید راجیش سے ہی ان کا آنکڑہ چل رہا ہے ۔۔۔تبھی باہر گاڑی کے ہارن کی آواز گونجی تھی ۔۔۔اور میں نے ایک بجلی سی اندر آتے دیکھی ۔۔سرخ و سپید رنگت میں یہ پنجاب کی ووہٹی تھی ۔۔۔۔۔کلدیپ کور بڑی سے چادر کے اندر لپیٹے اندر آئی ۔اس کے چلنے میں بے حد پھرتی تھی ۔۔۔۔۔چادر اتار کر سائیڈ پررکھی تو نیچے گولیوں کے میگزیں کے ساتھ پسٹل بھی لگی ہوئی تھی ۔۔۔اس نے پھر مجھ سے معلوم کرنے کی کوشش کی تھی ۔کہ میرا ۔راجیش سے کیا تعلق ہے ۔۔۔۔۔مگر میرا تو اس کی بیوی سے تعلق تھا ۔۔راجیش کو تو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا ۔۔۔تبھی اندر سے بلبیر چار رائفلیں لے کر آیا ۔۔ایک کلدیپ کو دیتے ہوئے باقی تینوں نے بانٹ لی ۔۔یہ شاید کہیں جانے کی تیار ی میں تھے ۔۔۔میں اطمینان سے بیٹھا انہیں دیکھنے لگا۔۔۔یہ چلےجاتے تو میں سکون سےنکل کر عاصم کے نمبر پر فون کر سکتا تھا ۔۔۔تبھی جاتے جاتے کلدیپ مڑی ۔۔۔اس کا کیا کرنا ہے ۔۔۔؟ ۔۔۔اور بلبیرے کے جواب نے مجھے اچھلنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔

اس نے بڑے سکون سے میرا سکون غارت کیا تھا ۔۔انوں وی اٌتھے لے چلدے نیں۔۔۔۔۔راجیش نال ہری سنگھ دا سودا کراں گے۔۔۔۔۔اور پھرمجھے بندوق کے زور پر اٹھاتے ہوئے باہر کھڑی جیپ میں بٹھا دیا ۔۔بلبیر ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا ۔۔اور کلدیپ اس کے برابر میں ۔۔شیر سنگھ اور دو جوان پیچھےآ گئے ۔۔ ۔۔اور میں درمیان میں بندھے ہاتھوں کے ساتھ ۔۔۔

بلبیر فون پر کسی سے رابطہ کر رہا تھا ۔۔۔اور پھر فون بند کرتے ہوئے پرجوش آواز میں بولا ۔دس منٹ میں راجیش مین ہائی وے سے گذرے گا۔۔۔۔اس کی سیکورٹی ساتھ نہیں ہے ۔۔وہ راج گڑھ سے گھنٹا پہلے نکلا ہے ۔۔۔۔

پیچھے بیٹھے سکھ نے بھی راجیش کو گالی دیتے ہوئے کہا کہ اس سے آج نبٹ ہی لیتے ہیں ۔۔۔اس کے بعد بلبیر نے جیپ اڑانی شروع کی ۔۔اور پھر جیپ لیتے ہوئے وہیں پہنچا جہاں سے کچھ دیر پہلے ہم گذر چکے تھے ۔۔۔میں ان لوگوں کی مخبری پر حیران تھا ۔ا ن کو صحیح اطلا ع دی گئی تھی ۔۔۔۔عاصم کے پیچھے جوگاڑی گئی تھی اس میں صرف کمانڈو زتھے ۔۔۔اور راجیش پیچھے آ رہا تھا ۔۔۔مین ہائی وے پر پہنچنے کے بعد جیپ ایک سائیڈ پر روکتے ہوئے بلبیر اتر گیا تھا ۔۔۔و ہ فون پر پھر کسی سے بات کرنے لگا۔۔۔۔کلدیپ کور بھی اپنی رائفل گود میں رکھے تیار بیٹھی تھی ۔۔۔اور پیچھے والے تینوں نوجوان مجھے گھورنے میں مصروف تھے ۔۔۔بڑی سے چادروں میں لپٹے یہ رائفل اندر چھپائے بیٹھے تھے ۔۔۔۔بلبیر نے تیزی سے فون بند کیا اور پھرجیپ کی طرف لپکا ۔۔۔۔۔کالی گاڑی ہے ۔۔۔وہ پہنچنے والے ہیں ۔۔۔۔بلبیر کہتا ہواجیپ کا انجن اسٹار ٹ کرچکا تھا ۔جیپ ایک جھٹکے سے اٹھی اور مین روڈ پر آئی ۔۔ ۔۔۔میں نے بریک کے چیخنے کی اونچی آوا ز سنی ۔۔۔۔اور بے اختیار جیپ سے پیچھے دیکھا۔۔۔بلیک رنگ کی لینڈ کروزر جو شاید انتہائی تیز آ رہی تھی ۔۔۔۔جیپ کی وجہ سے ڈرائیور نے ایکدم بریک مارے تھے ۔۔اور اب یہ لینڈ کروزر گھسٹتی ہوئی ہماری طرف آرہی تھی ۔۔۔آہستہ ہوتی ہوئی ہمارے۔قریب آ کر اس کے ڈرائیور نے گاڑی لہرائی ۔۔اور سائیڈ سے نکالتا ہوا آگے جانے لگا۔۔۔اس کے خیال میں شاید غلطی سے کوئی اچانک آیا ہے ۔۔۔مگر یہ لہراتی ہوئی لینڈ کروزر جب بلبیرے کی جیپ کے سامنے آئی تھی تو اس نے تیزی سے ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھ دیا ۔۔۔جیپ کا انجن جاندار تھا ۔۔توپ کے نکلے ہوئے گولے کی طرف وہ لینڈ کروزر کے درمیانی حصے سے ٹکرائی اور گھسیٹتے ہوئے روڈ سے نیچے اتار دیا ۔۔۔۔ہماری جیپ کو بھی دھکالگا ۔۔میں آگے کو گیا تھا ۔۔تبھی بلبیر نے جیپ کو ریورس کیا ۔۔اور شاید دوبارہ ٹکر مارنے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔لینڈ کروزر کے گیٹ کھلے ۔۔۔۔سامنے والے گیٹ سے کمانڈو کود ا تھا ۔۔اس نے آتے ہی برسٹ مارا ۔۔۔۔گولی جیپ کی ونڈ اسکرین توڑتی ہوئی نکلیں ۔۔۔دو سے تین گولیوں نے بلبیر کی قمیض کو رنگیں کر دیا تھا ۔۔۔کلدیپ بھی نیچے جھکی تھی ۔۔۔اور میں بھی ۔۔۔۔پیچھے بیٹھے ہوئے تینوں جوان بھی اتر کر جیپ کے پیچھے پوزیشن سمبھالنے لگا۔۔۔دو طرفہ فائرنگ شروع ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تینوں رائفل ایک ساتھ گرجیں تو سامنے والے کمانڈو گولیاں کھا کر گرا تھا۔۔۔۔۔یہ تینوں تیزی سے آگے بڑھ کر لینڈ کروزر کی طرف بڑھنے لگے ۔۔۔۔میں نے سر اٹھایا ۔۔۔انہیں رکنے کی آواز دی مگر وہ کسی اور موج میں تھے۔۔۔ادھر کلدیپ جیپ سے اتر کر پیچھے کی طرف پوزیشن لے کر کور دینےلگی۔۔۔میں نے لینڈ کروزر کے نیچے حرکت کرتے ہوئے پاؤں دیکھ لیے تھے ۔۔۔وہ جو کوئی بھی تھا عقل مند تھا۔۔۔لینڈ کروزر کےنیچے سے اس نے تینوں کی ٹانگوں پر گولیاں چلائی تھی ۔۔۔اور گرنے کے بعد ایک لمبا برسٹ چلا یا۔۔۔۔۔کچھ دیر پہلے تک ہنستے کھیلنے والے اب اپنے ہی خون میں تھے ۔۔

کلدیپ غصے سے گالی دے کر چلائی ۔۔۔اور گن سیدھی کر کے برسٹ چلا دیا۔۔۔۔گن کچھ دیر تک گرجتی رہی اور پھر خاموش ہو گئی ۔۔کلدیپ پر ہیجان کی کیفیت طاری تھی ۔۔۔گن خالی ہونے پر پھینکی اور پسٹل نکال لی۔۔۔ادھر میں نے اس کمانڈو کو باہر آتے ہوئے دیکھا ۔۔۔اور ا س کے پیچھے میں نے راجیش کو اترتے ہوئے دیکھا ۔۔چھ فیٹ ہائیٹ کے ساتھ ہاف شرٹ پہنے وہ کسی ہیرو کی طرح اترا تھا ۔کمانڈو اس کے آگے چلتا ہوا آگے آرہا تھا۔۔۔۔ راجیش نے تیز نظروں سے چاروں طرف جائزہ لیا ۔اور پھر جیپ کے پچھلی سیٹ پر دبکے ہوئے مجھے دیکھا ۔۔۔۔۔ادھر کلدیپ میرے پیچھے آئی اور پسٹل میرے سر پر رکھ کر مجھے اتارنے لگی ۔۔۔۔۔میرے ہاتھ پیچھے بندھے تھے ۔۔۔۔کالر کو پکڑے ہوئے میرے سر سے پسٹل لگائے وہ مجھے آگے لائی ۔۔۔۔۔کمانڈو نے گن سیدھی کی مگر راجیش نے اسے روکا۔۔۔۔۔۔ادھر کلدیپ مجھے دھکا دیتے ہوئے آگے لے جانےلگی ۔۔۔۔قریب جاتے ہوئے اس نے راجیش کو گالی دی ۔اور کہنے لگی ہری سنگھ کو چھوڑ دو ۔۔۔۔ورنہ اس کو مار دوں گی ۔۔۔۔۔راجیش حیرت سے مجھے دیکھ رہا۔۔۔۔اس پورے فریم میں کہیں بھی فٹ نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔یہ کون ہے ۔۔؟ وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔یہ ہمار ا ساتھی نہیں ہے ۔۔تم اسے شوق سے گولی مار سکتی ہو۔۔۔۔۔

کلدیپ نے پسٹل میرے سر پرلگاتے ہوئے دھکا دیا ۔۔مار دوں گی اس کو ۔۔۔۔۔میرا بھائی چھوڑ دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر ہری سنگھ تمہار ا بھائی تھا تو وہ مر چکا ہے ۔۔۔میں نےکل ہی اسے اپنے ہاتھوں سے مارا تھا ۔۔۔اور رہی بات اس کی تو ۔۔تو اسے ہم جانتے نہیں ہیں۔۔۔تم ماردو یا ہم خود مار دیں گے ۔۔۔راجیش نے کمانڈو کو شاید اشارہ کیا تھا۔۔۔

کلدیپ کا دماغ شاید گھوم گیا تھا۔۔۔۔فضاء میں اچانک فائر کی آوا ز گونجی اور پھر متواتر فائر ہوئے ۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کلدیپ نے کمانڈو کی طرف پسٹل کرتے ہوئے ٹریگر دبا یا۔۔اور پھر فائر کرتی چلی گئی ۔۔۔۔یہاں تک کہ پسٹل خالی ہونے کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔کمانڈو کے گرتے ہی راجیش تیزی سے کلدیپ پر جھپٹا تھا۔۔۔۔۔اس کا اٹھا ہوا ہاتھ میرے پیچھے حیران و ششدر کھڑی کلدیپ پر پڑنے والا تھا ۔۔۔۔وہ لپکتا ہوا میرے سامنے آیا تھا ۔اور یہی وقت تھا جب میں نے حرکت میں آنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔میں نے بندھے ہاتھوں کے ساتھ خود کو اکڑایا ۔اورریلیکس کرتے ہوئے فرنٹ کک اچھالی تھی ۔۔۔اس کک کے ساتھ میرا وزن اور طاقت دونوں شامل تھے۔۔۔۔۔راجیش اچھلتا ہوا پیچھے گرا تھا۔۔جلدی سےاٹھتے ہوئے بیٹھا ۔۔۔۔۔سینے پر سے مٹی جھاڑتے ہوئے وہ کینہ توز نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔میرے ہاتھ ابھی بھی پشت پر بندھے ہوئے تھے ۔۔۔۔اس کی سلگتی ہوئی آواز آئی تھی ۔۔۔۔۔کون ہو تم ۔۔۔۔میں نے جواب نہیں دیا ۔۔۔وہ دوبارہ آیا تھا ۔۔اس مرتبہ ہوشیار تھا ۔۔۔۔۔میری قریب آتے ہوئے وہ لہرایا تھا ۔میں ڈوج میں آ گیا ۔۔۔۔میری کک ہوا میں جھول کر رہ گئی ۔۔۔اس کا آہنی مکہ میرے جبڑ ے پر پڑا تھا ۔۔۔میں نیچے جھکا تھا۔۔۔خون کا ذائقہ میرے منہ میں محسوس ہوا ۔دوسرا مکہ میرے پیٹ میں پڑا میں مزید جھک گیا۔۔اس نے پیٹ پر کئی مکے مارے ۔۔۔ایک لات میرے کندھے پر پڑی اور میں پیچھے گرا ۔۔۔خون تھوکتا ہوا میں اٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔راجیش پھر میری طرف لپک رہا تھا ۔۔۔میں دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے پوری طاقت سے اچھلا تھا ۔۔اچھل کر راؤنڈ ہارس کک گھومی تھی ۔۔تیزی سے قریب آتے ہوئے راجیش کے چہر ے پر پڑی وہ تیورا کر گرا تھا۔۔۔۔۔وہ پھر اٹھا ۔۔اس کے چہرے پر خون کی بوندیں نمودار ہو گئیں تھیں۔۔۔میرے قریب آ کر اس نے میرا وار خالی کیا ۔۔اور اچھل کرکک مارنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔نشانہ میرا چہرہ تھا۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس کی طرح لہراتے ہوئے خود کو گھمایا تھا ۔۔۔۔راجیش کی کک ہوا میں اچھلی تھی ۔۔۔۔اس کے پیر کے زمیں پر رکھنے سے پہلے میں گھومتا ہوا اس کے عقب پر پہنچا تھا ۔۔راجیش نےمڑتے ہوئے دوبارہ سے مکہ گھمانے کی کوشش کی تھی ۔مگر۔۔۔میرے سر کی طوفانی ٹکر اس کی ناک پر پڑی ۔۔۔۔۔۔۔وہ ناک پر ہاتھ رکھے پیچھے کو گرا تھا ۔۔۔۔۔ناک سے خون بہنا شرو ع ہو گیا۔۔۔کلدیپ حیرانگی سے کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔

Quote

میری گونجدار آواز نکلی تھی ۔۔۔۔میں وہی ہوں جو تمہار ا ہیڈ کوارٹر تباہ کر کے وہاں سے نکلا ہوں ۔۔۔۔۔۔راجیش ایکدم چونکا تھا ۔۔۔۔اس کے منہ سے پاک۔۔۔نکلتے نکلتے رہ گیا ۔۔۔اب کی بار وہ غضبناک ہوتے ہوئے آیا تھا ۔۔۔منہ سے گالیاں نکل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔غصے نے اس کی عقل ضبط کر لی تھی ۔۔۔۔۔اسے میرے ہاتھوں سے کوئی ڈر نہیں تھا ۔۔۔۔وہ تیزی سے قریب آیا اور ڈاج دیتے ہوئے چہرے پر مارنے آیا تھا ۔۔میں بیک فٹ پر گیا تھا ۔۔۔مکہ ہوا میں گھوما ۔۔۔اگلا لمحہ اس کے لئے اذیت ناک تھا ۔۔۔۔ٹانگوں کے درمیان پڑنے والی ضرب نے اسے گرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔چیخ مارتا ہوا وہ نیچے گرا تھا ۔۔۔ہاتھ دونوں ٹانگوں کے درمیان تھے ۔۔۔۔اور چہرے پر کرب کے آثار ۔۔۔۔۔۔۔میں کچھ اس کے اٹھنے کے انتظار کرنے لگا۔۔۔مگر اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔وہ زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔۔۔۔کلدیپ آگے آئی تھی ۔۔اور کمانڈو کی رائفل اٹھاتے ہوئے راجیش پر خالی کر دی ۔۔۔۔میرے ہونٹوں سے بھی خون بہہ رہا تھا ۔ناک سے بھی خون بہا تھا۔۔۔۔۔کلدیپ گن پھینکتی ہوئی میری طرف آئی تھی ۔۔۔اس کے چہرے پر اب سکون کے تاثرات تھے ۔۔اس نے اپنے بھائی کا انتقام لے لیا تھا ۔۔۔اور میرے بارے میں بھی شاید رائے ٹھیک ہو گئی تھی ۔۔اگر میں راجیش کا دشمن تھا تو ان کا دوست بھی تھا۔۔۔۔کلدیپ میری طرف بڑھ رہی تھی کہ میں ایک مرتبہ پھر اچھلا تھا۔۔۔میرے پاؤں جڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔اور اچھلنے کے ساتھ ہی میرےہاتھ نیچے سے ہوتے ہوئے سامنے آئے تھے ۔۔۔۔۔آدھی گانٹھ میں اچھلتے ہوئے کھول چکا تھا۔۔۔۔ہاتھ کے سامنے آتے ہی ایک سیکنڈ لگا اور میرے ہاتھ آزا د تھے ۔۔۔۔۔۔بند ہاتھوں سے لڑنے کا الگ ہی مزہ تھا۔۔۔کلدیپ میرے قریب پہنچ چکی تھی ۔۔اس کی نظریں میرے خون آلود چہرے پر تھی ۔۔۔میرے قریب آ کر میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔۔۔جیپ صحیح سلامت تھی ۔ آس پاس روڈ کی گاڑیاں دور کھڑی تھی ۔۔۔حیرت تھی کہ اب تک پولیس نہیں آئی تھی ۔۔۔۔۔کلدیپ نے ڈرائیونگ سیٹ سمبھال لی ۔۔اب کی بار منزل کوئی اور تھی۔۔میں نے ٹائم دیکھا ۔ دوپہر ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔
راستے میں کلدیپ نے جیپ چھوڑ کر رکشہ لیا ۔۔۔۔اور دو تین گاڑیاں بدلنے کے بعد ہم ایک گھر کے سامنے تھی ۔۔ یہ بھی کچا مکان تھا ۔۔کلدیپ نے لکڑی کے دروازے کی درز میں پھنسی چابی نکالی اور اندر داخل ہو گئی ۔چھوٹا صحن تھا ۔۔اور دو کمرے ۔۔دیواریں مٹی کی بنی ہوئی ۔۔کمرے میں ایک تخت اور چارپائی بچھی ہوئی ۔۔۔۔۔مجھے چارپائی پر لیٹنے کا کہہ کر ۔۔۔۔۔کلدیپ کور پانی گرم کر کے لائی تھی۔۔۔۔۔۔اس کی چادر تو پہلے ہی کہیں گر پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔نسوانی خطوط واضح ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔کچے آموں جیسی مہک اس کے بدن سے نکل رہی تھی ۔۔۔۔میرے اوپر جھکی وہ میرا زخم صاف کرنے لگی ۔۔میری نظروں کی گرمی اسے محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔وہ اگنور کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی ۔۔اس کے اندر کی نسوانیت بیدار ہو نے لگی تھی ۔۔۔۔سختی اور انتقام کے جذبات ختم ہوتے جار ہے تھے ۔۔اور اندر سے وہی ارمان انگڑائیاں لے رہےتھے ۔۔۔۔کلدیپ کور بالکل ویسے ہی تھی جیسے پنجاب کی ووہٹی ہوتی ہے ۔۔۔۔دودھ ملائی جیسے رنگت والی رنگت ۔۔۔۔بھرا ہوا جسم ۔۔۔کالی سیاہ آنکھیں ۔۔۔ٹھوڑی کے نیچے بنتا ہوا گڑھا۔۔۔ستواں پر غرور ناک ۔۔۔۔۔ جو ابھی لاج سے لال ہوئی جارہی تھی ۔۔۔۔اس کے اندر کی شوخی بھی باہر کو امڈنے لگی تھی ۔۔۔۔اور آنکھیں کسی پریشان غزال کی مانند چوکنی ہوئی وی تھی ۔۔۔۔میری ہلکی سی جنبش پر وہ چونکے جار ہی تھی ۔۔۔۔زخم صاف کر کے اس نے بتایا کہ وہ کھانے کا سامان لینے باہر جا رہی ہے ۔۔۔آدھے گھنٹے تک آئی گی ۔۔۔میں نے آنکھ سے اشارہ کر دیا اور آنکھیں بند کر دیں ۔۔۔۔۔۔میرے ذہن میں عاصم کا خیال آیا تھا۔۔۔۔وہ نہ جانے کہاں تھا ۔۔کلدیپ آ جائے تو فون کا پوچھوں اور کال کروں۔۔۔کلدیپ جلدی ہی واپس آگئی تھی ۔۔۔ایک ہاتھ میں کھانے کا سامان اور دوسرے میں فروٹ بھرے ہوئے تھے۔۔۔کھانا کھلا کر کلدیپ نے مجھے سونے پر مجبور کیا ۔۔۔۔پچھلی رات میری سپلائی سنٹر کے اسٹور میں گذری تھی ۔۔۔میں بھی سو گیا ۔۔۔۔رات شروع ہو چکی تھی جب ۔۔۔میرے منہ سے کراہ نکلی تھی ۔۔۔۔میں اٹھ کر بیٹھنے لگا۔۔کلدیپ کور تیزی سے قریب آئی تھی ۔۔۔وہ ساتھ والے تخت پر لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔کھانے پینے کا پوچھنے لگی ۔۔میں نے منع کر دیا ۔فروٹ لے کر وہ قریب آئی ۔۔اچھا یہ لے لیں ۔۔۔۔۔۔وہ چارپائی پر میرے پاس آ بیٹھی تھی ۔۔اس کے چہرے پر بہت سے سوالات تھے ۔۔جو وہ مجھ سے پوچھنا چاہ رہی تھی میرے بارے میں۔۔میں نے اسے کہا کہ یہ تعارف وغیرہ کل پر رکھتے ہیں ۔بس نام ہی کافی ہے ۔۔۔راجہ نام ہے ۔۔۔۔۔وہ شکریہ ادا کرنے لگی کہ ہم نے آپ کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا ۔۔پھر بھی میں نے اس کی جان بچائی تھی ۔۔۔۔میں کیا کہتا خاموش ہی رہا ۔۔۔مگر میری آنکھیں اسی پر جمی ہوئی تھی ۔۔جوچیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ اور بھی ہے ۔۔۔۔۔کلدیپ نے بھی سمجھ لیا تھا ۔۔۔تبھی شوخی سے اٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔آپ آرام کریں کل بات کرتے ہیں ۔۔۔۔۔وہ تخت کی طرف جانے لگی تھی ۔۔جب میں نے ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا ۔۔۔نرم نرم ہاتھوں کا مقناطیسی لمس مجھ سے ٹکرایا تھا ۔۔۔اس نے ہاتھ چھڑاوانے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔ہلکے لہجے میں بس یہ کہا کہ ابھی آپ کی طبیعیت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔

طبیعیت بتانے کا ایکدوسرا طریقہ بھی تھا ۔۔۔اور میں نے وہی کیا تھا ۔اٹھتے ہوئے میں اس کے قریب پہنچا اور جھک کر اسے بانہوں میں اٹھا لیا۔۔۔۔۔کلدیپ نے شرماتے ہوئے اپنا چہرہ چھپایا تھا ۔۔۔۔میں اسے اٹھائے تخت پر آیا تھا ۔۔یہاں ایک گدا بچھا ہوا تھا ۔۔۔۔تخت پر اسے لٹانے کے بعد میں بھی ساتھ ہی لیٹا تھا ۔۔۔کلدیپ تخت پر نیچے کی طرف منہ کیے لیٹی ہوئی تھی ۔۔میں نےایک ہاتھ سے اس کے بالوں کو سہلایا تھا ۔۔۔۔سلجھے ہووؤں کو پھیلایا تھا ۔۔۔بال کھولتے ہوئے میں پھیلانے لگا۔۔۔یہ گھنے ہلکے سے براؤن بال تھے ۔۔۔۔۔پھیلنےکے بعد کمر تک آئے تھے ۔۔۔۔میں نے ٹھوڑی پکڑتے ہوئے اوپر اٹھائی ۔۔۔۔ناک میں سجی ہوئی لونگ چمکی تھی ۔۔۔میں بھی نیچے کو کھسکا تھا ۔۔۔۔اب جتنا اس کا چہرہ نیچےتھا ۔۔میرا چہرہ اس سے بھی نیچے تھے ۔۔۔اس نے ہلکی سی آنکھیں کھولتے ہوئے مجھے دیکھا اور دوبارہ بند کردی ۔۔۔۔میں اس کے چہرے کو چومتا ہوا ہونٹوں پر آیا ۔۔۔۔میں نے اس کے بالوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے چہر ہ اوپر کیا ۔۔۔اور ہونٹوں سے ہونٹ پیوست کردیئے ۔۔۔۔۔نرم نرم ہونٹوں کا ملاپ ہو ا تھا ۔۔۔کلدیپ کی آنکھیں بند تھی۔۔۔۔جھکی جھکی سے لرزتی پلکیں ۔۔۔۔۔میں ہاتھ بڑھاتا ہوا کمر پر لایا تھا ۔۔۔جسم قدرے بھرا ہوا اور نرم تھا ۔۔۔ہاتھ لگتے ہیں کلدیپ کے جسم میں حرکت ہوئی تھی ۔وہ تھوڑی اور نیچے کو جھکی ۔۔سمٹنے لگی ۔۔۔میں نے کلدیپ کی سانسوں کا اتار چڑھا ؤ دیکھ لیا تھا۔۔۔سانسیں تیزاور دھڑکن بے ترتیب ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔مجھے اس پر بے پناہ پیار آ یا۔۔۔۔۔۔صبح والے روپ میں وہ کسی آتش فشاں کی طرح تھی ۔۔۔دھاڑرہی تھی ۔۔۔غصے کی حدت سے چہرہ بھی سرخ ۔۔مرنے اور مارنے کی بات کرنے والی ۔۔۔۔۔۔اور اب شرم سے سمٹنے والی کلدیپ کوئی اور تھی ۔۔۔میرے ہونٹ اب بھی اس کے ہونٹ پر تھے ۔۔ایک مرتبہ اس نےمیرے ہونٹ پکڑنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر پھر رک گئی ۔۔میں نے غور سے دیکھاتو وہ میرے زخم کی وجہ سے رکی تھی ۔۔میں نے اس کے کانوں میں سرگوشی کی ۔۔۔۔یہ ہونٹ میرے لئے مر ہم کا کام دے رہیں ہیں ۔۔۔۔اسے نہ روکو ۔۔۔۔کلدیپ پہلے تو جھجکی ۔۔۔۔مگر میں مستقل ہونٹ دباتے ہوئے رکتا اور اس کو جواب دینے کا کہتا ۔۔ دو تین بار ایسا کرنے کے بعد وہ بھی شروع ہو ئی ۔۔۔۔۔۔نرم پنکھڑی جیسے ہونٹ میرے ہونٹوں پر آئے تھے ۔۔۔دبایا تھا ۔۔۔۔کبھی اوپر ہونٹ ۔۔۔کبھی نچلے ہونٹ ۔۔۔۔۔۔ناک سے سانس نکالتے ہوئے کلدیپ میرے ہونٹو ں کو چومنے میں لگی تھی ۔۔۔۔میں نے اس کمر میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اس خود پر لانے لگا۔۔۔۔میرے سیدھے جسم پر وہ اپنے بے حد نرم وجود کیساتھ آئی تھی ۔۔اس کے جسم سے اٹھنے والی کچے آموں والی مہک نے مجھے خوشحال کر دیا تھا ۔۔۔۔۔سینے کے ابھار اپنے نرمی اور گولائیوں کے ساتھ میرے سینے پر دبے تھے ۔۔۔اور آنے کے بعد کلدیپ کچھ رکی تھی ۔۔مگر میں نے ہونٹ چومنے کی پہلی کی تو وہ بھی شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔میرے ہاتھ اس کی کمر پر پہنچے ۔۔۔۔۔اور کمر پر گول دائرے بناتے ہوئے نیچے پہنچے ۔۔۔۔۔۔کلدیپ پھر رک گئی تھی ۔۔۔شاید میرے انگلیوں کے لمس کو محسوس کر رہی تھی ۔۔جو بےحد نرم اور موٹے گول چوتڑ پر پہنچے ۔۔۔میں نے ہلکا سا دباؤ ڈالا ۔۔۔۔کلدیپ مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔جیسے کہ رہی ہو کہ یہ کر نا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے دونوں ہاتھوں سے دونوں سائیڈوں پر دباؤ دے کر جواب دیا کہ بہت ہی ضروری ہے ۔۔۔۔۔نیچے سے ہتھیارنے بھی جوش مارتے ہوئے اچھلنے کی کوشش کی ۔۔۔کلدیپ پھر رکی ۔۔اور شرارتی آنکھوں سے دیکھتی ہوئی پھر میرے لبوں پر مصروف ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے چوتڑوں پر دباؤ بڑھا یا اور نیچے جہاں تک ہاتھ جاتا وہاں تک اس کی سڈول اور صحت مند رانوں سے بھی فیض یاب ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔کلدیپ کے منہ سے گرم گرم سسکیاں نکلنے لگی ۔۔۔۔۔۔سانسیں اور بے ترتیب اور تیز ہوئیں ۔۔۔۔۔میں نے اسے بیٹھنے کا کہا ۔۔۔۔۔وہ میرے اوپر بیٹھنے لگی ۔۔۔ٹانگیں لٹائے ہوئے پیچھے کی طرف تھیں ۔۔۔۔۔۔میرے سینے پر ہاتھ رکھتےہوئے ہی وہ بیٹھی تھی ۔۔۔۔میری نظر قمیض سے اندر کی طرف گئی تھیں ۔۔جہاں سفید گوری گوری دودھ ملائی جیسے ممے گہری لائنیں بنائے ہوئے تھے ۔۔۔۔کلدیپ نے مجھے جھانکا تانی کرتے ہوئے دیکھا لیا۔۔۔۔۔ اس کی آنکھوں کی چمک اور بڑھی تھی ۔۔۔جیسے اپنے جسم کی تعریف سننا چاہ رہی ہو ۔۔۔۔۔میرے ہاتھ بھی جان چکے تھے ۔۔۔اور بڑھ کر تھامنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔نرم نرم سے یہ ممے ہاتھ لگتے ہی سمٹنے لگے تھے ۔۔۔۔۔کلدیپ نے بھی گہر ی سانس لی ۔۔۔۔۔۔میرے ہاتھوں نے مموں کی پیمائش شروع کی ۔۔۔ایک ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی تو ہتھیلی میں کچھ سمایا اور کچھ باہر کی طرف امڈ آیا ۔۔قمیض کچھ ٹائٹ تھی ۔۔۔جس کی وجہ سے ابھار بھی اوپر سے باہر کی طرف جھلکا تھا۔۔۔۔میں نے قمیض کے اندر سے دوسری مرتبہ ہاتھ ڈالا ۔۔۔۔۔اور سیدھا اوپر لیتا گیا ۔۔۔برا کے اوپر سے دباؤ ڈالا تھا ۔۔۔۔مموں کا نرم نرم لمس مجھے چھوا تھا ۔۔۔۔کلدیپ نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دئے تھے ۔۔۔۔۔۔اس کی آنکھیں بند سی ہوئیں۔۔۔۔۔۔اور ہونٹوں سے گرم گرم سی سسکی نکلی ۔۔۔۔۔میں ہلکا ہلکا سے دباتا ہوا نپلز ڈھونڈ رہا تھا ۔۔۔۔اور پھر تھوڑے نیچے کی طرف ہی نپلز تھے ۔۔۔میں نے نپلز پکڑ کر اوپر کی طرف کئے ۔۔اور انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے مساج کرنے لگا۔۔۔۔کلدیپ کا دباؤ میرے ہاتھ پر بڑھا تھا ۔۔۔سسکی سی نکلی تھی ۔۔۔۔میں نے مساج جاری رکھا۔۔برا درمیاں میں آنے لگی تو اسے کھینچ کر اوپر کر دیا ۔۔نیچےسے اب پورے ممے میرے ہاتھوں میں تھے ۔۔نرم نرم سے اون کے گولے تھے ۔۔۔میں بھی آم کی طرح دباتا گیا ۔۔۔رس جو پینا تھا ۔۔۔۔کلدیپ بھی سسکاریاں بھرنے میں لگی رہی ۔۔۔میرے ہاتھ کو جن ہاتھوں سے اس نے دبایا تھا ۔۔۔اب وہ اسی پر ہاتھ پھیرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔بازو پر ہاتھ پھیرتی ہوئی وہ نیچے کو آئی اور میرے سینے پر ہاتھ رکھے کر تھوڑی جھک گئی ۔۔۔۔۔اس کے جسم سے گرمی کی لہریں نکل رہی تھی ۔۔۔میرے اوپر اس کے جسم کا جو حصہ تھا۔۔۔وہ بھی بے حد گرم تھا ۔۔۔۔اور نیچے سے ہتھیار کو مسلسل سینک رہا تھا۔۔۔۔میں نے کلدیپ کے سینے سے ہاتھ اٹھائے اور باہر نکال دیا ۔۔۔۔کلدیپ نے مجھے دیکھا جیسے وجہ پوچھ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔میں قمیض کو اٹھانے لگا۔۔۔۔کلدیپ سمجھ گئی ۔۔۔اورمیری مدد کرنے لگی ۔۔۔۔۔قمیض اتر گئی ۔۔۔۔۔اسکن کلر کی برا میں قید ممے سامنے تھے ۔۔۔رنگ تو اوپر سے دکھ گئی تھی ۔۔۔۔مگر نپلز بھی کم خوبصور ت نہیں تھے ۔۔۔چھوٹے سے گلابی رنگت میں ۔۔۔۔۔۔میرے مساج سے ہوشیار ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔میں نے مموں کو دیکھا اورکلدیپ کی طرف دیکھا ۔۔وہ سمجھ گئی ۔۔۔اور پیچھے ہاتھ لے جا کر بر ا کھولنے لگی ۔۔۔۔اور پھر ممے اپنی پورے سائز اور گولائی کے ساتھ سامنے آئے ۔۔۔۔۔زیادہ اٹھے ہوئے نہیں تھے ۔تھوڑے سے نیچے کی طرف مگر موٹے موٹے سے ۔۔۔میں نے اس کے پیٹ پر دونوں ہاتھ رکھے تھے ۔۔جیسے ناپ لے رہا ہوں ۔۔۔انگلیاں پھیلی ہوئی تھی ۔۔انگوٹھے ناف کے اوپر اور چھوٹی انگلی کمر کی طرف جاتی ہوئی ۔۔۔۔۔اور پھر ہاتھوں کو اوپر لاتے ہوئے میں نے مموں کو پکڑا تھا ۔۔۔میراہاتھوں کے لمس سے وہ مچل اٹھے ۔۔۔۔اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔میں بھی تیزی سے ہاتھ اوپر لے گیا اوراوپری طرف سے بھی پکڑ لیا۔۔۔۔۔اب میری مٹھی میں سے صرف نوک نکلی تھی ۔۔جس میں گلابی نپلز جھانک رہے تھے ۔۔۔۔۔میں نے مٹھی کھول کر دونوں مموں کی سائیڈ پر رکھ کر انہیں آپس میں جوڑنے لگا۔۔اور مموں کو آپس میں ہلکا سا رگڑنے لگا۔۔۔کلدیپ حیرت میری حرکت دیکھ رہی تھی ۔۔رگڑتے ہوئے نپلز بھی آپس ملانے کی کوشش کرتا ۔۔مگر وہ پھر دور ہٹ جاتے ۔۔کچھ دیر ایسے ہی کرتا رہا۔۔۔کلدیپ کے جسم میں بھی بےچینی بڑھی تھی ۔۔۔۔میں اٹھ کر اس سائیڈ پر لٹانے لگے ۔۔۔۔۔ممے بھی خوش ہو کر ہلنے لگے ۔۔۔دودھ پینے کا ٹائم آگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لٹا کر میں کلدیپ کے اوپر جھکا۔۔۔۔اور دودھ کے ان چشموں کی طرف چہرہ لے گیا ۔۔۔۔جو میرا ہی انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔دائیں ممے کو پکڑ کے منہ میں ڈالا اور بائیں پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔پہلے ممے کو پورےہونٹ کھولتے ہوئے اندر بھرتا ۔۔اور پھر ہونٹ بند کرنے لگتا ۔۔۔آخر میں نپل ہی قابو میں آ پاتا۔۔۔جسے میں اچھے سے زبان کی نوک سے مسلتا ۔۔۔۔۔اور پھر دوبارہ سے پورے ممے کو ہونٹوں میں بھرتا ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد میں دوسرے ممے کی طرف آیا ۔۔۔اور اس کے نپل کو ہونٹ میں پکڑ کے کھینچنے کی کوشش کر تا۔۔۔کلدیپ میرے سر پر ہاتھ رکھے مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔اسی طرح دونوں مموں کا رس پینے لگا۔۔۔اس کے بعد سیدھا ہوا۔۔۔شرٹ کے بٹن کھولے ۔۔۔۔کلدیپ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔کندھے پر ہلکا سا نیل کا نشان بھی پڑ گیا تھا۔۔۔۔شرٹ اتار کر میں کلدیپ کی طرف آیا تھا ۔۔۔۔اس کی سائیڈ پر لیٹا ۔۔۔اور آدھے جسم کو خود پر لٹا دیا ۔۔۔۔کلدیپ کا بھی اوپر جسم ننگا تھا ۔۔۔۔میرے اوپر جھکی وہ میرے چہرے کی طرف آئی تھی ۔۔۔۔ہم دونوں کے سینے آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔ادھر کلدیپ چہرے کو چومنے میں مصروف ہوئی ۔۔اور میں ہاتھ اس کی کمر پر پھیرتے ہوئے نیچے لے گیا ۔۔۔شلوار کے پاس رکا اور شلوار کو نیچے گھسیٹ دیا ۔۔۔چوتڑ سے نیچے جا کر شلوار رک گئی ۔۔۔آگے میرا ہاتھ نیچے نہیں جا رہ تھا ۔۔ پینٹی کو بھی یہیں تک پہنچا دیا ۔۔۔جس سے عجیب سے مہک اٹھ رہی تھی ۔۔۔کلدیپ میرے چہرے پر جھکی تھی ۔۔۔۔میں اپنے ہاتھوں سے اس کے چوتڑ کے درشن کر رہا تھا ۔۔۔۔۔مگر یہ نظارہ بھی کم خوبصورت نہیں تھا ۔۔ نرم نرم اور گول سے چوتڑ تھے ۔۔میں نےدونوں ہاتھ اوپر رکھتے ہوئے دبایا تھا ۔۔۔۔اور نیچے سے رانوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اوپر چوتڑ وں تک آتا ۔۔۔۔ایک ہاتھ دونوں چوتڑ وں کے درمیان لے گیا ۔۔۔۔گرم گرم ٹانگوں کے درمیان سے انگلی نکل کراگلی طرف پہنچی ۔۔۔۔۔اور چوت کے نچلے حصے کو لگی تھی ۔۔۔کلدیپ کچھ اچھلی سی ۔۔۔۔۔۔اور پھرمیرے اوپر ہی لیٹ گئی ۔۔۔میں نے دونو ں ہاتھ اس کے چوتڑ رکھے ۔۔۔۔میری انگلیاں اس کے چوتڑوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی آگے تک آتی ۔۔۔جہاں چوت کے نچلے حصے پر لگتی ہوئی نیچے آتی ۔۔۔۔میں نے دباؤ بڑھا یا تھا ۔۔۔کلدیپ نے بھی گہر ی سسکی بھری تھی ۔۔۔۔۔۔میں نے ایک ہاتھ روکتے ہوئے اوپر کمر پر پھیرنے لگا۔۔۔اور دوسرے ہاتھ انگلیوں کو چوتڑوں کے درمیان سے آگے پہنچانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔چوت کے لب کے نچلے حصےپر انگلی لگی تھی ۔۔۔جہاں سے گیلا گیلا پن محسوس ہو رہات تھا ۔۔۔میں نے ہاتھ اور آگے بڑھا نے کی کوشش کی ۔۔اب کی بار چوت کے لبوں کے درمیان تک پہنچا تھا۔۔۔میں ہاتھ کھینچ کر اوپر لے آیا۔۔۔۔اور کلدیپ کو سیدھا ہونے کا کہا ۔۔۔۔کلدیپ نے ہاتھ سائیڈ پر ہو کر سیدھی ہونے کی کوشش کی ۔۔میں نے بھی مدد کی ۔۔۔ساتھ ہی اسے خود پر تھوڑا اوپر کر لیا۔۔۔اب وہ میرے اوپر سیدھی لیٹی تھی ۔۔۔۔سینے سے اوپر سے وہ کچھ ترچھی تھی ۔۔۔۔جس سے ہمارے چہرے آپس میں ملنے لگے تھے۔۔اس نے پہلے کی طرح چومنا جاری رکھا۔۔۔۔اور میرے دونوں ہاتھ نیچے گئے ۔۔۔اس کی رانوں کو دباتے ہوئے اوپر سے نیچے آنے لگا۔۔۔۔کچھ دیر ایسا ہی کیا ۔۔پھر ایک ہاتھ اوپر لے آیا ۔۔۔اوردوسرا ہاتھ ویسے ہی چوت کے لبوں پر گھوم رہا تھا۔۔۔اوپر حصے پر چھوٹا سا دانہ تھا ۔۔جہاں میری انگلی لگی ۔۔۔۔۔۔کلدیپ کی جسم نے لرزش کھائی تھی ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر دانے کو رگڑتا ہوا ۔۔انگلی چوت کے اندر داخل کرنے لگا۔۔۔۔کلدیپ نے ٹانگیں بھینچنے کی کوشش کی ۔۔انگلی اس کے پانی میں بھیگتی ہوئی اندر گئی تھی ۔۔اوپر والا ہاتھ اس کے مموں کو باری باری ٹٹول رہا تھا۔۔۔۔میری طرف چہرہ کیے اس کی آنکھیں مجھ سے تین انچ کے فاصلے پر تھی ۔۔۔۔مجھے اس کی آنکھوں میں لذت اور شہوت کی چمک دکھ رہی تھی ۔۔۔میں نے اس کے چہرے پر بوسہ دیا تھا ۔۔۔نیچے انگلی کی گستاخیاں ایسے ہی جاری تھیں ۔۔۔۔۔انگوٹھا دانے کو مسل رہا تھا ۔۔اور انگلی اندر کی طرف ہلچل مچا رہی تھی ۔۔دونوں ممے بھی میرے ہاتھوں میں خوش تھے ۔۔۔کلدیپ کا چہرہ میرے پاس ہی تھا ۔۔جس سے سسکاریں باہر کو ابل رہی تھی ۔۔۔سس۔سس کی آوازیں مجھے بھی للچا رہی تھی ۔۔۔میں اگلے تین منٹ تک منٹ اپنی انگلی کو حرکت دیتا رہا ۔۔۔پہلی والی کے ساتھ دوسری انگلی بھی شامل ہو چکی تھی ۔۔۔۔کلدیپ بھی مچلنے لگی تھی ۔اس کا ہاتھ میرے ہاتھ پر آگیا۔۔۔۔شاید انگلی تیز کرنے کا اشارہ تھا ۔۔۔میں نے بھی دونوں انگلیا ں جوڑتے ہوئے اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔کچھ ہی دیر میں چوت نے پانی چھوڑا تھا ۔۔۔۔جو میری انگلی کو گیلا کرتا ہوا باہر کو لپکا۔۔۔۔۔کلدیپ کا جسم جھٹکے کھاتے ہوئے رکا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر وہ سانس ٹھیک کرتی رہی ۔۔۔۔اور پھر میرے چہرے کو چومتی ہوئی سائیڈ پراتری ۔۔۔۔میں نے لیٹے لیٹے اپنی پینٹ سرکائی ۔۔۔۔۔کلدیپ نے بھی آدھی اتری ہوئی شلوار نیچے کر دی ۔۔۔۔اور ٹانگوں سے پھینک دی ۔۔۔میرا ہتھیار انڈروئیر میں ہی قید تھا ۔۔۔میں اٹھا ہوا کلدیپ کی ٹانگوں کے درمیان آیا ۔۔۔اور اس کے اوپر جھک گیا ۔۔۔اس کے چہر ے پر جاتے ہوئے میں نے انڈروئیر نیچے کر دیا ۔۔۔۔اسپرنگ سا کھلا ۔۔۔اور ہتھیار جان پکڑنے لگا۔۔۔۔چند ہی سیکنڈوں میں درمیانہ اور پھر فل تننے لگا۔۔۔۔۔میں دونوں ہاتھوں کوا وپر لے گیا ۔۔۔۔نیچے سے ٹوپے نے کلدیپ کی چوت پر دستک دی ۔۔۔گرم گرم ٹوپے نے کلدیپ کو چونکا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔چوت پہلے ہی کافی گیلی تھی ۔۔۔۔ماحول سازگار تھا ۔۔میں نے ٹانگیں اٹھا کر اپنی رانوں پر رکھیں ۔۔پیر پیچھے کی طرف چلے گئے ۔۔۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو چوت کے لبوں پر رگڑے ہوئے کچھ گیلا کرنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر زیادہ کامیابی نہیں ہوئی ۔۔۔۔موٹے اور پھولے ہوئے ٹوپے کی صرف نوک پر ہی کچھ پانی لگ پایا ۔۔۔۔میں نے شافٹ کو پکڑا جو موٹائی میں میرے ہاتھوں میں بھی نہیں آ رہی تھی ۔۔اور ٹوپے کو اورچوت کے لبوں پر رگڑنے لگا۔۔۔۔کلدیپ سانسیں روکی مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو لبوں پر رکھتے ہوئے دبایا تھا ۔۔۔ساتھ ہی تھوڑا سا اٹھا تھا ۔۔چوت پر ٹوپا کچھ دیر رکا ۔۔۔پیچھے سے دباؤ اور آیا۔۔اوپر سے کراہ کی آواز میں نے سنی ۔۔۔کلدیپ کی درد والی صدا تھی ۔۔۔۔۔۔ٹوپے نے اور زیادہ زور لبوں پر ڈالا۔۔۔۔لب کھلے ۔۔۔۔اور کھلے ۔۔۔ٹوپا پھنستے ہوئے اندر پہنچا ۔۔۔کلدیپ کا منہ ایک دم سے کھلا تھا ۔۔۔۔۔سانس تیزی سے باہر نکلی تھی ۔۔۔۔ٹوپے کے پیچھے شافٹ اور زیادہ موٹی اور چوڑی تھی ۔۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو ہلاتے ہوئے اور آگے دھکیلا ۔۔۔۔۔ایک انچ کے قریب ہتھیار اندر گیا تھا ۔۔۔چوت کے لب اور چیر چکے تھے ۔۔۔کلدیپ اب کی بار چلائی تھی ۔۔۔۔اس کی ٹانگوں نے بھی لرزش کی ۔۔۔کلدیپ کے ہاتھ نیچے کی طر ف آنے لگے ۔۔۔۔مگر میں نے راستے میں روکے اور واپس اوپر لے گیا ۔۔اس کے ہاتھوں کے اوپر ہاتھ رکھے ۔۔۔۔۔میں تھوڑا سا اٹھا تھا ۔۔۔کلدیپ کی اس مرتبہ چیخ نکلی تھی ۔۔۔آہ۔۔۔۔سس ۔۔آہ۔۔۔منہ سے کھلا تھا۔۔۔۔ہتھیار کچھ اور اندر پہنچ چکا تھا ۔۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی رہا ۔۔۔۔اور پھر سے آگے کو جھکا۔۔۔۔آہ ۔۔۔سس ۔۔۔اوہ ہ ۔۔کی آواز کمرے میں گونج گئی ۔۔۔۔کلدیپ مجھے ٹھہرنے کا کہنے لگی ۔۔۔میں رک گیا تھا ۔۔اور واپس کھینچتا ہوا پھر آگے لایا ۔۔۔اور کچھ دیر مزید ہلاتا رہا ۔۔۔۔ہتھیار کی موٹی اور چوڑی شافٹ باہر آنے پر فل سائز پردکھتی ۔۔۔مگر اندر جاتے ہی ایسے غائب سی ہو جاتی ۔۔۔۔وہ توکلدیپ کی آہیں ہی بتاتی کہ اندر جا کر کیا درد دے رہا تھا ۔میں نے کلدیپ کے ہاتھ پکڑ رکھے ۔۔۔۔آگے کو ہوا اور اس کے سینے کے مموں پر منہ رکھنے لگا۔۔۔شاید کچھ آگے آیا تھا ۔۔۔۔نیچے سے ہتھیار اندر لپکا تھا ۔۔۔کلدیپ کی منہ سے اوئی ۔۔۔۔کی ایک تیز چیخ نکلی ۔۔۔تھی ۔۔۔۔وہ پیچھے کو کھسکنے لگی ۔۔۔میں نے مموں پر منہ رکھے انہیں چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔نیچے ہتھیار ایسے ہی پھنسا ہوا ۔۔۔۔دونوں مموں کو باری باری چوستا رہا ۔۔اور پھر اٹھتے ہوئے پیچھے آیا ۔۔۔۔۔کلدیپ کی ٹانگیں اپنی رانوں سے اٹھا کر اوپر کر دی ۔۔اور پیروں کے بل پر ہو گیا ۔۔۔۔ٹوپے کو کھینچا اور دوبارہ سے اندر دھکیلا ۔۔ابھی تک آدھے سے کچھ کم ہی اندر تھا ۔۔۔۔۔کلدیپ کی پھر سے آہ نکلی ۔۔۔۔۔وہ نیچے دیکھنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔مگر ٹانگیں اٹھی ہونے کی وجہ سے زیادہ نہیں دیکھ سکی ۔میں نے دوسرا دھکے کچھ اور تیزی سے دیا ۔۔۔۔۔۔اس کی پھر سے آہیں نکلی۔۔۔۔میں نے مموں پر دونوں ہاتھ رکھے اور ہلنے لگا ۔۔۔یہ ہلنا وائیبریشن کی طرح تھا ۔۔۔۔میں مستقل کچھ دیر ہلتا رہا ۔۔۔اور پھر دھکے دیتے ہوئے آدھے ہتھیار کو اندر کر دیا ۔۔۔۔کلدیپ پھر سے چلائی تھی ۔۔۔۔۔آئی ۔۔۔۔ہائے ۔۔۔اوہ ہ۔۔۔۔میں کچھ دیر رک کر پھر ہلنا شرو ع ہو گیا ۔۔۔کلدیپ کی چوت کا پانی جھاگ کی صورت شافٹ پر اکھٹا ہو رہا تھا ۔۔۔ جو رفتہ رفتہ بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔۔میں پانچ سے چھ منٹ تک ایسے ہی ہلتا رہا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد ایسے لگا کہ کلدیپ چھوٹنے والی ہے تو میں رک گیا ۔۔۔اور ہتھیار باہر نکال دیا ۔۔۔۔میں نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی چھوٹے ۔۔۔۔کچھ دیر رکنے کے بعدمیں نے اسے الٹا کر دیا ۔۔۔گھوڑی بنانے کے بجائے میں اس کے چوتڑوں کے اوپر بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔اور ٹوپے کو نیچے کا راستہ دکھایا ۔۔۔۔ٹوپ سیدھا تباہی مچاتا ہوا اندر گھسا تھا ۔۔۔۔کلدیپ تڑپ اٹھی ۔۔۔۔میں نے گھٹنے دائیں بائیں رکھے ۔۔۔۔اور اس پر لیٹ گیا ۔۔۔اب میرا اوپر ی وزن بھی کلدیپ محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔ اس کے بال میں نے پھیلا کر دائیں بائیں کر دیا ۔۔۔گردن کا پچھلا حصہ میں چوم رہا تھا۔۔۔۔جب میری کمر اٹھی ۔۔اور دوبارہ سے ہتھیار اندر لپکا ۔۔۔کلدیپ کے جسم پھر سے لرزہ تھا ۔۔۔اس کے بعد میں کچھ دیر رکتے ہوئے گہرے گہرے جھٹکے مارنے لگا۔۔۔۔کلدیپ ہر جھٹکے پر بری طرح ہلتی ۔۔آہ ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔سس کی سریلی آواز گونجتی ۔۔۔۔۔مستقل جھٹکے اس لئے نہیں مار رہا تھا کہ پھر سے اس کےپانی چھوڑنے کا خطرہ تھا ۔۔۔۔میں وقفے وقفے سے جھٹکے مارتا اور گہرائی میں مارتا۔۔۔۔۔کلدیپ بےحال ہو گئی تھی ۔۔۔دو تین بار ایسا ہوا کہ اس کاپانی نکلنے والا تھا اور میں رک جاتا ۔۔۔۔اس مرتبہ بھی وہ بے چین ہونے لگی ۔۔۔۔اور میں رک گیا ۔۔۔اب کی بار میں بھی قریب ہی لگ رہا تھا ۔۔۔میں نے کلدیپ کو سیدھا کیا ۔۔اور ٹانگیں اٹھا کر اوپر کی ۔۔۔جتنی اوپر ہو سکتی تھی ۔۔اوپر کی ۔۔۔ساتھ ہی نیچے سے اسے اٹھاتے ہوئے اور موڑا تھا ۔۔۔۔۔کلدیپ اب ٹانگیں اوپر کرنے کے ساتھ کمر کی طرف سے مڑی ہوئی تھی ۔۔۔میں اوپر آیا تھا ۔۔اور نیچے بیٹھتے ہوئے ہتھیار کو واپس پھنسایا تھا ۔۔۔چوت کے لب اب ٹوپے کے اچھے سے پہچان چکے تھے ۔۔۔مگر راستہ ویسے ہی پھنستے ہوئے ملا۔۔۔۔۔میں نے بیٹھتےہوئے ہتھیار کو اندر اتارا ۔۔۔کلدیپ بھی ہتھیار کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔جمبو سائز کا یہ ہتھیار اس کی چوت میں جا کیسے رہا تھا ۔۔۔۔آدھے ہتھیار اندر پہنچانے کے بعد میں نے واپس کھینچا اور دھکے دیتے ہوئے اندر پہنچا یا ۔۔۔۔کلدیپ ہونٹ بھینچتی ہوئی درد برداشت کر رہی تھی ۔۔۔میں نے اب کی بار دھکے متوازی رکھے ۔۔۔۔اور رفتہ رفتہ تیز کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔کلدیپ پہلی مرتبہ لرزی ۔۔۔۔۔پھر کانپی ۔۔اور مستقل ہلنے لگی ۔۔۔ہتھیا ر میرے وزن کے ساتھ نیچے گھستا تھا ۔۔۔جس کا دباؤ کلدیپ کے جسم پر بھی زور ڈالتا ۔۔۔۔اس کا پورا جسم ہلنے لگا ۔۔تھا ۔۔۔وہ اپنی ٹانگوں کو پکڑے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔اسپیڈ تیز ہوئی اور درد اس کی برداشت سے باہر ۔۔۔۔اس کی بےاختیار آہ نکلی ۔۔۔۔اور پھر سسکاری نکلی ۔۔۔پھر کراہ نکلی ۔۔۔۔مستقل دھکوں کے ساتھ کراہوں کا سلسلہ جاری ۔۔۔۔۔اس کے چہرے کے نقش و نگار بھی ایسے ہی تبدیل ہوتے ۔۔۔۔ٹوپا جب داخل ہوتا تو الگ تاثر ۔۔۔۔تھوڑا ااور اندر آتا تو الگ ۔۔۔اور جب آدھا ہتھیار گھس کر واپس ہوتا تو الگ تاثر ۔۔۔۔۔میں نے دھکوں کو جھٹکوں میں تبدیل کر دیا ۔۔اس کی آوازیں بھی اور اونچی ہوئیں ۔۔۔۔آہ۔۔۔کے ساتھ ۔۔اووئی ۔۔کا اضافہ ہو ا۔۔۔۔آہ۔۔اووئی ۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔آآئی ئی۔۔۔۔۔ کی آواز اس وقت آئی جب اپنے وزن کے زور میں کچھ اور زیادہ ہی بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ٹوپے کی رگیں پھولنے لگی تھی ۔۔۔میرا وقت بھی قریب ہی تھا ۔۔۔جھٹکے درمیانے سے تیز ہونے لگے۔۔۔۔۔۔کلدیپ پہلی ہی کافی حد تک مڑی تھی ۔۔زیادہ اس کے لئے خطرناک بھی تھا۔۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں سیدھی کر دیں ۔۔۔اور سیدھی ٹانگوں کےاوپر بیٹھے گیا ۔۔۔۔اوپر بیٹھے بیٹھے ہی ٹوپے کو چوت پر رکھے ہوئے آگے کو دھکا دیا ۔۔۔۔اینگل نیا تھا ۔۔۔درد اور مزے بھی نیا ملا ۔۔۔۔میں نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھے کمر ہلکی سی اٹھا دی ۔۔اور جھٹکوں سے اسے ہلانے لگا۔۔۔۔۔کلدیپ کی سسکاریاں ایسے ہی جاری تھی ۔۔۔۔۔اس کا بدن ویسے ہی ہل رہا تھا ۔۔۔۔وہ بھی پانی چھوڑ نے والی تھی ۔۔۔۔میرے جھٹکے تیز ہوئے ۔۔۔۔۔ابھی طوفانی ہونا باقی تھے ۔۔۔مگر پھر سے کلدیپ کا خیال آیا ۔۔۔نیچے تخت تھا ۔۔۔اور گدا زیادہ موٹا بھی نہیں ۔۔۔۔۔اس رگڑ بھی پہنچ رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے اسپیڈ اتنی ہی رکھی ۔۔۔۔کلدیپ کی آہیں جاری تھی ۔۔۔۔اووئی ۔۔۔آہ۔۔۔۔سس ۔۔۔میں نے مموں پر رکھے ہاتھوں کو اس کے کندھے پر رکھ کر تھوڑا اور اٹھا ۔۔۔اور کچھ اور دھکے جمائے ۔۔۔۔کلدیپ کی چوت نے ہار مانی اور پانی چھوڑ دیا ۔۔۔میں نے اسپیڈ تیز کردی ۔۔اور اگلے تیس سیکنڈ کی طوفانی اسپیڈ نے فوارہ چھوڑدیا ۔۔۔۔۔۔۔کلدیپ کی چوت سے پانی باہر گرنے لگا۔۔۔۔میں نے ہتھیار نکالا اور ساتھ لیٹ گیا ۔۔۔کلدیپ نے بھی کچھ دیر اپنی سانس بحال کی ۔۔۔مجھے چومنے لگی ۔۔۔میں نے ساتھ پڑی چادر اٹھائی اور خود پر ڈال دی ۔۔۔کچھ دیر باتیں کی اور پھر سو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Quote

اگلے دن صبح کلدیپ نے مجھے جھنجھوڑ کر اٹھایا ۔۔۔۔۔میں ناشتہ لینے جارہی ہوں ۔۔اٹھ جاؤ ۔۔۔
میں نے ہلکی سی آنکھیں کھولی ۔۔۔کلدیپ نے چادر اوڑھ لی تھی ۔۔اور باہر نکل رہی تھی ۔۔۔۔میں بھی اٹھا اور باتھ لینے چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔دس منٹ تک پانی کے نیچے کھڑا خود کو فریش کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔
راجیش کل اپنی منزل کو پہنچ گیا تھا ۔۔۔۔۔جیوتی کا رد عمل کیا ہوگا۔۔۔؟ مندر سے اٹھائی ہوئی دولت بھی اسی کے پاس تھی ۔۔۔۔۔۔اور عاصم سے رابطہ بھی کرنا تھا ۔۔۔۔
میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ کلدیپ کی آواز آئ۔۔۔وہ واپس آ چکی تھی ۔۔۔میں نے تولیہ اپنے جسم پر لپیٹا ۔۔۔اور باہر آگیا ۔۔۔کپڑے کے نام پرمیرے پاس وہی ایک سوٹ تھا جو کل سے میرا ساتھ دے رہا تھا ۔۔۔
باہر آیا کلدیپ ناشتہ سجا کر بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔کوئی پہلوانوں والا ناشتہ تھا ۔۔۔۔میں بھی آ کر بیٹھا اور کافی عرصے بعد لسی اور مکھن کے مزے چکھے ۔۔۔۔۔۔۔چائے کی پابندی تھی ۔۔۔۔بقول کلدیپ پنجابیوں اور چائے کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔۔۔کلدیپ ہریانہ یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ تھی ۔۔۔۔اس کا بھائی اور وہ دونوں ساتھ ہی تھے ۔۔۔۔۔اس کے بھائی نے یونیورسٹی میں ہی سکھوں کی ایک اسٹوڈنٹ تنظیم میں شمولیت اختیار کی ۔۔۔جو خالصتان کی حامی تھی ۔۔۔اور آہستہ آہستہ اس تنظیم کا لیڈر بن گیا ۔۔۔۔۔مختلف مظاہروں اور پرنٹ میڈیاکے زریعہ وہ خالصتان تحریک کو پھیلانے میں مصروف تھا ۔۔اور یہی کام اسے راجیش کے مقابل لے آیا تھا ۔۔۔کچھ دن پہلے راجیش نے اسے اغوا کیا تھا ۔۔۔اور پھر کلدیپ نے اسی تنظیم کے لڑکوں کے ساتھ مل کر اسے رہا کرنے کی کوشش شروع کی ۔۔۔کل مجھے بھی اسی سلسلے میں اٹھایا گیا تھا ۔۔۔میرے آنے سے پہلے وہ راج گڑھ میں راجیش کے گھر حملے کے لئے تیار تھے۔۔۔۔
میں اس کی بات سنتے جا رہا تھا ۔۔۔اور ناشتے سے بھی بھرپور انصاف کر رہا تھا ۔۔۔اپنے بھائی کے بعد وہ خود تنظیم کی لیڈر بننا چاہ رہی تھی ۔۔۔اور اپنے بھائی کے کام کو جاری رکھنے کا عزم کر رہی تھی ۔۔۔اصولی طور پر تو میں بھی خالصتان کا ہی حامی تھا ۔۔۔۔۔کلدیپ نے مجھے سے میرا پوچھا ۔۔۔۔۔میں نے اسی دوران اپنی کہانی بھی بنا لی ۔۔۔راجیش کو اپنی ذاتی دشمنی بتائی تھی ۔۔کہ کچھ عرصے پہلے اس نے بھی میرے دوست کو مارا تھا ۔۔اور میں نے بدلے کی قسم کھا ئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔کلدیپ نے مجھے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ۔۔۔۔میرا خیال ہے کہ تم میرا مزاج سمجھ چکی ہو گی ۔۔۔۔پابندیوں میں رہنا مشکل کام ہے ۔۔۔ساتھ ہی کسی ایک جگہ ٹکنا بھی مشکل ہے ۔۔۔پھر بھی اگر کوئی مشکل ہو تو تم مجھے کال کر سکتی ہو ۔۔۔۔۔اس کےعلاوہ پیسوں کی جتنی مدد چاہئے ہو میں حاضر ہوں ۔۔۔میں نے کلدیپ سے اچھے الفاظ میں معذرت کی ۔۔
اس کی آنکھوں میں شکوہ تھا۔۔۔۔مگر آپ تو میری مجبور ی سمجھتے تھے (ریڈرز حضرات)۔۔۔۔
اچھا کوئی فون ہے تو دو میں نے اپنے ایک دوست کو فون کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔کلدیپ دوسرے کمرے سے اپنا پرس اٹھا لائی ۔۔۔اور اندر ہاتھ ڈالنے کے بعد فون نکالا اور میری طرف بڑھا دیا
عاصم کا دیا ہوا نمبر میرےذہن میں محفوظ تھا۔۔۔دوسری بیل پر نمستے تکا رام اسپیکنگ کی آوازآئی تو میں ہڑبڑا گیا ۔۔۔۔نمبر غلط تھا یا میں بھول گیا تھا ۔۔میرے جسم میں بے چینی کی لہر دوڑی ۔۔
اگلا بندہ ہیلو کرتا ہوا ۔۔۔کون ۔۔۔۔کون پوچھ رہا تھا ۔۔۔۔
اور پھر شاید اس نے فون کسی اور کو دیا۔۔۔۔۔۔عاصم کی بھاری آواز میرےکانوں سے ٹکرائی ۔۔۔۔ہو از اسپیکنگ ۔۔۔ ؟
گمشدہ پرندہ ۔۔۔۔۔۔میں اطمینان میں آچکا تھا ۔۔نمبر ٹھیک ہی تھا ۔۔
آپ کہاں ہیں راجہ صاحب ۔۔ہم کل سے آپ کے لئے پریشان تھے۔۔۔۔راجیش کی اطلاع مجھے مل گئی تھی ۔۔۔میں سمجھ گیا کہ یہ آپ کا ہی کارنامہ ہے ۔۔۔۔عاصم کی خوشی سے بھرپور آواز مجھے سنائی دی ۔۔
میں نے کلدیپ سے ایڈریس پوچھتے ہوئے بتا دیا ۔۔۔اس نے ابھی آیا کی آوا ز لگائی اور فون بند کر دیا۔۔۔
کلدیپ ابھی بھی مجھے امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔میں نے اسے قریب بلا لیا اور پھر سے سمجھانا شروع کر دیا۔۔۔
میرے ابھی بہت سے دشمن باقی ہیں ۔۔وہ میرے خون کے پیاسے بھی ہیں ۔۔اور مجھےڈھونڈ بھی رہے ہیں ۔۔اگر میں کہیں رک گیا تو ان کا شکار ہو جاؤں گا۔۔۔۔اور تم مجھ سے الگ رہو گی تو میری مدد بھی کرسکو گی ۔۔۔۔
کیسی مدد ۔۔۔۔کلدیپ نے نم آنکھوں سے پوچھا ۔۔
تم اپنی اسٹوڈنٹ تنظیم کو منظم کر و ۔۔۔۔ جوشیلے جوانوں کو الگ کرو ۔۔انہیں تربیت دو ۔۔۔۔لڑنے کی بھی اور اپنی حفاظت کی بھی ۔۔۔اور یہاں کی مختلف یونیورسٹیز میں اپنے یونٹ بناؤ ۔۔۔۔ اورزیادہ سے زیادہ جوانوں کو ملا کر ہر سطح پر اپنی آواز اٹھانے کا بندوبست کرو ۔۔۔۔۔۔اس کے لئے جتنی مالی امداد کی ضرورت ہو ۔۔۔میں کرنے کو تیار ہوں ۔۔۔اس کے علاوہ تم جب چاہو گی میں تمہار ے پاس حاضر ہو جاؤں گا۔۔۔۔کلدیپ مجھ سے لپٹی خاموشی سے سن رہی تھی ۔۔۔۔۔ بات اس کی سمجھ میں آرہی تھی ۔
اور اگر میں تم سے ملنا چاہوں ۔۔۔اور خود آنا چاہوں تب ۔۔۔۔۔کلدیپ نے پھر سیاہ آنکھیں اٹھا کر مجھےدیکھا ۔
تم جب چاہو میرے پاس آسکتی ہو۔۔۔۔اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔میں نے کہا۔
کلدیپ کچھ مطمئن سی تھی ۔۔۔مجھے سے لپٹے ہوئے اس کے بوسے جار ی تھے ۔۔ جب میں نے ہارن کی آواز سنی ۔۔ساتھ ہی کلدیپ کا فون بجا ۔۔۔۔میں تیزی سےاٹھنے لگا۔۔۔کلدیپ نے مجھے لٹاتے ہوئے لپٹ گئی ۔۔۔ایک کے بعد ایک بوسے تھے ۔۔۔میں اسے جواب دیتا ہوا اٹھا ۔۔دروازہ کھولا۔۔۔۔۔عاصم تیزی سے اندر بڑھا تھا ۔۔۔گرم جوشی سے لپٹا تھا ۔۔۔راجہ صاحب کدھر گم ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔
میں بھی لپٹ گیا ۔۔۔دیار غیر میں وہ میرا بھائی تھا ۔۔غم گسار بھی تھا ۔۔ مشکلوں میں ساتھ نبھانے والا ۔۔۔ شانے سے شانے ملا کر چلنے والا ۔۔۔۔کلدیپ حیرانگی سے ہماری محبت کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔عاصم نے الگ ہوتے ہوئے سرگوشی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر بھی لڑکی کا چکر ہے دوست ۔۔۔۔۔! ۔۔۔
میں نے اس کی پیٹھ پر دھپ ماری اور کہا کہ یہی بات ہے پیارے ۔۔۔۔۔
ہم الگ ہو گئے ۔۔۔۔میں نے کلدیپ کا تعار ف کروادیا ۔۔اور عاصم کا نمبر بھی دے دیا ۔۔اس کے بعد ہم رخصت ہوئے ۔۔کلدیپ دروازے پر کھڑی دیکھتی رہی اور پھر پلٹ گئی ۔۔اسے بھی بہت کام کرنے تھے ۔۔۔
عاصم ایک جیپ لے کر آیا تھا ۔۔۔کچھ گلیوں سے گزرتے ہوئے میں روڈ پر آئے ۔۔۔جہاں کل کا معرکہ گرم تھا ۔۔۔۔میں کل کی کہانی عاصم کو سناتے جا رہا تھا ۔۔۔
عاصم کی رہائش تھوڑی ہی دور تھی ۔۔۔۔ایک بڑی باؤنڈری کی عمارت تھی ۔۔۔جیپ دروازے پر رکی تو دروازہ کھلنے لگا۔۔۔سامنے ایک پرانی طرز کی عمارت تھی ۔۔۔۔جیپ روک کر عاصم اچھلتا ہوا باہر آیا ۔۔۔۔ادھر گیٹ کھولنے والا بھی عاصم کے پاس آگیا ۔۔۔۔یہ نوجوان بھی اسلحہ سجائے کھڑا تھا ۔۔۔۔راجہ صاحب مل گئے آپ کو ۔۔۔۔عاصم نے کہا ہاں یا ر مل ہی گئے ۔۔۔۔بڑی دوڑ لگوائی ہے انہوں نے ۔یہ رضوان ہے ۔۔۔۔عاصم نے مجھے بتایا کہ کل سے ان سب کی شامت آئی ہوئی ہے ۔۔۔۔سب گاڑیاں لے کر نکلے ہوئے تھے ۔۔۔۔یہ عاصم کا اپنا گروپ تھا۔۔۔۔یہ سب پڑھے لکھے لوگ تھے ۔۔مگر بے روزگاری نے انہیں چوری چکاری اور دوسرے غلط دھندے میں ملوث کر دیا تھا ۔۔۔۔ایسے ہی ایک کارووائی میں یہ عاصم سے ملے اور پھر اسی کے پاس رہ گئے ۔۔۔۔۔رضوان بھی مجھ سے گرم جوشی سے ملا۔۔۔
ہم اندر پہنچے تو عاصم نے چائے کی آواز لگادی ۔۔۔۔مجھے بھی بڑی طلب تھی ۔۔۔
اور پھر ایک سجے ہوئے کمرے میں پہنچے ۔۔۔۔چائے آئی اور پینے کے دوران میں نے بقیہ داستان سنا دی۔۔۔۔ہیڈ کوارٹر کی مکمل رپورٹ اس تک پہنچ چکی تھی ۔۔پورا ہیڈ کوارڈر ملیا میٹ ہوا تھا۔۔۔اور ساتھ ہی انڈین گورنمنٹ کو اسرائیل کی حکومت کو بھی جواب دینا تھا جس کے ایجنٹ وہاں مرے تھے ۔۔۔۔۔۔انڈین میڈیا نے آئی ایس آئی پر الزام لگایا تھا۔۔۔۔را اور انٹیلی جنس نے اپنا ایک اور آفیسر میدان میں اتارا تھا ۔۔۔۔عاصم نے اس کے پیچھے بندہ لگا دیا تھا۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی یہاں کے پولیس اسٹیشن میں بھی ہمارے بارے میں احکامات پہنچ چکے تھے ۔۔
چائے لے کرآنے والا بھی ویسا ہی نوجوان تھا ۔۔۔۔اور چائے بھی مزے کی تھی۔۔۔۔ہم چسکیاں لینے لگے ۔۔۔۔
آگے کا کیا پروگرام ہے راجہ صاحب ۔۔۔۔۔عاصم نے پوچھا۔
بس کام مکمل کرنے کا ارادہ ہے ۔۔۔۔۔۔تم نے بتایا تھا کہ صرف کنٹرولنگ سسٹم ہے ۔۔۔۔جہاں ڈروں طیارے رکھے گئے ہیں وہ الگ جگہ ہیں ۔۔۔۔میں نے کہا۔
جی راجہ صاحب ۔۔۔۔ایک ائیر بیس تو شملہ میں ہے ۔۔۔۔جبکہ دوسراپٹھان کوٹ میں تھا ۔۔۔۔۔اور خوشی کی بات یہ ہے کہ پٹھان کوٹ میں کچھ مہینے پہلے کشمیری فریڈم فائڑز نے اٹیک کیا تھا ۔۔۔۔اور میر ی معلومات کے مطابق وہ اس ڈرون طیارے کے ہینگر تک پہنچنے میں کامیا ب ہو گئے تھے ۔۔۔۔بس انڈین میڈیا نے یہ بات چھپا لی تھی ۔۔۔
تو پھر شملہ کی طرف روانگی پکڑتے ہیں ۔۔۔۔۔میں نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا ۔۔
راجہ صاحب تھوڑا دھیرج رکھیں ۔۔۔۔اسی کام پر بندہ لگا دیا ہے ۔۔۔۔وہ آتا ہی ہو گا۔۔عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

Quote

عاصم کا ذہن مجھ سے تیز چل رہا تھا ۔۔۔وہ موجودہ حالات کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اگلےآنے والے واقعات کے لئے بھی ماحول تیار کر رہا تھا ۔۔۔اور یہی ہوا تھا۔۔۔۔شام کو اس کا بندہ آ گیا تھا ۔۔۔نوید نامی یہ لڑکا بھی یونیورسٹی اسٹوڈنٹ عمر کا ہی تھا ۔۔۔۔عاصم نے مجھے بلوا لیا۔۔۔۔
اسی کمرے میں ہم بیٹھے ۔۔۔۔۔نوید مجھ سے پرتپاک انداز سے ملا۔۔۔اور پھر تفصیل بتانے لگا۔۔۔
عاصم بھائی ۔۔۔پچھلے ہفتے ہی ٹورزم ایجنسی میں ایک غیر ملکی گروپ کی ریکوئسٹ آئی تھی ۔ ۔۔۔ ۔۔یہ آسٹریلیا اور جرمنی سے آئے ہوئے لوگ ہیں ۔۔چار لوگوں کا گروپ ہے ۔۔۔۔ایکدوسرے گائیڈ نے انہیں انڈیا کی سیر کروادی ہے ۔۔۔اب انہوں نے کل شملہ جانا ہے ۔۔۔میں نے انہوں بتا دیا ہے وہا ں کے لئے ہم گائیڈ تبدیل کر یں گے ۔اور وہ راضی بھی ہیں ۔۔۔۔اب آپ بتائیں کہ آپ لوگوں کا کیا پلان ہے ۔۔۔
نوید پہلے عاصم کے پاس ہی کام کرتا تھا ۔۔عاصم نے ہی اسے اس ٹوررزم ایجنسی میں جاب لگوا کر دی تھی ۔۔۔۔اب وہ دو تنخواہیں لیتا تھا ۔۔۔ایک عاصم سے اور ایک ایجنسی سے ۔۔۔۔
عاصم نے نوید سے پوچھا کہ ایک گائیڈ جائے گا یہ دو گائیڈ ۔۔۔۔۔
عاصم بھائی یہ تو ہم پر ہے ۔۔۔گائیڈ ہمارا ہے وہ تو ایک کے پیسے دیں گے ۔۔۔مگر اگر دوسرا جائے تو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔۔۔ظاہر ہے اس کے پیسے ایجنسی کے پلّے ہی سے جائیں گے ۔۔۔
کیا ارادے ہیں پھر جگر ۔۔۔۔چلیں شملہ ۔۔عاصم مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔۔میں نے آنکھوں سے اشارہ کر دیا ۔۔
عاصم نے نوید کو فائنل کر دیا ۔نوید نے جھجکتے ہوئے کہا کہ عاصم بھائی کاغذات کی سیٹنگ بنالیجئے گا۔۔آج کل سختی زیادہ ہے ۔۔۔۔عاصم نے اسے مطمئن کردیا ۔۔
اگلے دن صبح روانگی تھی ۔۔۔۔شام کا کھانا ہم نے باہر کھایا ۔۔
عاصم کو راج گڑھ میں دیکھ کر مجھے لگا یہ یہیں مشہور تھا ۔۔۔مگر یہاں لدھیانے میں وہ اس سے زیادہ معروف تھا۔۔۔جہاں سےگذرتا ۔۔لوگ عاصم بھائی کہتے ہوئے سلام کرتے ۔۔۔
ہم ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔جہاں کا ساگ اور تندوری چکن مشہور تھا۔۔۔۔عاصم نے آرڈر دیا اور ۔۔تھوڑی ہی میں ساگ کے ساتھ لسی۔۔۔اور تندوری چکن تھے ۔۔۔پنجاب کا اپنا ہی ذائقہ تھا۔۔۔۔خوب سیر ہو کر کھایا ۔۔
کھانے کے بعد عاصم نے پیسے دینے کے لیئے پرس نکالا ۔۔۔مگر ریسٹورنٹ کا مالک خود آیا اور منع کرنے لگا۔۔۔یہاں بھی عاصم کی فین فالونگ تھی ۔۔۔عاصم نے انکار کیا کہ پھر یہاں نہیں آؤں گا۔۔اور زبردستی اس کی جیب میں پیسے ڈال دئے ۔۔۔۔
اور پھر اپنی جیپ کی طرف چل پڑا ۔۔۔میں ساتھ ہی تھا۔۔۔۔لسی پینے کے بعد سرور سا آنے لگا۔۔۔۔گھر واپس پہنچے تو عاصم مجھے اوپر اپنے کمرے میں گیا ۔۔۔اورالماری کہتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔راجہ صاحب میرا خیال ہے کہ ہمار ا ناپ ایک ہی ہے ۔۔۔۔آپ کل سفر کے لئے کپڑے منتخب کر لیں ۔۔۔میں جب تک باقی کام دیکھتا ہوں ۔۔۔کاغذات آج نوید کو دینے ہیں ۔۔وہ اپنی ایجنسی کی سائٹ پر ہمیں گائیڈ کے طور پررجسٹر کروادے گا۔۔پھر الماری کی درازکھول کر ایک موبائل میری طرف بڑھا دیا۔۔۔۔یہ موبائل رکھ لیں ۔۔۔۔سم ایکٹو ہے ۔۔بس آن کر لیں۔۔۔عاصم نے موبائل دیا اور نیچے چلا گیا۔
میں موبائل ہاتھ میں پکڑا سوچتا رہا ۔۔جیوتی اور کلدیپ کا نمبر سیو کر لیا۔۔۔۔اور پھر نیند میں ڈوبتا چلاگیا۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عاصم نے رات ہی ڈرائیونگ لائسنس سے لے کر ہر چیز تیار کرلی تھی ۔اور نوید کی مدد سے ہم گائیڈ کے طور پر رجسٹر ہو چکے تھے ۔۔میرا میک اپ عاصم نے ختم کر کے پہلے والی رنگت کر دی تھی ۔۔اور نئے کاغذات بھی نئی تصویر کے ساتھ تھے ۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے صبح سویرے جگایا تھا۔۔۔ناشتے کے بعد تیار ہونے لگا۔۔۔میرا بیگ عاصم نے ہی پیک کیا تھا ۔۔۔اور پھر ہم جیپ پر بیٹھے نوید کی ایجنسی پہنچے ۔۔۔۔ورلڈ ٹوررزم کے نام کی یہ ایجنسی کافی بڑی اور مشہور لگ رہی تھی ۔۔عوام کے رش کے ساتھ اندر اسٹاف کے کافی لوگ فون کے ساتھ مصروف تھے ۔۔۔ہم اندر پہنچے تو نوید بھی آگیا۔۔۔۔اور اپنے آفس میں لے گیا ۔۔یہاں دو کپل بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔ہنی مون کے لئے انڈیا آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔اور تاج محل دیکھتے ہوئے سدابہارمحبت کی قسمیں کھائی تھیں ۔۔۔نوید نے ہمار ا ان سے تعار ف کروایا ۔۔۔۔۔اور چائے منگوانے لگا۔۔۔دونوں جوڑے 25 سے 30 سال کی عمر کے درمیان تھے ۔۔۔جیمز اور اس کی مسز کرسٹینا کا تعلق آسٹریلیا سے تھا ۔۔۔۔یہ وہاں کمپیوٹر انجینئر تھے ۔۔۔۔۔۔۔جبکہ البرٹ اور اس کی مسز ہیلن جرمنی میں ٹیچرز تھے ۔۔۔۔۔۔دونوں کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا ایک ثبوت ان کا یہاں انڈیا میں پایاجانا تھا ۔۔۔۔دونوں جوڑے بالی وڈ موویز کے بھی فین تھے ۔۔۔ہم لوگ باتوں میں مصروف تھے ۔۔کہ نوید کی آواز آئی ۔۔۔عاصم بھائی میں نے اپنےباس سے دو گائیڈکی بات کر لی ہے ۔۔۔مگر ۔
اس نے اپنے دوست کی بیٹی کو بھی ساتھ لے جانے کا کہا ہے ۔۔۔وہ بھی وہیں جاب کرتی ہے ۔۔اور باس نے اسے بھی وہیں چھوڑنے کاکہا ہے ۔۔۔۔۔
کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ہو جائے گا۔۔۔اس کے بعد نوید نے تین دن ٹوورز کا پروگرام بتا دیا۔۔۔ایک دن شملہ میں رک کر اگلے رات منالی میں رکنا تھا ۔۔۔اور پھر جالندھر کے راستے واپسی ہونی تھی ۔۔۔کچھ دیر بعد نوید نے جیپوں میں سامان رکھوانا شروع کر دیا ۔۔ہمارا بیگ بھی ساتھ تھا۔۔۔۔ہم باہر آگئے تھے ۔۔۔اتنے میں نوید ایک اور لڑکی کو ساتھ لئے آیا ۔۔۔۔پوجا ڈکشٹ نامی یہ لڑکی فیشن ڈیزائنر اور میک اپ آرٹسٹ تھی ۔۔۔خود بھی کافی الٹرا ماڈرن لگ رہی تھی ۔۔۔۔بال اسٹریٹ اور نچلی طرف سے پنک کلر میں رنگے ہوئے تھے ۔۔۔بے فکری سے چشمہ چڑھائے چیونگم چبانے میں مصروف تھی ۔فگر اچھا تھا ۔۔اور لال رنگ کی لمبے سے کرتے اور جینز میں اور بھی اچھا لگ رہا تھا ۔لال رنگ کی یہ قمیض کے سائیڈ کافی اونچی تھی جس سے اس کی گوری رنگ جھانک رہی تھی ۔۔۔اور جینز تو چھپانے کے بجائے دکھانے میں مصروف تھی۔۔۔۔مجھے خود پر دیکھتے ہوئے اس کے چہرے کا تاثرات کچھ ناگوار ہوئے ۔۔۔۔۔۔نوید میری جیپ میں اس کا بیگ رکھ رہا تھا ۔۔۔جب اس نے کہا کہ میرا بیگ اگلی جیپ پر رکھ دو ۔۔۔جہاں عاصم البرٹ اور ہیلن کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا ۔۔میں بھی اسے گھورتا ہوا اپنی جیپ پر جابیٹھا ۔۔۔جیمز اور کرسٹینا میرے ساتھ تھے۔۔۔۔۔کرسٹینا کافی باتونی تھی ۔۔۔۔اور جیمز خاموش مزاج آدمی تھا۔۔۔۔وہ دونوں پیچھے جا بیٹھے اور باتوںمیں مصروف ہوگئے۔۔۔عاصم سارے راستے سے باخبر تھا۔۔۔۔۔اس نے جپ اسٹارٹ کی اور سفر شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔شملہ کا راستہ صرف پانچ گھنٹے کا تھا ۔۔۔۔مگر اصل کام انہیں وہاں پر گھمانا تھا۔۔۔۔جلد ہی دونوں جیپوں ہائی وے پر پہنچ کر دوڑنے لگی ۔۔۔
جیمز اور کرسٹینا بھی باتیں کرنے میں مشغول تھے ۔ہمیں جیپ پر سفر کرتے ہوئے تین گھنٹے گزر چکے تھے ۔سیدھے روڈ پر سیدھا سفر جاری تھا۔۔۔میں راستے پر بورڈ پڑھتا جا رہا تھا ۔۔شملہ کوئی ڈیڑھ سو کلو میڑ رہ گیا تھا ۔۔۔ہلکی سی چڑھائی شروع ہو رہی تھی ۔۔اور ٹھنڈ کا احساس بھی ۔۔آخری بورڈ دیکھا تو سو کلو میٹر کا سفر تھا۔۔۔۔ادھر عاصم نے بھی اسپیڈ بڑھا دی ۔وہ گاڑیوں کو کراس کرتے ہوئے تیزی سے نکلنے لگا۔۔۔۔۔میں نے بھی ریس پر پاؤں رکھ دیا ۔۔۔۔میٹر کا کانٹا 90 سے کراس ہو کر اوپر جا رہا تھا ۔۔۔۔جیمز نے چونک کر مجھے دیکھا ۔۔۔اور اسپیڈ کو ۔۔۔۔اور پھر اگلی جیپ کو۔۔۔۔میں جیپ کی اسپیڈ بڑھاتے جا رہا تھا ۔۔۔۔عاصم کی جیپ کے قریب پہنچا ۔۔اس نے اسپیڈ کم کی تھی ۔۔جیپ برابر میں لایا تو عاصم نے مجھے دیکھا ۔۔ریس ہو جائے ۔۔۔جگر ۔۔۔۔میں نے عاصم کے ساتھ بیٹھی ہوئی پوجا کو دیکھا تو سمجھ گیا ۔۔وہ شرارت بھرے انداز میں مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔یہ اس نے عاصم کو ہی بھڑکایا تھا ۔۔۔۔میں نے پیچھے دیکھا تو البرٹ اور ہیلن بھی اس ریس کو انجوائے کرنے کے موڈ میں تھے ۔۔۔اور ادھر کرسٹینا اور جیمز نے بھی اونچی آواز میں ابھارنا شروع کر دیا۔۔۔۔مجھے کیا پریشانی تھی ۔۔۔میں نے بھی اشارہ کرتے ہوئے ریس بڑھا دی ۔۔۔۔۔بس پھر کیا تھا ۔۔۔۔ ہائی وے کا یہ روڈ ہمارے نیچے سے بھاگنے لگا۔۔۔۔۔۔ہم باقی ٹریفک کو خطرناک سائیڈ دیتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔۔۔۔۔۔۔دوسری ٹریفک بھی ہماری ریس دیکھ رہی تھی ۔۔۔ادھر کرسٹینا نے اپنا کیمرہ نکال کرویڈیو بنانی شرو ع کرد ی ۔۔۔۔۔دونوں کھلی جیپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے تھے۔۔اور آپس میں چیخ کر خوشی کا اظہار کر رہےتھے ۔۔۔ادھر بھی یہی صورتحال تھی۔۔۔۔البرٹ بھی ریس کی ویڈیو بناتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے کراس کر لیا تھا۔۔۔اور کچھ فیٹ کے فاصلے پر ہم یکساں رفتار سے بھاگ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔کرسٹینا چیخ چیخ کر مجھے آگے نکلنے کا کہ رہی تھی ۔۔۔میں جس سائیڈ پر کراسنگ کے لئے آؤں ۔۔۔عاصم بھی جیپ اسی طرف کر دیتا ۔۔ہماری یہ کشمکش جاری تھی ۔۔عاصم نےاسپیڈ آہستہ کر لی۔۔۔روڈ اب گول گھومتا ہوا اوپر چڑھنے لگا۔۔۔کسی زگ زیگ کی طرح یہ روڈ اوپر چڑھ رہا تھا ۔۔عاصم ابھی بھی آگے تھا۔۔۔۔موڑ پر گاڑی کے ٹائر چرچراتے اور گاڑی گھومتی ہوئی پھر اسپیڈ پکڑتی ۔۔۔۔ایک موڑ پر میں نے اسپیڈ تیز کی ، اور اگلے موڑ سے پہلے عاصم کو پہنچنے کی کوشش کی ۔۔۔تبھی ایک اور جیپ میرے برابر میں تیزی سی آئی ۔۔۔۔۔میں نے چونک کر دیکھا ۔ہلا گلا کرتے ہوئے اور اونچی آواز میں گانے چلائے ہوئے پانچ کے قریب لوگ تھے ۔اور بگڑے ہوئے امیر زادے لگ رہے تھے۔۔۔چھٹا ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔۔۔اس نے مجھے سائیڈ دینے کی کوشش کی تھی ۔۔میں نے اسپیڈ کم کرتے ہوئے بچایا تھا ۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی گاڑی روڈ کی سائیڈ پر کی ۔۔۔۔دوبارہ روڈ پر آنے کے بعد اسپیڈ بڑھانے لگا۔۔۔۔مگر وہ جیپ مجھے راستہ دینے کو تیار نہیں تھی ۔۔۔۔بار بار سامنے آ کر بریک لگاتے ۔۔۔ پیچھے والے لڑکے مستقل ہوٹنگ کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔جیمز اور کرسٹینا بھی پریشان ہو گئے ۔۔۔۔ایک نے شراب کی بوتل ہماری طرف اچھالی تھی ۔۔۔۔۔۔۔بوتل ونڈ اسکریں سے ٹکرانی تھی ۔۔۔مگر میں نےبر وقت بریک دبائی ۔۔۔اور بوتل سامنے بونٹ پر گری ۔۔۔۔میرا خون کھول رہا تھا ۔۔تبھی میرے فون کی گھنٹی بجی ۔۔۔میں نے اسپیکر آن کرتے ہوئے جیمز کے ہاتھ میں پکڑا یا جو جھانکتا ہوا آگے صورتحال دیکھ رہا تھا۔۔
اسپیڈ بڑھا کر آگے آئیں راجہ صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔عاصم کی ٹھہر ی ہوئی آواز میر ے کانوں میں ٹکرائی۔۔۔۔۔۔

Quote

میں نے اسپیڈ بڑھا ئی ۔۔۔۔اورتیزی سے ان کے برابر سے نکلا ۔۔۔۔۔انہوں نے بھی اسپیڈ بڑھا دی ۔۔
اگلےموڑ پرعاصم رکا دیکھ رہا تھا۔۔۔اس نے بھی متوازن اسپیڈ دےکر جیپ آگے بڑھا دی تھی ۔۔۔ساتھ ہی اس کی آواز آئی ۔۔
راجہ صاحب مجھے کراس کرتے ہوئےآگے نکلیں ۔۔۔۔۔۔میں نے ایسا ہی کیا ۔۔۔۔۔پیچھے والے ابھی تک آ رہے تھے ۔۔۔۔اگلے موڑ مڑنے کے بعد میں نے اسپیڈ اور تیز کی۔۔۔۔۔پچھلی جیب نے عاصم کی جیپ کو کراس کر لیا تھا۔۔۔۔اور مجھے پکڑنے کی کوشش میں تھے ۔۔۔عاصم کی جیپ تیر کی طرح ان کے پیچھے آئی تھی ۔۔۔۔۔میں اگلے موڑ تک پہنچا ۔۔۔اور گاڑی گھمائی ۔۔۔۔پیچھے والے نے مجھےسائیڈ مارنے کی کوشش کی تھی ۔۔میں نے ریس فل دبا دی ۔۔
راجہ صاحب اگلے موڑ کے قریب ہی ایک گہر ا کھڈا ہے ۔۔وہاں ان کا بندوبست ہو گا۔۔۔آپ وہاں موڑ پر گاڑی آہستہ کر کے موڑ کاٹیں ۔۔عاصم کی آواز آئی۔۔۔
میں نے اسپیڈ بڑھا ئی ۔اور اگلے موڑ کے قریب پہنچ کر بریک دباتے ہوئے اسٹیرنگ گھما دیا۔۔۔جیپ پھسلی اور گھومتی ہوئی موڑ کاٹنے لگی ۔۔۔۔۔پچھلی جیپ والا بھی اسپیڈ میں تھا ۔۔۔اس نے بھی یہی کام کیاتھا۔۔عاصم اسی کا منتظر تھا۔۔۔ادھر جیپ پھسلتے ہوئے گھومنے لگی ۔۔عاصم کی جیپ کا بونٹ اس کی سائیڈ سے ٹکرایا ۔اور روڈ سےگھسٹتے ہوئے اسے نیچے دھکیلا ۔۔روڈ کے کنارے ہی ایک گڑھا تھا ۔۔۔جیپ پھسلتی ہوئ نیچے جا گری ۔۔۔ایک زوردار آواز گونجی تھی ۔۔۔۔گڑھا زیادہ گہرائی میں نہیں تھا ۔اس لئے صرف زخمی ہونے کا امکان تھا۔۔۔۔ انہیں سبق مل گیاتھا۔۔۔
اس کے بعد ہم اسی تیز رفتاری سے گیسٹ ہاؤس پہنچے جو ٹورزم ایجنسی کا ہی تھا ۔۔۔دوپہر ہوئی تھی ۔۔۔کچھ دیر بعد کھانا سرو ہو گیا۔۔میں نے دیکھا کہ پوجا اور عاصم میں اچھی بن رہی تھی ۔۔۔۔پوجا اپنی جاب پر جانےکے بجائے ایک دن اور عاصم کے ساتھ گذارنا چاہتی تھی ۔۔۔اور عاصم کو کوئی اعتراض نہیں تھا ۔۔۔۔
کھانا کھا کر عاصم پوجا کو لئے باہر جانے لگا۔۔۔۔ساتھ جیمز اور کرسیٹینا بھی تیار ہوگئے ۔۔۔۔شام تک کا کہہ کر وہ چلے گئے ۔۔۔میں ملاز م کو چائے کہ کہہ کر ایک کمرے میں چلا گیا جہاں ہمارے بیگ رکھے ہوئے تھے ۔۔۔۔موبائل میرے ہاتھ میں تھا ۔۔۔پہلی کال جیوتی کو کی تھی ۔۔۔میرا خیال تھا کہ وہ اپنے پتی کی آخری رسومات میں مصروف ہو گی ۔۔۔اور شاید غمزدہ بھی ۔۔۔۔۔تیسری بیل پر کال ریسیو کی گئی تھی ۔۔ اور شاید رونے والی آواز ہی تھی ۔۔میں نے ہیلو کہا اور وہ میری آواز پہچان گئی ۔۔۔ایک منٹ ہولڈ کا کہہ کر خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔کچھ دیر بعد اس کی سمبھلی ہوئی آواز پھر آئی ۔۔مجھے امید نہیں تھی کہ آپ کا اتنی جلدی فون آئے گا۔۔۔اس نے مجھ سے راجیش کی بات نہیں کی تو میں بھی انجان بن گیا ۔۔۔
کہاں ہیں آپ ابھی ۔۔۔۔جیوتی نے پوچھا 
میں ابھی شملہ کیطرف ہوں ۔۔۔۔تم آنا چاہو تو آ جاؤ ۔۔۔۔مجھے پتا تھا کہ اگلے تین چار دن اس کا آنا ممکن تھا۔
ابھی تو مشکل ہے ۔۔یہاں ایک پریشانی پڑ گئی ہے ۔۔۔میں فارغ ہوتے ہی کال کروں گی ۔۔جیوتی نے میری توقع کے مطابق جواب دیا ۔
اچھا تمہیں ایک لڑکی کال کرے گی ۔کلدیپ نام کی ۔۔اسے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے ۔۔۔اگر اس کا فون آ جائے تو پچاس لاکھ دے دینا ۔میں نے تمہار ا نمبر دے دیا ۔
جیوتی نے ہامی بھرلی ۔۔اور کہا کہ وہ رات میں پھر فون کرے گی ۔۔۔ابھی مہمان آئے ہوئے ہیں ۔۔۔فون بند ہو گیا 
اگلا فون میں نے کلدیپ کو کیا ۔اور اگلے ہفتے تک جیوتی سے رابطہ کرنے کا کہا۔میں نے جب رقم بتائی تو وہ گنگ رہ گئی۔۔۔۔راجہ پچاس لاکھ بہت زیادہ ہیں ۔ میری اپنی بھی زمینیں ہیں ۔۔۔میں وہ بیچ کر ارینج کر لوں گی ۔
میں نے اس کی بات کاٹ دی ۔۔۔ سنو کلدیپ تمہار ا کام بھی کم آسان نہیں ہے ۔۔۔۔کوشش کرو کہ اس رقم کا آدھا حصہ کسی اچھی جگہ انویسٹ کرو ۔ مستقل آمدنی کے زرائع بن جائیں گے تو ٹینشن کم ہوگی ۔
کلدیپ کچھ چپ ہو گئی تو میں نے بتایا کہ اگلے ہفتے تک ہماری ملاقات متوقع ہے ۔۔میں لدھیانے میں آؤں گا۔۔وہ خوش ہوگئی ۔میں نے فون بند کر دیا۔
اتنے میں ہیلن اندر آ گئی۔۔ اور ملازم بھی چائے لے آیا۔میں نے ہیلن سے پوچھا تو اس نے کافی کہا ۔۔میں نے ملازم کو کافی کا کہ دیا۔
ہیلن میرے سامنے ہی بیٹھی تھی ۔۔میں نے البرٹ کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ سو رہا ہے ۔ ہیلن اور البرٹ دونوں استاد تھے ۔۔۔اور نئی جوائننگ ہوئی تھی ۔وہ آج کے واقعہ کی وجہ سے پریشان تھی ۔۔وہ عاصم کی گاڑی میں تھے اور اس جیپ کو اپنی آنکھوں سے گڑھے میں گرتے دیکھا تھا۔۔میں نے مطمئن کیا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔اگر کوئی مسئلہ ہوتا بھی ہے ۔۔۔تو ہم دیکھ لیں گے ۔۔ہیلن مطمئن ہو گئی ۔اور اٹھ کر جانے لگی ۔۔۔کچھ دیر بعد البرٹ بھی آ دھمکا ۔۔۔ہیلن نے بتایا کہ وہ سورہا تھا مگر یہ تو جاگا ہوا تھا ۔۔البرٹ بھی مجھ سے آج کی بات کرنے کے بعد فری ہونے لگا ۔۔کچھ دیر بعد اس کا موضوع لڑکیوں کی طرف آگیا ۔۔وہ مجھ سے ایشین لڑکیوں کے مزاج اورپسند ناپسند پوچھنے لگا۔۔۔۔میرا ماتھا ٹھنکا۔۔۔اور کچھ دیر بعد اس نے پوجا کا نام لیا تو میں سمجھ گیا۔۔آج پوجا اور البرٹ لوگ عاصم کی جیپ میں تھے ۔۔۔اور ریس کی دوران پوجا نے مجھے چڑانے کے لئے کھڑے ہو کر ہوٹنگ اور آواز بھی ماری تھی ۔۔وہ اپنی شوخ طبیعیت کی وجہ سے البرٹ سے بھی فری ہوئی مگر البرٹ کچھ زیادہ ہی مائل ہو رہا تھا ۔۔۔اور ابھی اسے پانے کے لئے مجھ سے بات کرنے آیا تھا ۔اس کے خیال میں وہ تھوڑے سے پیسے خرچ کر کے اسے اپنے ساتھ سلا سکتا تھا۔۔۔میں نے اسے بتایاکہ وہ عاصم کی طرف جھکی ہوئی ہے ۔۔اس لئے میں کچھ نہیں کرسکتا ہوں۔۔۔۔ہاں اگر وہ خود تمہار ی طرف آئے تو تم جو کچھ چاہو کر سکتے ہوئے ۔۔۔۔میں نے البرٹ کو صاف جواب دے کر بھگا دیا ۔۔۔اور سونے لیٹ گیا ۔۔عاصم فی الحال باہر مزے کر رہا تھا۔
شام کو مجھے عاصم نے ہی اٹھا یا ۔۔۔پوجا اس کے پیچھے کھڑی تھی ۔۔اس کے لہجہ ابھی بھی مجھ سے اکھڑا اکھڑا تھا ۔۔۔بلکہ عاصم کا میرا ساتھ رویہ دیکھ کر وہ اور جیلس سی ہوگئی ۔۔۔عاصم باہر سے کھانا پیک کروا کر آیا تھا ۔۔۔
چلو جگر اٹھو ۔۔۔۔کھانا لایا ہوں ۔۔۔۔۔عاصم نے میرا ہاتھ پکڑ کھینچے ہوئے کہا ۔
میں اٹھ کر فریش ہونے لگا۔۔اور باہر آیا ۔ڈائننگ ٹیبل پر خوب چہکار تھی ۔۔۔سب لوگ آئے ہوئے چہک رہے تھے ۔۔۔عاصم درمیان میں بیٹھا پوجا کو کھلا رہا تھا ۔۔۔میں بھی جا کر بیٹھ گیا ۔۔ پوجا مجھے دیکھ کر عاصم سے اور لپٹنے لگی ۔۔۔کھانا مزے کا تھا۔۔۔ہم نے پیٹ بھر کر کھایا۔۔۔۔۔اسپیشل ڈش تلی ہوئی فش تھی ۔۔جوپوری کی پوری مصالحہ بھر کے فرائی کی گئی تھی ۔۔کھانے کے بعد عاصم پوجا کے ساتھ ایک کمرے میں چلا گیا۔
اس گیسٹ روم میں دو بڑے کمرے اور ایک لاؤنج تھا۔۔۔ایک کچن تھا جس کے سامنے ہی ڈائننگ ٹیبل رکھی تھی ۔۔۔اور کام کے لئے ایک ملاز م رکھا ہوا تھا۔۔
ہم نے سیٹنگ یہ بنائی تھی کہ ہیلن ، کرسٹینا اور پوجا کو ایک کمرہ دے دیا ۔۔۔جبکہ میں جیمز، عاصم اور البرٹ ایک کمرے میں تھے ۔۔جبکہ ملازم رات کو واپس اپنے گھر چلا جاتا تھا۔
میں کمرے میں آیا جیمز اور البرٹ میرے ساتھ ہی چلے آئے ۔۔۔۔۔مجھے البرٹ سے الجھن محسوس ہونے لگی ۔۔۔کھانے کے دوران بھی وہ پوجا کی طرف حریص نگاہوں سے دیکھنے میں مصروف تھا۔۔
میرے لئے چائے اور البرٹ ، اورجیمز کے لئے کافی آئی تھی ۔۔۔۔اتنے میں عاصم بھی میرے پاس آپہنچا ۔۔اپنی چائے وہ ساتھ ہی لے آیا تھا۔۔۔اتنے میں ملازم آیا اور جانے کی اجازت مانگی ۔عاصم نے جانے کا اشارہ کر دیا۔
عاصم اور میں صوفے پر تھے ۔۔۔البرٹ اور جیمز سامنے بیڈ پر باتیں کررہے تھے ۔۔میں عاصم کو چھیڑ رہا تھا کہ وہ مجھے لڑکی کے طعنے دیتا تھا ۔اور اب خود لڑکی اس کے پیچھے پڑی ہے ۔۔وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتا رہا ۔۔راجہ صاحب ایسی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ہم نے چائے ختم کی اور پھر عاصم کہیں فون کرنے چلا گیا۔۔۔البرٹ پھر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ عاصم سے بات کرو ۔تم جو چاہو میں وہ رقم تم کو دوں گا۔۔۔۔۔۔میں نے غصے بھری آنکھوں سے اسے گھورا اور جا کر دفع ہونے کا کہا۔۔۔۔اتنے میں جیوتی کو فون آیا اور میں باتیں کرنے میں مصروف ہو گیا۔۔ہماری باتیں ایک گھنٹے تک ہوتی رہیں ۔۔۔۔اس کے بعد فون بند کیا اور صوفے پر لیٹ گیا۔۔عاصم بھی آگیا۔۔۔اور ہم ایک ہی صوفے پر سونے لگا۔۔ٹانگیں ہم نے ایک دوسرے کی طرف کیں۔۔۔۔۔اور بے تکلف دوستوں کی طرح دراز ہو گئے ۔۔۔۔جیمز اور البرٹ ہماری طرف دیکھتے رہے ۔۔اور پھر خود بھی سو گئے ۔۔

Quote

رات کاآدھا پہر تھا ۔۔جب میرے کانوں میں کوئ آواز پڑی تھی ۔۔میں چونک کر اٹھا ۔عاصم کو دیکھا تو وہ سو رہا تھا ۔۔۔آج کا پورا دن اس نے بھاگ دوڑ میں گزارا تھا۔۔۔میں نے جیمز اور البرٹ کی طرف نظر گھمائی ۔۔۔وہ دونوں اپنے بستر پر نہیں تھے ۔۔۔۔۔میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔کچھ گڑ بڑ تھی ۔۔۔تیزی سے باہر آیا ۔۔دائیں بائیں دیکھا ۔۔لڑکیوں والے کمرے کی طرف سے آواز آئی تھی ۔۔کسی کے چیخنے کی آواز تھی ۔۔اور آدھی چیخ میں ہی کسی نے منہ دبو چا تھا۔۔۔میں بھاگتے ہوئےدروازے پر پہنچا۔۔ اور زور سے دستک دی ۔۔ کچھ خاموشی ہوئی ۔۔میں نے پھر دھڑ دھڑ دروازہ بجایا۔۔۔ جیمز کی آواز آئی ۔۔ہو از دس۔۔۔۔؟ میں نے پوچھا اندر کیا چل رہا ہے ۔۔۔
اس کے جواب نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی تھی ۔۔۔ تم جا کر سو جاؤ ۔۔تمہارا کوئی کام نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔
میں نے پھر دروازہ بجایا ۔۔۔۔۔مگر جیمز شاید واپس ہو گیا۔۔۔میں نے بھاگتے ہوئے پچھلی سائیڈ کا جائز ہ لیا۔۔۔کوئی کھڑکی نہیں تھی ۔واپس دروازے پر آیا تو گھٹی گھٹی چیخیں آ رہی تھیں ۔۔۔جو پوجا کی ہی تھی۔۔۔۔۔۔
آخر میں کمرے کی دروازے کی طرف آیا۔۔اور پورے زور سے بھاگتا ہوا آیا اور دروازے سے ٹکرایا۔۔۔۔۔لاک کچھ چر چرایا تھا ۔
دوسری ٹکر میں بھاگتا ہوا آیا ۔۔۔۔اور کندھے کی زوردار ضرب لگائی ۔۔۔لاک تڑاخ کر کے ٹوٹا تھا ۔۔۔۔میں جھٹکے سے اندر داخل ہوا ۔۔۔
سامنے ہی پوجا میرے سامنے اس طرح لیٹی تھی کہ اس کے ہاتھ ہیلن نے دبوچے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔اور کرسٹینا نے منہ دبوچا ہوا تھا ۔۔۔جیمز نے اس کی ٹانگیں پکڑ رکھی تھیں ۔۔۔۔البرٹ اس کی سرخ قمیض پھاڑ چکا تھا۔۔۔۔پینٹ کا اوپری بٹن اور زپ بھی کھلی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
مجھے دیکھ کر البرٹ میری طرف آیا ۔۔۔مجھےدھمکی دیتے ہوئے جانے کا کہنے لگا۔۔۔۔وہ شاید کوئی عام گائیڈ سمجھا تھا۔۔قریب آ کر وہ مجھے دھکا دینے کی کوشش میں جھپٹا ۔۔۔۔۔۔میں نے سائیڈ پر ہوتے ہوئے ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پررسید کیا۔۔۔وہ سائیڈ پر جا گرا ۔۔۔۔۔انگلیاں اس کے چہرے پر چھپ چکی تھیں۔۔۔۔اتنے میں جیمز بھی پوجا کی ٹانگیں چھوڑتے ہوئے میری طرف آیا ۔۔۔پیشہ ور باکسر کے انداز میں مکہ اٹھا کر تانے ہوئے تھے ۔۔۔ساتھ ہی پیروں پر اچھلتا ہوا آیا تھا۔۔۔۔۔قریب آ کر اس نے مکہ گھمایا ۔۔۔۔اس میں تیزی تھی ۔۔۔میں نے تیزی سے جھکتے ہوئے خود کو بچایا ۔۔جھکتے ساتھ ہی اس نے ہک مارنے کی کوشش کی ۔۔میں نے بمشکل ہاتھوں سے اسے روکا ۔۔۔۔جیمز بڑھتے ہوئے مکے چلا نے لگا۔۔۔۔میں پیچھے ہٹنے لگا۔۔۔مجھے دفاعی انداز اختیار کر تا دیکھ کر وہ کچھ جوش میں آیا ۔۔ایک مرتبہ اس کے مکہ میرے قریب سے گزر کر پیچھے گیا تو میں جھک گیا۔دونوں پیر اس کے کھینچ کر گھسیٹ لیے ۔۔۔۔وہ دھڑام سے پیچھے گرا تھا ۔۔۔ میں وقت ضائع کیے بغیر اس پر سوار ہوا تھا ۔۔ابھی میرے پنچ کی باری تھی۔۔۔۔۔اس کے منہ پر ہاتھ رکھنے سے پہلے میں اس کے منہ سوجا چکا تھا۔۔۔۔ہونٹ پھٹ چکے تھے ۔۔۔پیچھے سے البرٹ آیا اور گلے میں ہاتھ ڈالنے لگا۔۔۔میں نے پیچھے ہاتھ گھمایا اور اسے بھی کالر سے کھینچ لیا۔۔۔دو چار مکے اسے بھی ٹھیک سے جمائے ۔۔۔اس کامنہ بھی سوج گیا۔۔۔۔اتنے میں ہیلن اور کرسٹینا آئیں اور مجھے روکنے لگی ۔۔۔۔۔مجھے ان عورتوں پر بھی غصہ تھا ۔۔۔یہ اس فضول حرکت میں اپنے شوہر کا ساتھ دینے لگی ۔۔میں اٹھا ۔۔۔پوجا اٹھ چکی تھی ۔۔۔۔اور کپڑے سمبھال رہی تھی ۔۔۔۔اس کے چہرے پر نیل دیکھ کر مجھے پھر دورہ پڑا ۔۔۔میں نے گھومتے ہوئے جیمز اور البرٹ کو ٹھوکریں ماری ۔۔۔۔۔ہیلن پوجا کی طرف گئی اور اس سے مجھے روکنے کا کہا ۔۔۔پوجا نے بھی اسے کرارا جواب دیا۔۔۔۔۔آخر دونوں گوریا ں میرے پاؤں پڑی اور معافی مانگنے لگی ۔۔۔۔میں نے پوجا کی طرف دیکھا ۔۔وہ مطمئن ہو چکی تھی ۔۔۔۔میں نے دونوں کو وہیں چھوڑا اور پوجا کو لئے اپنے کمرے کی طرف چل پڑا ۔کمرہ میں نے اندر سے بند کر دیا۔۔۔۔بیڈ پر اسے لیٹنے کا اشارہ کر کے میں نے عاصم کوسوتے میں اٹھا یا ۔اور بیڈ پر لٹا دیا۔۔۔وہ اٹھنے لگا مگر میں نے پھر تھپکی دیتے ہوئے سلا دیا۔۔۔اور خود صوفے پر آ کر لیٹ گیا ۔۔۔۔پوجا نے مجھے سے کچھ نہیں کہا تھا ۔۔۔بس بیڈ پر لیٹ گئی ۔۔میں بھی صوفے پر لیٹا اور کچھ دیر میں نیند میں چلا گیا۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلی صبح مجھے عاصم نے ہی اٹھایا تھا ۔۔۔میں اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ یہ پوجامیرے بیڈ پر کیسے آئی ۔۔۔میں نے انکار میں سر ہلا دیا ۔۔کہ مجھے نہیں پتا ۔۔۔۔عاصم نے مجھے فریش ہونے کا بتایا اور بولا کہ راجہ صاحب تیار ہو جائیں کہیں چلنا ہے ۔۔۔۔میں جلدی سے تیار ہو گیا ۔۔۔گورے کے روم کی طرف خاموشی تھی ۔۔۔وہ ابھی تک سو رہے تھے۔۔۔ہم ایک جیپ لے کر روانہ ہو گئے ۔۔۔۔۔عاصم نے فون پر کسی سے بات کی تھی ۔۔۔۔ایک چوک پر ہم کھڑےتھے ۔۔۔کہ بائک پر دوآدمی وہاں آئے تھے ۔۔۔عاصم کو سلام کرتے ہوئے ایک بیگ حوالے کیا ۔۔۔۔اور روانہ ہوگئے ۔۔۔عاصم مجھے لئے واپس آیا۔۔ ۔۔اور ایک جگہ بیٹھ کر انتظار کرنے لگا ۔۔کچھ دیر بعد ایک اور آدمی وہاں آیا ۔۔۔عاصم اس سے کچھ بات کر رہا تھا ۔۔۔۔آدھے گھنٹے کی بات چیت کے بعد وہ آدمی بھی روانہ ہو گیا ۔۔۔۔عاصم کا پلان شروع تھا ۔۔ اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا ۔۔۔جب پوچھا مسکراتے ہوئے کہا ۔۔جگر فکرنہ کرو ۔۔۔بس شام تک رک جاؤ ۔۔۔ساری بات سامنے آ جائے گی ۔۔عاصم کا موڈ خوشگوار تھا ۔۔۔میں نے اسے رات والی بات بتا دی ۔۔۔عاصم کا منہ سرخ ہونےلگا۔۔۔مجھے اندازہ تھا کہ عاصم کا یہی ردعمل ہو گا۔۔۔۔
راجہ صاحب اس گورے کی تو ایسی کی تیسی ۔۔۔اس کی ہمت کیسی ہوئی ہے یہ کام کرنے کی۔۔۔اس کو ٹھیک کرنا پڑے گا۔۔۔اور یہ ہیلن میرے ساتھ رومانس بھگارنے کی کوشش کر رہی تھی ۔کہہ رہی تھی کہ آئی وانٹ سم ایشین گائے۔۔۔اور اندر سے البرٹ جیسے کمینے کا ساتھ دے رہی ہے ۔۔۔اسی نے ہی اکسایا ہوگا۔۔۔۔۔
میں نے عاصم سے کہا جیسے چاہو کرو ۔۔۔۔میں تمہار ے ساتھ ہوں ۔۔۔عاصم نے گیسٹ ہاؤس کے ملاز م کو فون کر کے آنے سے منع کردیا۔۔۔اور ایک بندے کو فون کیا ۔۔یہ بندہ دس منٹ میں پہنچ گیا ۔۔تھا ۔۔کرکٹ کی کٹ کے طرح ایک لمبا بیگ لیے یہ پہنچا تھا ۔۔۔۔عاصم نے بیگ پکڑا اور گیسٹ ہاؤس کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔جیپ اس نے کافی دور روکی تھی ۔۔۔ہم گیسٹ ہاؤس کے پچھلی سائیڈ سے داخل ہوئے تھے ۔۔۔بیگ عاصم کے ہاتھ میں ہی تھا۔۔۔عاصم نے بیگ کھولا اور کپڑوں کا ایک گھچا میری طرف پھینکا ۔۔میں سمجھ گیا ۔۔اور اپنے کپڑے تبدیل کر لیئے ۔۔۔۔ساتھ ہی ایک نقاب بھی تھا ۔۔نقا ب پہننے کے بعد ایک پسٹل اور ایک چاقو نکال کر پکڑایا ۔عاصم بھی تبدیل کر چکا تھا۔۔۔اور بیگ وہیں چھوڑ کرہم اندر پہنچے ۔۔۔۔۔عاصم مجھے رکنے کا کہہ کر پوجا کے کمرے کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔میں سمجھ گیا کہ بے ہوش کرنے جا رہا ہے ۔۔۔میں گیسٹ ہاؤس کے دروازے کی طرف گیا ۔۔اور چیک کر کے آگیا۔۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں عاصم بھی واپس آیا 
رات دروازے کا لاک میں نے توڑ دیا تھا ۔۔۔ابھی ویسے ہی بند تھا۔۔۔میں نے پسٹل سمبھالی اور عاصم نے چاقو ۔۔۔۔۔یہ چاقو تیز ہونے سے زیادہ خوفناک تھا ۔۔۔ایک سائیڈپر گراری اور دوسری طرف دھار بنی ہوئی تھی۔۔۔
عاصم نے دروازے کو لات ماری تھی ۔۔اور اندد داخل ہو گیا۔۔۔آواز سن کر جیمز اٹھا ۔۔۔۔چہرے پر رات کے نیل پڑے ہوئے تھے ۔۔۔ہمیں دیکھ کر اس نے بھاگنے کی کوشش کی ۔۔۔عاصم نے اسے لات مار کر واپس گرایا۔۔۔اور بدلی ہوئی آواز میں کہنے لگا۔۔۔تم کیا سمجھتے تھے کہ ہم سے بھاگ جاؤ گے ۔۔۔۔اور وہ کہاں ہیں تمہارے ڈرائیور۔۔۔۔جو جیپ ڈرائیور کر رہے تھے ۔۔۔
جیمز کی گھگی بند چکی تھی ۔۔۔۔ساری باکسنگ ہو ا میں اڑچکی تھی ۔۔۔۔اتنے میں البرٹ کے جسم میں حرکت ہوئی ۔۔۔وہ اٹھتے ساتھ ہی ساکت ہو کر رہ گیا ۔۔۔۔عاصم نے جیمز کی گردن پر چاقو رکھتے ہوئے اسے اٹھایا۔۔۔اوراسے اپنی پینٹ اتارنے کا کہا ۔۔۔اور پھر انڈروئیر بھی اتروادی ۔۔۔جیمز کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔۔تبھی ہیلن اور کرسیٹینا چیخ مارتی ہوئی اٹھی ۔۔۔۔۔میں نے پستول کا رخ ادھر کیا اورآواز بھاری کر کے کہا ۔۔۔۔اسٹاپ ۔۔ڈونٹ ٹرائی ٹو موو۔۔۔۔وئیر از یور ڈرائیورز ۔۔۔۔۔۔۔ ہیلن کمینی نے ساتھ والے روم کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔دے آر سلیپنگ دئیر۔۔۔۔۔۔
میں نے دوبارہ کہا ۔۔کہ روم خالی ہے ۔۔صرف ایک لڑکی سو رہی ہے ۔۔۔۔۔ہیلن مایوسی سے سر ہلاتی ہوئی چپ ہو گئی۔وہ سمجھے تھے کہ ہم وہی راستے میں جیپ والے ہیں ۔۔
عاصم نے جیمز سے شرٹ بھی اتروا لی ۔۔۔۔اور اب البرٹ کی باری تھی ۔۔جیمز کو دیکھ کر اس کی ہمت بھی جواب دے گئی ۔۔وہ خاموشی سے روتا منہ بنا کر کپڑے اتارنے لگا۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں دونوں ننگے تھے ۔دونوں کو بٹھا کر۔۔۔عاصم نےالبرٹ کے ہاتھ اس کو جھکاتے ہوئے پاؤں پر رکھے اور اسی کی شرٹ سے باندھ دیا۔۔۔اگلی باری جیمز کی تھی ۔۔۔وہ دونوں اب زمیں پر بیٹھے آگے کو جھکے ہوئے ہمیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ادھر ہیلن اور کرسٹینا کی بھی حالت خراب تھی ۔۔۔۔اور پھر عاصم نے دونوں کے ہاتھ جوڑتےہوئے باندھ دیئے ۔۔۔جیمز اور البرٹ کو عاصم نے کھڑا ہونے کا کہا۔۔۔وہ گرتے پڑتے کھڑے ہونے لگے ۔۔۔دونوں رکوع کی حالت میں جھک کر کھڑے تھے ۔۔۔۔عاصم نےانہیں سائیڈ پر کھڑا کر دیا ۔اگر منہ سے آواز نکلی تو یہی چاقو اندر گھساؤں گا ۔۔۔۔عاصم کی بھاری آواز نے ان کے چھکے چھڑوا دئیے تھے ۔۔عاصم نے اس کے بعد چاقو سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔۔ اور بیڈ کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔ہیلن بیڈ پر پیر کھسکاتی ہوئی اوپر کو ہونے لگی۔۔۔۔۔،کرسٹینا پہلے ہی بیڈ کے کونے سے لگی ہوئی تھی ۔۔۔عاصم نے ہیلن کی ٹانگ پکڑی اور کھینچ کرگھسیٹ لیا۔۔۔۔۔ہیلن لمبے گولڈن بالوں والی لڑکی تھی ۔بڑی سی سیاہ آنکھیں تھی ۔۔۔بھرے گال اور تھوڑا لمبا چہرہ ۔۔۔۔جسم بھاری تھا ۔۔۔۔مگر عاصم کے ایک جھٹکے سے وہ اڑتی ہوئی اس کے سامنے آن گری ۔۔۔۔۔اس کی حالت پتلی تھی ۔۔۔معافی مانگتے ہوئے وہ سب گائیڈ پر الزام لگا رہی تھی ۔۔۔۔کہ یہ سب انہیں کی حرکت ہے ۔۔
عاصم نے سیدھا اس کی شرٹ پر ہاتھ ڈالا ۔۔۔۔۔۔بٹن ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگے ۔۔۔ہیلن چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔مگر عاصم کی پکڑ اتنی ہلکی نہیں تھی ۔۔۔آخری بٹن ٹوٹتے ہی وہ سامنے سے ننگی ہوگئی۔۔۔۔۔کالے رنگ کی برا میں موٹے اور بھاری بھرکم ممے سامنے تھے ۔۔۔۔ہیلن عاصم کا ہاتھ ہٹتے ہی پھر اوپر بیڈ پر ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔عاصم نے پاؤں پکڑ کر پھر کھینچا ۔۔۔اب کی بار اس کی صحت مند رانوں پر چپکی ہوئی جینز کی باری تھی ۔۔۔۔عاصم نے ایک جھٹکے میں جینز میں ہاتھ ڈالا ۔۔اور مضبوط بٹن کڑاک کی آواز سے ٹوٹا۔۔۔۔ہیلن کا رونا دھونا شروع ہو گیاتھا ۔۔۔۔عاصم نے جینز کی زپ کھولی تو وہ الٹی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور خود کو بچانے لگی ۔۔الٹی ہو کر وہ آگے کی طرف رینگنے لگی ۔۔۔۔عاصم نےپیچھے سے جینز میں ہاتھ پھنسا دیا ۔۔۔۔ہیلن کے آگے جاتے ہوئے جینز بھی آہستگی سے اتر رہی تھی ۔۔جہاں گورے رنگ کے گول سے چوتڑ آہستہ آہستہ نمودار ہو نے لگے ۔۔۔۔ہیلن آدھے بیڈ تک پہنچی تو آدھی پینٹ بھی اتر چکی ۔۔۔۔بے بسی اس کے چہرے پرعیاں تھی ۔۔۔آنسو بھی بہہ رہے تھے ۔۔چیخیں مارتی ہوئی وہ البرٹ کو پکار رہی تھی ۔۔۔۔۔
کرسٹینا بیڈ کے کونے میں بیٹھی یہ سب دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے دیکھا تو میں بھی آگے بڑھ گیا۔۔۔پسٹل میں نے سائیڈ پر رکھی ۔۔۔۔ویسے پسٹل خالی ہی تھی۔۔اگر ان میں سے کوئی اٹھا بھی لیتا تو ان کے کسی کام کا نہیں تھا ۔۔میں کرسٹینا کی طرف جانے لگا جو مجھے دیکھ کر سمجھ چکی تھی ۔۔۔۔اس نے ہاتھ جوڑ کر روکنے کی کوشش تھی ۔جو پتا نہیں نمستے تھا یا معافی ۔۔۔۔ہمارے سیاہ نقابوں میں اسے چہرے کے تاثرات کیا نظر آتے ۔۔۔۔۔اس نے ترس بھری نگاہوں سے جیمز کو دیکھا ۔۔۔۔مگر وہ ہیلن کے ننگے جسم کی طرف دیکھنے میں مشغول تھا۔۔۔۔۔

Quote

میں کرسٹینا کے قریب گیا۔۔۔۔اس نے لمبی اسکرٹ پہنی ہوئی تھی ۔۔۔ریشمی کپڑے جیسی یہ سرخ اسکرٹ میرے ہاتھ میں آئی تھی ۔۔میں نے اسکرٹ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا اور کرسٹینا پھسلتی ہوئی میرے قریب آئی ۔۔۔اس کا سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا ۔۔۔۔اور نیلی آنکھوں میں خوف کے تاثرات تھے ۔۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں اسکرٹ تار تا ر گئی ۔۔۔۔۔۔کرسٹینا کی چیخیں ہیلن سے بھی بلند تھیں ۔۔۔۔ہیلن کی برا اور پینٹی اتر چکی تھی ۔۔۔اور عاصم نے ہیلن کی برا سے اس کے ہاتھ پیچھے کر کے باندھ د ئیے۔۔۔۔۔۔
کر سٹیینا بھی کم خوبصورت نہیں تھی ۔۔۔بے حد گوری رنگت کے ساتھ سیاہ کالے بال ۔۔۔۔نیلی آنکھیں ۔۔پتلی کمر اور موٹے اور گول چوتڑ ۔۔۔۔۔رانیں بھی کافی صحت مند اور گوشت سے بھری ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔۔کریسٹینا کی بر ا میں نے درمیان سے پکڑی اورجھٹکے سے کھینچ دی ۔۔۔۔ادھر کریسٹینا کی چیخ نکلی ۔۔۔اور جیمز نے مجھےروکنے کا کہا۔۔۔۔عاصم ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا ۔۔قریب چاقو رکھا تھا ۔۔۔وہ لے کر جیمز کی طرف بڑھا ۔۔اس کی آنکھیں پھیل گئ ۔۔۔۔پیچھے جا کر عاصم نے اس کا دستہ اس کے پچھواڑے میں گھسا دیا ۔۔۔۔۔۔جیمز چیخ مار کر آگے کو گرا۔۔۔۔۔۔دوبارہ بولا تو آگے سے چاقو گھساؤں گا۔۔۔۔۔جیمز چیخیں مارتا ہوا تڑپ رہا تھا ۔۔۔۔اور البر ٹ کے پسینے بہہ نکلے ۔۔۔
ہیلن اپنے پیچھے بندھے ہاتھوں کے ساتھ کریسٹینا سے لگی ہوئ تھی ۔۔۔۔دونوں کے بدن کانپ رہے تھے ۔۔لرز رہے تھے ۔۔۔۔آپس میں لپٹی ہوئی خوبصورت لگ رہی تھیں۔۔۔مگر وہ خود ابھی یہ محسوس کرنے کے قابل نہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ہیلن کریسٹینا سے کافی خوبصورت تھی ۔۔۔۔۔۔ہیلن کا سینہ کافی ابھرا ہوا تھا ۔۔جو ہاتھ پیچھے ہونے کی وجہ سے اور باہر کو آگیا تھا۔۔۔۔۔بڑے سے گول ممے پوری اٹھا ن کے ساتھ تھے ۔۔۔بر ا کے بغیر بھی سیدھے کھڑے تھے ۔۔۔۔سختی سے تنے ہوئے تھے ۔اور ابھی یہی ممے کریسٹینا کے ممے سے چپکے ہوئے تھے۔جو تھوڑے کم اٹھے ہوئے مگر موٹے اور جھکے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔اور پیچھے چوتڑ بھی گول مٹول سے اور بھاری بھرکم تھے ۔۔۔کریسٹینا کا نچلا بدن ہیلن سے بھاری تھا۔۔۔
عاصم نےہیلن کی ٹانگ پکڑی اور اپنی طرف کھینچا۔۔ہیلن ننگی حالت میں عاصم کے سامنے لیٹی ہاتھ جوڑے ہوئی تھی ۔۔کہ عاصم نے کہا۔۔۔۔میری پینٹ اتارو ۔۔۔۔ہیلن کچھ رکی تھی ۔۔ ۔۔۔ایک تھپڑ اس کے چہرے پر پڑا تھا ۔۔۔۔جو اس کے حساب کا ہی تھا ۔۔۔ہیلن کی پھر چیخ نکلی تھی ۔۔۔اور وہ جلدی سے عاصم کی طرف بڑھی اور کانپتے ہاتھوں سے پینٹ کھولنے لگی ۔۔۔
جیمز کی چیخیں ابھی تک نکل رہی تھی ۔۔پچھواڑے میں گھسا ہوا چاقو کا دستہ اس کی اکڑ نکال چکا تھا۔۔
ادھر کریسٹینا کے سیاہ بال بکھرے ہوئے آگے کی طرف آئے ہوئے تھے ۔۔اور اس کے سینے کے ابھاروں کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔۔مگر پھر بھی اس کے موٹے اور گوشت سے لدے ہوئے ممے دکھ رہے تھے ۔۔۔۔ہلکے سے نیچے کی طرف جھکے ہوئے مگر موٹے اور بھاری بھرکم۔۔۔۔۔۔کریسٹینا کی کمر ہیلن سے پتلی تھی ۔۔۔۔اور چوتڑ اس سے زیادہ باہر کو نکلے ہوئے ۔۔۔اور رانیں بھی صحت مند اور بالوں سے پاک ۔۔۔۔۔۔ہیلن کو عاصم کی پینٹ اتارتے دیکھ کر وہ بھی آگے بڑھی اور میری پینٹ کی طرف ہاتھ بڑھا دیا ۔۔۔۔۔
عاصم کی پینٹ اتر چکی تھی ۔۔۔۔۔۔انڈروئیر کے اترتے ہی اسپرنگ کی طرح ایک موٹا سا لن سامنے آیا ۔۔۔جو تیزی سے اپنی اصل حالت میں آتا جا رہا تھا۔۔عاصم کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھی ہیلن کے سامنے لہرانے لگا۔۔۔۔ہیلن نے خوف ذدہ نظروں سے عاصم کو دیکھا ۔۔۔عاصم نے زیادہ موقع نہیں دیا ۔۔۔۔۔اور ہیلن کے بال پکڑ کر منہ کھولنے کا کہا۔۔۔اور اپنالن اندر گھسا دیا۔۔۔۔جو سیدھا کر اس کے حلق میں لگا۔ابھی آدھے سے زیادہ لن باہر ہی تھا۔۔۔۔اس کو کھانسی آنے لگی ۔۔مگر عاصم نے لن باہر نہیں نکالا ۔۔۔۔ہیلن کی آنکھیں باہر نکلنے کو ہو گئیں ۔۔۔۔عاصم نے بالوں سے پکڑتے ہوئے اس آگے پیچھے کرنا شروع کردیا۔۔۔موٹا لن غپ غپ کرتے ہوئے ہیلن کے منہ میں گھس رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
کریسٹینا میری پینٹ اتارنے لگی ۔۔۔اسے پتا چل گیا تھا کہ بچاؤ نہیں ہونا ۔۔۔پیروں تک اس نے پینٹ اتاری تو میں نے باری باری ایک ٹانگ اٹھائی ۔۔اور پینٹ باہر نکال دی۔۔۔۔۔اس نے پینٹ اتار کر مجھے دیکھا ۔۔جیسے پوچھ رہی ہو کہ آگے کیا کرنا ہے ۔۔۔۔۔
میں نے عاصم کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔ہیلن کی حالت غیر ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ناک سے سانس کھینچتی ہوئی وہ اوپر کو ہوتی۔۔۔۔حلق تک عاصم کا موٹا لن پھنسا ہوا تھا ۔۔۔عاصم باقی لن کو بھی اندر گھسا رہا تھا ۔۔۔۔ہیلن کے پورے منہ سے تھوک بہہ رہا تھا ۔۔۔۔جو باہر کو بھی گرتا ہوا ۔۔۔نیچے اس کے مموں پر آ رہا تھا ۔۔۔۔ہیلن کی آنکھوں سے بہتا ہوا پانی بھی اسی میں شامل ہوتا۔۔۔۔ہیلن کے گولڈن بال عاصم کے ہاتھوں میں تھے ۔۔۔عاصم کھینچتے ہوئے اس کے چہر ے کو آگے پیچھے کر رہا تھا ۔۔۔۔گھٹنے کے بل بیٹھی ہیلن کے دونوں پاؤں پیچھے کو مڑے ہوئے تھے ۔۔۔
کرسیٹینا ابھی بھی مجھے ترس بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔آنسو اس کے بھی بہہ نکلے تھے ۔۔۔اس نے انڈروئیر کے پھولے ہوئے حصے کو دیکھا ۔۔جو رفتہ رفتہ بڑ اہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔اس کے گورے ہاتھ میرے انڈر وئیر پر تھے ۔۔۔اور نظریں میرے چہرے پر ۔۔۔کریسٹینا کو میں نے اپنی شرٹ اتارنے کا کہا۔۔۔وہ کھڑی ہوئی اور میری شرٹ اتارنےلگی ۔۔۔۔۔عاصم نے ہیلن کو بالوں سے پکڑے ہوئے اٹھایا ۔۔اور بیڈ پر لیٹنے کا کہا ۔۔۔وہ الٹی لیٹنے لگی ۔۔مگر عاصم نے اسے سیدھا لیٹنے کا کہا۔۔۔اور اس کے سر بیڈ کے کنارے سے نیچے جھکا دیا۔۔۔۔ہیلن کے پاؤں بیڈ پر اوپر کی طرف تھے ۔۔اور سر بیڈ کے کنارے سے نیچے جھکا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔عاصم نے اس کا منہ کھولا اور اپنے موٹے لن کو اس کے منہ میں پھنسا دیا۔۔۔آدھےکے قریب گیا تھا کہ حلق سے جا ٹکرایا ۔۔عاصم نے اس کے منہ کو اور نیچے کی طرف موڑا۔۔اور اندر گھسیڑ دیا۔۔۔منہ نیچے کی طرف مڑنے کی وجہ سے اب وہ حلق پر نہیں ٹکرا رہا تھا ۔۔بلکہ سیدھا نیچے جا رہا تھا ۔۔۔ہیلن کی حالت غیر ہونے لگی ۔۔۔ایک تو اس کے بندھے ہوئے ہاتھ اس کی نیچے دبے ہوئے تھے ۔۔۔۔اور اوپر سے یہ موٹا اور لمبا لن اس کی جان لے رہا تھا۔۔۔۔۔۔بیڈ پر پڑ ا ہوا اس کا بدن مستقل کانپ رہا تھا۔۔۔۔لرز رہا تھا۔۔۔۔۔پیچھے کھڑاالبرٹ دیکھ کر پسینے چھوڑ رہا تھا۔۔۔
کریسٹینا نے میری شرٹ اتار دی ۔۔اب آگے منتظر تھی ۔۔میں نے اپنے سینے کو چومنے کا کہا ۔۔میرے ساتھ کھڑی ہو کر وہ مجھ لپٹ گئی ۔۔۔اورآہستہ سے چومنے لگی ۔۔۔۔خوف کے مارے اس کا جسم بھی گرم ہو رہا تھا ۔۔۔اور آنسو بہتے ہوئے خشک ہو رہے تھے ۔۔۔اس کا تھوک بہتا ہوا میرے اوپر آ رہا تھا ۔۔۔جسے وہ دوبارہ سےچوس رہی تھی ۔۔۔۔۔نیلی آنکھوں میں اب بھی خوف تھا ۔۔۔۔ہیلن کی چیخوں نے اسے ڈرا دیا تھا ۔۔۔اس لئے وہ بغیر رکھے ہوئے مجھے چومے جارہی تھی ۔۔۔کریسٹینا کا جسم بھی ہلکے ہلکے لرز رہا تھا۔۔

Quote






indian prostitute picsmallu sex stories pdfdesi indian scandalshousewife saree navelurdu gay storiesdesi sexingdesi swap storiesdesi sex mobil dowıldanjali auntysexxx storieschudai chachi kipure cuntxxx video pakipictures of undressed girlsfree hindi font storiesnangi betigand me lodaindian insects storiesvillage desi videoxfreexxxpicture dressed and undressedhindi sxtelugu sex telugutelugu xxxwww.telugu auntysdesi sex erotic storiesdat ass 2 jabcomixdesi insent storiesangelia devipuku sex storiesdesi baba sex storytamil dirty stoshriya saran armpithindi sexy stroilesbian chudai storyexbii imageporn desi picturesurdu sex stories in urdu fontsdesi bhabhi ki kahanisexy hindi comicshot blouse auntiesindian scandals mms clipschut rassex short stories in urdutamilsex picturessex of rekhamastrubating girlstelugu incent storiesdastan sexximage of mallu aunty tamil auntieschuth picsboos sucking videosrater atithi sexy videowww.urdu sex storis.comchangeroom spycamcuckold audiossex urdu font storyhindi sex stories in english fontdesi boobs mmsmallu imagesrita reporter hot picsbadi chootexbii south auntiesfree xxx vidieo.comlund bursex in tamil auntyhindi urdu sex storiepaki desi mmsbhabi hot sexy videopopular pornstar namesdesi aunties cleavagetv porn fakesdesi mallu aunty picssania mirza hot imege