Click Here to Verify Your Membership
Romantic احسن کی سالی

 احسن کی سالی



ڈئیٹر فرینڈز۔ کہانی سوچو تو بہت ساری کہانیاں بنتی چلی جاتی ہیں لیکن مزہ انہیں میں آتا جو حقیقت پر مبنی ہوں۔ ایک بار پھر میں آپ کی خدمت میں ایک چھوٹی سی کاویش کو پیش کررہا ہوں۔

میرا نام عثمان ہے۔ جب یہ واقعہ ہوا تب میری عمر ۲۳ سال تھی جس سے کوئی بھی لڑکی، عورت یا کوئی بھی مرد اندازہ لگا سکتا ہے کہ میں شادی شدہ ہوں۔ میرا خود کا چھوٹا سا کاروبار ہے۔ مطلب میری ایک چھوٹی سی دکان ہے جہاں صبح سے شام تک میرا جگری دوست بیٹھا رہتا تھا کبھی کبھی وہ اپنا ڈیرہ قریبی بینک کے پاس بھی ڈال لیتا تھا۔ گھر کا اکلوتا ہونے کا ناتے اس پر ذمہ داریاں ہونی چاہیے تھی لیکن وہ لاپرواہ بنا پھرتا تھا

پھر ایک دن اچانک احسن کے والد کے دوست نے احسن کے لیے سعودی عرب کا ویزہ بھیج دیا۔ تب ماں کو اپنے بیٹے کے بہیانے کی پڑی۔ احسن کی منگنی ہوچکی تھی اس لیے احسن کے سسرالیے فورا مان گئے۔

ہم سب دوستوں اور دکانداروں نے اس کی شادی پر کافی مزا لیا تھا، مزہ صرف کھانے کا تھا لیکن شادی کے دن میرے دوست احسن کی سالی فائزہ مجھ پر کافی حد تک فدا تھی۔ 

میں نے بھی سمائل کے متبادل سمائل ہی پاس کی، نکاح کی تقریب تک میں احسن کی بیوی نازیہ کے بارے میں جان چکاتھا اور سالی کے بارے میں بھی۔ نازیہ کے جسم کے متعلق بتاتا ہوں۔ نازیہ نارمل ہائیٹ کی لڑکی ہے، بوبز کا سائز ۳۲ بتیس، کمر شاید ۳۰ تیس اور باہر کو نکلی گانڈ صرف ۲۸ اٹھائیس سائز کی تھی۔ جب بھی احسن اپنی منگیتر سے ملنے جاتا تب مجھے رکھوالی کے لیے اپنے ساتھ لے جاتا تھا ان تمام واقعات کے دوران نازیہ مجھے کبھی کبھی مسکرا کر دیکھ لیا کرتی تھی لیکن میں اس وجہ سے آگے نہیں بڑھا۔ احسن چاہے مجھے اپنا جگری یار مانے یا نہ مانے میں اسے ضرور مانتا تھا اس لیے میں نازیہ کی اس مسکراہٹ کا کوئی جواب نہ دیتا تھا۔

اب فائزہ کی طرف آتے ہیں، فائزہ اپنی بہن کی طرح نارمل ہائیٹ کی لڑکی ہے۔ فائزہ کا تھوڑا سا رنگ فئیر ہے نازیہ سے، فائزہ کے بوبزاور گانڈ کا سائز بتیس سے زیادہ تھا، کمر تیس تھا۔

خیر نکاح کی تقریب کے وقت ہم سب دوست احسن کے قریب ہی کھڑے تھے، میں چونکہ اکثر احسن کے سسرالیوں کے گھر آتا جاتا رہتا تھا اس لیے مجھے احسن کے سسر نے ایک کام کے لیے گھر کی بیک سائڈ پر بنے سٹور روم کی طرف بھیج دیا۔ میں فورا سٹور روم کی طرف بڑھا تبھی فائزہ مجھے ساری مجلس میں اکیلے کھڑی نظر آئی مجھے اپنی طرف دیکھتا دیکھ مسکرانے لگی، میں نے بھی موقعہ محل کے حساب سے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ فائزہ کو رپلائی دیا۔

فائزہ مسکراتے ہوئے اندر کی جانب چل دی، اندر جاتے جاتے اپنے ہاتھ کو اندر کی طرف موڑتے ہوے مجھے اشارہ کیا جسے میں نے چند لمحوں کے بعد سمجھ لیا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔ میں نے احسن کے سسر کے بتائے کام کو اگنور کردیا تھا۔

میں نے باہر کے تمام دوستوں سے سن رکھا تھا کہ فائزہ کو اپنی پھدی مروانے کا بہت شوق ہے، آج دن تک ناجانے اس نے کتنے لنڈ لیے ہیں اسی سوچ کے ساتھ میں آگے کو بڑھ گیا۔

ہم دونوں کچھ دیر بعد ایک کمرے میں آمنے سامنے کھڑے تھے 





جہاں احسن کےسسرالیوں نے اپنا سارا قیمتی سامان شفٹ کردیا تھا۔ شاید انہوں نے شادیوں میں چوری چکاری کے سبب ایسا کیا تھا۔ کچھ دیر ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر فائزہ نے آگے بڑھ کر دروازے کو لاک کردیا اور میرے سینے سے لگ گئی۔

فائزہ کی بھاری بھرکم چھاتی میری چھاتی سی لگی ہوئی تھی اور میں فائزہ کے جسم کی اتھل پتھل کو واضح محسوس کررہا تھا۔ میں نے اپنے اس دوست کے مطابق خود کو کنوارہ بنائے رکھنے کی ایکٹنگ شروع کردی۔

فائزہ نے کچھ دیر تک میری آنکھوں میں دیکھا پھر اپنا جسم اوپر اٹھاتے ہوئے میرے ہونٹوں کے برابر پہنچ کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے جوڑ دیے۔

کچھ دیر کی کوشش کے بعد میں نے بھی فائزہ کی طرح کس کرنا شروع کردی تھی وقت کم تھا لیکن شہوت زدہ لمحوں کی وجہ سے میرا لنڈ کھڑا ہوچکا تھا، فائزہ نے ایک ہاتھ سے میرے لنڈ کو پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر نیچے کرنا شروع کردیا۔

فائزہ نے کچھ لمحوں کے بعد اپنے ہونٹوں کو مجھ سے الگ کیا اور نیچے پڑی ہوئی چٹائی پر لیٹتے ہی اپنی شلوار اتار کر سائڈ پر رکھ دی۔ میں خاموشی سے کھڑا یہ سب کارنامہ دیکھ رہا تھا۔ پھر فائزہ نے مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ میں اس کی بات مان کر اس کی طرف بڑھا تب فائزہ نے میرے لنڈ کو دوبارہ پکڑا اور آہستہ سے بولی

فائزہ: پہلے کبھی یہ کام کیا ہے یا نہیں؟

میں نے انکار میں سر ہلا کر اسے اس کے سوال کا جواب دیا۔ تب فائزہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اس نے اپنے ہاتھ پر تھوک جمع کیا اور میرے لنڈ پر ڈال کر مٹھ لگانے لگی، اس وقت حالات کی نزاکت کی وجہ سے میں بہت کچھ سوچ رہا تھا لیکن فائزہ کی اس حرکت سے میرے جسم کا روم روم سرور کی کیفیت میں مبتلا ہوچکا تھا تب فائزہ سیدھی لیٹ چکی تھی اور مجھے اپنے اوپر آنے کا اشارہ کیا۔ میں نے ٹھیک ویسا ہی کیا،

فائزہ نے دیر نہ کرتے ہوئے میرے گیلے لنڈ کو پکڑ کر اپنی پھدی کو اندر کا راستہ دیکھا دیا۔ پھر میری ہپس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی: آہستہ آہستہ جھٹکے لگانا شروع کردو۔

میں نے کافی سیکس و پورن کلپس دیکھ رکھی تھی اس لیے آہستہ آہستہ دو سے تین جھٹکے لگا کر اپنے لنڈ فائزہ کی دہکتی ہٹی میں اتار دیا۔ پھر میں اسی رفتار سے چودائی کرتا رہا پھر کچھ لمحوں کے بعد میرے دھکوں کی رفتار میں تیزی آتی گئی فائزہ کبھی میری کمر کو سہلاتی تو کبھی اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیوں کو روکنے کی کوشش کرتی تو کبھی اپنا سر دائیں بائیں کرتی، میں یہ سب حرکات خاموشی سے دیکھے جا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے دوستوں کی باتوں پر غور کرتا رہا، پھر میری سوچوں کا وقت ختم ہوا جب فائزہ نے میرے سر کو پکڑ کر اپنے بوبز پر دبا لیا اور میں اس کے بوبز سے نکلنے والی خوشبو میں مدہوش ہوتے ہوئے خود کو روک نہ پایا۔ 

ہم انیس بیس کے فرق سے ایک ساتھ فارغ ہوچکے تھے، میرے لنڈ نے آج کافی عرصے کے بعد اپنا پانی کی پھدی کے اندر چھوڑا تھا۔

میں اس سیکس سے کافی پرسکون ہوچکا تھا فائزہ نے میرے سر کو اپنی گرفت سے آزاد کردیا تب میں خاموشی سے اٹھا اور اپنی شلوار اٹھا کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔ تب تک فائزہ بھی اٹھ چکی تھی فائزہ نے بیٹھے ہوئے میرے لنڈ کو پھر سے پکڑ لیا جہاں ابھی بھی فائزہ اور میری منی لگی ہوئی تھی۔

میں: سب ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ اب چلنا چاہیے۔

فائزہ نے بستروں میں سے ایک کپڑا نکال کر میرے لنڈ کو صاف کیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ مطلب میرے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے آزاد کردیا۔

میں اس وقت جلدی میں تھا اس لیے فائزہ کا انتظار نہ کرتے ہوئے فورا وہاں سے نکل کر اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا۔ جہاں ابھی ابھی نکاح ہوا تھا۔

خیر ہم سب ڈولی لے کر احسن کے گھر چل دیئے۔ میں نے فائزہ والی بات کسی سے بھی نہیں کی، سارے کاموں کاجوں کو ختم کرکے میں اپنے گھر آگیا۔ میں نے اپنے گھر والوں کو سلام کیا اور اپنے کمرے میں گھس گیا۔

کچھ دیر بعد خود کو ریلیکس کرنے کے بعد میں دکان کا کام شروع کردیا جو رات کے ایک بجے ختم ہوا۔

Quote

صبح میری نیند اپنے وقت پر کھلی معمول کے مطابق ناشتہ کرنے کے بعد میں اپنی دکان پر گیا کچھ دیر تک ضروری معاملات دیکھ کر، گھر واپس آگیا۔ جلدی کے چکر میں نہانا بھول چکا تھا جب یاد آیا تب میرے پاس وقت نہیں تھا اس لیے بغیر نہائے احسن کے ولیمے کی تقریب میں شرکت کے لیے نکل پڑا۔
ہمارے ہاں بیرونی دوستیاں ہوا کرتی ہیں اس لیے زیادہ شادیاں ہم لڑکوں (مردوں) کو ہی دیکھنا اٹینڈ کرنا پڑتی ہیں۔ میرے احسن کے گھر پر پہنچنے تک احسن کے دوستوں نے تمام معاملات دیکھ لیے تھے، میں دکان سے گھر اور پھر گھر سے ولیمے پر آنے تک مجھے کافی دیر ہوچکی تھی اس لیے میرے آنے تک ولیمے کی تقریب کی تیاریاں ہوچکی تھی۔
میں کچھ دیر احسن اور نازیہ کے قریب بیٹھا رہا پھر کسی وجہ سے اٹھ کر احسن کے گھر کے اندرونی جانب چل دیا۔ کچھ کام جو چھوٹے موٹے تھے ان کو نبٹاتے ہوئے اچانک فائزہ مجھے نظر آئی۔
فائزہ استری اسٹینڈ کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی مجھے دیکھ کر مسکرائے جا رہی تھی، ہال میں تمام افراد جمع تھے کچھ عورتیں اندر اور کچھ باہر آجارہے تھے۔ فائزہ کی مسکراہٹ دیکھ میرے اندر ہلکی سی سنسنی پھیل رہی تھی۔
میں فائزہ کو یکسر فراموش کرتا واپس گھر سے باہر بنے تقریبی ھال میں چلا گیا۔ احسن سٹیج سے تھوڑا دور کھڑا کسی سے موبائل پر بات کر رہا تھا تب میں بھی اس کے پاس کھڑا ہو کر اس کی باتیں سننے لگا کچھ دیر بعد نازیہ نے احسن کو بلایا جس پر احسن نازیہ کی طرف دیکھا۔
نازیہ: مجھے پانی پینا ہے فائزہ گھر گئی تھی ابھی تک نہیں آئی تم جا کر لادو یا منگوادو۔
احسن (مجھ سے دھیمی آواز سے): جا جاکر اپنی بھابھی کی خدمت کر۔۔۔
میں نے نازیہ کے سامنے سے خالی جگ کو اٹھایا اور کچھ دور پڑے ڈرم سے پانی بھرا اور واپس نازیہ کی طرف آگیا۔ نازیہ کو گلاس میں پانی ڈال کر دیتے ہوئے واپس احسن کی طرف مڑنے لگا تب نازیہ بولی: کچھ دیر اپنی بھابھی کے قریب بھی بیٹھ جاو۔ صبح سے بور ہورہی ہوں۔
میں نے ایک نظر احسن پر ڈالی جو اس وقت اپنے دوسرے دوست کے پاس نازیہ کی طرف کمر کیے کھڑا باتیں کررہا تھا۔ مجھے احسن کی طرف دیکھتا دیکھ نازیہ پھر سے بولی:
دیور جی۔۔۔ کس سوچ میں پڑ گئے ہو؟ میں نے کوئی مہنگی فرمائش نہیں ڈالی جس کو پورا کرنے سے پہلے آپ نے احسن سے اجازت مانگنی ہے۔
میں کچھ دیر پہلے احسن کی اور پھر اب نازیہ کی دوہری معنی کی باتیں سن کر سوچ میں ڈوبے ہوئے نازیہ کے قریب بیٹھ گیا۔
نازیہ پانی کا ایک گھونٹ پینے کے بعد بولی: دیور جی۔۔۔ ویسے ایک بات پوچھنی تھی اگر آپ کی اجازت ہو تو؟
میں نے نازیہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا: ہاں کیوں نہیں، آپ نے جتنی بھی باتیں پوچھنی ہیں پوچھیں۔۔۔
نازیہ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ: جب میں نے سوال جواب شروع کرنے ہیں تب سارا دن گزر جانا ہے اور شاید رات بھی، پھر آپ کے دوست کا کیا ہوگا اگر آپ وہاں موجود ہوں گے تو
میں نازیہ کی اس ڈبل میننگ بات سے تھوڑا بہت کنفوز ہوگیا تھا، میں نے پہلے جی، جی کہا پھر فورا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ، بولنے لگا جس پر نازیہ اپنے ناک پر مہندی والا ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی۔
نازیہ: اچھا اچھا۔۔۔ زیادہ باتیں نہیں پوچھتی آپ اتنا زیادہ کنفوز نہ ہوں، یہ لیں پانی پییں۔ 
میں نے پہلے انکار کیا تب نازیہ بولی: پانی پی لیں نا۔۔۔ یہ نہ ہو کہ بعد میں آپ کو یہ پانی بھی نہ ملے۔
میں نے نازیہ کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے لیا اور خاموشی سے پانی کے گھونٹ اپنے خشک ہوتے گلے سے نیچے اتارے نازیہ مجھے پانی پیتا دیکھتے ہوئے بولی:
نازیہ: ویسے آپ آج نہائے نہیں نا؟؟؟
میں نے کوئی تاثر نہیں دیا کیونکہ میں نازیہ کی بات پر غور کر رہا تھا، آج دن تک کسی کو بھی معلوم نہیں ہوا تھا کہ میں کب نہایا اور کب نہیں نہایا۔
نازیہ دوبارہ بولی: ویسے آپ کل نکاح کے وقت کہاں تھے؟ فائزہ بھی غائب تھی۔ عجیب معاملہ ہے۔
نازیہ نے ولیمے کی تقریب پر ایک نظر ڈالتے ہوئے دوبارہ سے میری آنکھوں میں دیکھا، میں جہاں تھا وہیں کا وہیں رک گیا۔ کیونکہ اتنے سالوں سے میں دو عورتوں کو ٹھوک ٹھوک کر خود کو ٹھنڈا کر چکا تھا لیکن کسی کو علم نہیں تھا۔ یہ اچانک نازیہ کو کیسے علم ہوگیا۔
نازیہ نے بہانے سے کُشن ( چھوٹے تکیے) کو صحیح کرتے ہوئے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولی: گلاس سائڈ پر رکھ دیں دیور جی۔ میں فائزہ کی تمام حرکات پر نظر رکھتی ہوں۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں کسی کو کچھ بھی بتانے والی نہیں، کیونکہ اس میں آپ کی بدنامی کم، اور فائزہ کی زیادہ ہے۔
میں نے ایک نظر نازیہ کی چہرے پر ڈالی پھر دوسری نظر اپنے ہاتھ پر جو نازیہ کے ہاتھ کے نیچے تھا۔ میرے ذہن میں یہ سوال بھی آرہا تھا کہ اگر نازیہ کو اپنی بہن کی حرکات پر شک ہے تو اس نے اب تک اس کو روکا کیوں نہیں، 
نازیہ: آج سے سات دن تک آپ آرام سے گزاریں پھر اس کے بعد آپ کو اپنی بھابھی کی خدمت بھی کرنی ہے۔ ہے نا احسن۔
نازیہ نے اپنی گفتگو کے آخری حصے پر تھوڑا سا زور دیتے ہوئے احسن کی جانب دیکھا، احسن نے بھی دور سے مسکرا کر نازیہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔ میں اس وقت ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوچکا تھا کیونکہ میں نے آج دن تک احسن کو اپنا جگری دوست مانا تھا آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں نے احسن کی بہن (جس کی شادی ہوچکی تھی) کو سیکس کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور میں نے خود کو ان دونوں ( عائشہ اور اس کا شوہر جو بعد میں بنا) پر ظاہر بھی کردیا تھا۔ عائشہ نے بعد میں اس بات کو احسن یا احسن کی امی کو نہ بتانے کے بدلے خود کو میرے سامنے پیش کردیا تھا لیکن میں نے انکار کردیا تھا۔
میری سوچ کے لمحات اس وقت ٹوٹے جب فائزہ میرے کندھے پر اپنی بازو رکھ کر بولی۔
فائزہ: جناب دن کو دن کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اگر دل کر رہا ہے تو بندے حاضر ہو جاتے ہیں۔
فائزہ کی اس بات پر پاس بیٹھی نازیہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی، میں صبح سے معنی خیز باتوں اور اشاروں سے کنفوز ہوچکا تھا اس لیے فورا وہاں سے اٹھ کر احسن کی طرف بڑھ گیا۔
فائزہ کے اشارےو مسکراہٹ، احسن کی اجازت، اور نازیہ کی معنی خٰیز باتوں سے میرا لنڈ ہاف کھڑا ہوچکا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرکے احسن کے ولیمے کی تقریب ختم ہوئی اور میں گھر واپس آکراپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

Quote

صبح اپنے وقت پر دکان پر چلا گیا۔ سارا دن کسٹمرز میں مصروف رہا کچھ کسٹمرز سےبحث بھی ہوئی کیونکہ میں دو دن سے مسلسل دکان جلدی بند کرکے چلا جاتا رہا تھا۔ کسٹمرز کی بھی دو اقسام ہیں ایک جو سچے ہوتے ہیں اور دوسرے جھوٹ بولتے ہیں۔ شام کے وقت احسن کی کال آئی سلام دعا کے بعد احسن اصل نکتے کی طرف آیا۔
احسن: عثمان ! ایک چھوٹا سا کام تھا
میں: ہوں۔۔۔۔ (کیونکہ میں ایک طرف احسن کی کال بھی سن رہا تھا اور دوسری طرف کام بھی کررہا تھا)
احسن: یار مجھے آج شام سے دعوتوں میں بھی جانا پڑے گا ایک تو شادی کی دعوتیں ہیں ساتھ ہی میرے سعودیہ والے کام کی وجہ سے بھی،
میں کسٹمر کو فارغ کرتے ہوئے: یہ تو اچھی بات ہے پھر۔۔۔ عیش کر۔ ایک وقت کا کھانا کوئی دوسرا میرے علاوہ بھی کھلانے والا ہے۔
(احسن صبح کی چائے سے شام کی چائے تک میری ہی دکان پر بیٹھ کر پیا کرتا تھا اکثر میرا کھانا سامنے والی بھابھی جی بھیجا کرتی تھی تب بھی وہ (احسن) میرے ساتھ شریک ہوا کرتا تھا۔)
احسن: یار وہ مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے نازیہ کے رشتہ داروں کے گھر اکیلا جاتے شرم اور ججک محسوس ہوتی ہے۔ تمہیں معلوم تو ہے نا کہ میں نازیہ کے گھر چائے کے علاوہ کبھی گیا ہی نہیں۔
میں (نئے کسٹمر کو ڈیل کرتے ہوئے): اچھا پھر
احسن: میں نے یہ بات نازیہ سے رات کو کی تھی تب اس نے تمہارا بولا۔
میں کام کرتے کرتے کچھ سیکنڈز کے رکا، : بھابھی نے پھر کیا بولا؟
احسن: اس نے کہا کہ تم میری شادی کے دوست ہو اس لیے ہر دعوت میں جانا ضروری بھی ہے ساتھ میں میرا ٹائم پاس بھی ہوجایا کرے گا
میں نے اپنے دل میں سوچا: اس نے خود سے ایسا بول دیا ہے نازیہ جو کل کی بہیائی لڑکی کسی دوسرے مرد کے بارے میں ایسا کیوں بولے گی۔
احسن مجھے خاموش دیکھ دوبارہ بولا: یار مجھے معلوم ہے تمہاری دکانداری بھی ہے اس لیے نازیہ نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ ہم صرف رات کے وقت دعوت پر جایا کریں گے۔
میں نے کچھ دیر سوچا پھر نازیہ کے متعلق سوچتے سوچتے ہاں بول دی۔ شام کے ۴ بجے تھے تب سامنے والی بھابھی (صائمہ) کی کھڑکی کھلی یہ ہمارا ایک محسوس اشارہ ہوتا تھا جب بھی گلی میں کوئی نہ ہوتا یا بھابھی کی بیٹی سو رہی ہوتی تب وہ کھڑکی کھول کر کچھ سیکنڈز کے بعد بند کردیتی تھی۔
میں نے ایک بار اپنے کاروباری کاموں کے متعلق سوچا، جب تمام کام کلیئر پا کر میں نے مین سوئچ کو آف کیا اور موبائل سائلنٹ کرکے جیب میں ڈال لیا۔ سامنے والے دکاندار کو چائے پینے کا بتا کر دوسری گلی میں گھس گیا۔ یہ بھی میرا طریقہ کار تھا تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ گلے کے کونے میں بنی سیڑھی سے چڑھ کر دوسری جانب صائمہ بھابھی کی گلی میں اتر گیا۔ اس وقت گلی میں ۲ موٹر سائیکل کھڑے تھے جن میں سے ایک میرا بھی تھا۔
میں نے ایک نظر دونوں طرف ڈالی پھر خاموشی سے بھابھی کے گھر کی سیڑھیاں چڑھنے لگا کیونکہ دروازہ پہلے سے کھلا ہوا تھا۔  سیڑھیاں چڑھنے کے بعد مخصوص کمرے کو کھول کر میں بیڈ پر جا بیٹھا۔
کچھ دیر بعد بھابھی چائے کے دو مگ لیے، نیلے رنگ ٹی شرٹ اور جینز پہنے لال رنگ کی لپ سٹک لگائے میرے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔
بھابھی کا یہ روپ صرف اور صرف میرے لیے تھا اس کی ایک ہی وجہ تھی بھابھی گجرات شہر کی ایک ماڈرن لڑکی تھی جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے تمام ارمان، راستے میں ہی رہ گئے ان کے ایک ارمان کی پورا کرنے کے لیے میری وجہ سے ان کا شوہر آج کویت میں اپنے روزگار میں مصروف تھا۔ بھابھی نے اپنے ہاتھ میں پکڑے چائے کے مگ کو میری جانب بڑھاتے ہوئے بولی:
بھابھی: احسن کی شادی اچھے سے ہوگئی نا؟؟؟
میں مگ لیتے ہوئے: ہاں ہوگئی۔
بھابھی نے ہیلز اتار کر بیڈ پر اپنی ٹانگیں سیدھی کرلیں۔ میں ریلیکس ہوکر چائے پینے لگا۔ جیسے ہی چائے ختم ہوئی اسی وقت بھابھی نے مجھے لیٹنے کا اشارہ کیا۔
میں روٹین واز خاموشی سے بیڈ کے کنارے سے ٹیک لگا کر ٹانگیں سیدھی کرکے آدھا لیٹا اور آدھا بیٹا ہوا تھا۔ (ابھی میرے پاس اس پوزیشن کی تصویر نہیں)
بھابھی نے اپنے ہاتھوں کو میری ران پر گھوماتے ہوئے آہستہ سے بولی: عثمان ! تمہیں معلوم ہے میں نے یہ تین دن کیسے گزارے؟
میں نے انکار میں اپنا سر ہلایا جس پر صائمہ بھابھی مسکراتے ہوئے میرے سیمی اریکٹ لنڈ کو پکڑ کر نرمی سے مسلنے لگی۔
بھابھی: ہم نے جو ویڈیو بنائی تھی نا۔۔۔ اسے دیکھ دیکھ کر۔۔۔
میں جیسے ہی سیدھا ہونے لگا اسی وقت بھابھی نے اپنے ہاتھ کی مدد سے میرے چھاتی کو پیچھے کی طرف پش کردیا۔
بھابھی: آج میرے پیریڈز کا آخری دن ہے۔۔۔ (کچھ دیر وقفے کے بعد) تم نے میری ہر خواہش کو پورا کیا۔ آج میں تمہاری خواہش کو پورا کرنے والی ہوں۔
میں ایک طرف یہ سوچ رہا تھا کہ بھابھی کے اگر پیریڈز ختم نہیں ہوئے تو مجھے گرم کیوں کیا اور اب یہ سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی صائمہ میری منی کو پی جائے گی جی ہاں یہی میری خواہش تھی۔ جسے آج پہلی عورت پورا کرنے والی تھی میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک لڑکے سے سیکس کیا تھا تب اس نے میرا لنڈ اس وقت تک چوسا تھا جب تک میں فارغ نہیں ہوجاتا۔ اس لذت کو محسوس کرکے میں آج دن تک ناجانے کتنی مرتبہ فارغ ہوچکا تھا۔
یہ سچ ہے کہ میں نے آج دن تک مٹھ نہیں ماری تھی لیکن جب بھی رات کو سونے سے پہلے میں راشد کے بلو جاب کو سوچ کر سوجاتا تھا تب میرا اس رات احتلام ہوجاتا تھا۔ میں نے اپنی خواہش کا اظہار صرف بھابھی صائمہ سے کیا تھا وہ بھی تب جب میں نے ان کے لیے ان کی خواہش کے مطابق سرخ رنگ کی برا و پینٹی لا کر دی تھی۔
میں بھابھی کی بات سن کر سوچ میں ڈبواہواتھا تب بھابھی نے میری شلوار کو میری گانڈ سے نیچے کرتے ہوئے مجھے پکارا۔
بھابھی کی مشکل کو آسان بناتے ہوئے میں نے اپنی گانڈ کو بیڈ سے اٹھا دیا جس پر بھابھی نے فورا میری شلوار میری گانڈ کے نیچے سے نکال کر سائڈ پر رکھ دی۔
اب میرا لنڈ بھابھی کی نظروں کے سامنے جھٹکے کھا رہا تھا تب بھابھی اٹھی اور بیڈ کے پاس پڑے میز سے کیک کریم کو اٹھا لیا اب میری باری تھی میں نے آگے بڑھ کر بھابھی کی نیلی ٹی شرٹ کو اتار کر اپنی شلوار کے اوپر رکھ دیا اور بھابھی کے بوبز کے طرف دیکھنے لگا جو اب ۳۶ کے قریب قریب پہنچ چکے تھے۔ شاید یہ میری ہی محنت کا نتیجہ تھا۔
بھابھی نے آج پہلے کی طرح برا نہیں پہنی تھی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ تمام کپڑے کچھ دیر بعد اتر جانے ہی ہیں پھر کیونکہ انہیں پہن کر گندا کیا جائے۔
میں بھابھی کے بوبز دیکھ کر اپنے ہاتھوں کو روک نہ پایا اور ایک کے بعد ایک اپنے ہاتھوں کو بھابھی کے بوبز پر رکھ کر نرمی سے مسلنے لگا۔
بھابھی کے منہ سے ہلکی ہلکی سسکاریاں نکلنے لگی تھی تب وقت کی کمی کا احساس مجھے بھی ہوچکا تھا اور بھابھی کو اپنے پیریڈز کا بھی علم ہورہا تھا اسی وجہ سے ہم دونوں رک گئے۔
بھابھی نے اپنے ہاتھ میں پکڑی کیک کریم کو اپنے ہاتھ میں نکال کر اپنے بوبز پر لگانے لگی۔ کچھ دیر بعد بھابھی نے مجھے پھر سے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگانے کا اشارہ کیا لیکن میں سونے کے انداز میں مکمل لیٹ گیا کیونکہ یہ بھی میری ایک چھوٹی سی خواہش میں شامل تھا۔
بھابھی مسکراتے ہوئے بولی: بہت جلدی ہے؟
میں ان کو مسکراتا دیکھ خود ہی مسکرا دیا: آپ کو معلوم تو ہے نا۔۔۔ مجھے یہاں آئے ۵ منٹ سے اوپر ٹائم ہوچکا ہے۔ پھر بھی ایسا سوال
بھابھی: پتا ہے پتا ہے تمہارے بہت سارے کسٹمرز تمہارے لیے لائن لگائے کھڑے ہوتے ہیں۔ بولا بھی ہے ایک عدد لڑکا رکھ لو کام آسان ہوجائے گا۔
میں: لڑکا رکھ تو لوں لیکن وہ مزہ نہیں جو ’’خود‘‘ کرنے میں ہے۔
بھابھی میری بات سمجھتے ہوئے اپنے بوبز کو میرے دوبارہ نرم پڑتے لنڈ پر مسلنے لگی کچھ ہی دیر میں میرا لنڈ پھر سے ہارڈ ہوچکا تھا۔ میں نے ایک نظر بھابھی کے بوبز پر ڈالی پھر اپنی آنکھیں بند کیے نازیہ ، فائزہ اور احسن کے متعلق سوچنے لگا۔ اگر نازیہ کو اپنی بہن کے متعلق سب معلوم ہے تو اس نے اب تک اپنی بہن کو روکا کیوں نہیں؟ اور اگر نازیہ اپنی بہن کی کاری گری میں شامل ہے تو۔۔۔ میں تمام باتیں سوچتے سوچتے نازیہ اور فائزہ کی کڑیاں ملا چکا تھا۔
بھابھی نے مجھے سوچ میں ڈوبا دیکھ میرے لنڈ سے نکلنے والی پری کم کو اپنی زبان سے ٹچ کرکے مجھے خود کا احساس دلایا۔
میں آنکھیں کھول کر بھابھی کے کارنامے دیکھنے لگا۔ بھابھی کے بوبز پر لگی کریم اب میرے لنڈ پر بھی لگ چکی تھی اب آہستہ آہستہ وہ اپنے بوبز کو میرے لنڈ پر اوپر نیچے کرنے کی رفتار کو تیز کرنے لگی۔
یہ سب ہم دونوں نے کافی مرتبہ برادر سسٹر سیکس کی ویب سائٹ پر دیکھ چکے تھے آج ہم تقریبا دسویں مرتبہ کررہے تھے لیکن اصل کام کچھ دیر بعد شروع ہونا تھا۔
بھابھی کے بوبز کی نرمی اور میرے لنڈ کی گرمی ہم دونوں پر اثر دیکھا رہی تھی بھابھی نے آہستہ آہستہ اپنی زبان کو میرے لنڈ پر ٹچ کرنا شروع کردی تھی۔ بھابھی کا ایسا باربار کرنا مجھے سیکس کی جنت کا نظارہ کروانے لگا تھا۔ 
بھابھی نے کچھ دیر ایسا کرنے کے بعد اپنے بوبز کو آزاد چھوڑ دیا کیونکہ بھابھی کے بوبز پر لگی کریم اب میرے لنڈ پر منتقل ہوچکی تھی پھر آہستہ آہستہ بھابھی میرے لنڈ پر اپنے چہرے کو جھکانے لگی۔
میں جانتا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے بھابھی کا کسی بھی مرد کا لنڈ چوسنا۔ میں نے ہردم کوشش کرنے کا سوچ رکھا تھا کہ بھابھی کو زبردستی کوئی کام کرنے کا نہیں بولوں گا۔
بھابھی نے ابھی میرے لنڈ کی ٹوپی اپنے گرم منہ میں لیا مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرا لنڈ ایک گشتی کی گرم دہکتی پھدی کےاندر جا رہا ہے۔
میں نے ہر دم کوشش کی کہ میں اپنی کمر کوقابو میں رکھ سکوں میں اس کوشش میں کامیاب بھی ہوچکا تھا لیکن بھابھی جھکنا روکا نہیں کچھ دیر بعد مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ بھابھی نے میرا سارا لنڈ اپنے منہ کے اندر لے لیا ہے۔
میں نے اپنا سر اٹھا کر بھابھی کی طرف دیکھا جہاں مجھے بھابھی کا صرف سر نظر آیا اور کچھ نہیں۔ بھابھی کے سر کے ریشمی بال میرے پیٹ پر پھیلے ہوئے تھے۔
بھابھی نے آہستہ آہستہ اپنا سر اوپر سے نیچے کی طرف کرنا شروع کردیا تھا مجھے معلوم ہو چلا تھا کہ بھابھی نے اس کام کی پریکٹس کی گاجر یا مولی سے شروع کی ہوگی۔ اسی لیے آج ان کا ٹیسٹ کامیاب جا رہا تھا۔ بھابھی کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ میرا دوسرا تجربہ ہے اس لیے بھابھی نے کوئی جلدی نہیں کی۔
بھابھی بالکل نرمی سے آہستہ آہستہ اپنا ٹیسٹ دیے جارہی تھی۔ میں خود کو قابوکرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگا تھا۔
کچھ دیر بعد جب مجھ سے برداشت نہ ہوا تب اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ بول پڑا: بھابھی۔ اب مزید برداشت نہیں ہورہا۔
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ بھابھی میری اس بات پر مسکرائی تھی کیونکہ آج وہ اپنے ٹیسٹ میں ۱۰۰ میں ۱۰۰ نمبر لے چکی تھی۔ وہ نادان بچی کی طرح میرے لنڈ کو مزید سک کرنے لگی۔ اسی وجہ سے میرا لنڈ بھابھی کے منہ کی گرمی کی وجہ سے فارغ ہونے لگا۔
میری کمر آہستہ آہستہ بیڈ سے اٹھ چکی تھی مجھے بس اتنا معلوم تھا کہ میں فارغ ہورہا ہوں اور کچھ نہیں۔
میرے منہ سے لذت بھری سسکاریاں نکل رہی تھی جو میری منی کے آخری قطرے کے نکل جانے کے بعد بند ہوئی۔ بھابھی نے میرے فارغ ہوجانے کے کچھ دیر بعد اپنا چہرہ اوپر اٹھا جو باہر سے بالکل صاف تھا۔ حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب بھابھی بولی: اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ اس کام میں اتنا مزہ آتا ہے تو میں تم دونوں سے پھدی کی جگہ یہاں ڈالنے کا بولتی۔
بھابھی اٹھ کر میری بغل میں لیٹ گئی اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئی بولی: آج سے  
No FUCK ONLY SUCK

Quote

کچھ دیر بعد میں دکان پر موجود تمام کسٹمرز کو ڈیل کرنے لگا۔ شام ۷ بجے میں گھر پہنچا تو گھر والوں کو میں نے احسن کی بات کو سب کے سامنے رکھا۔ جس پر کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا۔
رات ۸ بجے احسن کی کال آچکی تھی جس کے مطابق مجھے نازیہ، احسن کے ساتھ نازیہ کی دور کی خالہ کے گھر دعوت پر جانا تھا۔ میں نے باتھ لیا اور ٹھیک ۹ بجے احسن کے گھر پہنچ گیا۔ وہ دونوں میرا ہی انتظار کررہے تھے اس لیے ہم پانچ سے دس منٹ کے بعد مطلوبہ منزل کی جانب چل دیئے۔
کھانے کے بعد ہم سب خوش گپیوں مطلب صرف نازیہ اور اس کی خالہ باتوں میں مصروف ہوگئی ہم دونوں دوست گیسٹ روم میں بیٹھ کر اگلی دعوت پر بحث کرنے لگے۔ نازیہ کی یہ خالہ ۴۲ سال کی تھی اسی وجہ سے انکی شخصیت ہم سب سے الگ دکھ رہی تھی۔ خیر ہم دونوں نے اس کے علاوہ ان کے گھر کا ایک راؤنڈ بھی لگایا کیونکہ کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا بس ایسے ہی ٹائم پاس کرتے کرتے چائے بنوا کر نازیہ نے ہمیں بلوا لیا۔
واپسی پر خالہ نے کافی کہا کہ یہی رہ جاو لیکن احسن نہیں مانا شاید اس لیے کہ اسے روزانہ کی طرح آج بھی نازیہ کی دھلائی کرنی تھی۔
میں معامول کے مطابق اگلا دن گزارا شام کو ۷ بجے سے پہلے دکان بند کردی اور گھر چل دیا تب احسن مجھے راستے میں نظر آگیا۔
احسن مجھے ملتے ہوئے بولا: یار۔۔۔ ابھی ہمیں نازیہ کی سکول کی دوست کے گھر چائے کی دعوت پر جانا پڑے گا۔
میں: وہ کیوں؟ ہماری دعوت تو ۔۔۔
احسن درمیان میں بولتے ہوئے: یار سمجھا کر یہ بیویاں اپنی ہر بات منواکر چھوڑتی ہیں اس لیے اب تم جلدی سے گھر جاو تیار ہو کر آجاو۔
گھر پہنچ کر میں نے اپنا ہینڈی بیگ اتارا اور ایک چھوٹا سا باتھ لیا اور کپڑے تبدیل کرکے احسن کے گھر کی طرف چل دیا۔
مختصرا ہم نے اگلی دعوت تک نازیہ کی فرینڈ کے گھر رہے پھر اگلی دعوت پر میں جانے کے لیے تیار نہ ہوا کیونکہ مجھے اپنا کام بھی کرنا تھا اس لیے خاموشی سے نازیہ اور احسن میری بات مان گئے میں نازیہ کی دوست کے گھر سے باہر نکلا ساتھ میں نازیہ اور احسن بھی، وہ دونوں اپنی اگلی دعوت پر نکل گئے میں جیسے ہی اگئے بڑھا تبھی نازیہ کی دوست (ایمان، مطلب میرے چچا کی بیٹی، جی ہاں) نے مجھے پکارا۔ چونکہ اس وقت چچا اور چچی نازیہ اور احسن کے ساتھ ہی نکل کر کسی کام کی سلسلے میں ساجد صاحب کے گھر گئے تھے۔ اس لیے ایمان کو مجھے روکنے کا بہانہ مل گیا۔
میں خاموش لیکن دوسری جانب جس طرف میں جا رہا تھا، دیکھتا دیکھ کر ایمان میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔
ایمان: کیسے ہو؟
میں نے ایمان کو یکسر فراموش کرتے ہوئے بائک کے راستے سے ہٹانے کے لیے اپنی بائک کو پیچھے کی طرف کیا اسی وقت ایمان میری بائک کے اگلے ٹائر پر آکر بیٹھ گئی۔
ایمان: ناراض ہو جناب
میں اپنا چہرہ دوسری طرف کرتے ہوئے ایمان کے گھر کو دیکھنے لگا میرا ایسا کرنے کا ایک ہی مقصد تھا کہ ایمان زچ ہوکر میرا راستہ چھوڑ دے۔
ایمان نے ٹھیک ویسا ہی کیا جیسا میں نے سوچا تھا لیکن میرے بائک سٹارٹ کرنے پر ایمان میری بیک سائڈ پر آکر میرے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی۔
ایمان: سیاں جی۔۔۔ اب لے چلو ہمیں اپنے سسرال۔۔۔
ایمان کو ۲ گھنٹے سے مسلسل اگنور کرنے کے بعد بھی میرا مقصد کامیاب ہوتا نہ دیکھ کر میں نے ایمان کو اس مرتبہ جھڑک دیا۔ تاکہ وہ اپنے گھر چلی جائے اور مجھے تنگ نہ کرے
ایمان نے اپنے بازو میرے کندھے پر رکھ کر بولی: سیاں جی۔۔۔ ایک آئی لو یو کہنے پر اتنا غصہ۔۔۔ اف توبہ۔۔۔ ہوا کیا ہے؟
میں نے بائک کو گھیر میں ڈالا اور تھوڑا سا دور لے جا کر بائک کو بند کردیا اور بولا: تم سمجھتی کیا ہو؟ میرے ہی گھر والوں کے سامنے پہلے میری بہن بنی رہتی ہو، پھر اچانک ایک ایسے دن آکر جس دن میرے گھر پر میرے رشتے کی بات چل رہی ہو بولتی ہو آئی لو یو۔ کیا تم نے مجھے ایک کھلونا سمجھ رکھا ہے؟
تم جانتی تو ہو نا کہ تمہارے والدین (چچا ، چاچی) نے میری، اور میرے گھر والوں کی کتنی بےعزتی کی تھی؟ بھول گئی؟ نہیں نا۔ پھر آج پھر سے؟ کچھ تو شرم کر لو۔ اوہ سوری۔ اب میں سمجھا۔ جیسے والدین ویسے تم
ایمان میرا پارا ہائی کروا کر اپنی بے عزتی کروا کر خاموشی سے بائک سے اتر تو گئی لیکن جاتے جاتے پھر سے بولی: جہاں تک سوال ہے میرے والدین کی، وہ جیسے مرضی ہوں لیکن میں ویسی نہیں۔ اب محبت کرہی لی ہے تو ساری زندگی نبھا کر بھی دیکھاوں گی۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے
میں آج دو گھنٹے سےایمان کو زچ کرنے میں مصروف تھا لیکن چند لمحوں میں ایمان نے مجھے جلا کر رکھ دیا تھا۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں اپنی جان ہی دے دوں۔ لیکن پھر اپنے والدین جنہوں نے مجھے بڑی مشکل سے اس مقام تک پال پوس کر لایا۔ ان کو ان کی زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا دینے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی۔
بات وہاں سے شروع ہوئی جہاں سے آپ سب کو بتانا چاہیے۔ میری فیملی جوائنٹ سسٹم میں آتی تھی۔ ہم سب، دادی اماں، ابو(ان کی فیملی)، چچا(ان کی فیملی)، درمیانے چچا(ان کی فیملی) اور سب سے چھوٹے چچا ہم سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ ہماری فیملی میں پہلی لڑائی ہوئی مجھے اس کی وجہ ٹھیک سے معلوم نہیں لیکن ابو نے فورا ایک گھر تعمیر کروالیا۔ لیکن وہ گھر دادی کی مرضی سے ان کے گھر کے ساتھ بنا، جب یہ جھگڑا ہوا تب اس پوری فیملی میں دادی، میرے والدین، میں، اور میری دو بہنیں(فرزانہ، عمر ۱۸ سال، طاہرہ، عمر ۱۶ سال، میں، ۱۴ سال)
بڑے چچا اور چچی ان کی بیٹی اور بیٹے، درمیانے چچا اور چچی(ربیعہ، عمر ۲۲ سال رنگ فئیر) ان کی اکلوتی بیٹی ایمان، عمر ۱۴ سال، دو بیٹے، پھر آخر میں چھوٹے چچا نواز رہتے تھے۔
جھگڑے کی وجہ چھوٹے چاچے کی شادی تھی، چاچو کا رشتہ پہلے کہیں ہو نہیں رہا تھا پھر ایک جگہ بات بنتی نظر آئی لیکن سسرالیوں نے جگہ کم ہونے کی وجہ سے انہوں نے چاچے نواز کو گھر داماد رکھنے کی آفر بھی کردی شاید اس لیے کہ ان کی جاری تعلیم بہت کامیاب جا رہی تھی۔خیر ابو نے دادی اماں سے بات کی اور فورا اپنے لیے ایک گھر تعمیر کروانا شروع کردیا، بڑے چاچو نے پہلے ہی ایک گھر تعمیر کروا رکھا تھا لیکن وہ اپنے نئے گھر نہیں گئے تھے مطلب شفٹنگ نہیں کی تھی۔
اس جھگڑے کی وجہ سے ابو نے گھر کی تعمیر جیسے ہی شروع کی بڑے چاچو نے اپنی فیملی کو اپنے نئے گھر شفٹ کردیا۔
میری بہنیں مین روڈ سے کبھی بجری، کبھی ریت، کبھی اینٹیں تو کبھی سریاں اٹھا کر نئے گھر تک شفٹ کرنے میں لگی رہتی جس میں امی بھی ساتھ دیتی تھی میرا بس یہی کام ہوتا تھا کہ میں اس بجری یا ریت کے ٹھیلے کے قریب رک کر نظر رکھتا تھا۔
چھوٹی چچی (ایمان کی والدہ) راستے میں کھڑے ہوکر ہنستی یا پھر دونوں میاں بیوی طنز کے تیر میری بہنوں اور امی پر چھوڑتے رہتے تھے۔ یہ سب باتیں میرے سامنے کی ہیں اس لیے سب معلوم تھا۔
خدا خدا کرکے مکان تعمیر ہو گیا تب ابو اپنی نوکری سے واپس آکر لینٹر (چھت) اور بجلی وغیرہ جیسے دوسرے مردانہ کام کیے۔ مردانہ کام تو سب ہی ہوتے ہیں لیکن ابو کی مدد امی نے ہر دم کی تھی۔ اگر اس دوران پیسہ آنا بند ہوجاتا تو ہمارے سپنوں والا گھر ادھورا رہ جاتا۔
اسی وجہ سے ابو واپس اپنے کام پر چلے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد ہمارا گھر مکمل ہوگیا تب ہم نے اپنا سارا سامان اٹھا کر جس میں ۲ رضائی اور۲ بستر، اور اسی طرح دوسرا سامان اپنے نئے گھر شفٹ کردیا۔ ابو نے ہم تینوں بھائی بہنوں کو پڑھنے کی تلقین کی اور ہم ان کی بات مان کر اپنی پڑھائی پر توجہ دینے لگے
میں اپنی بہنوں کی طرح سلمیٰ اور ایمان کو اپنی بہنیں سمجھتا اور اپنی کزنز کو بھائی کہہ کر پکارتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد چھوٹے چاچو کی شادی ہوگئی جس پر ابو نے اپنا حصہ بھی ڈالا ہم بھی اس شادی میں شریک ہوئے لیکن ہماری حیثیت صرف مہمانوں جیسی تھی۔
ایک چھوٹی سی لڑائی کی وجہ سے ہمارا شیرازہ بکھیر گیا تھا۔ ہم تینوں بس یہی دعا کرتے رہتے تھے کہ اب کوئی جھگڑا نہ ہو، اسی وجہ سے ہم تینوں بہن بھائی نہ تو جھگڑتے اور نہ ہی ایسی نوبت آنے دیتے۔
ہماری فیملی میں اور بھی افراد تھے لیکن وہ پھوپھیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش تھی اس لیے ان کا فلحال ذکر کرنا زیادہ ضروری نہیں۔ بس اتنا بتا دیتا ہوں کہ میری چار عدد پھوپھیاں ہیں۔ ایک دادی کے گھر کے قریب ہی رہائش پذیر ہیں، دوسری بڑے چاچو کے گھر کے قریب، تیسری، دوسری پھوپھی کے گھر کے قریب چند فرلانگ کا فاصلہ تھا۔ چوتھی پھوپھی گجرانوالہ میں رہائش پذیر تھیں۔
چاچو کی شادی میں ہم سب کزنز نے آپس میں کافی ہلہ گلا کیا کیونکہ ہم اس وقت اس موج مستی کی زندگی میں رہنا چاہتے تھے۔ مہندی والی رات تھی میں ہشتم جماعت کا طالب علم تھا اس لیے میرا قد مزید بڑھا ہوچکا تھا۔ میں اپنے کزنز اور محلے کے دوستوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اچانک ایک کمرے میں جا کر چھپ گیا۔ میری عادت تھی کہ میں پہلے خود کو ریلیکس کرلیتا تھا پھر اس کے بعد جو مرضی ہو جائے مجھے کوئی ڈھونڈ نہیں سکتا تھا۔ 
کچھ وقت گزرا باہر مہندی کی تقریب میں وقت تھا لیکن باہر دما چوکڑی چل رہی تھی میں نے اس وقت پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی آپ سب جانتے ہی ہوں گے کہ پینٹ میں ہلکا سا ابھار رہتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں نکالا جاتاکہ سامنے والا لنڈ کھڑا ہے اوروہ ابھی ابھی سیکس کرکے باہر نکل رہا ہے۔
کچھ دیر گزری ہوگی کمرے میں کوئی داخل ہوا چونکہ میں نے کمرے میں آنے سے پہلے یہ سوچ رکھا تھا کہ اسی کمرے میں آنا ہے کیونکہ اس کمرے کی لائٹ کافی دنوں سے خراب ہوئی پڑی تھی۔
جو بھی اندر داخل ہوا تھا وہ پہلے ایک کونے میں گیا پھر گھومتے پھرتے میری جانب آیا۔ جیسے ہی اس بندے کا ہاتھ مجھ سے ٹکرایا تو وہ بولا
شکر ہے تم ادھر ہو میں ویسے ہی دوسرے کونوں میں تمہیں ڈھونڈ رہی تھی۔
میں اس آواز کو پہچاننے میں مگن تھا تبھی اس نے میرے نیچلے حصے کو پکڑ کر نیچے کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے پینٹ پہن رکھی تھی اس لیے وہ نیچے نہیں ہوئی۔ تب اس نے بیلٹ کو پکڑ کو کھولا اور خاموشی سے پینٹ کو نیچے کردیا۔
میں کچھ بولنا چاہ رہا تھا لیکن سامنے والی نے مجھے بولنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اس نے میرے لنڈ کو پکڑ کر اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگی۔ مجھے گیلا گیلا محسوس ہوا تو میں نے اس کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ میں سمجھا کہ وہ اب باہر چلی جائے گی لیکن میرا اندازا غلط نکلا۔
اس نے اپنی بیک (گانڈ) کو میرے لنڈ سے جوڑ کر اپنی گانڈ کو ہلانے لگی۔ مجھے کچھ دیر پہلے ہلکا سا مزہ تو آیا تھا لیکن زیادہ نہیں شاید اس لیے کہ اس کے دانت میرے لنڈ پر بار بار لگ رہے تھے۔ اس مرتبہ اس کی گانڈ نے مجھے مزہ دینا شروع کردیا تھا میں نے اپنے کزنز سے سن رکھا تھا کہ ایسا کرنے سے ہم لڑکوں کو مزہ آتا ہے لیکن یہ پہلا تجربہ تھا۔
اس کی موٹی گانڈ کے بار بار لگنے سے میں تھوڑا پیچھے ہٹا تو سیدھا دیوار کے ساتھ لگ چکا تھا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر ویسا ہی کیاکچھ دیر بعد میرے کھڑے ہوئے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس نے ایک دو بار مٹھ لگائی پھر شاید وہ جھک کر اپنی پھدی پر سیٹ کرنے لگی۔
جب میرا لنڈ اس کی پھدی پر سیٹ ہوگیا تب اس نے اپنی گانڈ کو باہر نکال کر پیچھے کی طرف دھکیلا تو میرے لنڈ کی ٹوپی اس کے اندر گئی ہی تھی کہ باہر ہلکا سا کھٹکا ہمیں محسوس ہوا۔ میں چونکہ دیوار کےساتھ لگا کھڑا تھا اس لیے ہل نہیں سکتا تھا لیکن سامنے والی جو بھی لڑکی یا عورت تھی اس نے خود کو آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف دبانا شروع کردیا۔
جس سے میرا لنڈ کی پھدی میں مکمل چلا گیا۔ ایک مرتبہ پھر سے ہمیں کھٹکا محسوس ہوا لیکن ہم دونوں کچھ بھی نہ بولے۔ اب ہمیں اندھیرے میں دیکھنے میں کوئی مشکل نہیں ہورہی تھی اس لیے میں نے اس سامنے سے آتے بندے کو دیکھا جو ٹھیک ہمارے سامنے کھڑا تھا لیکن اس کا چہرہ دوسری جانب تھا۔ 
کچھ دیر وہ کھڑا رہا پھر خاموشی سے واپس چلا گیا۔ شاید جو مجھ سے پھدی میروانے آئی تھی اسے احساس ہوچکا تھا کہ وہ جس سے چدوانے آئی تھی وہ باہر جا چکا ہے اور جس سے پھدی مروا رہی ہے وہ کوئی اور ہے۔
کچھ لمحوں کے بعد اس نے آہستہ آہستہ اپنی گانڈ کو ہلانا شروع کردیا۔ میں نے پہلی 
مرتبہ اس کی بنڈ پر ہاتھ رکھ کر زور سے مسلنے لگاجس پر وہ بولی: آرام سے کرو
میں نے اس کی بات مان کر نرمی سے اسکی بنڈ کو مسلنے لگا۔ کچھ سیکنڈز کے بعد اس نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا میں تھوڑا سا اس پر جھک چکا تھا۔ اس نے میرے ہاتھ کو پکڑے پکڑے اپنی قمیض کی اندر ہاتھ ڈال کر سیدھا بوبز پر رکھ کر آہستہ سے بولی: ان کو دباو
میں نے اس کی بات مانتے ہوئے اس کے بوبز دبانے لگا۔ بوبز دباتے دباتے میں پہلی بار بولا: تم کون ہو؟
وہ: پھدی مار کر پوچھ رہے ہو کہ میں کون ہوں؟
میں اپنے کام میں لگاہوا تھا اس لیے میں نے جواب نہیں دیا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں اس کام میں خود کو بزی رکھنا چاہتا تھا۔ ہر روز کبھی ایک دوست کبھی دوسرا تو کبھی کزنز اپنی سٹوریز سنا سنا کر مجھے پکاتے رہتے تھے ۔
وہ: تم یہاں کیا کررہے تھے؟
میں: ہم کھیل رہے تھے تو میں یہاں چھپ گیا۔
وہ: اب ہم کھیل رہے ہیں کسی کو نظر بھی نہیں آسکتے ہیں نا۔
میں: تم نے اپنا نام نہیں بتایا۔ اگر تم میری کزنز میں سے ہوتو آج رات کو تم پھر سے اسی کمرے میں آنا اور ٹھیک اسی جگہ کھڑی ہوجانا مجھے یقین ہے تم میری کزنز نہیں ہو۔
وہ: میں سلمیٰ ہوں۔
میں (حیرت میں مبتلا ہوکر): میں نہیں مانتا
سلمیٰ (اپنی گانڈ زور زور سے پیچھے مارتے ہوئے): اگر آج میں تمہارے گھر میں، تمہارے ہی کمرے میں سونے کے لیے آجاوں تو؟؟؟
میں نے اس کا مما تھوڑا سا زور سے دباتے ہوئے بولا: پھر جو تم کہو گی وہ بات مانوں گا۔
سلمیٰ: ابھی بس کرو اپنا پانی نکال بھی دو۔ کسی کو شک ہوگیا نہ کہ ہم دونوں یہاں ہیں تو قیامت آجانی ہے
میں: میرا ابھی پانی نہیں نکل سکتا۔
سلمیٰ: اچھا۔ پھر ابھی یہ کام نہیں کرتے رات کو کریں گے جب سب سو جائیں گے تب۔ ٹھیک ہے نا۔
میں نے اس کی بات مان لی اور وہ باہر نکل گئی۔ میں کچھ دیر کھڑا رہا پھر خاموشی پینٹ اوپر کی اوراپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد تقریبا ایک گھنٹے کے بعد باجی کمرے میں آئیں اور بولی: کیا ہوا؟
میں: کچھ بھی نہیں۔ وہاں دل نہیں کر رہا تھا اس لیے یہاں آکر لیٹ گیا ہوں
باجی میرے سر کو دباتے ہوئے بولی: آج میں تمہارے ساتھ سو جاتی ہوں۔
میں سلمیٰ کی بات کو یاد کرتے ہی فورا انکار کردیا: نہیں باجی آپ باجی طاہرہ کے ساتھ سو جاو۔
باجی نے کھانے کا پوچھا پھر اٹھ کر چلی گئی۔ میں نے آنکھیں بند کرکے سونے کی ایکٹنگ کی تب ایمان اور باجی طاہرہ کمرے میں داخل ہوئی ان کے ہاتھ میں کھانا تھا۔
باجی نے کھانا سائڈ پر رکھ کر باہر چلی گئی تب ایمان بچوں جیسی حرکت کرتے ہوئے میرے سینے پر بیٹھ گئی اور بولی: عثمان بچو۔۔۔ باہر تایا ابو نے سب کو پسٹل بھی لے کر دیئے ہیں تم سوتے رہو۔
میں: بلی۔۔۔ اوپر سے اٹھ اور میرا پسٹل مجھے لا کر دے
ایمان: اگر نہ لا کر دوں تو
میں: پھر میں کھانا بھی نہیں کھاوں گا
ایمان: پھر ٹھیک ہے تم بھی نہ کھاو میں بھی نہیں کھاوں گی تب امی تمہیں پھینٹی لگائیں گی
میں: میں ابو کے پیچھے چھپ جاوں گا نا۔۔۔
ایمان میرے اوپر لیٹتے ہوئے بولی: اگر میں لا کردے دوں تب تم میری بات مان لو گے؟
میں نے دل میں سوچا کہ اس نے یہی کہنا ہے کہ تم مجھے کھانا کھلاو تو میں نے پہلے ہاں کی پھر فورا بولا: اب تم جلدی سےلے کر آو پھر ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں
ایمان اٹھ کر دروازے تک جاتے ہوئے ایک دم رکی پھر بولی: میں تو کھانا کھا آئی
میں ایمان کی بات سن کر اس کے پیچھے بھاگا لیکن میری بلی کو پہلے سے علم تھا اس لیے وہ اپنی بات کہہ کر باہر کو بھاگ گئی۔ میری ٹکر چاچی سے ہوئی وہ کسی کام کی وجہ سے میرے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں جا رہی تھی۔
چاچی ایک مرتبہ پھر سے اپنا سارا غصہ مجھ پر نکال کر شانت ہوئی تو میں خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف چل پڑا تب انہوں نے پھر سے روکا۔
چاچی: میرے ساتھ چلو، بستر لگانے ہیں
میں: اچھا چاچی
چاچی: مجھے چاچی مت کہا کرو
میں: سوری
کچھ دیر تک ہم دونوں میرے گھر میں ہر جگہ جہاں جہاں بستر لگ سکتے لگا دیے تب تک ایمان بھی واپس آچکی تھی ہم دونوں نے بہن بھائیوں کی طرح کھانا کھایا اور ایک دوسرے کو بھی کھانا کھلایا، اگر کسی وجہ سے ہم میں سے کسی کو کھانا کھانا پڑ جائے تو دوسرا کھانا نہیں کھایا کرتا تھا اس لیے اب ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا ہم ایک دوسرے کا انتظار کر لیا کریں گے۔ 
رات کا کھانا کھا کر مجھے ہلکی ہلکی غنودگی ہونے لگی اس لیے میں اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر تک ایمان مجھے تنگ کرتی رہی پھر وہ بھی اٹھ کر چلی گئی۔ کافی دیر تک سلمیٰ کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہ آئی پھر میں بھی سو گیا۔ کچھ وقت گزرا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے اوپر بیٹھا ہوا۔
میں نے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ سلمیٰ تھی۔ کمرے میں زیرو واٹ کا بلب جل رہا تھا جو ٹھیک میرے بستر کے اوپر لگا ہوا تھا۔ سلمیٰ میری حرکت کرنے پر بولی: اتنی جلدی سو جاتے ہو تم؟
میں: ہاں۔ اتنی دیر انتظار کیا تم نہیں آئی
سلمیٰ: ابھی بارہ بجے ہیں
میں: تبھی تو، میں تو زیادہ سے زیادہ دس بجے تک جاگ سکتا ہوں کیونکہ مجھے صبح جلدی جاگنا ہوتا ہے
سلمیٰ: بڑی مشکل سے اپنی امی کو پھر چاچی کو منا کر یہاں سونے کے لیے صرف تمہارے لیے آئی ہوں اورتم ہو کہ صبح جلدی جاگنے کا بہانہ بنا رہے ہو۔
میں نے تھوڑی سمائل دی تو سلمیٰ بھی مسکرا دی۔ میں نے دروازے کی جانب دیکھا تو سلمیٰ بولی : میں نے لاک کر دیا ہے تاکہ کوئی اندر نہ آسکے
میں: میری ٹانگوں سے اٹھو مجھے درد ہورہا ہے
سلمیٰ میرے ساتھ لیٹتے ہوئے بولی: اب کیا ارادہ ہے؟
میں: مجھے کیا معلوم ؟ میں نے زندگی میں یہ گندے کام کبھی بھی نہیں کیے، تم ہی بتاو۔
سلمیٰ: تم چاہتے ہو کہ میں خود ہی تم پر چڑھ کر سواری کروں؟ واہ رے ربا یہ دن بھی دیکھنے تھے
میں: اور نہیں تو کیا؟
سلمیٰ: اچھا، یہ بتاؤ کہ تمہارا کبھی احتلام بھی ہوا کہ نہیں؟
میں: نہیں نا۔ ہوا ہوتا تو۔۔۔
سلمیٰ: اچھا اچھا۔۔۔ تبھی میں بھی کہوں کہ تم فارغ کیوں نہیں ہوئے
میں: ویسے تم اس کمرے میں کس کے لیے آئی تھی؟
سلمیٰ: پہلے تو ایک خاص بندے کے لیے آئی تھی لیکن پھر تم مل گئے تو سوچا کہ تم تو یہی کے ہو تو کیوں نہ تم پر اپنا ہاتھ صاف کرلوں۔
میں: یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے
سلمیٰ: اب تو تمہارے لیے آئی ہوں نا۔ اس بندے کو چھوڑو۔ میں تمہیں ہر چیز سیکھا دوں گی جو تمہارے آگے جا کر ایمان کے ساتھ کام آئے گی
میں ایمان کانام سن کر تھوڑا سا بدک گیا کیونکہ میں نے ایمان کو صرف اور صرف بہن مانا تھا۔
سلمیٰ: کیا ہوا؟ چلو ایمان نہ سہی کوئی اور سہی۔۔۔
میں: اچھا، چلو شروع ہوجاو سیکھاتی جاو
سلمیٰ: اپنی کپڑے اتار دو بلکہ اپنی صرف شلوار اتار دو۔
میں نے شلوار کو اتار کر سائڈ پر رکھ دی اور سلمیٰ کی طرف دیکھنے لگا۔ سلمیٰ نےبھی اپنی شلوار پھر قمیض اتارکر سائڈ پر رکھ دی اور بولی: جتنا بولوں بس اتنا کرتے رہنا۔
میں: ٹھیک ہے بولو۔
سلمیٰ نے اس رات جو کچھ کیا میں ویسا ویسا ہی کرتا رہا مطلب ایک مکمل سیکس کرنے کا طریقہ اس نے زیادہ سے زیادہ ۲ گھنٹوں میں سیکھا دیا اسی بہانے سے اس نے خود کو کم از کم تین مرتبہ فارغ کروایا، میں نے بس ایک کام کرنے سے انکار کیا، وہ تھا اس کی پھدی کو سک کرنا۔
اس رات میں نے صحیح معنوں میں کسی لڑکی کے بوبز کو چوسا، چاٹا، رب کیا، برا کو کھولنا بند کرنا، پینٹی کو کھولنا اور بند کرنا، پھدی کے لپس اور پھدی میں فرق، اور گانڈ کے سوراخ کو غور سے دیکھا۔
اس رات سلمیٰ نے ۲ منٹ میرا لنڈ سک کیا مطلب بلو جاب دی، اگر اس وقت مجھے احتلام آیا ہوتا تو میں اس کے اس بلو جاب سے ناجانے کب کا فارغ ہو چکا ہوتا۔
جب بھی سلمیٰ فارغ ہورہی ہوتی تب وہ ایمان کو میرے ساتھ جوڑ دیتی جس سے میری ساری توجہ ہٹ جاتی۔ آخری مرتبہ سلمیٰ کے فارغ ہونے سے پہلے سلمیٰ نے مجھ سے وعدہ لیا کہ ہم جب بھی ملا کریں گے تب ہم یہ کام لازمی کیا کریں گے۔ میں بھی لذت میں ڈوبے ہوئے ہاں میں ہاں ملاتا رہا۔ میں نے سلمیٰ کے آخری مرتبہ فارغ ہوتے ہی اپنی شلوار پہنی اور کروٹ لے کر سو گیا۔ اگلے دن بارات تھی ہم سب انجوائے کیا رات کو سلمیٰ ایک مرتبہ پھر میرے پاس سونے کے لیے آئی لیکن چاچی نے اسے یہاں سونے نہ دیا۔ میرے کمرے میں آج کوئی بھی نہ سویا۔ 
رات کو مجھے سوتے ایک لذت بھرا خواب آیا جس میں، میں سلمیٰ کی چودائی کررہا تھا اور وہ مجھے رکنے کی بجائے مزید تیز تیز کرنے کا بار بار بول رہی تھی اچانک میرے لنڈ سے منی کی دھار نکلی جو سیدھی سلمیٰ کی پھدی کے اندر چلی گئی، میں ہانپتے ہوئے بیٹھ گیا میری نظر سلمیٰ کی پھدی پر تھی جہاں سے میری منی پانی کی طرح نیچے گررہی تھی۔ تبھی سلمیٰ میری طرف گھوم کر میرے لنڈ کو اپنے منہ میں لے کر زورزور سے چوسنے لگی جس سے مجھے اور بھی زیادہ مزہ آنے لگا، میں ایک مرتبہ پھر سے فارغ ہونے لگا۔ 
میں جب شانت ہوگیا تب میں نے سلمیٰ کا چہرہ پکڑ کر اوپر کیا تو وہ ایمان تھی۔

1 user likes this post  • skjaan
Quote

بہت خوب

Quote






mallu hot aunty imagebahen ki gandstories sex malayalammy sexi neha.comlesbian kahaninudeindian girl clubma chudai storiesdoodh ki kahani6 inch dick picsaunties hot navel showsunny leone cum twicedesigairlhousewife exbiiincet storyblue film auntiesokka vendumsexy stori in hindi fontkamapisachi telugu sex kathalumadhuri dixit sexx18sal be balahindi mastram sex storieshyd sex storytribal sex storiesहिन्दी कहानी अमीर घर की बेटी चोदाइ का भरपूर मजा उठातीurdu roman sex storysari strippinghot sex stortollywood nude picshindi sex stories maa ki chudaitelugu boothu sex storiesamazing indian exbiidoctor moddarandiyoki sexy story in xxx marathi fonttelugu sax vediossex story in tamil fontnani ki gandfamily telugu sex kathaludesi mallu picturesxxx air hostessshemale sexi picskollywood nakeddesi sexy exbiivideos of boob pressingindian house wifes picturesmote mote doodhmammi ko chodapriti zinta sexy picmalayalam sex stories in malayalam fontfree nude mujrainscent sexpanimanishi ni dengina kathaluxxx phteonew telugu sexy storiesnavel auntyhindi story desilatest desi scandalshousewives hardcoreboobs shakeindian sexe picstelugu sex stories telugulowww.telugu butukatalusex video mms scandallonely auntshamantha sex.comhindi vulgar storiesrekha ki chudaimalayalam sex storeestamil sex novelshinde sex sitoreलंड की पिचकारी से दीदी को नहलायाdesi scandal forumsraping shemaleboobs of meenasex in bangalcartoon insest picslund kimota lorawww.pakistani sex story sumaya baji ko chodachasma in hinditamil dirty stories akkarani mukherjee armpitchoot ki ranisexy bhabhi stories hindigand me ungli pixxxnew sex kathaimalayalam masala forumindian sex stories in hindi fontssex stories in hindi pdf formatdesi mms sitesbig bobs imagedownload telugu sex stories in pdfindian sex stories wife swaptamil aunty imageindian incest sex storytarak mehta ka ooltah chashmah jethalal and babitahot and sexy kahaniyabig navel picsspycam nude picstamil aunty gallery