Click Here to Verify Your Membership
First Post Last Post
All In One وطن کا سپاہی

==============================================

رات کے 12 بجے عمیر باقی لوگوں کے ہمراہ مری پہنچ چکا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی آرمی ہٹ میں عمیر اور نادیہ اپنے کمرے میں چلے گئے جبکہ عفت اور پنکی دوسرے روم میں چلے گئے۔ میجر دانش کی وجہ سے عمیر کی پہلے سے ہی ایک خوبصورت آرمی ہٹ میں بکنگ تھی۔ کراچی سے فلائٹ کے ذریعے اسلام آباد اور پھر آگے سے ٹیکسی میں مری تک کے سفر نے سب کو تھکا دیا تھا۔ بٹ مین نے سارا سامان عمیر کے کہنے کے مطابق مناسب کمروں میں رکھ دیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بٹ میں نے پہلے عمیر اور پھر عفت کا کمرہ کھٹکھٹایا اور اور انہیں کھانے کے لیے ڈائنگ ٹیبل پر آنے کا کہا۔ کچھ ہی دیر میں سب لوگ کھانے سے فارغ ہو چکے تو تھکاوٹ کی وجہ سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ عفت اور پنکی اپنے کمرے میں گئے جبکہ نادیہ اور عمیر اپنے روم میں چلے گئے۔ عمیر کے روم میں ایک کھڑکی تھی جسکے پیچھے مری کے پہاڑ اور درخت ہی درخت ہی درخت تھے۔ رات کے اس پہر میں یہ منظر خاصہ خوفناک لگ رہا تھا مگر عمیر جانتا تھا کہ آرمی کے انڈر ہونے کی وجہ سے یہ محفوظ علاقہ ہے۔ نادیہ نے کمرے میں جاتے ہی اس کھڑکی کے پردے گرا دیے اور واش روم چلی گئی۔ 

عمیر نے کمرے کی لائٹس آف کیں اور ایک زیرو کا بلب جلتا رہنے دیا۔ وہ بہت تھک چکا تھا اور اب کچھ سونا چاہتا تھا۔ اپنے بوٹ اور کوٹ اتار کر ابھی وہ کمبل میں گھسنے ہی لگا تھا کہ واش روم کا دروازہ کھلا اور نادیہ باہر آئی۔ نادیہ پر نظر پڑتے ہی عمیر اپنی نظریں ہٹانا بھول گیا تھا۔ پِنک کلر کی شارٹ نائٹی میں نادیہ اس وقت کوئی سیکس کوئین لگ رہی تھی۔ گہرے گلے والی نائٹی میں نادیہ کے 38 سائز کے مموں کا ابھار بہت واضح نظر آرہا تھا۔ کسے ہوئے سخت ممے آپس میں جڑے ہوئے تھے اور انکے درمیان بننے والی کلیویج لائن کسی بھی مرد کو پاگل کر دینے کے لیے کافی تھی۔ نائٹی بمشکل نادیہ کے 34 سائز کے چوتڑوں ڈھانپ رہی تھی۔ نیچے نادیہ نے ایک جی سٹرنگ پینٹی پہن رکھی تھی جس نے سامنے سے نادیہ کی چوت کو ڈھانپ رکھا تھا جبکہ پیچھے سے نادیہ کے چوتڑوں کو ڈھانپنے کے لیے پینٹی موجود ہی نہیں تھی۔ پیچھے کی سائیڈ پر محض پینٹی کی ایک سٹرنگ تھی جو نادیہ کے 34 سائز کے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں کی لائن میں گم ہوگئی تھی۔ 

نادیہ نے مدہوش نظروں سے عمیر کو دیکھا اور ایک قاتل انگڑائی لی جس سے نادیہ کی شارٹ نائٹی اور اوپر اٹھ گئی اور اسکی جی سٹرنگ پینٹی واضح نظر آنے لگی۔ اسی طرح نادیہ نے منہ دوسری طرف کر لیا تو نائٹی اوپر اٹھی ہونے کی وجہ سے اسکے بھرے ہوئے چوتڑ بھی اپنا جلوہ دکھانے لگے۔ نادیہ کو اس حالت میں دیکھتے ہی عمیر کی پینٹ میں لن سر اٹھانے لگا اور مری میں نومبر کی سردی میں عمیر کے جسم میں آگ لگا دی۔ 

عمیر بیڈ سے اٹھا اور فورا نادیہ کے پاس پہنچ کر اسکو اپنی گود میں اٹھا لیا۔ گود میں اٹھایا تو نادیہ کے 38 سائز کے گول ممے عمیر کے چہرے کے سامنے آگئے جبکہ عمیر کے ہاتھ نادیہ کی ٹانگوں کے گرد تھے۔ نادیہ نے اپنی ٹانگیں پیچھے کی جانب فولڈ کر کے اوپر اٹھا لیں اور عمیر کو سر سے پکڑ کر اپنے سینے کے ساتھ لگا دیا۔ نادیہ کے سینے پر سر رکھتے ہی عمیر کو محسوس ہوا جیسے اسنے اپنا سر کسی نرم و گداز تکیے پر رکھ دیا ہو۔ عمیر نے اپنا سر اٹھایا اور نادیہ کی کلیویج لائن کو دیکھنے لگا پھر اس نے اپنے گرم گرم ہونٹ نادیہ کے مموں کے ابھاروں پر رکھد یے جو نائٹی سے باہر نظر آرہے تھے۔ عمیر دیوانہ وار نادیہ کے مموں کو پیار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد عمیر نے نادیہ کو بیڈ پر دھکا دیا اور خود اسکے اوپر گر کر اسکو دیوانہ وار چومنے لگا۔ عمیر کبھی نادیہ کے نرم ہونٹوں کا رس چوستا تو کبھی اسکی گردن کو دانتوں سے کھانے لگتا۔ کبھی اسکے ممے ہاتھ میں پکڑ کر زور سے دباتا تو کبھی نادیہ کے چوتڑوں کا گوشت ہاتھ میں لیکر انکو زور سے دباتا۔ 

نادیہ کی موٹی تھائیز پر پیار کرتے ہوئے عمیر انکی نرمی کا دیوانہ ہوا جا رہا تھا۔ وہ بڑے جوش کے ساتھ نادیہ کی تھائیز کو چوم رہا تھا اور پھر عمیر کے ہونٹ تھائیز سے ہوتے ہوئے نادیہ کی پینٹی تک پہنچ گئے جو اب تک کی کاروائی کے نتیجے میں خاصی گیلی ہو چکی تھی۔ نادیہ کی پینٹی سے آنے والی خوشبو نے عمیر کو مدہوش کر دیا تھا۔ عمیر نے اپنی زبان نکالی اور پینٹی کے گیلے حصے پر رکھ کر اسکو چاٹنے لگا۔ نادیہ نے اپنی دونوں ٹانگیں اٹھا کر عمیر کی گردن کے گرد لییٹ دیں اور اسکے سر کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگی۔ جیسے جیسے عمیر نادیہ کی پینٹی پر اپنی زبان پھیر رہا تھا ویسے ویسے نادیہ کی آوچ، اف ، اف، آہ آہ آہ۔ آہ آہ ۔ ۔ اف۔ ۔ ۔ ام امم۔۔۔۔ مزہ آگیا جان، ، آہ ، کھاجاو اسکو تمہاری ہے یہ، ، آوچ جیسی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ تھوڑی دیر کے بعد عمیر نے نادیہ کی پینٹی اتار دی۔ پینٹی اتارتے ہی وہ نادیہ کی ہلکے گلابی رنگ کی چوت پر ٹوٹ پڑا۔ نادیہ کی چوت محض 10 دن پہلے ہی پہلی بار پھٹی تھی اسی لیے ابھی تک اسکی چوت کے لب آپس میں ملے ہوئے تھے۔ جب پر عمیر کی زبان بڑی تیزی کے ساتھ چل رہی تھی۔ نادیہ نے مری آنے سے پہلے خاص طور پر اپنی چوت کی صفائی کی تھی۔ اسکا پہلے سے پروگرام تھا کہ مری جاتے ہی وہاں کی سخت سردی میں عمیر کے گرما گرم لن سے اپنی چوت کی پیاس بجھانی ہے۔ کچھ ہی دیر کے بعد عمیرا کی زبان کی رگڑائی کی وجہ سے نادیہ کی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ 

اس سخت سردی میں بھی نادیہ کی چوت نے بہت گرم پانی چھوڑا تھا جس سے عمیر کا چہرہ بھر گیا تھا۔ اسکے بعد نادیہ نے پاس پڑے ٹشو باکس میں سے ٹشو نکال کر دانش کا چہر صاف کیا اور اسکو چومنے لگی۔ پھر نادیہ نے عمیر کی شرٹ کو گلے سے پکڑا اور ایک ہی جھٹکا مار، عمیر کی شرٹ کھلتی چلی گئی اسکی شرٹ کے بٹن ٹوٹ چکے تھے اور نادیہ نے بغیر انتظار کیے اسکی شرٹ اتارنے کے بعد اسکی بنیان بھی ایک ہی جھٹکے میں اتار دی اور اسکے سینے پر دیوانہ وار پیار کرنے لگی۔ وہ کسی جنگلی بلی کی طرح عمیر پر ٹوٹ پڑی تھی۔ گوکہ شادی کے بعد عمیر اسکو 5، 6 بار چود چکا تھا مگر ایسی دیوانگی عمیر نے ابھی تک نہیں دیکھی تھی۔ عمیر کو نادیہ کی یہ دیوانگی اور جنگلی پن بہت اچھا لگ رہا تھا۔ نادیہ اپنے ہاتھ اور انگلیاں عمیر کی کمر پر پھیر رہی تھی اسکے ناخن عمیر کی کمر پر اپنے نشان چھوڑ رہے تھے جس سے عمیر کی دیوانگی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ پھر نادیہ نے عمیر کو بیڈ پر دھکا دیا اور اسکی پینٹ کی بیلٹ کھولنے کے بعد زِپ کھولی اور اسکی پینٹ کو گھٹنوں تک نیچے اتار دیا۔ 

مذی کے نکلنے والے قطروں کی وجہ سے عمیر کا انڈر وئیر گیلا ہوچکا تھا عمیر کی طرح نادیہ نے بھی اپنی زبان عمیر کے گیلے انڈر وئیر پر رکھ دی اور اسکی منی کی مہک سے اپنے آپ کو لطف اندوز کرنے لگی۔ کچھ دیر تک اسکا انڈر وئیر چاٹنے کے بعد اب نادیہ نے عمیر کا انڈروئیر بھی اتار دیا اور پینٹ بھی اتار دی تھی۔ عمیر اب مکمل ننگا تھا اور اسکا 7 انچ کا لن نادیہ کے ہاتھ میں تھا جسکو وہ کسی لالی پاپ کی طرح چوسنے میں مصروف تھی۔ عمیر کی ٹوپی سے نکلنے والا پانی نادیہ اپنی زبان سے چاٹتی اور پھر اس پر تھوک کا گولا بنا کر گراتی اور اپنے ہاتھوں سے اسکو پورے لن پر مسل دیتی۔ اسکے بعد دوبارہ سے عمیرکے لن کی ٹوپی کو اپنے منہ میں ڈالتی اور عمیر کا لن پھسلتا ہوا اپنی جڑ تک نادیہ کےمنہ میں چلا جاتا۔ نادیہ کے منہ کی گرمی عمیر کے لن کو بہت مزہ دے رہی تھی۔ نادیہ بہت ہی مزے کے ساتھ عمیر کے لن کے چوپے لگا رہی تھی۔ 

کچھ دیر کے چوپوں کے بعد عمیر کے لن کی موٹائی تھوڑی بڑھی اور اسکی نسیں واضح ہونے لگیں۔ نادیہ سمجھ گئی کہ اسکا لن منی اگلنے والا ہے مگر آج تو نادیہ اپنے آپ میں نہیں تھی اس نے بغیر اس کی پرواہ کیے عمیر کے لن کے چوپے لگانا جاری رکھے اور آخر کار عمیر نے اپنی ساری منی نادیہ کے منہ میں ہی نکال دی جسکا آخری قطرہ تک نادیہ نے اپنے حلق سے نیچے اتار لیا۔ جب عمیر اپنی ساری منی نکال چکا تو نادیہ نے اپنی زبان سے اسکے لن پر لگی ہوئی منی بھی چاٹ لی اور پھر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر اسکے مزے لینے لگی۔ 

Quote

اب عمیر کا لن تھوڑا مرجھا گیا تھا۔ اب عمیر اٹھا اور نادیہ کی نائٹی اتار دی۔ نادیہ نے نیچے برا پہننے کی زحمت نہیں کی تھی۔ اسکے 38 سائز کے ہیوی ممے عمیر کے ہاتھوں میں تھے جن پر وہ اپنی زبان پھیر رہا تھا۔ نادیہ نے عمیر کا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنی چوت پر رکھا اور دوسرا ہاتھ مموں پر ہی رہنے دیا، عمیر اب ایک ہاتھ سے اسکا دایاں مما دبا رہا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اسکی چوت میں انگلی پھیر رہا تھا اور نادیہ کا بایاں مما عمیر کے منہ میں تھا جسکا نپل عمیر مسلسل چوس رہا تھا اور نادیہ اف۔ آہ آوچ کی آوازیں نکال رہی تھی۔ نادیہ آج بلا خوف و خطر اپنی سسکیاں لے رہی تھی اور اج کی رات کا سیکس انجوائے کر رہی تھی۔

گو کہ نادیہ کی سسکیاں گھر میں بھی عفت کو سنائی دیتی تھیں مگر وہاں نادیہ کافی حد تک کنٹرول کرتی تھی مگر کمرہ ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ سسکیاں ساتھ والے کمرے میں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ مگر آج تو نادیہ کو کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔ وہ بغیر کسی ڈر کے زور زور سے سسک رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ عورت کی سسکیاں مرد کو جوش دلاتی ہیں اور وہ پھر جم کر چودائی کرتا ہے۔ اور ہو بھی ایسا ہی رہا تھا نادیہ کی سسکیوں کی ہی وجہ سے عمیر کا لن ایک بار پھر تن چکا تھا اور چوت میں جانے کے لیے تیار تھا۔ ایک کمرہ چھوڑ کر دوسرے کمرے میں لیٹی عفت بھی نادیہ کی سسکیاں سن رہی تھی جبکہ پنکی کمرے میں پہنچتے ہی سو گئی تھی۔ نادیہ کی سنائی دینے والی سسکیاں عفت کو شدت سے دانش کی یاد دلا رہی تھیں۔ دانش نے پہلی رات میں عفت کو اپنے 8 انچ کے لن سے جو مزہ دیا تھا عفت وہ مزہ ابھی تک نہیں بھولی تھی۔ اور نادیہ کی سسکیاں عفت کی چوت کو بھی گرم کر رہی تھیں۔ 

یہی وجہ تھی کہ ادھر نادیہ کی سسکیاں عمیر کے لن کو کھڑا کر چکی تھیں تو ادھر اسکی سسکیوں سے عفت اپنی چوت میں انگلی پھیر رہی تھی۔ عفت کی چوت آج بھی ایسی ہی تھی جیسے بالکل کنواری چوت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں محض ایک بار ہی سہاگ رات والے دن لن گیا تھا۔ 

جب عمیر کا لن دوبارہ سے چودائی کے لیے تیار ہوا تو عمیر نے نادیہ کی ٹانگیں کھولنا چاہیں تاکہ وہ اسکی چوت میں اپنا لن اتار سکے۔ مگر نادیہ نے اسکو منع کر دیا اور عمیر کو لیٹنے کو کہا۔ عمیر لیٹ گیا تو نادیہ عمیر کے اوپر آئی اور اسکے لن کا ٹوپا اپنی چوت کے سوراخ پر فٹ کر کے ایک ہی جھٹکے میں اسکے لن پر بیٹھ گئی۔ عمیر کا لن نادیہ کی چوت کی دیواروں کے ساتھ رگڑ کھاتا ہوا اسکی چوت کی گہرائیوں تک اتر گیا اور بچہ دانی سے جا ٹکرایا جس پر نادیہ نے ایک زور دار سسکی بھری جس نے عفت کے کانوں میں گھس کر اسکی چوت میں مزید آگ لگا دی۔ ادھر نادیہ عمیر کے لن پر وحشیوں کی طرح سواری کر رہی تھی اور آوازیں نکال رہی تھی تو دوسرے کمرے میں عفت کی انگلی اب چوت میں پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ اپنا کام کر رہی تھی۔ 

جب نادیہ عمیر کے لن پر اچھل اچھل کر تھک گئی تو عمیر نے اسے اپنے اوپر لٹا لیا اور نیچے سے اپنا لن پوری سپیڈ کے ساتھ نادیہ کی چوت میں چلانا شروع کیا۔ 5 منٹ کی چودائی کے بعد نادیہ کی پھدی میں سیلاب آگیا اور اسکی چوت کا سارا پانی عمیر کے ٹٹوں اور تھائز تک آگیا تھا۔ نادیہ نے بغیر انتظار کیے عمیر کی گود سے اتر کر ڈوگی سٹائل کی پوزیشن اختیار کر لی اور عمیر کو دعوت دی کہ وہ اب پیچھے سے آکر نادیہ کی چودائی کرے۔ عمیر نے بھی بغیر وقت ضائع کیے پیچھے سے آکر نادیہ کی چوت پر اپنا لن رکھا اور ایک ہی دھکے میں پورا لن جڑ تک نادیہ کی چوت میں اتار دیا۔ ایک بار پھر نادیہ کی ٹائٹ پھدی میں عمیر کا 7 انچ کا لن پکڑن پکڑائی کھیلنے لگا۔ جیسے ہی لن اندر کی طرف دھکا لگاتا چوت پوری طاقت کے ساتھ اسکو پکڑ لیتی جسکی وجہ سے پورا لن ایک لمحے کے لیے دب سا جاتا پھر لن اپنی طاقت سے چوت کی گرفت سے نکلتا اور چوت سے باہر نکل آتا صرف ٹوپہ ہی چوت کے اندر رہ جاتا، جہاں سے ایک بار پھر دھکا لگتا اور دوبارہ سے لن چوت کے اندر جاتا اور چوت دوبارہ سے اسکو پوری طاقت کے ساتھ پکڑ لیتی۔ 

نادیہ کا یہ روپ عمیر کے لیے بالکل نیا تھا۔ اسنے پہلے بھی بہت شدت سے نادیہ کو چودا تھا مگر نادیہ نے ایسا دیوانہ پن پہلے کبھی نہیں دکھایا تھا۔ پہلے نادیہ ڈوگی سٹائل میں چودائی کرواتے ہوئے تھوڑی تکلیف محسوس کرتی تھی مگر آج تو وہ خود اپنی گانڈ آگے پیچھے کر کے چودائی کا مزہ اٹھا رہی تھی۔ عمیر جیسے جیسے نادیہ کی چوت میں گھسے مار رہا تھا ویسے ہی ساتھ ساتھ اسکے چوتڑوں پر تھپڑ مار مار کر نادیہ کو اور زیادہ خوار کر رہا تھا سات میں چوتڑوں سے ٹکرانے پر دھپ دھپ کی آوازیں کمرے کے ماحول کو بہت سیکسی بنا رہی تھیں۔ نادیہ کے 38 سائز کے ممے ہوا میں لٹکے ہوئے تھے جو ہر دھکے کے ساتھ آگے کو ہلتے اور جب لن باہر نکلتا تو ممے بھی واپس پیچھے کی طرف جھولتے۔ جب چوتڑوں پر ہاتھ مار مار کر نادیہ کے چوتڑ لال ہوگئے تو عمیر نے آگے جھک کر نادیہ کے ممے پکڑ لیے، اب عمیر کے پاس زیادہ گیپ نہیں تھا وہ لن کو زیادہ باہر نہیں نکال پا رہا تھا۔ مگر اب اسکے دھکے پہلے کی نسبت زیادہ رفتار سے لگ رہیے تھے، عمیر کا آدھا لن پھدی سے باہر نکلتا اور ایک زور دار دھکے کے ساتھ واپس پھدی کی گہرائیوں سے جا کر ٹکراتا۔ 

اب نادیہ نے اپنا اگلا حصہ اوپر اٹھا لیا تھا۔ گو کہ وہ اب بھی ایک طرح سے ڈوگی سٹائل میں ہی چدائی کروا رہی تھی کیونکہ عمیر پیچھے سے ہی اسکی چوت میں لن ڈالے اسکو چود رہا تھا مگر اسنے اپنا اگلا دھڑ اٹھا لیا تھا اور گھٹنوں کے بل کھڑی ہوگئی تھی جبکہ اسکی گانڈ باہر نکلی ہوئی تھی کیونکہ لن کو چوت تک کا راستہ چاہیے تھا۔ نادیہ کی کمر عمیر کے سینے سے جڑی ہوئی تھی اور گانڈ باہر نکل کر عمیر کے زیرِ ناف حصے سے ٹکراتی تھی جبکہ لن مسلسل نادیہ کی چوت کی کھدائی کر رہا تھا۔ اس پوزیشن میں نادیہ کی سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہو چکی تھیں عمیر نے اسے آواز ہلکی رکھنے کو کہا مگر نادیہ اس وقت اپنے آپ میں نہیں تھی اس پر چودائی کا بھوت سوار تھا اور وہ اپنی ہنی مون کی پہلی رات کو یادگار بنانا چاہتی تھی۔ وہ عمیر کے طوفانی دھکوں کو کافی دیر سے برداشت کر رہی تھی ساتھ ساتھ اپنی چوت کو اپنی انگلی سے بھی سہلا رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک بار پھر نادیہ کی چوت نے پانی چھوڑی دیا جو فوارے کی شکل میں بیڈ شیٹ پر گرتا چلا گیا۔ مگر نادیہ کی خواری اور پانی کے پریشر کی وجہ سے نادیہ کی چوت کا پانی نا صرف بیڈ شیت پر بالکہ کچھ قطرے بیڈ کی دوسری طرف فرش پر بھی جا گرے۔ 

دوسرے کمرے میں عفت کا چہرہ سرخ ہورہا تھا اسکو اس وقت دانش کے لن کی طلب محسوس ہورہی تھی مگر وہ صرف اپنی انگلی ہی اپنی چوت میں چلا رہی تھی۔ اسکی چوت اس وقت نادیہ کی سسکیاں سن سن کر کافی گیلی ہو چکی تھی جبکہ عفت کا دوسرا ہاتھ اسکے مموں پر تھا اور وہ اپنا مما زور زور سے دبا رہی تھی۔ 

نادیہ اب تیسرے راونڈ کے لیے تیار تھی جبکہ عمیر کے لن نے ابھی تک پانی نہیں چھوڑا تھا۔ نادیہ اب بست پر لیٹ گئی اور خود ہی اپنی ٹانگیں کھول کر عمیر کو درمیان میں بیٹھنے کی دعوت دی، عمیر نے نادیہ کی ٹانگیں پکڑ کر مزید کھولیں اور اسکے درمیان بیٹھ کر اپنے لن کی ٹوپی نادیہ کی چوت کے سر پر رکھ کر ایک ہی جھٹکے میں لن اسکی چوت کے اندر داخل کر دیا۔ اب عمیر کا لن بڑے سکون سے نادیہ کی چوت کو چود رہا تھا اور نادیہ اپنے مموں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر انکو دبا دبا کر مزید خواری کا اظہار کر رہی تھی۔ اسکی آنکھوں میں لال ڈورے تھے اور وہ عمیر کو تعریفی نظروں سے دیکھ رہی تھی اور اسکو مزید اکسا رہی تھی کہ وہ مزید طاقت کے ساتھ اسکی چوت کی چودائی کرے۔ 

5 منٹ کی مزید چودائی نے نادیہ کی چوت کو لال کر دیا تھا اب عمیر کے طاقتور لن کے سامنے اسکو اپنی چوت ہار مانتی نظر آرہی تھی اور اسکی ہمت جواب دے رہی تھی، عمیر کے دھکے بھی پہلے کی نسبت طوفانی ہوتے جا رہے تھے اور کچھ ہی دیر بعد وہ تینوں اکٹھے ہی اپنا اپنا پانی نکالنے لگے۔ نادیہ اور عمیر کا پانی نادیہ کی چوت میں ہی مل گیا جبکہ عفت کی چوت کا پانی اسکی شلوار کے اندر ہی بہتا رہا۔ نادیہ اور عفت دونوں نے چوت کا پانی نکلتے ہوئے سسکیاں لیں اور عمیر بھی اپنا پانی نکالنے کے بعد نادیہ کے اوپر گر گیا۔ 

نادیہ اب پیار سے عمیر کو چوم رہی تھی اور اسکی تعریف کر رہی تھی کہ اسنے آج بہت مزہ دیا۔ جب کہ عمیر بھی نادیہ کے وحشی پن سے بہت خوش تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اسکی بیوی میں اتنی آگ بھری ہوئی ہے ورنہ وہ شادی کے تیسرے دن ہی اسکو ہنی مون پر لا کر خوب چودتا۔ کچھ دیر بعد عمیر اور نادیہ ایک دوسرے کے سینے سے لگے سو چکے تھے۔ وہ ننگے ہی بغیر کپڑے پہنے سوگئے تھے۔ پہلے سفر کی تھکاوٹ اور پھر نادیہ کے وحشی پن کی وجہ سے زبردست چودائی نے دونوں کو خوب تھکا دیا تھا۔ دوسری طرف عفت بھی چوت کا پانی نکلنے کے بعد کچھ پرسکون ہوئی تھی اور دانش کا لن یاد کرتے کرتے سو گئی۔ 

================================================== ========================================

Quote

اب کی بار میجر دانش کی آنکھ کھلی تو حسن کی دیوی سونیہا اپنے تمام تر حسن کے ساتھ اسکے سامنے کھڑی تھی۔ اب بھی وہ ٹائٹ پینٹ میں شارٹ بلاوز کے ساتھ اپنے مموں کا جلوہ میجر دانش کو دکھا رہی تھی۔ دانش کے ہوش میں آتے ہی اسکا لن بھی ہوش میں آنے لگا تھا کیونکہ سونیہا کے ممے اور اسکی موٹی گانڈ کے سامنے کوئی بھی لن سوجائے ایسا ممکن نہیں تھا۔ سونیہا کے ہاتھ میں کھانے کی پلیٹ تھی ۔ اس نے اپنے ہاتھ سے نوالہ توڑا اور میجر دانش کو کھلانے لگا جو اس نے بڑے ہی پیار سے کھا لیا۔ اسی طرح سنیہا نے سارا کھانا میجر دانش کو کھلا دیا۔ بھوک کی وجہ سے اسکا برا حال تھا۔ اوپر سے بجلی کے جھٹکوں نے بھی اسے نڈھال کر دیا تھا اسے طاقت کی ضروت تھی جو اس کھانے سے پوری ہوگئی تھی۔ میجر دانش کو کھانا کھلانے کے بعد سونیہا نے بالکل سیریس ہوتے ہوئے میجر دانش کو کہا دیکھو تم جو بھی ہو جہاں سے بھی آئے ہو ان لوگوں کو سب سچ سچ بتا دو، ورنہ یہ تمہارے ساتھ برا سلوک کریں گے۔ تم پہلے قیدی ہو جو مجھے پسند آئے ہو۔ تمہاری بہادری اور بے باکی نے میرا دل جیت لیا ہے۔ میں نے ہر قیدی کو ان لوگوں کے سامنے بلکتے اور سسکتے دیکھا ہے مگر تم پہلے قیدی ہو جو ان لوگوں کو خاطر میں لائے بغیر میرے سینے پر نظریں جمائے مزے لیتا رہا اور بجلی کے جھٹکی لگنے کے بعد بھی میں نے تمہاری آنکھوں میں خوف کا شائبہ تک نہیں دیکھا۔ لہذا ان لوگوں کو سب کچھ سچ سچ بتادو اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ 

سونیہا کی یہ باتیں سن کر میجر دانش بولا تمہارا نام کیا ہے؟؟ سونیہا نے اپنا نام بتایا تو میجر دانش بولا میں نے بہت سی حسین لڑکیاں دیکھی ہیں مگر تم جیسی حسین و جمیل لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ تمہارے جسم کے ابھار مجھے پاگل کیے دے رہے ہیں۔ میجر دانش ابھی اور بھی بہت کچھ کہتا مگر سونیہا نے اسکی بات کاٹی اور بولی میں تمہیں کیا کہ رہی ہوں اور تمہیں عاشقی سوجھ رہی ہے۔ سونیہا نے ادھر ادھر دیکھا جیسے دیکھنا چاہ رہی ہو کہ کوئی آس پاس ہے یا نہیں۔۔۔ پھر میجر دانش کے کان کے قریب ہوکر بولی تم جانتے ہی ہوگے کہ جب تم نے ان لوگوں کو سب کچھ بتا دیا جو یہ جاننا چاہتے ہیں تو یہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے، اور اگر مزید کچھ دن تم انہیں سچ نہیں بتاو گے تب بھی یہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ یہ ہر صورت میں تمہیں مار دیں گے۔ اور میرا استعمال بھی کریں گے تم سے سچ اگلوانے کے لیے۔ 

میں اپنے حسن سے مردوں کو پاگل کرتی ہوں اور جب انکو میری طلب حد سے زیادہ ہوتی ہے تو انہیں تڑپا تڑپا کر میں سب اگلوا لیتی ہوں۔ اور اسکے بعد یہ لوگ اسے مار دیتے ہیں۔ مگر تم مجھے پسند آئے ہو، تم انہیں سچ سچ بتاو جو یہ پوچھتے ہیں اسکے بعد میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں تمہاری یہاں سے نکلنے میں مدد کروں گی۔ دانش نے اسکی یہ بات سنی تو حیران ہو کر بولا بھلا تم میری مدد کیوں کرو گی؟؟؟ سونیہا نے کہا کیونکہ تمہاری مردانگی مجھے پسند آگئی ہے۔ میں نے بہت سے کڑیل جوانوں کو اس قید خانے میں سسکتے اور بلکتے دیکھا ہے۔ مگر تم ان سب سے الگ ہو نڈر اور بے باک۔ اس لیے میں نہیں چاہتی کہ یہ تمہیں کوئی نقصان پہنچائیں۔ 

سونیہا کی بات سن کر میجر دانش اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا اگر تمہیں لگتا ہے کہ میں پہلے والے تمام قیدیوں سے الگ ہوں اور بہادر اور نڈر ہوں تو تمہیں یہ بھی پتا ہونا چاہیے کہ یہاں سے رہائی پانے کے لیے میں کسی عورت کی اور وہ بھی دشمن ملک کی عورت کی مدد نہیں مانگوں گا۔ میں مر تو جاوں گا مگر تمہارے سامنے مدد کے لیے ہاتھ نہیں پھیلاوں گا۔ یہ کہ کر میجر دانش نے ایک بار پھر اپنا چہرہ آگے کر کے سونیہا کے ہونٹوں کو چوس لیا۔ سونیہا نے ناگواری سے پیچھے ہٹتے ہوئے میجر دانش کو ایک گالی دی اور باہر چلی گئی جبکہ پیچھے میجر دانش قہقہے لگانے لگا۔

سونیہا کے جانے کے بعد دوبارہ سے وہی 2 بدمعاش اندر آئے اور میجر دانش سے سوالات کرنے لگے اور میجر دانش بنا سوچے سمجھے وہ سٹوری سنانے لگا میں ٹریفک کانسٹیبل افتخار ہوں تمہارا کرنل وشال شاہراۃ فیصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ او رپھر سے میجر دانش کے جسم میں کرنٹ دوڑنے لگتا۔ آج پھر یہ سوال جواب 3 دفعہ ہوئے مگر میجر دانش کا جواب تبدیل نہ ہوا۔ آخر کار ان میں سے ایک بدمعاش نے غصے میں آکر پاس پرا لوہے کا راڈ اٹھا لیا اور میجر دانش کی ٹانگوں پر برسانا شروع کر دیا۔ لوہے کا راڈ میجر کی ٹانگوں پر پڑتا تو میجر کی جان ہی نکلنے لگتی اسکو اپنی ماں یاد آنے لگتی اور وہ چیخیں مارنے لگتا۔ مگر اس نے اپنا بیان نہیں بدلا۔ 10 منٹ تک مار کھانے کے بعد بھی جب میجر دانش سے سوال پوچھا گیا تو اسنے کانپتی ہوئی آواز اور ڈھلکے ہوئے چہرے کے ساتھ وہی کہانی سنائی میں ٹریفک کانسٹیبل افتخار ہوں تمہارا کرنل وشال۔۔ ۔۔ ۔۔ ایک مرتبہ پھر بجلی کے جھٹکے لگے میجر دانش کو اور وہ دوبارہ سے بے ہوش ہوگیا۔ 

میجر دانش کو دوبارہ ہوش آیا تو ایک بار پھر سونیہا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اسکے سامنے موجود تھی۔ جبکہ میجر کا مار کھا کھا کر برا حال ہوچکا تھا۔ اب کی بار پھر سونیہا نے اس پر ترس کھاتے ہوئے کہا دیکھو جان انکو سب کچھ سچ سچ بتا دو اور مجھے یہاں سے لیکر بھاگ جاو میں اپنی باقی زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں۔ میں یہاں کے ہر سیکیورٹی سسٹم سے واقف ہوں میں تمہاری مدد کروں گی یہاں سے بھاگنے میں اور پھر اپنی ساری زندگی تمہاری بانہوں میں بیتا دوں گی۔ سونیہا کی آواز میں سچائی بھی تھی اور درد بھی۔ وہ شاید واقعی میجر دانش سے پیار کرنے لگی تھی۔ اسکی آنکھوں میں نمی بھی تھی۔ میجر دانش نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور بولا اگر تم سچ کہ رہی ہو تو مجھے بتاو کہ سامنے جو دروازہ ہے اسکو کھولنے کا کوڈ کیا ہے؟؟؟ سونیہا نے بلا تردد وہ کوڈ بتا دیا۔ میجر دانش جانتا تھا کہ کوڈ صحیح بتایا گیا ہے کیونکہ اس نے نیم بےہوشی کی حالت میں سونیہا کے ساتھ آنے والے بدمعاشوں کو باہر جاتے دیکھا تھا تب انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے جو کوڈ لگایا تھا میجر دانش نے اسکو ذہن نشین کر لیا تھا۔ اور سونیہا نے بالکل وہی کوڈ میجر دانش کو بتا دیا تھا۔ 

اب کی بار میجر دانش کی آواز دھیمی تھی۔ وہ سونیہا کو کہ رہا تھا کہ مجھے بھی تم اچھی لگی ہو مگر یہ تمہاری بھول ہے کہ ہم دونوں یہاں سے بچ کر نکل سکتے ہیں۔ میں نے ایسے قید خانے دیکھ رکھے ہیں۔ میں اس دروازے سے نکل بھی جاوں تو بھی یہاں سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہوگا باہر بے شمار سیکورٹی اہلکار ہونگے اسکے علاوہ آٹو سسٹم بھی ہوگا جو مجھے مونیٹر کر رہا ہوگا اور اسکے ساتھ ساتھ یہ جو سامنے دروازے پر کوڈ لگا ہوا ہے یہ فنگر پرنٹس بھی ریڈ کرتا ہوگا۔ ہمیں صحیح کوڈ معلوم بھی ہو تب بھی ہم یہاں سے نکل نہیں سکیں گے۔ اس پر سونیہا نے اسے بتایا کہ تمہاری یہ بات تو صحیح ہے کہ یہاں سسٹم آٹومیٹک ہے۔ مگر یہاں سیکورٹی کے لیے کوئی نہیں ہوتا۔ صرف میں ہوں اور باہر وہ 2 لوگ ہیں جو تمہارے سے انویسٹیگیٹ کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ ایک لمبی راہداری ہے جس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور آخر میں داخلی گیٹ ہے جس پر 3 گن میں موجود ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ پوری بلڈنگ میں کوئی نہیں۔ البتہ راہداری کے کیمرے میں جیسے ہی کوئی انجان شخص آئے گا تو آٹومیٹک راہداری میں لیزر شعائیں گزرنے لگ جائیں گی جو انسانی جسم کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتی ہیں۔ اس سے تم بچا کر نکل جاو تو ہم با آسانی گیٹ پر موجود گن مین کو قابو کر سکتے ہیں کیونکہ وہ بہت ریلیکس بیٹھے ہوتے ہیں آج تک اس کمرے سے کوئی بچ کر بھاگ نہیں سکا اس لیے انہیں فکر نہیں ہوتی۔ ایسے میں انکو قابو کرنا آسان ہے۔ اور رہ گئی بات فنگر پرنٹس کی تو تمہاری بات ٹھیک ہے۔ مگر جب میں تمہارے ساتھ موجود ہوں تو میرے فنگر پرنٹس پر یہ لاک کھل جائے گا جسکا ثبوت تمہیں ابھی مل جائے گا جب میں باہر جاوں گی۔ 

میجر دانش اب سوچ میں پڑگیا تھا اور باہر نکلنے کی تدبیر کرنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ سونیہا پر اعتبار کرنا چاہیے یا نہیں؟؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ دشمن کی کوئی چال ہو؟؟؟ مگر پھر اچانک میجر دانش نے سونیہا کو بتایا کہ میرا نام دانش ہے اور میں پاک آرمی میں میجر ہوں۔ اور مجھے کرنل وشال کو پکڑنے کا ٹاسک دیا گیا تھا جس میں میں ناکام رہا ۔ اس سے زیادہ ابھی میں تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا۔ میجر دانش کی یہ بات سن کر سونیہا نے آگے بڑھ کر میجر دانش کو گلے لگایا اور اسکو کسنگ کرنے لگی۔ وہ ٹوٹ کر میجر دانش کے ہونٹ چوس رہی تھی اور اپنے پیار کا اظہار کر رہی تھی۔ میجر دانش بھی اسی بے تابی کے ساتھ سونیہا کے رس بھرے ہونٹوں سے اسکا رس چوس رہا تھا۔ سونیہا کے ممے میجر دانش کے سینے میں کھب گئے تھے جنکو میجر دانش اپنے سینے پر محسوس کر رہا تھا، اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی اسکے ہاتھ کھولیں اور وہ سونیہا کے ممے پکڑ کر انکو چوسنے لگ جائے۔ 

کچھ دیر ایکدوسرے کے ہونٹوں کا رس چوسنے کے بعد سونیہا پیچھے ہٹی۔ اسکی آنکھوں میں نشہ تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اسنے میجر دانش کو کہا کہ بس تم باقی سب چیزیں بھی ان لوگوں کو سچ سچ بتا دینا۔ جب تم سب کچھ بتا چکو تو یہ لوگ خود تمہیں یہاں سے نکالیں گے اور جیسے ہی ہم اس بلڈنگ سے نکلیں گے تب ہم بھاگنے کا پلان بنائیں گے۔ میجر دانش نے پوچھا مگر یہ مجھے یہاں سے باہر نکالیں گے کیوں؟؟ تو سونیہا نے کہا کہ یہ کسی جعلی مقابلے میں تمہیں ماریں گے اور میڈیا میں دکھائیں گے کہ پاکستان سے بھیجا ہوا ایک کشمیری آتنگوادی کو بھارتی پولیس نے ہلاک کر دیا۔ اس طرح یہ تم سے جان بھی چھڑوالیں گے اور پولیس کی بھی میڈیا میں تعریفیں ہونگی اور عالمی سطح پر یہ لوگ پاکستان پر پریشر بڑھا سکیں گے۔ 

میجر دانش کو سونیہا کی ایک ایک بات میں سچائی نظر آرہی تھی۔ اب سونیہا نے میجر دانش کو آگے کا پلان بتایا اور یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے کچھ ساتھیوں کو کہے گی کہ جب ہم لوگ تمہیں یہاں سے نکالنے لگیں گے تو وہ ہم پر حملہ کر دیں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ہم بھاگ نکلیں گے۔ ساتھ ہی سونیہا نے سوالیہ نظروں سے میجر دانش کو دیکھا اور بولی اگر تمہارے بھی کوئی ساتھی ہیں تو میں ان سے کونٹیکٹ کر لوں گی وہ ہماری یہاں سے نکلنے میں مدد کریں گے۔ اس طرح ہمیں رہنے کا ٹھکانہ بھی مل جائے گا اور ان لوگوں سے بھی جان چھڑوا لیں گے۔ میجر دانش نے سونیہا کو کہا کہ وہ کسی طرح ایک فون کا بندوبست کر دے تو وہ خود اپنے لوگوں سے رابطہ کر کے اپنی لوکیشن بتا سکتا ہے اور باہر نکلنے پر وہ لوگ ہماری مدد کو آجائیں گے۔ 

میجر کی یہ بات سن کر سونیہا نے وعدہ کیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح فون کا بندوبست کر لے گی۔ یہ کہ کر سونیہا دروازے کی طرف گئی اور وہی کوڈ اینٹر کیا ، دروازہ کھلا اور سونیہا باہر نکل گئی۔

میجر دانش اب آنے والے حالات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اسکا مقصد کرنل وشال کو پکڑنا تھا اور اسکے لیے یہاں سے نکلنا بہت ضروری تھا۔ اور میجر دانش یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ یہاں سے نکلنے کے لیے وہ سونیہا کی مدد لے گا۔ 

دانش کے کمرے سے سونیہا باہر نکلی تو لمبی راہداری سے ہوتی ہوئی سیدھے ہاتھ پر بنے کنٹرول روم میں گئی اور وہاں بیٹھے انہی دو بد معاشوں میں سے ایک کی گود میں جا کر بیٹھ گئی اور اسکی ایک لمبی کس کی۔ اس بدمعاش نے بھی اپنا ایک ہاتھ سونیہا کے ممے پر رکھ دیا اور بولا بول میری جان کچھ منہ سے پھوٹا وہ پاکستانی؟؟؟ تو سونیہا نے اٹھلاتے ہوئے کہا دنیا میں ایسا کوئی مرد نہیں جو سونیہا کے حسن کے آگے جھک نا جائے۔ اس بھڑوے کا نام دانش ہے اور وہ پاکستانی آرمی میں میجر رینک کا آفیس ہے۔ اسکا مقصد کرنل وشال کو گرفتار کرنا تھا شاید وہ لوگ جان گئے ہیں کہ کرنل کس مشن کی تکمیل کے لیے پاکستان گیا تھا۔ سونیہا کی بات سن کر دونوں بدمعاش زور زور سے ہنسنے لگے۔ 

سونیہا نے دوسرے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا صرف یہی نہیں ایک اور خوشخبری بھی ہے ۔ اس شخص نے پوچھا وہ کیا؟ تو سونیہا بولی کہ اس نے ایک فون مانگا ہے۔ جس سے وہ اپنے ساتھیوں کو فون کرے گا اور ایک مقررہ وقت بتائے گا جس پر ہم لوگ اسکو لیکر یہاں سے نکلیں گے۔ اور ایک مخصوص مقام پر اسکے ساتھی اسے اور مجھے چھڑوانے کے لیے ہم پر حملہ کریں گے۔ سونیہا کی یہ بات سن کر کمرہ ایک بار پھر ان تینوں کے قہقہوں سے گونجنے لگا۔ ان میں سے ایک شخص بولا یعنی یہ کتا باقی کتوں کی بھی موت کا سبب بنے گا۔ یہ کہ کر اس شخص نے سونیہا کو اپنا فون دیا اور بولا کل جا کر یہ فون اسکو دے دینا۔ ہم ٹریس کرلیں گے کہ اسنے کہاں کال کی ہے۔ اس طرح ہم ان پاکستانیوں کا پورا نیٹ ورک خاک میں ملا دیں گے۔ کمرہ اب قہقہوں کی بجائے پچک پچک کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔ سونیہا ایک بدمعاش کی گود میں بیٹھی اسکے ہونٹ چوس رہی تھی جبکہ دوسرا بدمعاش اسکی گانڈ اوپر اٹھا کر اسکی پینٹ نیچے کر کے اسکی چوت میں لن ڈالے گھسے مارنے میں مصروف تھا۔ 

اگلے دن میجر دانش سونیہا کا بےتابی سے انتظار کر رہا تھا۔ سونیہا تو آئی مگر اسکے ساتھ باقی دو غنڈے بھی تھے۔ انہوں نے میجر دانش سے وہی سوال کیے تو میجر نے بلا چوں چرا بتا دیا کہ وہ میجر دانش ہے اور اسکا ٹاسک کرنل وشال کو پکڑ کر موت کے گھاٹ اتارنا تھا۔ کیونکہ وہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کے ٹھکانوں کے بارے میں کچھ اہم معلومات جان چکا تھا۔ اس خفیہ معلومات کی مدد سے کرنل وشال ہمارے ایٹمی اثاثوں پر قبصہ کر سکتا ہے اور کسی بھی ملک کی طرف ہمارے ایٹمی مزائل چلا سکتا ہے۔ جو کہ بہت خطرناک چیز ہے۔ اسی طرح میجر دانش نے کچھ اور باتیں بھی بتائیں۔ جس پر وہ دونوں بدمعاش سونیہا کے ساتھ باہر نکل گئے۔ 

کچھ دیر بعد سونیہا کمرے میں آئی اور میجر دانش کو پہلے کی طرح کھانا کھلایا ۔ اس دوران میجر دانش نے سونیہا سے آگے کا پروگرام جاننے کی کوشش کی مگر سونیہا نے ہاتھ کے اشارے سے بولنے سے منع کر دیا اور اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ایک مائکرو فون دکھایا۔ یہ اس چیز کا اشارہ تھا کہ سونیہا کی نگرانی ہورہی ہے اور اندر ہم جو باتیں کریں گے وہ باہر سنیں جائیں گی۔ 

میجر دانش نے فورا ہی ٹاپک بدل دیا اور سونیہا کے حسن کی تعریف کرنے لگا۔ سونیہا نے میجر دانش سے مزید کچھ سوال پوچھے جنکا میجر دانش جواب دیتا رہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ باتیں باہر سنی جا رہی ہیں اس لیے وہ سب کچھ بتاتا چلا گیا۔ مگر اس دوران اس نے اپنے اور سونیہا کے بھاگنے کے بارے میں کوئی با ت نہ کی۔ کھانا کھلانے کے بعد سونیہا وہاں سے چلی گئی۔ 

کوئی 2 گھنٹے کے بعد کمرے کا دوبارہ دروازہ کھلا اور سونیہا اندر آئی۔ وہ بہت رازدارانہ انداز مین اندر آئی تھی۔ اندر آکر اس نے میجر دانش کو ایک بار اپنے سینے سے لگایا اور پھر اسکے ہونٹوں پر پیار کرنے لگی۔ پھر سونیہا نے اپنے شارٹ بلاوز میں ہاتھ ڈالا اور وہاں سے ایک چھوٹے ایم پی تھری پلیئر کے برابر کا ایک موبائل فون نکالا۔ یہ بہت چھوٹا فون تھا جو با آسانی کہیں بھی چھپایا جا سکتا تھا۔ سونیہا نے یہ فون میجر دانش کی طرف بڑھایا تو میجر دانش نے اپنے ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا جو بندھے ہوئے تھے۔ 

سونیہا نے یہ دیکھ کر کہا کہ اچھا چلو مجھے نمبر بتاو میں نمبر ملاتی ہوں۔ میجر دانش نے سونیہا کو نمبر بتایا اور پھر اسکو کہا کہ موبائل فون دانش کے کان کے ساتھ لگا دے۔ سونیہا نے میجر کا بتایا ہوا نمبر ملایا اور دانش کے کان سے لگا دیا۔ اس دوران میجر دانش نے سونیہا سے پوچھا کہ وہ جگہ کا نام کیا بتائے تو سونیہا نے اسے بتایا کہ جام نگر بھاٹیا سوسائٹی سے نکلیں گے ہم۔ کچھ دیر بعد فون سے ہیلو کی آواز آئی تو میجر دانشے نے ایک کوڈ ورڈ بولا۔ ایلفا 43 ریڈ زون۔ ایجینٹ 35 سپیکنگ۔ میں دشمن کی قید میں ہوں، کل کسی بھی ٹائم مجھے جام نگر بھاٹیا سوسائٹی سے نکالا جائے گا۔ تم لوگ حملے کے لیے تیار رہنا۔ یہ کہ کر میجر دانش نے اور کہ دیا اور سونیہا کو فون بند کرنے کو کہا۔ 

سونیہا نے فورا ہی فون بند کر دیا۔ کنٹرول روم میں بیٹھے دونوں بدمعاش فون پر ہونے والی گفتگو بھی سن چکے تھے اور اس نمبر سے بھی واقف تھے جو اس فون سے ڈائل کیا گیا۔ میجر دانش کی بات مکمل ہونے کے بعد آگے سے محض اوکے کی آواز آئی تھی اور فون بند ہوگیا تھا۔ اب دونوں بدمعاش اس فون کو ٹریس کرنے میں مصروف ہوگئے۔ 

جبکہ دوسری طرف سونیہا کمرے سے باہر جانے لگی تو میجر دانش نے سونیہا کو آواز دی۔ سونیہا نے واپس مڑ کر دیکھا تو میجر دانش نے نیچے کی طرف اشارہ کیا۔ سونیہا نے دیکھا کہ میجر دانش اپنے لن کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو اسکی پینٹ میں ٹینٹ بنائے کھڑا تھا۔۔۔۔ سونیہا نے میجر دانش کا لن دیکھا تو رک گئی اور بولی ابھی تو بھاگنے کا پلان بنانا ہے بعد میں میں تمہارے پاس ہی رہونگی یہ کام بعد میں کریں گے۔ مگر میجر دانش بولا جان کتنے دنوں سے میں قید میں ہوں۔ نہ تو کوئی لڑکی چودنے کو ملی اور نہ ہی اپنی مٹھ مار کر اسے سکون دے سکا ہوں۔ آج پلیز اسکو سکون پہنچا دو۔ 

میجر دانش کی تڑپ دیکھ کر سونیہا میجر کی طرف بڑھی اور اسکی پینٹ پر لن کے اوپر ہاتھ پھیرنے لگی۔ سونیہا نے جب میجر دانش کے لن پر ہاتھ پھیرا تو اسکی لمبائی سے بہت متاثر ہوئی اور تعریفی نظروں سے دانش کو دیکھنے لگی۔ پھر اس نے نیچے جھک کر میجر دانش کی پینٹ کی زپ کھولی اور اندر ہاتھ ڈال کر لن پکڑ لیا۔ لن ہاتھ مین لینے کے بعد سونیہا نے اسکو موٹائی اور سختی کو ماپنا شروع کیا تو اسکے منہ اور چوت میں پانی آنے لگا۔ اس نے فورا ہی میجر دانش کی زپ کے راستے اسکا ہن باہر نکال لیا۔ 8 انچ کا لمبا اور موٹا لن دیکھ کر سونیہا کی آنکھوں میں نشہ سا آگیا۔ سونیہا کا جسم جتنا سیکسی تھا اسکو سیکس کی طلب بھی اتنی ہی زیادہ تھی۔ 

سیکس کرتے ہوئے سونہیا جنگلی بلی بن جاتی تھی جسکو آگے پیچھے کا کوئی ہوش نہیں رہتا تھا۔ میجر دانش کا 8 انچ لن دیکھ کر سونیہا کی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔ اس نے فورا ہی میجر کا لن اپنے منہ میں لیا اور اسکو چوسنے لگی۔ سونیہا چوپا لگانے میں ماہر تھی۔ باہر بیٹھے دونوں بدمعاش فارغ وقت میں سونیہا سے چوپا لگواتے رہتے تھے۔ مگر انکے لن اتنے بڑے نہیں تھے جتنا بڑا دانش کا لن تھا۔ ساتھ ساتھ دانش کے لن کا ٹوپا بھی سونیہا کو بہت پسند آیا تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ٹوپا اسکی پھدی کو بہت مزہ دے گا۔ 

کچھ دیر تک سونیہا دانش کا لن چوستی رہی تو پھر دانش نے سونیہا کو کہا جان اب اپنے ممے بھی دکھا دو۔ کتنے دنوں سے تمہارے مموں کا ابھار دیکھ دیکھ کر میرا لن سخت ہوتا رہا ہے۔ آج دکھا بھی دو ممے۔ یہ سن کر سونیہا اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور چھلانگ لگا کر میجر دانش کی گود میں چڑھ گئی۔ اس نے اپنا شارٹ بلاوز ایک ہی جھٹکے میں اتارا تو اسکے 36 سائز کے ممے اچھلتے ہوئے باہر آگئے۔ گول سڈول اور کسے ہوئے ممے ایسے اچھل رہے تھے جیسے ان میں سپرنگ لگے ہوئے ہوں۔ ان اچھلتے ہوئے مموں کو دیکھ کر دانش کے منہ میں پانی آگیا اور اسنے فورا ہی اپنا منہ سونیہا کے مموں پر رکھ دیا۔ اور انکو چوسنے لگا۔ 

سونیہا کے ممے چوستے ہوئے دانش کا لن وقفے قفے سے جھٹکے کھا رہا تھا۔ آخری مرتبہ اسنے عفت کو چدائی کی تھی سہاگ رات پر اور جب دوبارہ اسکی چوت میں لن ڈالنے لگا تھا تو اسکو ضروری کال آگئی تھی اور وہ عفت کی پیاسی چوت کو پیاسا ہی چھوڑ کر نکل گیا تھا۔ دانش کی گود میں چڑھی ہوئی سنیا کو بھی اپنی گانڈ پر میجر دانش کا لن محسوس ہورہا تھا۔ مگر اس وقت وہ دانش کو بڑے پیار سے اپنے ممے چوستا دیکھ رہی تھی۔ میجر دانش نے سونیہا کے ایک ممے کا نپل اپنے منہ مین لیا اور اسکو کاٹنے لگا۔ دانش کی اس حرکت سے سونیہا کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ زور زور سے سسکیاں لینے لگی۔ دانش کی پیاس دیکھ کر سونیہا کو سرور مل رہا تھا کیونکہ اسے دانش کا لن دیکھ کر اندازہ ہوگیا تھا کہ آج کافی دن کے بعد اسکی چوت کو کوئی تگڑا لن چودے گا۔ 

کچھ دیر سونیہا کے 36 سائز کے ممے چوسنے کے بعد دانش نے سونیہا سے اپنی چوت دکھانے کی فرمائش کی ۔ سونیہا فورا دانش کی گود سے اتری اور اور اپنی پینٹ اتار کر اسکو اپنی چوت کا نظارہ کروانے لگی۔ سونیہا کی چوت دیکھ کر دانش کالن اسکی چوت کی طرف لپکنے لگا۔ مگر دانش نے سونیہا کو کہا ک اگر وہ اسکے ہاتھ کھول دے تو دانش سکون کے ساتھ اسکی چوت چاٹ سکتا ہے۔ دانش کی بات سن کر سونیہا مسکرائی اور بولی جانِ من ابھی تمہارے ہاتھ کھولنے کا رسک نہیں لے سکتی میں۔ اگر باہر ان دونوں کو پتہ لگ گیا تو وہ تو مجھے یہیں مار ڈالیں گے۔ البتہ اگر تمہیں میری چوت چاٹنی ہی ہے تو یہ لہ چاٹو، یہ کہ کر سنیہا نے ایک جمپ لگایا اور اپنا ایک پاوں دانش کی زیر ناف ٹانگ والی ہڈی پر جمایا اور اوپر اچھل کر اپنا دوسرا پاوں میجر کے سینے تک لائی اور گھٹنا میجر کے کندھے پر رکھ دیا ۔ اور جن راڈز کے ساتھ میجر کے ہاتھ باندھے گئے تھے انہی راڈز سے سہارا لےکر کھڑی ہوگئی۔

سونیہا کے اس طرح اچھلنے سے میجر دانش کو اندازہ ہوگیا تھا کہ سونیہا کو لڑئی کی پراپر ٹریننگ دی گئی تھی۔ اس طرح چھلانگ لگا کر اپنی چوت کھڑے ہوئے شخس کے منہ کے سامنے لے آنا عام لڑکی کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ وہی کر سکتی تھی جسکو جمناسٹک کی ٹریننگ ملی ہو۔ مگر میجر دانش کو اس سے کیا، اسکے سامنے تو سونیہا کی چوت تھی جو چاٹنے لائق تھی۔ چوت پر ہلکے ہلکے براون بال بتا رہے تھے کہ سونیہا نے 3 دن پہلے ہی اپنی چوت کی صفائی کی ہے۔ 

اب کمرے میں میجر دانش لوہے کے راڈز سے بندھا ہوا تھا اسکے ہاتھ پاوں جکڑے ہوئے تھے مگر اسکی ٹانگ کے سہارے سے ایک 22 سالہ قاتل حسینہ اپنی چوت اسکے منہ کے بالکل سامنے کیے کھڑی تھی اور اسنے اپنا ایک گھٹنہ دانش کے کندھے پر رکھا ہوا تھا۔ دانش اپنی زبان نکالے سونیہا کی چوت کے لبوں کے درمیان اپنی زبان چلا رہا تحا جس سے سونیہا یسسکیاں نکل رہی تھیں اور وہ دانش کے سر میں ہاتھ پھیر کر اسکا سر مزیر چوت کی طرف دبا رہی تھی۔ 5 منٹ تک دانش سونیہا کی چوت کو اپنی زبان سے چوستا رہا اسکا بہت دل کر رہا تھا کہ وہ اس چوت میں اپنی انگلی بھی ڈالے مگر وقت کی ستم ظریفی کہ وہ اپنے ہاتھ آزاد نہیں کروا سکتا تھا۔ 5 منٹ کے بعد سونیہا کی چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا جس سے میجر دانش کا سارا منہ بھر گیا۔ 

پھر سونیہا نیچے اتری اور میجر دانش کا چہرہ چاٹ کر اپنے پانی کا مزہ لینے لگی۔ وہ زبان کے ساتھ میجر دانشے کے چہرے پر لگے اپنے چوت کے پانی کو چاٹ رہی تھی اور میجر دانش بھی اسکے ہونٹوں کو چوسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب سونیہا دوبارہ سے میجر دانش کے لن کی طرف متوجہ ہوئی اور اسکو ہاتھ میں پکڑ کر اسکے چوپے لگانے لگی۔ 

تھوڑی دیر کے بعد سونیہا کی چوت نے لن مانگا تو سونیہا نے اپنی ایک ٹانگ اٹھائی اور میجر دانش کے لن کے اوپر اپنی پھدی فٹ کر دی۔ اور پھر خود ہی ایک دھکا لگا کر میجر کا لن اپنی چوت میں اتار لیا۔ اسکے بعد میجر نے بھی دھکے لگانے شروع کیے اور سونیہا نے بھی۔ مگر اس طرح چودائی کا مزہ نہیں آرہا تھا کیونکہ میجر کا قد بڑا تھ

Quote

اور سنیہا کی پھدی صحیح طرح سے میجر دانش کے لن تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ اس لیے سونیہا کا اسطرح کھڑے ہونا مشکل تھا۔ 

اسکا حل سونیہا نے یہ نکالا کہ وہ ایک بار پھر میجر دانش کی گود میں چڑھ گئی۔ اسکی گردن میں انپے ہاتھ ڈالے اور اپنی چوت کے سوراخ کو میجر دانش کے لن کی ٹوپی پر رکھا اور ایک جھٹکے میں لن کے اوپر بیٹھ گئی۔ پھر سونیہا نے میجر دانش کے لن کے اوپر اچھلنا شروع کر دیا۔ نیچے سے میجر دانش بھی اپنی گانڈ ہلا ہلا کر دھکے لگا رہا تھا۔ مگر ٹانگیں بندھیں ہونے کی وجہ سے وہ صحیح طرح سے چودائی نہی کر پا رہا تھا۔ اسکے باوجود میجر دانشے کے 8 انچ لمبے لن نے 5 منٹ میں ہی سونیہا کی چوت کو ایک بار پھر پانی چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ 

جب سونیہا کی چوت نے پانی چھوڑی تو وہ میجر کی گود سے نیچے اتر آئی اور نشیلی نظروں سے میجر دانش کو دیکھنے لگی۔ اسکو میجر دانش کی چودائی کا بے حد مزہ آیا تھا۔ مگر میجر کا لن ابھی بھی سونیہا کی چوت مانگ رہا تھا۔ اب کی بار سونینا نے اپنی گانڈ میجر دانش کی طرف کی اور پنجو کے بل کھڑی ہوکر اپنی چوت کا سوراخ میجر کے لن کے اوپر کیا اور میجر نے دھکا مار کر لن سونیہا کی چوت میں اتار دیا۔ 

اب سونیہا پنجو کے بل کھڑی تھی اور پیچھے سے میجر دانش اسکی چوت میں دھکے مار رہا تھا۔ اب میجر دانش سونیہا کا جی سپاٹ ڈھونڈنا چاہ رہا تھا۔ عورت کا جی سپاٹ اسکی چوت کا حساس ترین حصہ ہوتا ہے جس پر لن لگنے سے چوت بہت جلدی پانی چھوڑتی ہے اور مزہ بھی انہتا کا ہوتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد جب میجر دانش نے ایک خاص اینگل سے سونیہا کی چوت میں دھکا مارا تو اسکی سسکاری نکل گئی۔ میجر دانش نے مزید 2 بار اسی اینگل سے دھکا مارا تو پھر سے سونیہا کی سسکاری نکلی جس کا مطلب تھا کہ یہی جی سپاٹ ہے۔ پتا چلنے پر میجر دانش نے دوبارہ اس اینگل سے دھکا نہیں مارا تو سونیہا چلائی ویسے ہی چودو جیسے ابھی دھکے مارے ہیں۔ مگر میجر دانش نے تھوڑی دیر بعد اسی اینگل سے 2 دھکے مارنے کے بعد پھر اینگل چینج کر لیا۔ سونیہا پھر سے چلائی کے اسی جگہ پھر دھکے مارو تو دانش بولا کہ اسکی ٹانگیں بندھی ہوئیں ہیں وہ مزید ایسا نہیں کر سکتا۔ 

اب کی بار سونیہا نے پہلے سے زیادہ چلاتے ہوئے کہا کہ پلیز ویسے ہی دھکا مارو جیسے ابھی مارا ہے مگر میجر دانش نے پھر سے انکار کیا کہ اسکی ٹانگ مڑ جاتی ہے اور مسل پُل ہوجائے گا اگر دوبارہ اس اینگل میں دھکا مارا۔ لیکن سونیہا کو کہاں سکون ملنے والا تھا۔ ایک تو پہلے ہی میجر دانش کے لن نے اسکو مزے کی انتہا پر پہنچا دیا تھا اوپر سے جی سپاٹ پر لن کی رگڑ نے اسکو وحشی پن کی حد تک مزہ دیا تھا۔ جب سونیہا نے دیکھا کہ اب لن اسکے جی سپاٹ کو نہیں چھو رہا تو اسنے اپنی چوت سے لن نکالا اور سامنے پڑی اپنی پینٹ کی جیب سے ایک چھوٹی سی چابی نکالی اور میجر دانش کی ٹانگیں کھول دیں۔ میجر دانش کی ٹانگیں کھلتے ہی اسکو اپنے پاوں میں سکون محسوس ہوا اور اسکی ٹانگوں کو بہت آرام ملا۔ اسنے دو تین بار اچھل کر اپنی ٹانگوں کو سکون پہنچایا۔ تو سونیہا چلائی کہ تمہیں ایکسرسائز کرنے کے لیے ٹانگیں نہیں کھولیں اب صحیح طرح چودائی کرو میری اور اسی جگہ لن لگنا چاہیے جہاں پہلے لگ رہا تھا۔ 

میجر دانش نے سونیہا کو کہا اگر وہ اسکے ہاتھ بھی کھول دے تو وہ ایسے چودے گا سونیہا کو کہ سونیہا پھر کبھی کسی اور کا لن نہیں مانگے گی۔ مگر سونیہا نے انکار کر دیا اور بولی بس اسی پر شکر ادا کرو۔ اب جلدی جلدی اپنا کام مکمل کرو یہ نہ ہو وہ دونوں بدمعاش پھر آجائیں اور ہمیں اس حالت میں دیکھ کر ہمیں مار ہی ڈالیں ۔ 

میجر دانش نے پیارے بھرے لہجے میں کہا جب تک میری جان میں جان ہے میری سونیہا کو کوئی مائی کا لال ن نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اب کی بار میجر دانش نے اپنی ٹانگوں کو تھوڑا پھیلا لیا ور سنیہا نے ایک بار پھر میجر کی طرف اپنی پیٹھ کی اور اسکا لن اپنی چوت میں ڈال دیا۔ پیچھے سے میجر دانش نے پہلے والے اینگل پر زور دار دھکے لگانا شروع کر دیے۔ اب کی بار میجر دانش کا لن مسلسل سونیہا کے جی سپاٹ پر چوٹ مار رہا تھا اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ چند ہی جھٹکوں نے سونہیا کو چھوٹںے پر مجبور کر دیا۔ اس بار اسکی چوت سے بہت سا پانی نکلا

دوسری طرف باہر کنٹرول دوم میں دونوں غنڈے اندر ہونے والی چودائی سے بے خبر اس نمبر کو ٹریس کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے جس پر میجر دانش نے کال کی تھی اور اپنے بھاگنے کی اطلاع دی تھی۔ یہ ممبئی کے ایک ایسے علاقے کا نمبر تھا جہاں بہت سے انڈر ورلڈ کے گروپ تھے۔ ان میں سے بہت سے گروپس پر یہ الزام بھی تھا کہ ان گروپس کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے اور پاکستان کے کہنے پر یہ لوگ ممبئی میں غنڈہ گردی پھیلاتے ہیں۔ جبکہ کچھ گروہ کے بارے میں یہ رائے تھی کہ ممبئی کے لوکل گروپ ہیں اور راء اپنے مقاصد کے لیے انکو استعمال کرتی ہے۔ میجر دانش نے جس نمبر پر کال کی تھی یہ ممبئی کا ایک مشہور انڈر ورلڈ گینگ تھا جسکی سربراہی داود اسمعیل کرتا تھا۔ اس گروپ کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ راء کے لیے کام کرتا ہے مگر میجر دانش کا اس گروپ کے ایجینٹ کو فون کرنا اور ان سے مدد مانگنا دونوں غنڈوں کے لیے حیران کن تھا۔ ان دونوں نے یہ خبر فورا کرنل وشال تک پہنچائی اور کرنل وشال بھی اس گروپ کی غداری پر سیخ پا ہونے لگا اور فوری ایک پلان ترتیب دیا جسکے مطابق اگلے 1 گھنٹے میں اس گروپ کا جڑ سے صفایا کرنا تھا۔ 

دوسری طرف اند کمرے میں میجر دانش کا لن ابھی تک سونیہا کی چدائی میں مصروف تھا۔ اب میجر دانش نے سونیہا کو کہا کہ ایک چئیر اٹھا کر میجر کے پاس رکھ دے، سونیہا نے ایسے ہی کیا اور سامنے پڑی ایک کرسی اٹھا کر میجر کے پاس رکھ دی، میجر نے اپنی ایک ٹانگ کری پر رکھی اور سونیہا کو کہا کہ وہ بھی اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر سامنے آجائے۔ سونیہا نے حیرت انگیز طور پر اپنی ٹانگ بالکل سیدھی کھڑی کر لی اور میجر دانش کے سینے سے ٹکا دی۔ یہ ایک اور اشارہ تھا کہ سونیہا کو جمناسٹک کی ٹریننگ حاصل ہے۔ اب سونیہا کی چوت میجر دانش کے لن کے عین نشانے پر تھی۔ میجر نے اپنا لن پھر سے چوت کے اندر ڈالا اور اپنی ایک ٹانگ چئیر پر رکھ کر نیچے سے سونیہا کی چوت میں گھسے مارنے لگا۔ میجر دانش کا ہر دھکا سونہیا کی چوت کو اندر تک ہلا کر دکھ دیتا تھا۔ 

Quote

سونیہا دل ہی دل میں افسوس کر رہی تھی کہ کل اتنے طاقتور لن کے مالک کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا اور وہ دوبارہ اس لن سے چدائی نہیں کروا سکے گی۔ جبکہ دانش آنے والے وقت میں یہاں سے بھاگنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ سونیہا کا بتایا ہوا پلان بھی اسکے ذہن میں تھا اور اس عمارت کی سیکورٹی سے متعلق سونیہا نے جو کچھ بتایا تھا اس پر بھی میجر دانش کو یقین تھا کہ اسنے صحیح بتایا ہے۔ 5 منٹ کی مزید چدائی نے سونیہا کی چوت کا برا حال کر دیا تھا۔ سونیہا سوچنےلگی کہ ابھی تو اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اگر اسکے ہاتھ کھلے ہوتے تو مختلف سٹائلز میں چودائی کا بہت مزہ آتا۔ کچھ ہی دیر بعد مجر دانش نے اپنے آخری زوردار دھکے مارے اور اسکی چوت میں اپنی گرما گرم منی چھوڑ دی۔ میجر کی منی کو چوت میں محسوس کر کے سونیہا کی چوت نے بھی پانی چھوڑی دیا۔ 

اب میجر دانش گہری گہری سانسیں لے رہا تھا اور سونیہا کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ سونیہا کی آنکھوں میں بھی نشیلے لال ڈورے تھے اور وہ میجر دانش کے لن کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی۔ پھر سونیہا نے ایک بار پھر سے میجر دانش کے ہونٹوں پر ایک زور دار کس کی اور اسکو بولی چلو اب جلدی سے اپنی ٹانگیں پہلی والی پوزیشن میں لے آو تاکہ میں لاک کر دوں ورنہ باہر سے وہ لوگ آگئے تو ہمیں یہیں پر مار دیں گے اور ہمارا کل کا پروگرام دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ یہ کہ کر سنیہا نے دوبارہ سے وہی چابی اٹھائی میجر کی ٹانگوں کی طرف جھکی تو میجر نے اچانک ایک پاوں سنیہا کے ہاتھ کے اوپر رکھ کر اسے زور سے دبا دیا جس سے سونیہا کے ہاتھ سے وہ چابی نکل گئی۔ 

وہ غصے سے اوپر اٹھی اور غراتے ہوئے بولی یہ کیا حرکت ہے؟؟؟ کیا تمہیں اپنی جان پیار نہیں؟؟ سونیہا کی اس بات پر میجر دانش ایک فلائنگ کس سنیہا کی طرف اچھالی اور بولا سوری جان، تم بہت خوبصورت ہو اور تمہاری چوت چودنے کے لائق ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ یہ تمہاری آخری چدائی تھی۔ یہ کہتے ہی میجر دانش نے ایک چھلانگ لگائی اور اپنی دونوں ٹانگیں سونیہا کی گردن کے گرد لپیٹ کر زور سے دبا دیں۔ سونیہا اس اچانک حملے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی مگر میجر کی گرفت میں آتے ہی اس نے بھی ایک چھلانگ لگائی اور اپنا گھٹنہ نیچے سے میجر کے مارا۔ سونیہا کا گھٹنہ لگنے سے میجر کی تو جان ہی نکل گئی کیونکہ یہ گھٹنہ میجر کے ٹٹوں پر لگا تھا۔ اور کسی بھی مرد کی سب سے بڑی کمزوری اسکے ٹٹے ہوتے ہیں۔ 

میجر کو ایک بار اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی اور اسکی گرفت سونیہا کی گردن پر کمزور پڑنے لگی۔ مگر پھر میجر کو احساس ہوا کہ اگر اب سونیہا اسکی گرفت سے نکل گئی تو پھر اسکی جان بچنا مشکل نہیں لہذا اسنے ٹٹوں کی درد بھلا کر ایک بار پھر سے سونیہا کی گردن کے گرد اپنی ٹانگوں کا شکنجہ مضبوط کر دیا۔ اب سونیہا نے دوبارہ سے اپنا گھںٹنہ میجر کے ٹٹوں پر مارنا چاہا مگر وہ اس میں ناکام رہی کیونکہ اسکی گردن اس بار بہت مضبوطی سے میجر کی ٹانگوں کے درمیان تھی اور اب اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ زیادہ مزاحمت کر سکے۔ 

کچھ ہی دیر بعد سونیہا کی خوبصورت آنکھیں باہر کو نکلنے لگیں اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میجر کو دیکھ رہی تھی۔ میجر کچھ دیر مزید اسی طرح ہوا میں سنیہا کی گردن ٹانگوں سے دبوچے کھڑا رہا ، جب اسے یقین ہوگیا کہ سونیہا کی آخری سانس نکل چکی ہے تو اسنے سونیہا کی گردن چھوڑی اور دوبارہ سے زمین پر آگیا۔ سونیہا لہراتی ہوئی گھومتی ہوئی زمین پر آگئی تھی۔ میجر دانش نے آخری بار سونیہا کی طرف دیکھا اور اسکے اوپر تھوکتے ہوئے بولا تجھے کیا لگا تھا میں اتنی آسانی سے تیرے قابو میں آجاوں گا؟؟؟؟ پھر میجر نے اپنے پاوں کی انگلیوں سے وہ چابی اٹھائی جس سے سنیہا نے اسکے پاوں کھولے تھے۔ میجر نے وہ چابی اپنے پاوں کی انگلیوں میں پھنسا کر اپنی ٹانگ فل زور سے اوپر ہوا میں اچھالی۔ جس طرح سونیہا نے اپنی ٹانگ اٹھا کر میجر کے سینے سے لگا دی تھی اسی طرح میجر نے اپنی ٹانگ اٹھائی تو اسکا پاوں اسکے ہاتھ کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا جہاں پر میجر نے پاوں کی انگلی کھول دی اور ٹانگ واپس نیچے لے آیا جب کہ وہ چابی ہوا میں اوپر اچھل گئی۔ کچھ اوپر ہوا میں اچھلنے کے بعد اب چابی واپس نیچے آنے لگی اور میجر دانش سر اوپر کیے چابی کو دیکھنے لگا جو بالکل میجر دانش کے ہاتھ کے اوپر آرہی تھی۔ 

یوں میجر دانش نے وہ چابی کیچ کر لی اور اپنے ہاتھ موڑ کر چابی انگلیوں میں پھنسا کر اپنے ہاتھ کھول لیے۔ پھر میجر نے فورا اپنے کپڑے پہنے اور زمین پر بنا کپڑوں کے پڑی خوبصورت سنیہا کو اپنی گود میں اٹھایا اور ایسے ہی اسے اٹھا کر دروازے کی طرف لے گیا۔ وہاں پہنچ کر میجر نے سنیہا کے ہاتھ پکڑ کر اسکی انگلی سے وہی کوڈ ملایا جس سے سونیہا نے دروازہ کھولا تھا۔ کوڈ مکمل ہونے پر دروازہ کھلتا چلا گیا۔ اور سامنے ایک لمبی راہداری تھی۔ راہداری دیکھتے ہی میجر سمجھ گیا کہ سونیہا نے صحیح کہا تھا اس راہداری میں کیمرے ہیں جو آٹو میٹک انجان چہرے کو دیکھ کر لیزر آن کر دیتے تھے جو اس انسا ن کو 2 حصوں میں تقسیم کر سکتی تھی۔ مگر میجر دانش آئی ایس آئی کا ہونہار ایجنٹ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس راہداری سے کس طرح گزرا جائے کہ کیمرے آٹو میٹک لیزر کو آن نہ کریں۔
جاری ہے

================================================== ====================== 

Quote

کرنل وشال کو جیسے ہی خبر ملی کہ میجر دانش نے داود اسمعیل کے گروپ کو اپنی مدد کے لیے بلایا ہے اور آگے سے اوکے بھی کہا گیا تو کرنل وشال کی حیرت کی انتہا نہیں رہی تھی۔ کیونکہ داود بھائی جو ایک معمولی غنڈہ ہوتا تھا کرنل وشال نے ہی اسکو ایک انٹرنیشنل لیول کا ٹارگٹ کلر بنایا تھا۔ اور پھر کرنل وشال نے داود اسمعیل کی بھرپور مدد کی تھی کہ وہ ممبئی جیسے شہر میں اپنا گینگ چلا سکے۔ داود بھائی جہاں اپنے ناجائز کاموں کے لیے کرنل وشال کی مدد لیتا تھا وہیں بالی ووڈ انڈسٹری میں بھی داود بھائی کا بہت اثرو رسوخ تھا۔ کسی بھی ہیروئین کو فلم دلوانا یا سٹرگلنلگ ایکٹریس کو ٹاپ ہیروئین بنوادینا داود بھائی کی ایک کال کی مار تھی۔ اسکے ساتھ ساتھ بدلے میں بالی ووڈ کی مشہور ہیروئین نہ صرف داود بھائی کا بستر گرم کرتی تھیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ انکے کہنے پر کسی بھی شخص کے ساتھ رات گزارنا معمول کی بات تھی۔ کسی ہیروئین میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ داود بھائی کو انکار کر سکے۔ 

ان تمام سرگرمیوں کے علاوہ داود بھائی کرنل وشال کے ایک اشارے پر پاکستان میں بم دھماکے کروانے کا کام بھی کرتا تھا۔ شیعہ سنی فسادات کروانے کے لیے بھی داود بھائی کا گینگ ماہر تھا۔ نام سے تو یہ شخص مسلمان تھا لیکن حقیقت میں انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں تھا۔ داود بھائی کے گینگ کو کرنل وشال کا رائٹ ہینڈ کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ کرنل وشال کے لیے یہ فون کال کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ داود کا گینگ آئی ایس آئی کے ساتھ مل چکا ہے اور میجر دانش کو آزاد کروانے کے لیے وہ انڈین آرمی پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔ اس بات نے کرنل وشال کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ یہ خبر ملتے ہی کرنل وشال نے اپنے با اعتماد 10 ٹارگٹ کلرز کو داود بھائی کے گینگ کا صفایا کرنے کا حکم دیا تھا۔ 

کرنل وشال کا یہ حکم ملتے ہی اسکے لوگ پورے ملک میں اپنے اپنے علاقے کے با اعتماد لوگوں کو لیکر اس گروپ کا صفایا کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ ممبئی، حیدرآباد، کلکتہ، راجھستان، دہلی، بنگلور، جے پور، پٹنا اور دوسرے بڑے شہروں میں پچھلے آدھے گھنٹے میں داود بھائی کے 200 با اعتماد لوگ کرنل وشال کے ساتھیوں کی گولی کا نشانہ بن چکے تھے۔ ممبئی میں کرنل وشال نے بذاتِ خود داود کے مختلف اڈوں پر حملہ کیا اور اسکے گینگ کا صفایا کرتا چلا گیا۔ آخر میں داود بھائی کی باری تھی جسکو مارنے کا ٹاسک کرنل وشال نے خود اپنے ذمہ لیا تھا۔ 

داود بھائی ان تمام چیزوں سے بے خبر بالی ووڈ کی مشہور ہیروئین زرین خان کے جسم سے کھیلنے میں مصروف تھے۔ زرین خان جس کو داود بھائی کے کہنے پر ہی سلمان خان کے ساتھ مشہور فلم میں کاسٹ کیا تھا اپنے سیکسی جسم کی وجہ سے داود بھائی کی فیورٹ تھی۔ زرین خان کے بھرے ہوئے ممے 38 سائز کے تھے اور اسکی گانڈ 36 کی تھی۔ داود بھائی اپنے شاہانہ صوفے پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھے تھے جبکہ زرین خان اسکی ٹانگوں کے درمیان زمین پر بیٹھی تھی اور داود بھائی کا 8 انچ کا لن اپنے منہ مین لیکر اسکا چوپا لگانے میں مصروف تھی۔ زرین خان کے چوپے داود بھائی کو ہمیشہ ہی مزے دیتے تھے۔ وہ آنکھیں بند کیے زرین خان کے چوپوں کا مزہ لے رہے تھے۔ چوپوں سے فارغ ہو کر زرین خان کھڑی ہوئی اور داود بھائی کی طرف اپنی گانڈ کی اور انکی گود میں لن کے اوپر اپنی چوت رکھی اور بہت ہی آرام کے ساتھ لن کے اوپر ہی بیٹھ چکی تھی۔ لن کے اوپر بیٹھنے کے بعد زرین خان نے لن کے اوپر اچھلنا شروع کیا اور اپنے منہ سے فک می بے بی، فک می ہارڈ کی آوازیں نکال کر داود بھائی کو جوش دلانا شروع کیا۔ 

Quote

اس سے پہلے کے داود بھائی کو مزید جوش چڑھتا اور وہ زرین خان کی چوت کو جم کر چودتا اچانک کمرے کا دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور کرنل وشال کسی جن کی طرح اندر داخل ہوا، دروازہ کھلتے ہی داود بھائی نے بجلی کی سی تیزی سی زرین خان کو اپنے لن سے اتارا اور پاس پڑی ہوئی پسٹل اٹھا کر اندر آنے والے پر فائر کرنا چاہا۔ مگر اندر آنے والا شخص داود بھائی سے کہیں زیادہ تیز تھا۔ اس سے پہلے کے داود بھائی پسٹل سے گولی چلاتے ایک شائیں کی آواز آئی اور کرنل وشال کی پسٹل سے چلنے والی گولی سیدھی داود بھائی کے ہاتھ پر لگی اور انکے ہاتھ سے پسٹل چھوٹ کر دور جا گری۔ زرین خان اس اچانک حملے سے خوفزدہ ہوکر ساتھ ہی پڑے بیڈ پر لیٹ گئی تھی اور اپنے جسم کو بیڈ شیٹ سے چھپا لیا تھا۔ کرنل وشال کو اپنے سامنے دیکھ کر داود بھائی حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔ حیران اس لیے کہ آخر کرنل وشال کو ایسی کیا ضرودت پیش آگئی کہ یوں کمرے کا دروازہ کھول کر گولی بھی چلا دی۔ اور خوش اس لیے کہ داود بھائی سمجھ رہیے تھے کہ یہ کرنل وشال نے مذاق کے طور پر پمپ ایکشن کر کے دکھایا ہے۔ کرنل وشال کو سامنے دیکھ کر داود بھائی اب مسکرانے لگے اور پھر ساتھ پڑی چادر سے اپنے لن کو ڈھانپ کر صوفے سے اٹھے اور کرنل وشال کو ویلکم کہا اور اسکے نشانے کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے نکلنے والے خون کو بھی چادر سے صاف کرنے لگے۔ 

لیکن جلد ہی داود بھائی کو احساس ہوگیا تھا کہ کرنل وشال کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔۔۔ داود بھائی نے کرنل وشال سے پوچھا کہ خیر تو ہے اس سب کا کیا مطلب؟؟؟ کرنل وشال نے غراتے ہوئے کہا میرے سے غداری کرنے والے کو جینے کا کوئی حق نہیں۔ داود بھائی نے پوچھا کونسی غداری اور کس نے کی غداری؟؟ کرنل وشال نے پہلے سے زیادہ غصے سے جواب دیا آئی ایس آئی کی مدد کرنے کی غداری اور یہ غداری تو نے کی ہے۔ اس سے پہلے کہ داود بھائی کچھ اور پوچھتے، کرنل وشال کی پسٹل سے گولیاں نکلیں اور داود بھائی کے سینے کو چھلنی کرتی ہوئی آر پار ہوگئیں۔ خون کے چھینٹے پیچھے والی دیوار پر پڑے تھے اور داود بھائی کا مردہ جسم صوفے پر تھا۔ مرنے کے بعد بھی داود کی آنکھوں میں حیرت کے آثار تھے جیسے اسے اپنی موت پر یقین نہ آیا ہو۔

اسکے بعد کرنل وشال نے زرین خان کی طرف دیکھا جو ڈری ہوئی اور سہمی ہوئی کبھی کرنل وشال کو دیکھتی تو کبھی داود بھائی کی لاش کو۔ کرنل وشال نے زرین خان کو کپڑے پہننے کو کہا تو وہ کسی فرمانبردار بچے کی طرح اپنے کپڑے پہننے لگی۔ برا اور پینٹی پہننے کے بعد زرین خان نے اپنی شارٹ نِکر اور سیکسی شرٹ پہنی تو کرنل وشال نے اسے اپنے ساتھ آنے کو کہا۔ کرنل وشال داود بھائی کے گینگ کو مکمل طور پر ختم کر چکا تھا اب وہ زرین خان کے جسم سے اپنے آپکو سکون پہنچانا چاہتا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد زرین خان ایک بار پھر اپنے کپڑوں سے آزاد کرنل وشال کے بیڈ پر اسکے لن کا چوپا لگانے میں مصروف تھی۔ 

================================================== ================

ان کیمروں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ تب ہی لیزر کو ایکٹیو کرتے تھے جب کوئی انجان چہرہ نظر آئے۔ میجر دانش نے دروازے سے قدم آگے بڑھانے سے پہلے سونیہا کی شرٹ سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا تھا جبکہ سونیہا کے جسم کو اپنے آگے کر لیا تھا۔ میجر دانش نے سونیہا کی لاش کو اپنے سامنے اسطرح کیا کہ گویا وہ کوئی زندہ انسان ہو اور چلتی ہوئی جارہی ہو۔ میجر دانش نے سونیہا کے پاوں اپنے پاوں کے اوپر رکھا تھے اور اسکا چہرہ جس میں اب زندگی کی کوئی رمک باقی نہ تھی اوپر اٹھایا ہوا تھا تاکہ کیمرہ جب ان دونوں پر پڑے تو وہ سونیہا کے چہرے کو پہچان لے۔ اور میجر دانش کا چہرہ کیمرے کی آنکھ سے اوجھل رہے اور وہاں پر چہرے کی بجائے ایک شرٹ نظر آئے۔ میجر دانش نے سونیہا کا جسم آگے کیا جہاں سے میجر دانش کی سمجھ کے مطابق سیکیورٹی الڑٹ والا حصہ سٹارٹ ہوتا تھا۔ جیسے ہی سونیہا کا جسم اس حصے سے آگے ہوا سامنے لگے ہوئے دو کیمرے اپنا اینگل بدل کر سونیہا ی طرف ہوگئے۔ کیمروں سے انفرا ریڈ شعائیں نکلیں اور سونیہا کے چہرے پر پڑیں۔ کیمرے کی ڈیٹا بیس میں سونیہا کا چہرہ موجود تھا جو آٹومیٹک سسٹم سے فورا ہی کلئیر قرار دے دیا گیا اور اب کیمروں میں ایک گرین لائٹ بلنک کر رہی تھی۔ یہ سگنل دیکھ کر میجر دانش نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ میجر دانش کے جسم کے آگے سونیہا کا جسم تھا جو کپڑوں سے آزاد تھا۔ 

لمبی راہداری کے آخر میں جا کر میجر دانش کو اپنے دائیں طرف والے کمرے سے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ میجر دانش نے ان آوازوں کو فورا ہی پہچان لیا تھا۔ یہ وہی آوازیں تھیں جو میجر دانش سے انویسٹیگیشن کر رہی تھیں۔ انکو میجر دانش نے اپنا نام اور کرنل وشال کا پیچھا کرنے کے بارے میں تو سچ بتا دیا تھا مگر باقی جو کچھ بتایا تھا وہ جھوٹ پر مبنی تھا۔ میجر دانش نے فورا فیصلہ کیا کہ ان سے نہ صرف اپنی تذلیل کا بدلہ لینا ہے بلکہ انکو اگلے جہاں پہنچا کر اوروں کی زندگی کو محفوظ بنانا ہے۔ میجر دانش نے دیوار کے ساتھ لگ کر دروازے پر ہلکا سا دباو ڈالا تو وہ کھلتا چلا گیا اور اندر بیٹھے دونوں غنڈے دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔ مگر اندر کوئی نہ آیا تو انکو تشویش ہونے لگی۔ انہوں نے سونیہا کو آواز دیتے ہوئے کہا اب آ بھی جاو جانِ من اندر کیوں تڑپا رہی ہو؟؟؟ میجر دانش نے یہ آواز سنی تو سونیہا کی ایک ٹانگ اپنے ہاتھ سے دروازے کے آگے کر دی۔ سونیہا کی ننگی ٹانگ دیکھ کر ان میں سے ایک غنڈہ اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑے دروازے کی طرف آیا اور جیسے ہی بھانچیں کھلائے کمرے سے باہر نکل کر سونیہا کو پکڑا تو سونیہا لہراتی ہوئی اسکی بانہوں میں گر گئی۔ اس سے پہلے کہ اس غنڈے کو سمجھ آتی کہ اسکی بانہوں میں سونیہا کی لاش ہے میجر دانش کے ہاتھ اس غنڈے کی گردن تک پہنچ چکے تھے اور ایک ہی جھٹکے میں اس کی جان نکل چکی تھی۔ 

اندر بیٹھا غنڈہ جو انتظار کر رہا تھا کہ کب اسکا ساتھی سیکسی سونیہا کو اپنی بانہوں میں اٹھائے اندر لے کر آئے اس نے اپنے ساتھ کی لاش کو زمین پر گرتے دیکھا اور اسکے ساتھ ہی اسکی نظر سونیہا کے ننگے جسم پر بھی پڑی جس پر موت کے آثار واضح تھے۔ یوں اسطرح اپنے سامنے 2 لاشیں گرتی دیکھ کر اسکا ہاتھ فورا اپنی پسٹل کی طرف گیا اور اس سے پہلے کہ وہ گولی چلا سکتا میجر دانش ایک ہی چھلانگ میں اسکے سر پر پہنچ چکا تھا۔ میجر دانش نے پہلا وار اس کے ہاتھ پر کیا اور اس کی پسٹل دور جا گری جبکہ دوسرا وار میجر دانش نے اسکے پیٹ پر کیا۔ میجر دانش کا گھونسا لگتے ہی وہ غنڈہ درد سے دہرا ہوگیا ۔ اسکے دوہرا ہونے پر اسکی کمر پر میجر دانش کی طاقتور کہنی لگی جسکی تاب نا لاتے ہوئے وہ غنڈہ زمین پر ڈھے گیا۔ اور تڑپنے لگا۔ میجر دانش نے ادھر ادھر دیکھا اور اسے وہی لوہے کا راڈ نظر آیا جس سے اس غنڈے نے میجر دانش کی ٹانگوں پر بے تحاشہ وار کیے تھے۔ میجر دانش نے فورا ہی وہ راڈ اٹھا لیا اور اس غنڈے کی ٹانگوں پر برسانا شروع کر دیا۔ 

خوب اچھی طرح دھلائی کرنے کے بعد میجر دانش نے اس غنڈے کو بھی زندگی کی قید سے آزاد کر دیا اور پھر اس کنٹرول روم میں موجود سسٹم سے پوری بلڈنگ کے کیمروں کا ویو دیکھا اور سیکیورٹی کا جائزہ لیا۔ بلڈنگ میں 10 مختلف مقامات پر سیکیورٹی گارڈ موجود تھے جنکے ہاتھ میں جدید قسم کا اسلحہ تھا اور وہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے چاق و چوبند کھڑے تھے۔ میجر دانش نے انکی پوشینز کو ذہن نشین کیا اور مین گیٹ پر موجود سیکیورٹی کا بھی جائزہ لیا۔ کمرے میں ایک لال رنگ کابٹن بھی تھا جسکو دبانے پر سیکیورٹِ ہائی الرٹ ہوجاتی اور تب یہاں سے کسی کا بھی بچ کر جانا ممکن نہ تھا۔ میجر دانش نے کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے راہداری کا سیکیورٹی سسٹم جام کر دیا اور اسکے بعد راہداری میں داخل ہوکر راہداری کا دروازہ کھول کر دیکھا تو سامنے کھلا میدان تھا جس میں ایک طرف کچھ جھاڑیاں تھیں اور دوسری طرف ایک ٹوٹی پھوٹی روڈ بنی ہوئی تھی۔ سامنے کوئی 500 میٹر کے فاصلے پر ایک بڑی دیوار اور گیٹ نظر آرہا تھا۔ 

Quote

hi frendzzzzzzzzzzz

Quote

میجر دانش نے دروازہ بند کیا اور دوبارہ سے بلڈنگ کا نقشہ دیکھنے لگا جو اسی کنٹرول روم میں موجود تھا۔ یہ بلڈنگ چاروں طرف سے اسی طرح کے ویران میدان سے گھری ہوئی تھی جب کہ چاروں طرف ایک بڑی دیوار تھی اور باہر جانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا جو میجر دانش سے کوئی 500 میٹر دور تھا اور لازمی طور پر وہاں پر بھی سیکیورٹی گارڈ موجود تھے۔ اب میجر دانش اس قید سے نکلنے کا پلان کرنے لگا۔ اچانک ہی اسکے زہن میں ایک زبردست پلان آیا۔ دونوں غنڈوں میں سے ایک غنڈے نے ہلکی داڑھی رکھی ہوئی تھی اور ڈیٹا بیس میں اسکی تصویر بھی داڑھی کے ساتھ ہی تھی۔ میجر دانش بھاگتا ہوا راہداری میں سے واپس اپنے قید والے کمرے میں گیا وہاں بہت سارا سامان موجود تھا جو قیدیوں کو اذیت پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ میجر دانش نے اس سامان سے ایک بلیڈ نکالا اور واپس کنٹرول روم میں آگیا، آٹومیٹک سیکورٹی میجر دانش پہلے ہی جام کر چکا تھا اس لیے اسے اس بار راہداری سے گزرنے میں کوئی پرابلم نہیں ہوئی۔ 

واپس آکر میجر دانش نے اس غنڈے کے چہرے کے بال صاف کیے اور اسکے چہرے پر 2 مختلف جگہ پر بلیڈ سے نشان بھی لگا دیا۔ بلیڈ لگنے سے خون نکلنے لگا جو میجر دانش نے اسکے چہرے پر مل دیا۔ اب کسی بھی کیمرے کے لیے اس شکل کو پہچاننا ممکن نہ تھا۔ اب میجر دانش نے کنٹرول روم کا جائزہ لیا اور وہاں سے کچھ ہتھیار اٹھا کر اپنے کپڑوں میں چھپا لیے اور اسکے بعد آٹومیٹک سسٹم کا ٹائمر آن کر دیا۔ 5 منٹ کے بعد سیکیورٹی سسٹم آٹومیٹک طریقے سے آن ہوجانا تھا۔ میجر دانش نے سونیہا اور پہلے غنڈے کی لاش کمرے کے اندر کر دی اور دوسرا غنڈے کی لاش کو راہداری میں رکھ دیا اسکے بعد میجر دانش نے راہداری کا باہر جانے والا دروازہ کھولا اور اطراف کا جائزہ لیکر جھاڑیوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ میجر دانش اپنی پوری طاقت لگا کر پوری تیزی کے ساتھ جھاڑیوں کا سہارا لیتا ہوا مین گیٹ کی طرف بھاگ رہا تھا۔ جب یہ فاصلہ 100 رہ گیا تو میجر دانش رک گیا اور واپس راہداری والے راستے کی طرف دیکھنے لگا۔ 

اندر راہداری میں غنڈے کی لاش پڑی تھی جو اب ڈیٹابیس میں موجود تصویر سے کافی مختلف تھی۔ 5 منٹ پورے ہونے پر سیکیورٹی سسٹم آن ہوگیا اور جیسے ہی راہداری کے کیمرے آن ہوئے تو آٹومیٹک سیکورٹی سسٹم اس لاش کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر کیمرے سے ملنے والی تصویر ڈیٹا بیس میں موجود کسی بھی تصویر سے میچ نہ ہوئی تو آٹومیٹک لیزر آن ہوگئی اور ساتھ ہی پوری بلڈنگ زور دار سائرن سے گونجنے لگی۔ لیزر نے اس لاش کے ٹکڑے کر دیے تھے جبکہ سائرن کی آواز سن کر تمام سیکورٹی اہلکار اپنی اپنی جگہ کو چھوڑ کر اس بلڈنگ کی راہداری سے نکلنے والے دروازے کے سامنے اپنی اپنی پوزیشن لینے لگے تھے۔ کوئِ بلڈنگ کی چھت سے نیچے اترا تو کوئی بلڈنگ کی باہر والی سائیڈ پر موجود کمروں سے نکلا۔ اسی طرح مین گیٹ پر موجود 2 سیکیورٹی اہلکاروں میں سے ایک نے بھی بھاگنا شروع کیا اور راہداری کے دروازے کے باہر اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ اب میجر دانش نے مین گیٹ کی طرف بھاگنا شروع کیا۔

مین گیٹ پر موجود واحد سیکورٹی اہلکار کو جھاڑیوں میں ہلچل محسوس ہوئی تو وہ دیکھنے کے لیے آگے بڑھا۔ اچانک ہی جھاڑیوں سے میجر دانش نے لمبی چھلانگ لگائی اور اس سے پہلے کہ سیکورٹی اہلکار کچھ سمجھتا میجر دانش کے ہاتھ میں موجود تیز دھار خنجر اسکی گردن پر تھا ۔ اب یہ اہلکار کچھ بول نہیں سکتا تھا۔ میجر دانش نے اسکو تیز الفاظ میں کہا زندگی پیاری ہے تو فورا یہ گیٹ کھول دو نہیں تو 3 گننے تک تم اپنی جان سے جاو گے اور میرے ہاتھ میں تیز خنجر تمہاری گردن کاٹ ڈالے گا۔ اسکے ساتھ ہی میجر دانش نے گنتی شروع کر دی۔ 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ میجر دانش 3 کہتا اس سیکورٹی اہلکار نے میجر دانش کو گیٹ کھولنے میں مدد کرنے کا یقین دلایا، میجر دانش اب اسے گھسیٹتا ہوا گیٹ کے قریب لے گیا تو اس نے اپنی جیب سے ایک چابی نکالی اور گیٹ میں لگا دی۔ اسکے بعد اس نے گیٹ میں لگے سسٹم پر کوئی کوڈ اینٹر کیا اور پھر چابی گھمائی تو گیٹ کھلنے لگا۔ 

گیٹ کھلتے ہی میجر دانش کا ہاتھ چلا اور سیکورٹی گارڈ لہراتا ہوا زمین پر آرہا۔ میجر دانش نے اسے جان سے نہیں مارا تھا بالکہ اسکی گردن پر اپنا مخصوص وار کیا تھا جس سے وہ فوری بے ہوش ہوگیا اور زمین پر گر گیا جبکہ میجر دانش گیٹ سے نکلتے ہی دائیں طرف بھاگنے لگا۔ اندر موجود باقی سیکورٹی اہلکار ابھی تک راہداری کا دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھا۔ نہ تو اندر کوئی موجود تھا نہ ہی دروازہ کھلا۔ اور سیکورٹی اہلکار انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ 

میجر دانش بھاگتے بھاگتے بہت دور نکل آیا تھا مگر ابھی تک کسی شہر یا آبادی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے تھے۔ بھاگ بھاگ کر میجر کی حالت خراب ہوچکی تھی۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اسے اتنا بھاگنا پڑے گا۔ دور دور تک پانی کا بھی نام و نشان موجود نہیں تھا۔ بس ایک ٹوٹی پھوٹی روڈ تھی اور میجر دانش اسکے ساتھ ساتھ بھاگ رہا تھا۔ کافی دیر بھاگنے کے بعد جب میجر دانش تھک چکا تو اس نے چلنا شروع کر دیا تھا ۔ شام کا اندھیرا ہو چکا تھا اور میجر دانش کو اس بلڈنگ سے نکلے کوئی 30 منٹ ہوچکے تھے۔ اچانک میجر دانش کو دور کہیں سے گاڑی کی آواز آئی۔ میجر دانش نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو روڈ پر ایک گاڑی آرہی تھی جسکی ہیڈ لائٹس آن تھیں۔ گاڑی کو دیکھتے ہی میجر روڈ سے اتر گیا اور کچھ ہی دور موجود جھاڑیوں میں چھپ گیا اور گاڑی کے گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس سے پہلے کہ گاڑی وہاں سے گزرتی میجر کو محسوس ہوا کہ اسکے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔۔۔ میجر نےپیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں 3 ہٹے کٹے مرد کھڑے تھے جنکے ہاتھ میں رائفل تھیں اور انکا رخ میجر دانش کی طرف تھا۔۔۔۔۔ 

================================================== =========

Quote

================================================== =========

زرین خان کرنل وشال کے سامنے اب ڈوگی سٹائل میں جھک گئی تھی اور کرنل وشال اپنا 9 انچ لمبا لن زرین خان کے پیچھے سے آکر اسکی چوت پر رکھ چکا تھا۔ کرنل وشال کے لن کی ٹوپی نے ابھی زرین خان کی چوت کو چھوا ہی تھا کہ زرین خان نے خود ہی پیچھے کی طرف ایک دھکا مارا اور آدھا لن اپنے اندر اتار لیا، باقی کا آدھا لن کرنل وشال کے ایک زور دار دھکے سے زرین خان کی چوت میں اتر چکاتھا۔ بھرے ہوئے جسم کی مالک زرین خان کو چودنے کی خواہش بہت سے فلمی ہیرو کرتے تھے مگر وہ ہر کسی کو اپنی چوت نہیں دیتی تھی۔ سلمان خان کے علاوہ صرف اکشے کمار ہی وہ شخص تھا جو زرین خان کی چوت لینے میں کامیاب ہوا تھا۔

البتہ داود اسمیعل باقاعدگی کے ساتھ زرین خان کی چوت لیتا تھا۔ زرین خان جیسی بھرے ہوئے جسم کی لڑکیاں داود بھائی کی فیورٹ تھیں۔ مگر وہ اب اس دنیا میں نہی رہا۔ کرنل وشال پہلی مرتبہ زرین خان کو چود رہا تھا اور اسکو اس چودائی کا بہت مزہ آرہا تھا۔ زرین خان بھی کرنل وشال کا 9 انچ کا لن پوری طرح اپنے اندر چھپائے چودائی کا مزہ لے رہی تھی اور اسکا اظہار وہ اپنے منہ سے سیکسی آوازیں نکلا کر کر رہی تھی۔ زرین خان اپنی چوت سے ہر مرد کو مزہ دینے کی صلاحیت رکھتی تھی جیسے ہی کرنل وشال اپنے لن کو چوت کے اندر گھساتا زرین خان اپنی چوت کو ٹائٹ کر لیتی جس سے لن کو اچھی رگڑ ملتی اور کرنل کو مزہ آتا ، لن باہر نکلنے لگتا تو زرین اپنی چوت کو ڈھیلا چھوڑ دیتی۔ کرنل کا لن زرین خان کی چوت کی گہرائیوں تک چوٹ مار رہا تھا یہی وجہ تھی کہ پچھلے 10 منٹ میں زرین خان کی چوت نے 2 بار پانی چھوڑ دیا تھا۔ اور اب بھی چوت میں لگنے والے دھکوں نے زرین خان کو تیسری مرتبہ پانی چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔

زرین خان کی چوت پانی سے بھری ہوئی تھی مگر کرنل وشال کا لن تھکنے کا نام نہیں لے رہا تھا وہ اصل میں داود اسمعیل کی غداری کا غصہ زرین خان کی چوت پر نکال رہا تھا اسکے ہر دھکے میں داود کی غداری کے خلاف غصہ واضح تھا۔ اب کرنل وشال نے لن زرین خان کی چوت سے نکالا اور اور اپنی انگلی پر تھوک لگا کر زرین خان کی چکنی گانڈ میں داخل کر دی۔ زرین خان کی گانڈ بھی کافی چکنی اور قدرے کھلی تھی۔ مگر پھر بھی کرنل کی انگلی جانے سے زرین خان کی ایک سسکی نکلی آووووچ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اس نے پیچھے مڑ کر پہلے کرنل کو دیکھا اور پھر اسکے لن کو دیکھا پھر بولی آرام سے گانڈ مارنا کرنل آپکا لن بہت لمبا ہے۔ 

مگر کرنل کو آج ہوش نہیں تھا کسی بھی چیز کا۔ اس نے اپنی ٹوپی زرین خان کی گانڈ پر سیٹ کی اور ایک زور دار دھکا مارا۔ زرین خان کی ایک چیخ نکلی اور اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی۔ کرنل کا آدھے سے زیادہ لن زرین خان کی نازک گانڈ کو چیرتا ہوا اندر جا چکا تھا۔ کرنل نے تھوڑا سا لن اور باہر نکالا اور ایک اور زور دار دھکا مارا۔ باقی کا لن بھی اب زرین خان کی گانڈ میں تھا۔ کرنل نے بغیر انتظار کیے پھر سے ڈوگی سٹائل میں ہی زرین خان کی گانڈ بجانا شروع کر دی۔ پہلے پہل تو زرین خان کو کافی تکلیف ہوئی مگر پھر آہستہ آہستہ اسکو مزہ آنے لگا۔ وہ ہلکے ہلکے اپنی گانڈ کو ہلا رہی تھی جسکی وجہ سے کرنل کے دھکے اور بھی شدت کے ساتھ اسکی گانڈ کو چیرتے ہوئے لن کو اندر پہنچا رہے تھے۔ 

اب کرنل نے لن زرین خان کی گانڈ سے نکالا اور زرین خان کو سیدھا لیٹنے کو کہا۔ زرین خان کرنل کے بیڈ پر سیدھا لیٹ گئی اور لیٹتے ہی اپنی ٹانگیں کھول دیں۔ کرنل نے زرین خان کی چوت میں اپنی انگلی ڈال کر اندر چکنائی کا معائنہ کیا تو اب اسکی چوت قدرے خشک تھی۔ کرنل نے اپنا لن اسکی چوت پر سیٹ کیا اور ایک جاندار دھکے میں 9 انچ کا لن زرین خان کی پھدی میں اتار دیا۔ اور خود زرین خان کے اوپر جھک کر اسکے 38 سائز کے مموں کو دبانے لگا جبہکہ پیچھے سے اپنی گانڈ ہلا ہلا کر زرین خان کو چودنے لگا۔ زرین خان بھی کرنل کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اسکو پیار کر رہی تھی اور اس زبردست چدائی پر سسکیوں کے ذریعے اپنی خوشی اور مزے کا اظہار کر رہی تھی۔ کرنل وشال نے اب زرین خان کے 38 سائز کے ممے اپنے منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیے تھے۔ وہ زرین خان کے گہرے براون نپلز کو اپنے منہ میں لیکر چوستا اور پھر دانتوں میں لیکر کاٹتا۔ جس کی وجہ سے زرین خان کی اندر کی جنگلی عورت جاگ گئی تھی اور وہ اب اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر کرنل کا ساتھ دے رہی تھی۔ ساتھ ہی اسکی آوازوں میں بھی شدت پیدا ہوگئی تھی اور اسکے ہاتھ اب کرنل کی کمر پر اپنے ناخنوں کے نشان ڈال رہے تھے۔ کرنل کا لن بھی اب پوری رفتار کے ساتھ زرین خان کی پھدی کو چود رہا تھا۔ آخر کار کرنل کے لن نے پھولنا شروع کیا اور ساری منی جب لن کے اندر جمع ہوگئی تو کرنل وشال کے لن نے جھٹکوں کے ساتھ قطرہ قطرہ منی زرین خان کی چوت میں نکالنا شروع کر دی۔ گرم گرم منی چوت کو جیسے ہی ملی چوت نے بھی اپنی گرمی دکھانے کے لیے گرم پانی چھوڑ دیا۔ 

Quote






sexi video erwip sadi kholkarlund gaylatest sex scandal mmshot pics exbiigujrati sexy storiesxxx srilankangaand ka chedbangla story chotiaunty kathalu in teluguboor chodihusband swap sex storiessex with uncles wifedesi hot scandalspattaya ladyboy galleryaunties in biknimarathi sax storyexbii adult picsadult story desisimran sex storysex marathi storiesponstar picdesi baba sex storykamvasna story in hindigaram chudbur chodnamature aunty picshyd college girlsmarathi aunties hotsex stories with teluguindian sex stories in marathididi k chodamami ki mastidesi poendesi aunty navelsexy indian sareedesi river bathseductive porn storiesdps sex scandal mmssex chudai in hindinaked desi auntiesblu felmsdhon gudurdu sex storysxnxx sex stroriesincist comicssasur ji nesuhagraat se pehleblue flim 3xdesi girls exbiisex stories of preity zintastories in telugu scriptdoodh wali bhabiexbii glamorammavai otha kathaigalsavita hindi comichot stories in tamil languagetamil sex story tamil languagemaa aur betatelugu latest kathaludidi ki chutmaganai otha ammahindi sex stories hindi fontstamil dirty sex storyshakeela boob picssexi hindi kahaniyanshakila xxxindiannudeclubneha nair imagessrx storieshindi sex stories of bhabiBluefilmsixxxdatekal xnxxxiyutan ng pinoybhabhi ki choodaiandhra sex photosbahan ki sexdesi sex story in hindi fontsmallu aunty nudeinsest comic pornbhai behan ka sexonline sex comics in hindimallu nudkanea xxxarmpits of indian actresses picturesboob shaking danceबिना लण्ड के चूतका पानी छुड़ाना विडियोhindi antarvasna storisexi stori in urdunew mms scandal in indiatamanna sex storiesbengali hot house wifesaxy khanitamil bf storiesstories urdu sexschool desi sex