Click Here to Verify Your Membership
First Post Last Post
All In One وطن کا سپاہی

اب کرنل وشال زرین خان کے پہلو میں لیٹا داود کے بارے میں سوچ رہا تھا ، زرین خان کو چودتے ہوئے بھی کرنل کا دھیان داود کی طرف ہی تھا۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ داود اسکو دھوکہ دے گا۔ کرنل ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کے اسکے خفیہ موبائل پر بیل بجی۔ کرنل نے فوری موبائل اٹھایا اور آنے والی کال کو اٹینڈ کرتے ہوئے غراتے ہوئے بولا کرنل وشال شپیکنگ۔ واٹ از دی اپڈیٹ؟؟ آگے سے کہا گیا سر ایک بری خبر ہے۔۔۔ کرنل وشال نے بے پرواہی سے کہا بولو۔ آگے سے بولنے والے شخص نے بتایا کہ میجر دانش بھاٹیا سوسائٹی جامنگر کے قید خانے سے فرار ہو چکا ہے۔ قید خانے میں اسکی نگرانی پر مامور ایجینٹ رائے اور واسو کی لاش راہداری اور کنٹرول روم میں ملی ہے جبکہ کیپٹن سونیہا بھی مردہ حالت میں پائی گئی ہے۔ 

کرنل وشال اپنے دانت پیستا ہوا بولا اور کوئی بات؟؟؟ آگے سے بتایا گیا کہ میجر دانش نے داود اسمعیل کے گینگ کے جس آدمی سے فون پر بات کی تھی اسے اپنا تعارف ایجنٹ 35 کہ کر کروایا تھا۔ جبکہ داود گروپ کا ایجنٹ 35 اس وقت آئی ایس آئی کی قید میں ہے۔ یہ سن کر کرنل وشال نے اپنا فون دیوار پر دے مارا اور زور سے دھاڑا میجر دانش، یو فکڈ وِد می۔ آئی وِل کِل یو باسٹرڈ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ 

کرنل وشال کا جسم غصے سے کانپ رہا تھا وہ میجر دانش کی چالاکی پر بہت حیران تھا۔ جس نے نہ صرف اس قید خانے کی سیکیورٹی کو ناکام بنا دیا تھا جسکو آج تک کوئی قیدی نہیں توڑ سکا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس نے اپنی ایک عام سے فون کال کے ذریعے کرنل وشال کے رائٹ ہینڈ گینگ داود اسمعیل کے گینگ کا بھی صفایا کروا دیا تھا۔ اور وہ صفایا خود کرنل وشال نے کیا تھا۔ وہ اپنی اس حماقت پر اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔

اصل میں میجر دانش نے سونیہا جو کہ اصل میں انڈین آرمی میں کیپٹن کے عہدے پر تھی کی باتوں پر کبھی یقین کیا ہی نہیں تھا۔ اسے پورا یقین تھا کہ یہ سب اس سے پاکستان کے خفیہ راز اگلوانے کے لیے اپنے جسم کا استعمال کر رہی ہے۔ جب سونیہا نے میجر دانش کو کہا کہ تم اپنے ساتھیوں کو فون کرو تاکہ وہ ہماری مدد کر سکیں، تبھی میجر دانش کو یقین ہوگیا تھا کہ یہ میرے ساتھ ساتھ مزید لوگوں کو بھی پکڑوانا چاہتی ہے تاکہ میجر دانش کو چارے کے طور پر استعمال کر کے وہ اپنی واہ واہ کروا سکے۔ میجر دانش نے فورا حامی بھر لی تھی مگر سونیہا کے جانے کے بعد وہ سوچتا رہا کہ آخر انکو کیسے چکما دیا جائے؟؟ تبھی میجر دانش کے ذہن میں وہ دہشت گرد آیا جو کراچی بم بلاسٹ میں ملوث تھا اور لیاری سے 2 ماہ پہلے میجر دانش نے ہی اسے گرفتار کیا تھا۔ اور تفتیش کے دوران اس نے بتایا تھا کہ وہ داود اسمعیل کے گینگ کے لیے کام کرتا ہے اور اسکا کوڈ ورڈ ایجینٹ 35 ہے۔ 

یہیں سے میجر دانش نے سوچا کہ چلو اپنی جان بچے یا نہ بچے مگر اس گینگ کا تو صفایا ہونا چاہیے تاکہ یہ لوگ مزید معصوم لوگوں کی جان نہ لے سکیں۔ اسی سوچ کے ساتھ میجر دانش نے ایک نمبر پر فون کیا، یہ نمبر بھی اسے ایجینٹ 35 سے ہی ملا تھا۔ میجر جانتا تھا کہ جیسے ہی ان لوگوں کو شک ہوگیا کہ یہ گینگ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے لیے بھی کام کرتا ہے تو کرنل وشال خود ہی اس گینگ کا خاتمہ کروا دے گا۔۔ ۔ مگر میجر دانش یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ گروہ کرنل وشال کے لیے کتنا اہم تھا۔ یوں میجر دانش کی اس چال سے پاکستان کا تو فائدہ ہوا ہی تھا مگر ساتھ میں کرنل وشال پر بھی کاری ضرب لگی تھی۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا ایک طاقتور بازو کاٹ چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب وہ پاگل کتے کی طرح میجر دانش کو ڈھونڈ رہا تھا۔ 

================================================== =====

میجر دانش کے کپڑوں میں کچھ ہتھیار موجود تھے جن سے وہ ان لوگوں کا مقابلہ کر سکتا تھا، مگر مسئلہ یہ تھا کہ تینوں مسلح لوگ مکمل طور پر چوکس کھڑے تھے اور وہ میجر دانش کی طرف سے کسی بھی چالاکی پر گولی چلانے سے دریغ نہ کرتے۔ ان مین سے ایک آدمی جو صحت میں ان سب سے تگڑا تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ موٹا تھا تو غلط نہ ہوگا اور ہلکی داڑھی اور سر پر رکھی پگڑی سے سکھ لگ رہا تھا، وہ غراتے ہوئے بولا کون ہو تم اور کیا نام ہے تمہارا؟؟؟ اب میجر دانش یہاں پر ٹریفک کانسٹیبل افتخار والی کہانی نہیں سنا سکتا تھا کیونکہ وہ قید خانے سے بھاگا تھا اور اب کسی کو یہ بتانا کہ وہ پاکستانی ہے اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ میجر دانش نے فورا ہی اپنے ذہن میں ایک کہانی بنا لی تھی۔ اس نے فورا بتایا کہ اسکا نام سنجیو کُمار ہے۔ 2 مہینے پہلے اسے ایک انڈر ورلڈ گینگ نے 2 کروڑ کی رقم کے لیے اغوا کیا تھا مگر اس رقم کا بندوبست نہیں ہوسکا تو انہوں نے سنجیو کمار یعنی میجر دانش کو قیدی بنا لیا تھا اور آج وہ کسی طرح قید سے آزاد ہوکر بھاگا ہے۔

ابھی میجر دانش کی بات مکمل ہی ہوئی تھی کہ روڈ سے آنے والی گاڑی بھی اسی جگہ پر رک گئی اور کچھ دیر بعد روڈ سے نیچے اتری اور جھاڑوں کی طرف آنے لگی۔ اب گاڑی کی لائٹس میجر دانش کے اوپر پڑ رہی تھی۔ میجر دانش نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسکی ہلکی سی جنبش پر گن میں گولی چلانے سے گریز نہیں کریں گے۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ ایک قید خانے سے بھاگا تو اب معلوم نہیں یہ کون لوگ ہیں جو اسکے راستے میں آگئے۔ اتنے میں میجر دانش کو گاڑی کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ مسلح لوگوں میں موٹی توند والا گاڑی کی طرف متوجہ ہوا اور بولا ہاں کیا خبر ہے وہاں کی؟؟ میجر دانش کو اپنے پیچھے قدموں کی آواز آئی جو اسی کی طرف آرہے تھے۔پھر کوئی میجر دانش سے کچھ فاصلے سے گزرتا ہوا انہی 3 مسلح لوگوں کے پاس آیا۔ 

میجر دانش نے چہرہ اوپر ہلکا سا گھما کر آنے والے کی طرف دیکھا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آنے والا اصل میں "والا" نہیں بلکہ "والی" ہے۔ یہ ایک جوان لڑکی تھی جس نے سرخ رنگ کی ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی۔ آنکھوں پر ہلکے براون رنگ کا چشمہ تھا اونچی ہیل والے سینڈل اور بازو میں ایک چھوٹے سائز کا لیڈیز بیگ پکڑ رکھا تھاچھوٹے بال کندھوں سے کچھ نیچے کمر کو چھونے کی کوشش کر رہے تھے۔ انڈین کلچر کے مطابق ساڑھی کا بلاوز تھوڑا چھوٹا تھا جس میں اسکے پیٹ کا کچھ حصہ واضح نظر آرہا تھا۔ 

آنے والی لڑکی نے ، جسکی عمر لگ بھگ 20 سال ہوگی اور قد 5 فٹ 6 انچ کے قریب رہا ہوگا ہلکا سا چشمہ ٹیڑھا کر کے میجر دانش کی طرف دیکھا اور مسلح شخص کی بات کا جواب دینے کی بجائے میجر دانش سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی تم کہاں سے آئے ہو؟؟؟ اس سے پہلے کہ میجر دانش کچھ بولتا مسلح آدمی نے دوبارہ اس سے پوچھا اس کو چھوڑو جس کام سے تمہیں بھیجا تھا اسکا بتاو کیا بنا؟؟ تو لڑکی بولی ایک حیران کن خبر ہے۔ وہ وہاں سے فرار ہوچکا ہے، گیٹ آدھا کھلا تھا اور گیٹ پر گن مین بے ہوش پڑا تھا، جبکہ اندر کافی دور کچھ مسلح افراد نظر آئے جو شاید کسی کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ہو نہ ہو وہ وہاں سے بھاگ چکا ہے۔۔۔۔ اب مسلح شخص نے دوبارہ سے میجر دانش کی طرف دیکھا اور بولا ہاں تو سنجیو کمار صاحب، آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں اور اس گینگ کی قید سے کیسے بھاگے؟؟؟ اس پر اس لڑکی نے دوبارہ میجر کی طرف دیکھا اور مسلح شخص کو مخاطب کر کے بولی یہ کس طرف سے آیا ہے؟؟؟ مسلح شخص نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ یہ اسی سائیڈ سے آیا ہے جہاں سے تم آرہی ہو۔۔۔ یہ سن کر اس لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور وہ بولی کہیں تم ہی تو میجر دانش نہیں ہو؟؟؟ لڑکی کے منہ سے اپنا نام سن کر میجر دانش حیران رہ گیا اور پھر بولا نہیں میں کسی میجر دانش کو نہیں جانتا۔ میرا نام سنجیو کُمار ہے اور میں ممبئی شہر کا رہنے والا ہوں۔ میرا وہاں کپڑے کا کاروبار ہے۔ 

میجر دانش نے اب غور کیا تو صرف لڑکی ہی نہیں بلکہ تینوں مسلح افراد بھی مسکرا رہے تھے اور حیرت انگیز طور پر اب انہوں نے اپنی گن کا رخ بھی زمین کی طرف کر دیا تھا اور وہ بہت ریلیکس کھڑے تھے۔ میجر دانش نے سوچا موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے ، اس نے ایک ہی لمحے میں اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسمیں سے ایک چھوٹے سائز کا پسٹل نکالا اور ایک ہی چھلانگ لگا کر لڑکی کے سر پر پہنچ گیا اس نے اپنی پسٹل لڑکی کی گردن پر رکھ دی تھی اور اسکے گورے پیٹ کے گرد ہاٹھ ڈال کر اسکو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔ میجر دانش چلایا کہ تم سب اپنی اپنی گن نیچے پھینک دو نہیں تو تمہاری یہ ساتھی اپنی جان سے جائے گی۔ یہ کہ کر میجر دانش نے کاونٹنگ شروع کر دی، 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر یہ کیا۔۔۔۔ وہ تینوں مسلح لوگ ڈرنے کی بجائے ابھی بھی میجر دانش کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور لڑکی کی بھی ہنسی نکل رہی تھی۔ 

میجر دانش ایک بار پھر چلایا مگر اس بار مسلح شخص نے میجر دانش کو مخاطب کیا اور بولا میجر صاحب کپڑے کا کاروبار کرنے والا اس پھرتی سے کبھی حملہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہ کر اسنے اپنی گن نیچے رکھی اور میجر کی طرف ہاتھ پھیلا کر بڑھنے لگا، میجر دانش اس صورتحال پر حیران تھا، اس نے ایک بار پھر اپنی پسٹل لڑکی کی گردن پر رکھی اور دھمکی آمیز لہجے میں بولا ایک قدم بھی آگے بڑھا تو میں گولی چلا دوں گا۔ مگر لڑکی ابھی بھی مسکرا رہی تھی۔ اب وہ مسلح شخص سیدھا کھڑا ہوا اور میجر دانش کو سلیوٹ کیا اور بولا سر تانیہ کو تو چھوڑ دیں یہ آپکو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی، اور جہاں سے آپ بھاگے ہیں یہ ابھی وہیں سے ہوکر آرہی ہے اور ہمیں حیرت ہے کہ آپ کرنل وشال کے اس قید خانے سے کیسے زندہ سلامت بچ کر نکل آئے۔۔۔آج تک اسکے قید خانے سے کوئی بچ کر نہیں نکل سکا۔ میجر دانش نے اس بار حیران ہوکر پوچھا تم کون ہو؟؟

Quote

تو اس شخص نے اپنے سر سے پگڑی اتار دی اور بولا سر میرا نام امجد ہے، یہ رانا کاشف، اور یہ سرمد ہے۔ اور لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا اور یہ میری بہن تانیہ ہے۔ ہمارا تعلق لشکر طیبہ سے ہے۔ ہمیں میجر جنرل اشفاق نے ٹاسک دیا تھا کہ انکا ایک میجر کرنل وشال کی قید میں ہے اسکو وہاں سے رہا کروانا ہے۔ ہم نے تانیہ کو گاڑی پر آگے بھیجا تھا کہ وہ اطراف کا جائزہ لے کر واپس آکر ہمیں وہاں کے حالات سے آگاہ کرے، اتنے میں آپ مل گئے، ہم سمجھ تو گئے تھے کہ آپ ہی میجر دانش ہونگے کیونکہ یہ بہت ویران علاقہ ہے یہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں۔ اور ایسی جگہ پر آپکا آنا اور آپکی یہ حالت صاف بتا رہی ہے کہ آپ کسی قید خانے سے بھاگے ہیں۔ 

اپنی بات مکمل کر کے امجد کچھ دیر خاموش ہوا اور پھر حیران کھڑے دانش کو دیکھا جو یہ سوچ رہا تھا کہ انکی بات پر یقین کرنا چاہیے یا نہیں، پھر امجد بولا سر اب تو تانیہ کو چھوڑ دیں اب تو ہم نے اپنی گن بھی سائیڈ پر رکھ دی ہیں۔ اب میجر دانش کچھ سوچتا ہوا تانیہ سے پیچھے ہٹ گیا مگر اسکی انگلی ابھی تک پسٹل کے ٹریگر پر تھی تاکہ کسی بھی حالت میں وہ فوری طور پر اپنی حفاظت کی غرض سے گولی چلا سکے۔ جیسے ہی میجر دانش نے تانیہ کو چھوڑا امجد باقی 2 افراد رانا کاشف اور سرمد سے مخاطب ہوا چلو اب جلدی نکلیں ادھر سے کرنل وشال کے لوگ اب پاگل کتوں کی طرح میجر کو ڈھونڈیں گے وہ کسی بھی وقت ادھر پہنچ سکتے ہیں۔ یہ کہتے ہی سب نے اپنی اپنی گن دوبارہ سے اٹھائی اور گاڑی کی طرف بھاگے۔ 

میجر دانش کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا وہ بھی گاڑی کی طرف بھاگا، امجد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا جبکہ تانیہ اسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی رانا کاشف اور سرمد پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے میجر دانش بھی انکے ساتھ بیٹھ گیا اور گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی وہاں سے نکل گئی۔ 

================================================== ====

صبح ہونے پر نادیہ کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا وہ ابھی تک بنا کپڑوں کے لیٹی تھی اور اسکے پہلو میں عمیر بھی بنا کپڑوں کے سو رہا تھا۔ نادیہ کمبل سے باہر نکلی اور اپنے کپڑے پہننے لگی۔ رات کو ہونے والی چدائی کو سوچ کر اسکی آنکھوں میں ایک مستی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ کپڑے پہننے کے بعد اس نے عمیر کو بھی اٹھنے کو کہا اور خود واش روم میں گھس گئی جہاں گرم گرم پانی سے اس نے غسل کیا اور اسکے بعد عمیر کو بھی غسل کرنے کو کہا۔ غسل کرنے کے بعد نادیہ دوسرے کمرے میں جا کر پنکی اور عفت کو جگانے چلی گئی جو ابھی تک سو رہی تھیں۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہی تھا نادیہ سیدھی اندر گئی اور پہلے پنکی اور پھر عفت کو اٹھایا اور فورا تیار ہونے کو کہا اور بتایا کہ آج ہم پترایاٹا جائیں گے اور چئیر لفٹ کی سیر بھی کریں گے لہذا جلدی جلدی تیار ہوجاو دونوں۔ یہ کہ کر وہ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی اور تیار ہونے لگی۔ پنکی بھی فورا اٹھی اور نہانے گھس گئی جبکہ عفت ایسے ہی بیڈ پر لیٹی رہی۔ 

اسکا کہیں بھی جانے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔ دانش سے دوری اسکو ایک پل بھی سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔ اوپر سے اتنے دن گزرنے کے باوجود ابھی تک دانش کی کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عفت مری آکر اپنے آپ کو مجرم تصور کر رہی تھی۔ ایک عورت جسکا شوہر شادی کی رات سے ہی لاپتہ ہے وہ مری کی سیر کر رہی ہے یہ سوچ کر ہی عفت کو محسوس ہونے لگا کہ وہ اپنے شوہر سے غداری کر رہی ہے۔ عفت انہی سوچوں میں گم تھی کہ پنکی تیار ہوگئی اور عفت کو دیکھ کر بولی بھابھی آپ ابھی تک ایسے ہی بیٹھی ہیں چلنے کا ارادہ نہیں کیا؟؟ اس پر عفت بولی نہیں یار میرا دل نہیں کر رہا کہیں بھی جانے کو۔ دانش کی یاد آرہی ہے۔ بھائی کا نام سن کر ایک لمحے کو پنکی بھی اداس ہوئی مگر پھر عفت کو حوصلہ دیتے ہوئے بولی بھابھی فکر نہ کریں، بھائی کا تو کام ہی یہ ہے آپکو تو پتا ہے وہ ایک فوجی ہیں اور انہیں اکثر ایسے مشن پر روانہ ہونا پڑتاہے کہ کئی کئی دن انکی خبر نہیں آتی۔ آپ فکر نہ کریں اور چلنے کی تیاری کریں۔ 

اتنے میں نادیہ نے آکر ناشتہ لگنے کی خبر دی ، عفت منہ دھو کر پنکی کے ساتھ ناشتے کی ٹیبل پر پہنچی تو نادیہ اور عمیر فل تیاری کر چکے تھے اور پنکی بھی تیار تھی، ان دونوں نے عفت کو ایسی حالت میں دیکھا تو پوچھا بھابھی آپ ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئیں؟؟ عفت بولی تم لوگ جاو میرا موڈ نہیں ہے ۔ میں یہیں رکوں گی۔ یہ سن کر نادیہ نے وجہ پوچھنی چاہی مگر عمیر نے منع کر دیا اور بولا جیسے آپکی مرضی بھابھی لیکن اگر آپ چلیں گی تو ہمیں خوشی ہوگی۔ عفت نے عمیر کی طرف دیکھا مگر بولی کچھ نہیں۔ اسکی آنکھوں کی اداسی نے سب کچھ کہ دیا تھا اور عمیر سمجھدار تھا وہ بھی سمجھ گیا کہ عفت دانش کے بغیر اچھا فیل نہیں کر رہی اور نادیہ اور عمیر کو اکٹھے دیکھ کر بھی ہو سکتا ہے اسکو دانش کی کمی محسوس ہو۔ اسی لیے عمیر نے اس پر دباو نہیں ڈالا اور ناشتے سے فارغ ہوکر نادیہ اور پنکی کے ساتھ نکل گیا جاتے ہوئے وہ عفت کو تاکید کر گیا کہ اپنا خیال رکھے اور اگر کسی بھی قسم کی ضرورت ہو تو بلا جھجک عمیر کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھ کر فون کر دے وہ فورا واپس آجائے گا۔ یہ سن کر عفت نے پیار سے عمیر کے سر پر ہلکی سی چماٹ ماری اور بولی نہیں تم لوگ انجوائے کرو میں یہاں بالکل ٹھیک ہوں اور اگر کسی چیز کی ضرور ہوئی بھی تو میجر کی بیوی ہوں یہاں فل پروٹوکول لوں گی۔ یہ سن کر عفت اور عمیر دونوں ہی ہنس پڑے اور پنکی بھی انکے ساتھ ہنسنے لگی جبکہ نادیہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار تھے۔

کچھ دیر بعد تینوں سیر کرنے کے لیے نکل چکے تھے جبکہ عفت اپنے ہٹ میں ہی جوجود رہی۔ کچھ دیر فارغ بیٹھ بیٹھ کر جب وہ بور ہوگئی تو اٹھ کر باہر نکل آئی اور ہٹ کی بیک سائیڈ پر موجود درختوں کے درمیان چلتی ہوئی ہٹ سے تھوڑا دو نکل آئی۔ یہاں پہاڑ کی ہلکی سی ڈھلان تھی اور ایک مناسب جگہ دیکھر کر عفت بیٹھ گئی۔ یہاں سے بہت خوبصورت نظارہ مل رہا تھا۔ عفت اس نظارے کو انجوائے کرنے لگی ، ہلکی ہلکی ٹھنڈ کی وجہ سے عفت نے ایک شال بھی اوڑھ رکھی تھی۔ جبکہ دوسری طرف نادیہ اور عمیر چیر لفٹ پر بیٹھے انجوائے کر رہے تھے اور انسے پچھلی چئیر پر پنکی اکیلی بیٹھی تھی۔ پنکی نے بلیو کلر کی جینز پہن رکھی تھی اسکے ساتھ ایک ٹائٹ ٹی شرٹ تھی اور اوپر سے ایک براون کلر کا موٹا اور گرم اپر پہن رکھا تھا۔ باولوں کو اکٹھا کر کے ایک پونی ڈالی ہوئی اور لانگ بوٹ پہنے پنکی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ گورا چہرہ اور پنک پنک گالوں والی پنکی کو اب تک بہت سے لڑکے دیکھ کر دیکھتے ہی رہ گئے تھے، جو بھی دیکھتا وہ اپنی نظریں ہٹانا بھول جاتا۔ چئیر لفٹ سے اترتے ہوئے عمیر نے پنکی کو سہارا دیا اور پھر تینوں کیبل کار پر بیٹھ کر نیو مری پہنچ گئے اور وہاں برف سے کھیلنے لگے۔ وہاں کچھ اور فیملیز بھی آئی ہوئی تھیں اور کچھ کالج کے گروپ بھی تھے۔ 

نادیہ عمیر کے ساتھ اکیلے اس جگہ پر انجوائے کرنا چاہتی تھی مگر پنکی کی وجہ سے وہ کچھ اکھڑی اکھڑی تھی۔ لیکن پھر اچانک ہی ایک لڑکی نے پنکی کو دیکھ کر چیخ ماری اور بھاگتی ہوئی ہاتھ پھیلا کر پنکی کی طرف آئی، پنکی نے اسے دیکھا تو وہ بھی خوشی سے نہال ہوگئی اور آنے والی لڑکی سے گلے ملنے لگی۔ پنکی نے گلے ملتے ہی اس لڑکی سے پوچھا کہ تم یہاں کیسے؟؟؟ تو اس نے بتایا تم بھول گئی، تمہیں بتایا تو تھا کہ ہم لوگ بھی مری آئیں گے۔ مما پاپا اور بھائی کے ساتھ کل رات ہی میں یہاں پہنچی ہوں۔

یہ پنکی کی یونیورسٹی کی دوست عالیہ تھی۔ ان دونوں کی بہت اچھی دوستی تھی اور اس دوستی کی اصل وجہ عالیہ کا بھائی وجاہت تھا جسے سب پیار سے وجی کہ کر بلاتے تھے۔ وجی پنکی کو پسند کرتا تھا اور دونوں کی بہت اچھی دوستی تھی۔ پنکی بھی وجی کو پسند کرتی تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر ابھی تک وجی نے پنکی کی امی سے کوئی بات نہیں کی تھی اس بارے میں۔ عالیہ اور پنکی ابھی باتیں کرنے میں مصروف تھے کہ وجی بھی وہاں پہنچ گیا اور پنکی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا، اس نے بھی پنکی سے ہاتھ ملایا اور بولا تم تو آج بڑی پیاری لگ رہی ہو۔۔۔ پنکی نے اٹھلاتے ہوئے کہا یہ کونسا نئی بات ہے، میں تو ہمیشہ ہی پیاری لگتی ہوں۔ یہ سن کر عالیہ بھی ہنسنے لگی۔ پھر پنکی نے دونوں کا تعارف عمیر اور نادیہ سے کروایا۔ 

عالیہ نے عمیر سے اجازت لی کہ وہ پنکی کو اپنے ساتھ لیجائے تو عمیر نے منع کرنا چاہا مگر نادیہ نے فورا ہی اجازت دے دی۔ وہ تو پہلے ہی پنکی کی موجودگی سے پریشان تھی کیونکہ ہنی مون ٹرپ پر بھلا بہن کا کیا کام بھائی کے ساتھ ۔ بھابھی سے اجازت ملتے ہی پنکی عالیہ کے ساتھ چل پڑی اور عمیر کو کہ دیا کہ وہ بھابھی کے ساتھ ہی واپس چلے جائیں وہ انہی لوگوں کے ساتھ واپس مری پہنچ جائے گی۔ نادیہ نے بھی عمیر کا بازو پکڑا اور دوسری سائیڈ پر چل دی جہاں رش قدرے کم تھا۔ وہ تنہائی میں عمیر کے ساتھ بیٹھ کر اس رومانٹک موسم کو انجوائے کرنا چاہتی تھی۔ ویسے بھی کراچی والوں کے لیے مری کا یہ کم ٹھنڈا موسم بھی بہت ٹھنڈا تھا۔

Quote

پنکی اب عالیہ اور وجی کے ساتھ سیر کرنے لگی۔ پنکی کے دائیں طرف عالیہ جبکہ بائیں طرف وجی تھا جو وقفے وقفے سے پنکی کو چھیڑ رہا تھا مگر پنکی اسکی ان حرکتوں کا برا نہیں منا رہی تھی۔ کیونکہ وہ بھی وجی کو پسند کرتی تھی۔ پنکی نے دوپہر ہونے پر وجی اور عالیہ کے ممی ڈیڈی کے ساتھ ہی کھانا کھایا اور پھر واپس مری آگئے۔ شام 5 بجے مری میں ٹھنڈ کا اضافہ ہوگیا تھا مگر پنکی اس موسم کو انجوائے کرنا چاہتی تھی۔عالیہ کے ممی ڈیڈی جی پی او چوک پر موجود ہوٹل میں اپنے کمرے میں چلے گئے جبکہ پنکی عالیہ اور وجی مال روڈ پر موسم انجوائے کرنے اور ونڈو شاپنگ کرنے چلے گئے۔ اب پنکی اور وجی ایکدوسرے کا ہاتھ پکڑے مال روڈ پر پھر رہے تھے۔ آنے جانے والے بھونڈ قسم کے لڑکے حسرت بھری نگاہوں سے وجی کو دیکھتے اور اسکی قسمت پر حسد کرتے جو اتنی خوبصورت لڑکی کے ساتھ پھر رہا تھا۔ 

تینوں کافی دیر تک مال روڈ پر پھرتے رہے اور تینوں نے ملکر آئسکریم بھی کھائی پھر وجی عالیہ اور پنکی کو لیکر موشن رائیڈ کی طرف لے گیا۔ عالیہ نے تو موشن رائیڈ پر بیٹھنے سے صاف انکار کر دیا جبکہ پنکی کے چہرے پر بھی تھوڑے خوف کے آثار تھے مگر وجی کے اسرار پر وہ اندر چلی گئی اور چئیر پر بیٹھ کر سیٹ بیلٹ باندھ لی۔ پنکی نے چئیر پر آرم سپورٹ کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ مووی شروع ہوئی اور چئیر میں بھی حرکت شروع ہوگئی۔ شروعات میں تو پنکی حوصلہ کر کے بیٹھی رہی مگر جیسے ہی سامنے چلنے والی مووی میں ٹرین پٹری سے نیچے گری تو پنکی کو محسوس ہوا کہ جیسے اسکی اپنی چئیر بھی ہوا میں اڑنے لگی اور وہ ابھی نیچے گر جائے گی، اس نے فورا ہی سپورٹ کو چھوڑ کر ساتھ والی چئیر پر بیٹھے وجی کے کندھوں پر ہاتھ رکھ لیے اور اسے مضبوطی سے پکڑ لیا، 

پنکی کی یہ حالات دیکھ کر وجی ہنسنے لگا جبکہ پنکی کی چیخیں ہی ختم نہیں ہورہی تھیں، وہ تو اب سامنے لگی سکرین پر دیکھ ہی نہیں رہی تھی جبکہ اسکی چئیر اب بھی کبھی اسکو ہوا میں اڑاتی تو کبھی پیچھے کی طرف گراتی مگر اس نے وجی کو نہیں چھوڑا اور مضبوطی سے اسے پکڑ کر بیٹھی رہی۔ وجی نے بھی ایک ہاتھ پنکی کی کمر کے گرد لپیٹ لیا۔ اور اسے مضبوطی سے پکڑ کر حوصلہ دیکھنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں مووی ختم ہوگئی اور وجی نے سیٹ بیلٹ کھول دی۔ مگر پنکی ابھی تک ڈری ہوئی تھی اور وہ وجی کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی، وجی نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسکی سیٹ بیلٹ کھولی اور اسکو نیچے اترنے میں مدد دی۔ پنکی کانپتی ٹانگوں کے ساتھ نیچے اتری اور وجی کے سینے پر تھپڑ مارتے ہوئے بولی میں نے کہا تھا نہ مجھے نہیں بیٹھنا اس پر مگر تم نے میری سنی ہی نہیں۔ وجی نے یہ سن کر ایک قہقہ لگایا اور بولا ارے مجھے کیا معلوم تھا کہ میری پنکی اتنی ڈرپوک ہے۔ یہ کہ کر اسنے پھر سے اپنا بازو اسکے کندھے پر رکھ کر اسے اپنے سے قریب کر لیا۔ 

اب رات کے 9 بجنے والے تھے۔ اس دوران عمیر نے 2 بار پنکی کو کال کر کے خیریت دریافت کی اور پنکی نے عمیر کو مطمئن کیا کہ آپ فکر نہ کریں میں بالکل ٹھیک ہوں۔ اب عالیہ وجی اور پنکی واپس اپنے ہوٹل میں آچکے تھے جہاں اسکے ممی ڈیڈی آرام کرنے کے بعد مال روڈ کی سیر کرنے نکل گئے تھے۔ اپنے کمرے میں آتے ہی عالیہ بیڈ پر ڈھے گئی۔ ایک دن کا سفر اور آج سارے دن کی سیر نے اسکو تھکا دیا تھا۔ جبکہ پنکی کی تھکاوٹ وجی کے ساتھ نے ختم کر دی تھی۔ اب پنکی اور وجی دونوں ایکدوسرے کے ساتھ صوفے پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ جبکہ عالیہ بیڈ پر آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ شاید اسکی آنکھ لگ گئی تھی۔

وجی نے پنکی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے دونوں ہاتھ میں لیکر اس پر پیار کرنے لگا جبکہ پنکی بھی وجی کے ساتھ بیٹھی اور زیادہ پنک ہوگئی تھی۔ شرم سے اسکے ہلکے گلابی گال اب پہلے سے زیادہ گلابی ہوچکے تھے۔ وجی نے پنکی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اوپر اٹھا کر اپنے ہونٹوں کے قریب لا کر اسکے نرم نرم ہاتھ پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اور اپنا ایک بازو پنکی کے کندھے پر رکھ کر اسے اپنے قریب کر لیا۔ پنکی نے بھی اپنا سر وجی کے کندھے پر رکھ دیا۔ بہت عرصے بعد اسے اپنے محبوب کے اتنا قریب ہونے کا موقع ملا تھا۔ جس سے پنکی بہت خوش تھی۔ 

پنکی کے ہاتھ پر پیار کرتے ہوئے وجی نے بہت ہلکی آواز میں پنکی کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے آئی لو یو جان کہا، جس پر پنکی تھوڑا سا کسمسائی اور جواب میں آئی لو یو ٹو وجی کہا۔ وجی نے پنکی کے چہرے کے نیچے اپنا ہاتھ رکھ کر اسکا چہرہ اوپر اٹھایا اور اسکی طرف پیار سے دیکھنے لگا۔ وجی کو اپنی جانب یوں دیکھتے ہوئے پنکی شرم سے لال ہوگئی اور اپنی نظریں جھکا لیں۔ جب کہ وجی پنکی کی خوبصورتی پر مرا جا رہا تھا۔ وہ اپنی قسمت پر رشک کر رہا تھا۔ یوںہی پنکی کو دیکھتے ہوئے وہ تھوڑا سا آگے جھکا اور پنکی کے نرم گلابی ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اپنے ہونٹوں پر وجی کے ہونٹوں کا لمس پاتے ہی پنکی کو ایک جھٹکا لگا اور وہ پیچھے ہوگئی اور وجی کو منع کیا وجی پلیز ابھی یہ سب ٹھیک نہیں۔ 

اس پر وجی بولا کہ جان تم اتنی پیاری لگ رہی ہو کہ مجھ سے رہا نہین گیا، تمہارے یہ نرم گلابی ہونٹ مجھے اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور تمہارا یہ خوبصورت چہرہ چاند کو بھی شرما رہا ہے ۔۔۔ اپنی تعریف سن کر پنکی کے چہرے پر خوشی اور شرم کے ملے جلے تاثرات تھے جس نے 21 سالہ پنکی کی خوبصورتی میں اور اضافہ کر دیا تھا۔ کہتے ہیں عورت کی شرم اور حیا ہی اسکا اصل حسن ہوتا ہے۔ اور یہ شرم و حیا جب پنکی جیسی خوبصورت لڑکی کے چہرے پر ہو تو اسکے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وجی بار بار پنکی کو اپنے قریب کر رہا تھا۔ انکے درمیان کوئی جسمانی تعلق نہیں تھا مگر آج وجی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ پنکی کو اپنے سینے سے لگا کر بہت سارا پیار کرے۔ 

وجی نے ایک بار پھر پنکی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے، اس بار پنکی نے بھی وجی کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں کو گولائی میں گھماتے ہوئے ہلکے سے چوم لیا جس پر وجی بہت خوش ہوا مگر پھر پنکی فورا ہی صوفے سے کھڑی ہوگئی اور وجی کہ کہنے لگی کہ وہ اسے آرمی ہٹس میں چھوڑ آئے وہاں اسکی بھابھی اکیلی ہونگی ۔ وجی اپنی جگہ سے کھڑا ہوکر پنکی کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور سر تا پا پنکی کا جائزہ لینے لگا، اس نے جیسے پنکی کی بات سنی ہی نہ تھی۔ پنکی کمرے میں آکر اپنا گرم کوٹ اتار چکی تھی اب وہ ٹائٹ ٹی شرٹ اور جینز پہنے وجی کے سامنے کھڑی تھی۔ جس سے پنکی کے جسم کے ابھار بہت واضح ہورہے تھے۔ 

Quote

پنکی کے 34 سائز کے ممے ٹی شرٹ میں پھنسے ہوئے تھے اور اسکی 32 کی گانڈ جینز میں بہت واضح تھی۔ پنکی نہ صرف خوبصورت چہرے کی مالک تھی بلکہ اسکا نسوانی حسن بھی دیکھنے لائق تھا۔ وجی ایک بار پھر پنکی کے قریب آیا اور اپنا ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹ کر اسکو اپنے قریب کر لیا۔ پنکی بھی بغیر کوئی مزاحمت کیے اسکے قریب آگئی مگر اسکی آنکھیں جھکی ہوئی تھی، پنکی کے 34 سائز کے گول ممے وجی کے سینے کو چھو رہے تھے، وجی نے پنکی کا چہر اوپر اٹھایا اور دوبارہ سے اپنے ہونٹ پنکی کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ اس بار پنکی نے وجی کا ساتھ دینا شروع کیا تو وجی کا حوصلہ بڑھا اور اس نے پنکی اور اور بھی زیادہ مظبوطی کے ساتھ اپنے ساتھ لگا لیا اور پنکی کے خوبصورت گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ پنکی نے بھی اپنا ایک ہاتھ وجی کی گردن پر رکھا اور اسکے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ دونوں ایکدوسرے کے ہونٹوں سے رس پی رہے تھے۔ پنکی کے لیے یہ سب کچھ بالکل نیا تھا اس لیے اسے اپنے ہونٹوں پر ایک مرد کے ہونٹوں کا لمس بہت پیارا لگ رہا تھا۔ 

کچھ دیر ہونٹ چوسنے کے بعد اب وجی کے ہونٹ پنکی کی صراحی دار گردن کو چوم رہے تھے اور پنکی اپنا چہرہ اوپر کیے اپنی گردن پر وجی کے ہونٹوں کے گرم لمس کو محسوس کر کے اپنے ہوش گنوا رہی تھی۔ وجی کا ہاتھ پنکی کی کمر سے نیچے سرکتا ہوا اسکے چوتڑوں پر آکر رکا تھا۔ اور اب ہلکے ہلکے اسکے چوتڑوں کو دبا رہا تھا۔ پنکی نے اپنے ایک ہاتھ سے وجی کا ہاتھ اپنے چوتڑوں سے ہٹانا چاہا مگر وجی نے پہلے سے زیادہ مضبوطی سے اسکے ایک سائیڈ کے چوتڑ کو پکڑ کر دبا دیا جس سے پنکی کے منہ سے ایک سسکی نکلی۔ اب وجی پنکی کی گردن سے ہوتا ہوا اسکے سینے تک اگیا تھا اور اپنے ہونٹوں سے پنکی کے خوبصورت ملائی جیسے سفید سینے پر پیار کر رہا تھا۔ جبکہ اسکا دوسرا ہاتھ ابھی تک پنکی کے چوتڑوں پر تھا۔ پنکی نے اپنے ایک ہاتھ سے اسکے بالوں میں پیار کرنا شروع کر دیا تھا جبکہ وجی نے اپنا دوسرا ہاتھ پنکی کے کولہے پر رکھ دیا اور آہستہ آہستہ اسکا ہاتھ اوپر کی طرف سرکتا ہوا اسکے پیٹ پر آگیا۔ پیٹ سے ہوتا ہوا اسکا ہاتھ مموں کے قریب آیا تو پنکی نے فورا ہی وجی کو منع کیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر مزید اوپر جانے سے روک لیا۔ 

وجی نے بھی زیادہ ضد نہیں کی اور اپنا ہاتھ پنکی کے مموں سے کچھ نیچے روک لیا مگر اب اس نے اپنے ہونٹ دوبارہ سے پنکی کے ہونٹوں پر رکھ دیے تھے اور پنکی اب پہلے سے زیادہ شدت سے وجی کے ہونٹوں کو چوس رہی تھی۔ یہاں تک کہ اب وجی کی زبان پنکی کے منہ کے اندر پنکی کی زبان کو چھو رہی تھی اور پنکی بیچ بیچ میں اپنا منہ بند کر کے وجی کی زبان کو بھی چوسنے لگی۔ دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ عالیہ سوئی نہیں تھی، بلکہ تھکاوٹ کی وجہ سے آنکھیں بند کیے لیٹے تھی، ہونٹ چوسنے سے پیدا ہونے والی آوازوں کو سن کر عالیہ نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو اسکا بھائی اسکی بیسٹ فرینڈ کے ہونٹ چوسنے میں مصروف تھا اور اسکی فرینڈ بھی اسکے بھائی کے ہونٹوں کا فل مزہ لے رہی تھی، یہ دیکھ کر عالیہ ہولے سے مسکرائی اور پھر آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی۔ وجی نے ایک بار پھر سے حوصلہ کیا اور اپنا ہاتھ پنکی کی شرٹ کے اوپر سے ہی اسکے گول اور باہر کو نکلے ہوئے ممے پر رکھ دیا۔ اس بار وہ اپنا ہاتھ پنکی کے مموں پر رکھنے میں کامیاب تو ہوگیا اور ہولے سے اسکے بائیں ممے کو دبا بھی دیا مگر ایک بار پھر پنکی نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسکے ہاتھ کو اپنے مموں سے ہٹا دیا مگر اسکے ہونٹوں کوچوستی رہی۔ وجی نے اسکے کسے ہوئے ٹائٹ مموں کا لمس محسوس کر لیا تھا جسکی وجہ سے اسکی پینٹ کے اندر اسکے لن نے سر اٹھا کر پنکی کی چوت کو سلام کیا تھا۔ پنکی کو بھی اپنی چوت پر اب وجی کے لن کا ابھار محسوس ہونے لگا۔ 

وجی کی کسنگ میں شدت آرہی تھی کہ اچانک ہی پنکی نے اپنے ہونٹوں کو وجی کے ہونٹوں سے علیحدہ کر لیا اور اس سے دور ہوکر کھڑی ہوگئی۔ وہ گہرے گہرے سانس لے رہی تھی، اسکے چہرے پر شرم اور کسنگ سے ملنے والے مزے کے ملے جلے تاثرات تھے۔ وجی نے پیار سے پنکی کو ایک بار پھر اپنے قریب کیا اور بولا کیا ہوا جان اچھا نہیں لگا کیا؟؟؟ پنکی کچھ نہ بولی محض شرماتی رہی اور پھر پنکی کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ پنکی نے جلدی سے اپنے بیگ سے فون نکالا تو عمیر کی کال تھی۔ وہ کھانے پر پنکی کا انتظار کر رہا تھا۔ پنکی نے وجی کو کہا کہ اب پلیز وہ اسے آرمی ہٹس چھوڑ آئے وہاں اسکے بھائی اور بھابھی اسکا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ سن کر وجی نے عالیہ کو اٹھایا اور اسے ساتھ لیکر پنکی کو آرمی ہٹس چھوڑنے نکل گیا۔ پنکی کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ تھی اور وہ پیار بھری نظروں سے وجی کو دیکھ رہی تھی، وجی بھی خوش تھا کہ آج اس نے پنکی کے خوبصورت ہونٹوں سے رس پی لیا تھا جبکہ عالیہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی دونوں کے چہروں پر موجود تاثرات کو دیکھ کر اندر ہی اندر خوش ہو رہی تھی۔ 

================================================== ==============

جاری ہے۔ 

Quote

کرنل وشال کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ میجر دانش اسکی سیکیورٹی کو ناکام بنا کر وہاں سے فرار ہوگیا ہے اس نے فورا ہی ہر چھوٹے بڑے لاری اڈے، ریلویے سٹیشن ، پولیس چوکی اور جامنگر سے ملنے والے تمام شہری راستوں پرسیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی تھی۔ پولیس تک یہ خبر پہنچائی گئی تھی کہ ایک بڑا دہشت گرد جو ممبئی میں بم دھماکے کرنے کی سازش کر رہا ہے جامنگر میں موجود ہے اور اسکو ڈھونڈنے والے کو 10 لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔ بھاٹیا سوسائیٹی کے 3کلومیٹر کے دائرے میں ہر طرف پولیس موجود تھی اور انکے پاس میجر دانش کی تصاویر بھی موجود تھیں۔ میجر دانش کے لیے کسی بھی صورت یہاں سے نکلنا ممکن نہیں تھا۔

میجر دانش بھی اس بات سے اچھی طرح با خبر تھا کہ اب تک ہر طرف پولیس اور راء کے ایجینٹس میجر دانش کو ڈھونڈ رہے ہونگے۔ وہ اسی بارے میں سوچ رہا تھا اور یہی بات سوچتے ہوئے اس نے امجد کو مخاطب کر کے پوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟ تو امجد نے بتایا جامنگر شہر میں داخل ہونگے اور وہاں ایک چھوٹی کچی آبادی میں ہمارا ٹھکانا ہے وہاں جائیں گے۔ میجر دانش نے امجد سے کہا کہ ہمارا شہر میں جانا ٹھیک نہیں مجھے ہر طرف پولیس ڈھونڈ رہی ہوگی اور شہر میں داخلے کے تمام راستوں پر پولیس موجود ہوگی۔ میجر کی یہ بات سن کر امجد مسکرایا اور بولا کہ ہم نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں، آپ فکر نہ کریں۔ مگر میجر دانش کیسے فکر نہ کرتا، اسکو اچھی طرح معلوم تھا کہ کرنل وشال ہر ممکن کوشش کرے گا اسکو دوبارہ پکڑنے کی۔ اور اگر اس بار میجر دانش پکڑا گیا تو اسکا بچنا ممکن نہیں ہوگا۔ 

میجر دانش ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک ہی امجد نے گاڑی روڈ سے کچے راستے پر اتار لی۔ میجر دانش نے امجد سے پوچھا کہ کچے راستے پر کیوں گاڑی اتاری ہے تو امجد کی بجائے تانیہ نے جواب دیا کہ اب شہر یہاں سے قریب ہی ہے اور 3 کلو میٹر کے فاصلے پر پولیس کا ناکہ ہوگا۔ اس لیے کچھ ضرور کام کرنے ہیں شہر میں داخل ہونے سے پہلے۔ کچھ دور جا کر امجد نے ایک ویرانے میں کچے مٹی کے گھر کے قریب گاڑی روک لی تو سب لوگ گاڑی سے اتر گئے۔ میجر دانش بھی گاڑی سے نیچے اتر آیا اور جگہ کا جائزہ لینے آیا۔ اتنے میں تانیہ اسکے پاس آئی اور اسکو ایک سفید رنگ کی شلوار قمیص پہننے کو دی، میجر کے کپڑے بہت گندے تھے وہ کافی دنوں سے قید میں تھا۔ رانا کاشف اور میجر دانش کی صحت قدرے ایک جیسی ہی تھی لہذا تانیہ نے گاڑی کی ڈگی سے رانا کاشف کا ایک سوٹ نکال کر میجر دانش کو دیا۔ اسکی سلائی انڈین شلوار قمیص کی طرز پر تھی۔ میجر دانش نے ایک دیوار کی اوٹ میں جا کر کپڑے چینج کر لیے اور جب واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ سب لوگ ہی شلوار قمیص پہن چکے ہیں سوائے تانیہ کے جو ابھی تک سرخ رنگ کی ساڑھی زیب تن کیے ہوئے تھی۔ اسکے بعد سرمد آگے بڑھا اور میجر دانش کے چہرے پر ہلکا میک اپ کرنے لگا، نقلی مونچھیں لگائی گئیں جو کسی پہلوان کی مونچھیں معلوم ہورہی تھیں، اسکے علاوہ اسکے چہرے پر ہلکے ہلکے دانے بنا دیے گئے جس سے وہ اب بالکل بھی پہچان میں نہیں آرہا تھا۔ 

پھر تانیہ نے آگے بڑھ کر میجر کو ایک کارڈ پکڑایا، یہ کسی پولیس والے کا کارڈ تھا۔ کارڈ پر انسپیکٹر سنجے ٹھاکر کا نام درج تھا تانیہ نے بتایا کہ اب وہ ایک پولیس والا ہے مگر سول کپڑوں میں ملبوس ، جبکہ تانیہ نے سی آئی ڈی انسپیکٹر سونیا کپور کا کارڈ پنے پرس میں رکھا اور اسی طرح رانا کاشف، امجد اور سرمد کے پاس بھی پولیس والوں کے کارڈ موجود تھے۔ یہ ساری تیاری کر کے سب لوگ دوبارہ سے گاڑی میں بیٹھے اور کچے راستے پر مزید آگے چلتے ہوئے ایک ہائی وے پر چڑھ گئے۔ 5 منٹ کے سفر کے بعد میجر دانش کو کچھ دور گاڑیاں نظر آئیں، قریب جانے پر معلوم ہوا کہ یہ پولیس کا ناکہ ہے۔ امجد نے ناکے پر پہنچ کر گاڑی روک دی، امجد نے داڑھی تو اصلی ہی رکھی ہوئی تھی مگر اب اسکے سر پر دوبارہ سے سکھوں والی پگڑی موجود تھی۔ 

ناکے پر گاڑی روک کر امجد خود نیچے اتر گیا جبکہ دوسری طرف سے سونیا کپور یعنی کہ تانیہ بھی نیچے اترگئی۔ ناکے پر کھڑا ایک پولیس والا بھاگتا ہوا انکی گاڑی کی طرف آیا اور چلاتا ہوا بولا تم دونوں واپس گاڑی میں بیٹھو، جب تک نکلنے کو نہ کہا جائے باہر نہیں نکلنا، تمام گاڑیوں کی تلاشی ہوگی۔ ہم ایک دہشت گرد کی تلاش کر رہے ہیں۔ اس دوران وہ پولیس والا امجد کے بالکل قریب پہنچ گیا جبکہ اسکی نظریں تانیہ کے چھوٹے سے بلاوز سےنظر آنے والے جسم پر تھیں۔ امجد نے جیب سے ایک کارڈ نکالا اور اپنا تعارف کروایا، تانیہ نے بھی اپنے پرس سے کارڈ نکال کر اپنا تعارف کروایا تو پولیس والے نے امجد کو سلیوٹ مارا اور بولا آپ جا سکتے ہیں سر۔ مگر امجد نے جانے کی بجائے اس سے پوچھا کہ ابھی تک کوئی مشتبہ شخص نظر آیا؟؟؟ اس پر پولیس والا بولا سر ہم ہر گاڑی کی تلاشی کر رہے ہیں مگر ابھی تک کوئی ایسا شخص نظر نہیں آیا۔ امجد نے پولیس والے کو سمجھاتے ہوئے کہا دیکھو اپنا کام بہت دھیان سے کرو، کسی بھی گاڑی کو چھوڑنا نہیں چاہے وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو۔ اور دھیان رکھنا، ہو سکتا ہے وہ دہشت گرد ہماری پولیس کی ہی یونیفارم میں یہاں سے بھاگنے کی کوشش کرے۔ لہذا کوئی پولیس والی گاڑی بھی آئے تو اسکو بھی اچھی طرح چیک کرنا۔ انکے کارڈ لازمی چیک کرنا۔ سی آئی ڈی ہر طرف سادہ کپڑوں میں جارہی ہے اسی طرح پولیس کی خفیہ ٹیمیں بھی سادہ کپڑوں میں نگرانی کر رہی ہے اگر کوئی یونیفارم میں اکیلا شخص نظر آئے تو اسکو چھوڑنا مت۔ اسکی اچھی طرح سے تلاشی لینا۔ وہ دہشت گرد بہت چالاک ہے وہ یقینا پولیس والا بن کر نکلنے کی کوشش کرے گا۔ 

امجد کی بات مکمل ہوئی تو پولیس والے نے مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امجد کو سلیوٹ کیا اور رائٹ سر کہتا ہوا واپس دوسری گاڑیوں کے پاس جا کر تلاشی لینے لگا جب کہ تانیہ اور امجد واپس اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے اور امجد نے پولیس ناکے سے گاڑی گزار لی۔ ناکے سے گزرنے کے بعد میجر دانش نے مسکراتے ہوئے امجد سے پوچھا یہ کیا ڈرامہ تھا؟؟؟ تو امجد مسکرایا اور کہا یہاں کی پولیس اور پاکستان کی پولیس سمجھو ایک ہی جیسی ہے۔ کسی کام کی نہیں۔ میں خود پولیس والا بن کر اسکو کہ رہا ہوں کہ دہشت گرد پولیس والا بن کر نکلنے کی کوشش کرے گا لہذا کسی پولیس والے کی گاڑی کو بھی بغیر تلاشی کے جانے نہ دے اور اس پاگل نے ہماری ہی گاڑی کو بغیر تلاشی کے جانے دیا۔ اب پیچھے آنے والی پولیس کی گاڑیوں کو یہ لازمی چیک کرے گا حالانکہ وہ واقعی میں پولیس کی گاڑیں ہونگی۔ یہ کہ کر گاڑی میں موجود تمام لوگ ہنسنے لگے۔ 

================================================== =============

Quote

کرنل وشال بذاتِ خود بھاٹیا سوسائٹی میں موجود اپنے قید خانے میں موجود تھا۔ اسکے ساتھ آئی ٹی ماہر ، ڈاکٹر اور فنگر پرنٹس کی ٹیم بھی موجود تھی۔ راہداری کا دروازہ کھول کر کرنل وشال جیسے ہی اندر داخل ہوا تو اسے سامنے ہی ایجینٹ رائے کی لاش ملی جسکا جسم 2 حصوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔ لاش سے خون بہ کر دروازے تک پہنچا ہوا تھا جبکہ رائے کا چہرہ ناقابلِ شناخت تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ اسکے جسم پر تشدد کے نشان بھی واضح دیکھے جا سکتے تھے۔ کرنل وشال کے ساتھ اسکی ٹیم بھی راہداری میں داخل ہوئی۔ سیکورٹی سسٹم ڈی ایکٹیویٹ کر دیا گیا تھا لہذا کوئی بھی کیمرہ اب کی بار آن نہیں ہوا۔ ساتھ موجود ڈاکٹر ایجینٹ رائے کی لاش کا معائنہ کرنے لگے جبکہ کرنل وشال راہداری میں موجود کنٹرول روم میں گیا جہاں کیپٹن سونیہا کی لاش موجود تھی۔ اسکی لاش کو کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ میجر دانش نے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو کیپٹن سونیہا کا جسم مکمل ننگا تھا، اسکے ننگے جسم کو دیکھ کر کرنل وشال منہ ہی منہ میں بڑبڑایا "جس جسم کا استعمال کر کے تم نے بہت سے دشمنوں کو زیر کیا تھا آج وہی جسم تمہاری جان لے گیا۔" یہ کہ کر اس نے دوبارہ سے چادر کیپٹن سونیہا کے جسم پر ڈال دی اور واسو کی لاش کو دیکھنے لگا۔ اسکے جسم پر تشدد کے نشان نہیں تھے البتہ اسکی گردن موڑ کر اسے مارا گیا تھا۔ 

ڈاکٹرز نے تمام لاشوں کا پوسٹ مارٹم شروع کر دیا تھا مگر کرنل وشال کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا، وہ دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ کس کی موت کیسے ہوئی۔ پھر آئی ٹی ٹیم کی مدد سے کرن وشال نے کیمرہ ریکارڈنگ نکلوائی، کرنل دیکھنا چاہتا تھا کہ میجر دانش جو کہ لوہے کے راڈز کے ساتھ جکڑا ہوا تھا اس نے اپنے آپ کو آزاد کیسے کروایا۔ اور جب کرنل نے دیکھا کہ کیپٹن سونیہا کیسے میجر دانش کے لن کے لیے بےتاب ہورہی تھی اور زیادہ زور دار گھسے لگوانے کے لیے کیپٹن سونیہا نے خود ہی میجر دانش کی ٹانگیں کھولیں تھیں اور بعد میں میجر دانش نے جمپ لگا کر کیپٹن سونیہا کو زندگی کی قید سے آزاد کروا دیا تھا۔ اسکے بعد راہداری سے نکلتے ہوئے جسطرح میجر دانش نے اپنا چہرہ چھپایا اور کیپٹن سونیہا کا چہرہ کیمرے کے سامنے کیا پھر ایجینٹ رائے اور واسو کی موت اور میجر دانش کا بھاگ کر سیکیورٹی گیٹ تک جانا اور وہاں سیکیورٹی اہلکار کی گردن پر چاقو رکھوا کر گیٹ کھلوانا، سب کچھ کرنل وشال نے بلڈنگ میں لگے کیمروں کی مدد سے دیکھ لیا تھا۔ 

کرنل وشال جو کیپٹن سونیہا کی صلاحیتوں کا ہمیشہ ہی معترف رہا تھا آج کرنل کو سونیہا پر بے حد غصہ ہو رہا تھا وہ غصے میں پھر بڑبڑانے لگا کہ پہلے اپنی چوت سے دوسروں کی موت کا سامان کرتی تھی مگر آج اپنی چوت کی کھجلی مٹانے کے چکر میں خود موت کو دعوت دے بیٹھی۔ پھر کرنل نے اس سیکورٹی اہلکار کو بلوایا جس نے میجر دانش کے لیے گیٹ کھولا تھا۔ جیسے ہی وہ سیکیورٹی اہلکار کرنل وشال کے سامنے آیا کرنل نے بغیر کوئی بات کہے جیب سے گن نکالی اور اسکے سر میں 3 گولیاں اتار دیں اور وہ اہلکار لہراتا ہوا زمین پر آرہا۔ ان تمام ویڈیوز کو دیکھ کر کرنل وشال سمجھ گیا تھا کہ میجر دانش کوئی عام ایجینٹ نہیں بلکہ وہ آئی ایس آئی کا خاص ایجینٹ ہے اور اسے پکڑنے کے لیے کرنل وشال کو بذاتِ خود اس مشن کو لیڈ کرنا ہوگا۔

آخر میں کرنل وشال نے مین گیٹ کے بار لگے کیمرے کی ویڈیو دیکھنا شروع کی ، 15 منٹ کی ویڈیو میں میجر دانش کے نکلنے کے بعد ویرانی کے سوا کرنل کو کچھ نظر نہیں آیا جیسے ہی کرنل وشال اس ویڈیو کو بند کرنے لگا اچانک میجر کو ویڈیو میں ایک سایہ نظر آیا جس نے کرنل کو ویڈیو بند کرنے سے روک دیا۔ سایہ ایک جگہ پر رکا ہوا تھا اسکا مطلب تھا کہ یہ جس بھی شخص کا سایہ ہے وہ مین گیٹ کے قریب ہی کھڑا ہے اور کیمرے کی رینج سے اپنے آپ کو بچا کر کھڑا ہے مگر اسکا سایہ کیمرے نے محفوظ کر لیا تھا۔ کرنل وشال ویڈیو کو بغور دیکھ رہا تھا، کچھ دیر کے بعد سایہ اپنی جگہ سے ہلا تو کرنل وشال نے سایے سے اندازہ لگا لیا کہ یہ کسی لڑکی کا سایہ ہے کیونکہ اس میں سایہ لمبے بال دکھا رہا تھا۔ اب کرنل وشال اور بھی تجسس کے ساتھ ویڈیو دیکھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد وہ سایہ اپنی جگہ سے پیچھے کی طرف جانے لگا اور پھر غائب ہوگیا۔

کرنل وشال ابھی بھی ویڈیو بغور دیکھ رہا تھا اچانک کرنل وشال نے دیکھا کہ کیمرے میں سے ایک گاڑی بہت سپیڈ کے ساتھ گزری ہے۔ کرنل وشال نے ویڈیو کو ریوائنڈ کیا اور دوبارہ سے دیکھا مگر پہچان نہیں پایا۔ پھر کرنل نے آئی ٹی ٹیم کی مدد لی اور انہیں کہا کہ وہ اس ویڈیو کا سب سے بہت فریم نکالیں جس میں گاڑی میں موجود لوگوں کا اندازہ لگایا جا سکے اور اگر انکی شکل بھی نظر آجائے تو سب سے بہتر ہوگا۔ 

آئی ٹی ٹیم نے کچھ ہی منٹس میں ویڈیو کے اس حصے کے بے شمار فریمز بنا لیے اور پھر اسمیں سے 20 ایسے فریم نکالے جس میں گاڑی بہت واضح نظر آرہی تھی، مگر گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ کا شیشہ بند تھا اور وہاں سے سورج کی روشنی ریفلیکٹ ہورہی تھی جسکی وجہ سے سیکیورٹی کیمرہ ڈرائیور کی شکل تو صحیح طرح محفوظ نہیں کر پایا مگر ان فریمز سے کرنل وشال کو اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ گاری ڈرائیو کرنے والی لڑکی ہے جس نے سرخ رنگ کا لباس پہن رکھا ہے۔ 

کرنل وشال نے باقی فریمز بھی دیکھے مگر کسی بھی فریم میں لڑکی کی شکل واضح نہیں تھی البتہ کچھ فریمز ایسے تھے جس میں گاڑی کا نمبر دیکھا جا سکتا تھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ گاڑی کا ماڈل بھی پہچان لیا تھا۔ کرنل وشال نے فورا ہی تمام پولیس فورس کو گاڑی کا نمبر ماڈل اور کلر بتا دیا اور شہر میں داخل ہونے والے تمام راستوں پر لگے سیکیورٹی کیمروں کی چیکنگ کا بھی حکم دیا تاکہ وہ دیکھ سکیں کے یہ گاڑی شہر میں کب اور کس وقت داخل ہوئی اور گاڑی میں کون کون موجود تھا۔ کرنل وشال نے سی آئی ڈی کو بھی ٹاسک دے دیا کہ شہر میں موجود بنک اور دیگر شاپنگ پلازہ یا دوسری بلڈنگ میں لگے کیمروں کی ڈیٹا بیس کو بھی چیک کیا جائے کسی نہ کسی کیمرے سے تو اس گاڑی کے بارے میں پتہ چل ہی جائے گا۔ 

اسکے ساتھ ساتھ کرنل وشال نے اپنے ساتھ آئی ٹی ٹیم کو یہ ٹاسک بھی دے دیا کہ وہ پتا لگائیں کہ اس بلڈنگ میں جتنے بھی سیکیورٹی اہلکار موجود تھے انکے پاس موبائل تھے یا نہیں اور جنکے موبائلز پر کالز آئیں انکے نمبرز کو ٹریس کیا جائے اور جن نمبرز سے کالز آئیں انکو بھی ٹریس کیا جائے تاکہ پتا لگایا جا سکے کہ سیکیورٹی اہلکارز میں سے تو کوئی شامل نہیں تھا جس نے میجر دانش کو یہاں سے نکلنے میں مدد دی ہو یا باہر آنے والی لڑکی جسکا محض سایہ ہی نظر آسکا تھا اسکا کسی سیکیورٹی اہلکار سے رابطہ رہا ہو۔ 

==================================================

Quote

امجد نے اب گاڑی ایک کچی سڑک پر اتار دی تھی ایسا معلوم ہورہا تھا کہ اب انکا رخ کسی گاوں کی طرف ہے۔ اس دوران پیچھے بیٹھے میجر دانش کی آنکھ بھی لگ گئی تھی کیونکہ جب سے وہ قید ہوا تھا یا تو بے ہوش رہتا تھا یا پھر ہوش میں آکر اپنی رہائی کے طریقے ڈھونڈتا تھا۔ ذہنی طور پر وہ کافی تھک چکا تھا اسلیے اسے جلد ہی نیند آگئی۔ کچی سڑ ک پر جب گاڑی کو کچھ جھٹکے لگے تو میجر دانش کی آنکھ کھلی تھی۔ اس نے امجد سے پوچھا کہ یہ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں تو اسنے بتایا کہ بس کچھ ہی دیر میں ہمارا ٹھکانا آجائے گا جو آبادی سے کچھ دور ہے۔ یہ سن کر امجد خاموشی سے بیٹھ گیا۔ رات کا ٹائم تھا گاڑی سے باہر کچھ خاص نظر نہیں آرہا تھا محض اندھیرے کا راج تھا۔ البتہ اتنا ضرور پتا لگ رہا تھا کہ انکے آس پاس یا تو کچھ فصلیں ہیں یا پھر کھیت وغیرہ ہیں جن میں کوئی فصل نہیں ہوگی۔ 

کچھ ہی دیر کے بعد میجر کو دور ایک گھر نظر آنے لگا جس میں ہلکی ہلکی روشنی تھی۔ گاڑی آہستہ آہستہ اسی گھر کی طرف جانےلگی اور کچھ ہی دیر کے بعد اس گھر کے سامنے جا کر گاڑی رک گئی۔ سب سے پہلے تانیہ گاڑی سے اتری اور اس نے جلدی سے دروازہ کھولا اور اندر چلی گئی اسکے بعد باقی لوگ بھی اترے اور میجر دانش بھی رانا کاشف سرمد کے ساتھ اندر چلا گیا جبکہ امجد گاڑی پارک کرنے کے لیے ساتھ ہی ایک خالی پلاٹ کی طرف لے گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کے اندر کمرے ایک کچن اور ایک بیت الخلا تھا۔ اس گھر سے کچھ آگے چند مزید گھر تھے اور دیکھنے میں یہ کوئی چھوٹا سا گاوں یا قصبہ لگتا تھا جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اکٹھے 5، 6 گھر موجود تھے۔ 

اندر جا کر میجر دانش سرمد اور رانا کاشف کے پیچھے چلتا ہوا ایک کمرے میں جا کر بیٹھ گیا۔ کمرے میں دیواروں پر کچھ جدید قسم کا اسلحہ موجود تھا اور کچھ نقشے وغیرہ لگے ہوئے تھے۔ میجر دانش ایک نقشے کو بغور دیکھنے لگا تو یہ ممبئی کا نقشہ تھا۔ ابھی میجر دانش نقشے کو دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکی اندر داخل ہوئی۔ شلوار قمیص پہنے ہوئے سر پر دوپٹہ لپیٹے اور گلے کو اپنے لمبے دوپٹے سے اچھی طرح ڈھانپے لڑکی بلا جھجھک اندر داخل ہوگئی۔ اسکے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں بڑے بڑے گلاس موجود تھے۔ لڑکی وہ گلاس پہلے سرمد اور پھر رانا کاشف کے آگے لیکر گئی اور پھر آخر میں میجر دانش کی طرف آئی۔ جب یہ لڑکی میجر دانش کے قریب آئی اور بولی کہ آپ بھی ایک گلاس اٹھا لیں تو میجر دانش کی ہنسی نکل گئی۔ 

یہ دوپٹے میں لپٹی لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ تانیہ ہی تھی جس نے کچھ دیر پہلے ہاف بلاوز والی ساڑھی پہن رکھی تھی جس میں اسکا جسم بہت واضح نظر آرہا تھا اور بلاوز کے گلے سے کلیویج لائن بھی دعوتِ نظارہ دے رہی تھی۔ تانیہ نے غصے سے میجر کی طرف دیکھا اور بولی اس میں ہنسنے والی کونسی بات ہے؟؟؟ میجر دانش نے ہنستے ہوئے کہا ابھی کچھ دیر پہلے تم کیا تھی اور اب کیا بن گئی ہو؟؟؟ یہ کہ کر وہ پھر ہنسنے لگا اور ایک گلاس اٹھا لیا۔ دانش کو ہنستا دیکھ کر اب سرمد اور رانا کاشف بھی ہنس رہے تھے۔ میجر دانش نے گلاس کی طرف دیکھا تو اس میں گرما گرم دودھ تھا جو تانیہ نے گھر آتے ہی چولہے پر گرم کیا تھا۔ دانش نے ایک گھونٹ دودھ کا پیا تو اسکو سکون مل گیا۔ کافی دن کے بعد اسے کوئی طاقت مہیا کرنے والی خوراک ملی تھی۔ میجر نے 2 گھونٹ مزید بھرے اور پورا گلاس خالی کر دیا۔ گرم گرم خالص دودھ نے چند ہی منٹ میں دانش کے جسم کو سکون پہنچا دیا تھا۔ اب وہ ایک بار پھر تانیہ کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا جو نیچے بچھی ہوئی چٹائی پر آلتی پالتی مارے آرام آرام سے دودھ پینے میں مصروف تھی۔ 

اسکو دیکھ کر سرمد مخاطب ہوا اور بولا اصل میں تانیہ ہمیشہ ایسے ہی لباس میں رہتی ہے یہی ہمارا روایتی لباس ہے، مگر جب کبھی کسی مشن پر نکلنا ہوتا ہے تو مجبوری کی وجہ سے ایسا لباس بھی پہننا پڑ جاتا ہے جو ہندو کلچر کے مطابق ہوتا ہے تاکہ کسی کو جلدی شک نہ ہو۔ اگر یہ اسی حلیے میں مشن پر جائے گی تو بڑی آسانی سے پکڑی جائے گی مگر اپنے سیکسی لباس کی وجہ سے لوگ اسکو کوئی ماڈرن لڑکی سمجھتے ہیں جسکا تعلق کسی بڑے گھرانے سے ہوگا اس لیے اس پر کسی کو آسانی سے شک نہیں ہوتا۔ میجر دانش اب سمجھ گیا تھا کہ یہ ہیں تو واقعی مجاہدین اور انکو میجر جنرل اشفاق کی طرف سے ٹارگٹ دیا گیا تھا کہ میجر دانش کو کرنل وشال کی قید سے نکلوائیں۔ تانیہ نے جاسوسی کرنے کے لیے آگے جانا تھا اسی لیے اس نے ساڑھی زیب تن کی تھی تاکہ وہ اپنے حلیے سے عام سی لڑکی لگے جو شاید راستہ بھول کر اس بلڈنگ تک پہنچ گئی ہو۔ میجر دانش نے اسی سوچ میں گم تانیہ کی طرف دیکھا تو وہ کھا جانے والی نظروں سے میجر دانش کوگھور رہی تھی جو کچھ دیر پہلے تانیہ پر ہنس رہا تھا۔ 

اتنے میں امجد بھی اندر آگیا تھا اور وہ بھی نیچے بچھی ہوئی چٹائی پر بیٹھ گیا اور ٹرے میں پڑا ہوا آخری گلاس اٹھا کر ایک ہی سانس میں سارا گلاس خالی کر گیا ۔ اس سے پہلے کہ میجر دانش امجد سے آگے کا پلان پوچھتا اسے موبائل فون کی بیل سنائی دی۔ موبائل فون کی گھنٹی بجی تو تانیہ نے فورا اپنے پاس پڑے لیڈیز بیگ میں سے موبائل فون نکالا اور اس پر کسی سے بات کرنے لگی۔ موبائل فون دیکھ کر میجردانش کی چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ 

Quote

میجر دانش نے امجد سے پوچھا کہ یہ موبائل کس کا ہے؟ تو امجد نے بتایا تانیہ کہ پاس ہی ہوتا ہے لیکن ہم نے کبھی اسکو اپنے کاموں کے لیے استعمال نہیں کیا، اسکی کچھ لڑکیاں دوست بنی ہوئی ہیں وہی اس سے فون پر بات کرتی ہیں۔ میجر نے تانیہ کی طرف دیکھا تو وہ بہت خوشگوار موڈ میں اپنی کسی دوست سے خوش گپیاں لگانے میں مصروف تھی۔ میجر نے نیچے پڑے بیگ کی طرف دیکھا تو یہ وہی بیگ تھا جو تانیہ کے ہاتھ میں اسوقت بھی تھا جب اس نے پہلی بار تانیہ کو دیکھا تھا۔ اب کی بار میجر نے دوبارہ امجد سے پوچھا جب تانیہ جاسوس کے لیے بھاٹیہ سوسائٹی میں موجود قید خانے کے قریب گئی تھی کیا اس وقت بھی اسکے پاس فون موجود تھا تو امجد بولا کہ ہاں اسکے پاس ہر وقت فون رہتا ہے مگر خطرے کی کوئی بات نہیں ہم نے کبھی بھی اس فون کو آئی ایس آئی یا کشمیری مجاہدین کے ساتھ رابطے ک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

ابھی امجد کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ میجر دانش فورا تانیہ کی طرف بڑھا اور اس سے موبائل پکڑ کر دوسری سائیڈ پر موجود لڑکی سے مخاطب ہوکر بولا اگر جان پیاری ہے تو فوری طور پر اس سم کو اور موبائل کو ضائع کر دو اور کچھ عرصے کے لیے روپوش ہوجاو،یہ کہ کر میجر دانش نے فون بند کر دیا اور تانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچتا ہوا باہر لے گیا اور باقی لوگوں کو بھی باہر آنے کو کہا۔ میجر دانش تانیہ کو گھسیٹتے ہوئے لے کر جا رہا تھا اور تانیہ غصے سے میجر کی طرف دیکھ رہی تھی وہ اپنے آپ کو چھڑوانا چاہتی تھی مگر میجر کی گرفت اسکے ہاتھ پر بہت مضبوط تھی ۔ امجد اور اسکے ساتھی بھی میجر کے پیچھے آئے جب وہ کمرے سے نکلے تب تک میجر تانیہ کو گھسیٹتے ہوئے گھر کے مین دروازے سے باہر لیجا چکا تھا۔ 

موبائل ابھی بھی میجر کے ہاتھ میں تھا۔ امجد بھاگتا ہوا آیا اور دانش کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے بولا یہ کیا حرکت ہے؟؟ میجر نے اسکی بات کا جواب دیے بغیر اسے بولا کہ مجھے تم لوگوں سے ایسی بے وقوفی کی امید نہیں تھی اپنی موت کا سامان ساتھ لیے گھوم رہے ہو تم لوگ۔ اب چلو فورا گاڑی میں بیٹھو اور ادھر سے نکلو ورنہ کرنل وشال کے آدمی کسی بھی وقت یہاں پہنچ کر ہم سب کا قیمہ بنا دیں گے۔ امجد اسکی بات سن کر گاڑی کی طرف جانے لگا تو میجر دانش بھی اسکے پیچھے ہولیا اس نے ابھی تک تانیہ کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا اور تانیہ چلا رہی تھی کہ میں آرہی ہوں چھوڑو میرا ہاتھ مگر میجر گویا اسکی بات ہی نہیں سن رہا تھا۔ 

امجد نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا، میجر دانش نے پچھلا دروازہ کھولا اور تانیہ کو اندر دھکا دیا اور خود بھی تانیہ کے ساتھ بیٹھ گیا، تانیہ نے غصے سے بھرے ہوئے لہجے میں کہا تمہیں مسئلہ کیا ہے میں اپنی دوست سے بات کر رہی تھی کسی جاسوس سے نہیں۔ میجر دانش نے تانیہ کی طرف غصے سے دیکھا اور بولا اپنی بکواس بند کرو اور چپ چاپ بیٹھی رہو۔ اتنی دیر میں رانا کاشف گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ چکا تھا جبکہ سرمد دوسری سائیڈ سے آکر پچھلی سیٹ پر تانیہ کے ساتھ بیٹھ گیا تھا ۔ امجد نے گاڑی سٹارٹ کی اور بولا کہاں چلنا ہے، میجر نے کہا جدھر یہ روڈ جا رہا ہے اسی طرف جاو تو امجد نے گئیر لگایا اور گاڑی رات کے سناٹے میں شور کرتی ہوئی چل پڑی۔ ابھی کوئی ایک کلومیٹر ہی گاڑی آگے گئی ہوگی کہ میجر دانش نے پچھلے دروازے کا شیشہ کھولا اور موبائل سڑک سے دور پھینک دیا۔ اسکے بعد میجر دانش نے امجد کو کہا اب گاڑی واپس موڑ لو اور جدھر سے ہم آئے ہیں اسی طرف لے چلو۔ 

امجد نے بغیر کوئی سوال کیے گاڑی واپس موڑ لی، وہ جانتا تھا کہ میجر دانش آئی ایس آئی میں ہے ضرور ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے جسکا میجر کو پتا لگ گیا ہے لہذا اس وقت اسکی بات ماننے میں ہی عقلمندی ہے۔ اب گاڑی فل سپیڈ میں اسی راستے سے واپس جا رہی تھی جس کچے راستے سے یہ لوگ اپنے ٹھکانے پر پہنچے تھے۔ میجر دانش نے اب امجد کو کہا گاڑی کی ہیڈ لائٹس مکمل آف کر دو۔ کوئی بھی لائٹ جلنی نہیں چاہیے۔ امجد نے کہا اسطرح ڈرائیونگ کرنا بہت مشکل ہوگا کچی سڑک ہے گاڑی سڑک سے نیچے اتر گئی تو کھیتوں میں چلی جائے گی۔ مگر میجر دانش نے کہا جیسا میں کہ رہا ہوں ویسا ہی کرو۔ امجد نے اب بغیر کوئی سوال کیے گاڑی کی لائٹس آف کر دیں اور سپیڈ بھی سلو کر کے بہت احتیاط کے ساتھ ڈرائیو کرنے لگا۔ 

کچھ دیر صبر کرنے کے بعد میجر دانش نے امجد کو گاڑی روکنے کا کہا اور جیسے ہی امجد نے گاڑی روکی میجر دانش گاڑی سے اترا اور امجد کو بھی اترنے کو بولا، امجد گاڑی سے باہر آیا تو میجر گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور امجد کو پچھلی سیٹ پر تانیہ کے ساتھ بیٹھنے کو کہا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی میجر نے گئیر لگایا اور گاڑی دوبارہ سے اسی کچی سڑک پر چلنے لگی۔ مگر اب کی بار گاڑی کی رفتار پہلے کی نسبت بہت تیز تھی۔ گو کہ میجر دانش ان راستوں سے واقف نہیں تھا مگر اسکو اندھیرے میں گاڑی چلانے کی خاص ٹریننگ دی گئی تھی، اسکی نظریں روڈ پر تھیں اور وہ کافی آگے ہوکر بیٹھا پوری توجہ کے ساتھ روڈ کو دیکھ رہا تھا اور گاڑی مسلسل کچے راستے سے تیزی کے ساتھ مین روڈ کی طرف بڑھ رہی تھی۔

امجد میجر دانش کو انجان روڈ پر اس مہارت کے ساتھ اندھیرے میں گاڑی چلاتا دیکھ کر حیران ہورہا تھا، امجد جو پچھلے 1 سال سے اس علاقے میں رہ رہا تھا اور اس کچے روڈ سے واقف تھا وہ بھی اندھیرے میں اتنی سپیڈ کے ساتھ گاڑی چلانے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا جس سپیڈ سے میجر دانش گاڑی چا رہا تھا۔ اچانک ہی میجر دانش نے سٹئیرنگ موڑا اور گاڑی کچے روڈ سے اتر کر روڈ کی سائیڈ پر لگے درختوں میں سے ہوتی ہوئی ایک میدان میں اتر گئی جہاں کچھ جھاڑیاں موجود تھیں۔ یہاں پہنچ کر میجر دانش نے گاڑی کا انجن بند کر دیا۔ امجد نے پوچھا کیا ہوا گاڑی سڑک سے نیچے کیوں اتاری تو میجر دانش نے دوسری طرف اشارہ کیا جہاں آہستہ آہستہ روشنی بڑھ رہی تھی۔ آگے سڑک مڑ رہی تھی اور اسی موڑ سے روشنی آگے بڑھ رہی تھی۔ 

کچھ ہی دیر کے بعد وہاں سے گاڑیوں کی ایک لمبی قطار گزرنے لگی، اس میں کچھ پولیس کی گاڑیاں تھیں جبکہ سب سے آگے آرمی کی جیپ تھی جس میں انڈین آرمی کے جوان اپنی بندوقیں سنبھالے چوکنے بیٹھے تھے اور پولیس والے بھی اسلحے سے لیس تھے۔ 

یہ قریب 10 گاڑیاں تھیں جو طوفانی رفتار سے اسی طرف جا رہی تھیں جہاں کچھ دیر پہلے میجر دانش اور باقی لوگ دودھ پی رہے تھے۔ جب یہ گاڑیاں گزر گئیں تو ایک بار پھر میجر دانش نے گاڑی سٹارٹ کی اور دوبارہ سڑک پر چڑھا کر مین روڈ کی طرف جانے لگا، لیکن اس بار اسکی گاڑی کی لائٹس آن تھیں اور رفتار پہلے سے ڈبل تھی۔

پولیس اور آرمی کی گاڑیاں دیکھ کر امجد اور اسکے ساتھی اتنا تو سمجھ ہی گئے تھے کہ یہ فورس انہی کا پیچھا کرتے یہاں تک پہنچی ہے مگر وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ آخر وہ یہاں تک کیسے پہنچ گئے۔۔۔ اب کی بار امجد نے میجر دانش سے پوچھا کیا انہوں نے اس موبائل فون کے ذریعے ہمیں ٹریس کیا ہے؟؟؟ میجر دانش نے کہا ہاں بالکل اسی موبائل فون سے ہمارے ٹھکانے کا پتا لگا انہیں۔ اور اگر تانیہ کی دوست کا فون نہ آتا اور مجھے پتا ہی نہ لگتا کہ یہاں ہمارے پاس ایک فون بھی موجود ہے تو اب تک ہم انکی گولیوں سے بھن چکے ہوتے۔ امجد نے ایک بار پھر پوچھا کہ لیکن یہ کیسے ممکن ہے جبکہ ہم نے اس فون سے نہ کسی سیکیورٹی ایجنسی سے رابطہ کیا اور نہ ہی پاکستان میں کسی سے رابطہ کیا یہ تو محض تانیہ اپنی دوستوں سے بات کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے تو اس فون پر کیسے کسی کو شک ہو سکتا ہے۔ ؟؟

Quote

میجر دانش نے بیک ویو مرر سے ایک بار امجد کو اور پھر تانیہ کو دیکھا اور بولا کہ جب تانیہ قید خانے کے قریب گئئ تو اسوقت یقینی طور پر اسکا موبائل آن تھا۔ اور کرنل وشال آسانی سے ٹیلیکام کمپنیوں سے یہ ڈیٹا لے سکتا ہے کہ جس وقت میں وہاں سے بھاگا اس وقت اس ایریا میں کون کونسے موبائل نمبرز آن تھے۔ اور کوئی بھی خفیہ ایجینسی کا آدمی سب سے پہلے یہی بات سوچے گا کہ اندر موجود کوئی نہ کوئی سیکیورٹی اہلکار باہر والوں سے رابطے میں تھا تو وہ فورا فون ریکارڈز بھی چیک کرے گا اور وہاں موجود تمام فون نمبرز کی معلومات بھی نکلوائے گا۔ 

جیسے ہی کرنل وشال نے یہ معلومات لی ہونگی تو اسمیں تانیہ کا فون نمبر بھی آیا ہوگا اور یہ فون ٹھیک اسی وقت اس ایریا میں موجود تھا جب مجھے اس بلڈن سے نکلے محض چند منٹ ہی ہوئے تھے۔ اس لیے کرنل وشال فورا سمجھ گیا ہوگا کہ یہ میجر دانش کے کسی ساتھی کا فون ہے۔ اور پھر کرنل وشال با آسانی اس فون کی موجودہ لوکیشن پتا کروا سکتا ہے اسکے علاوہ یہ فون اس سے پہلے کس کس لوکیشن پر استعمال ہوا وہ ساری معلومات بھی کرنل وشال نکال چکا ہوگا۔ لہذا اب کسی بھی ایسے ٹھکانے پر جانے کی کوشش نہ کرنا جہاں تم لوگ پہلے رہ چکے ہو۔ ان تمام لوکیشنز کے بارے میں کرنل وشال کو علم ہو چکا ہوگا اور وہاں وہ اپنی فورس بھیج چکا ہوگا۔ لیکن ہماری کرنٹ لوکیشن یہی گھر تھا اسی لیے اس نے سب سے پہلے اسی لوکیشن پر اپنی فورس بھیجی ہے ہمارا صفایا کروانے کے لیے ۔ 

میجر کی بات پوری ہونے پر امجد نے ایک لمبی ہوں ں ں ں۔۔۔۔۔۔۔۔ کی اور پھر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ اب مین روڈ آچکاتھا اور گاڑی مشرق کی جانب مین روڈ پر 120 کی رفتار سے جا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں ایک پٹرول پمپ پر میجر دانش نے گاڑی روکی اور امجد سے پوچھا کہ اسکے پاس انڈین کرنسی موجود ہے ؟؟؟ تو امجد نے کہا ہاں پیسوں کا کوئی مسئلہ نہیں یہاں ہمارے پاس انڈین کرنسی ہی ہوتی ہے۔ امجد کی بات سن کر میجر نے ایک پمپ کے ساتھ گاڑی لگائی اور پمپ والے کو ٹینکی فل کرنے کو کہا۔ اسکے ساتھ ہی اس نے امجد کو نیچے اترنے کا کہا اور پمپ پر موجود ایک ٹک شاپ میں چلا گیا جہاں سے وہ کھانے پینے کا سامان اور جوس وغیرہ لینے لگا۔ 
امجد اس وقت سکھ کے حلیے میں تھا اور ٹک شاپ پر بیٹھا آدمی بھی سکھ تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو ست سری اکال کہا۔ اور آپس میں باتیں کرنے لگے جبکہ میجر دانش ضرور سامان لینے میں مصروف تھا۔ اتنے میں وہاں موجود ٹی وی پر ایک بریکنگ نیوز چلی جس میں بتایا جا رہا تھا کہ انڈین آرمی نے جامنگر میں بیدی روڈ پر موجود دہشت گردوں کے ٹھکانے پر حملہ کیا ہے۔ وہاں سے دہشت گرد بھاگ نکلے لیکن انکے ٹھکانے سے اسلحہ، ممبئی ، دہلی اور انڈیا کے دوسرے بڑے شہروں کے نقشے برآمد ہوئے ہیں۔ یہ خبر چلی تو امجد نے ٹیڑھی نظروں سے میجر دانش کو دیکھا تو اسنے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا شکر کرو ہم بچ گئے ہیں۔ ۔ 

مگر اس سے اگلی خبر اور بھی خطرناک تھی۔ ٹی وی پر اب ایک نیلے رنگ کی گاڑی کی ہلکی سی جھلک دکھا رہے تھے گاڑی میں موجود لوگ تو نظر نہیں آرہے تھے مگر نیوز کاسٹر بتا رہی تھی کہ ایک نیلے رنگ کی سوزوکی ماروتی جسکی نمبر پلیٹ جعلی ہے دہشت گردوں کے استعمال میں ہے اور کچھ دیر پہلے اس گاڑی پر ٹی این 59، اے کیو 1515 کی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی اور گاڑی میں کم سے کم 3 دہشت گرد موجود ہیں جن میں ایک لڑکی بھی شامل ہے۔ یہ خبر چلی تو میجر دانش فورا امجد کے قریب آیا اور جتنا سامان وہ اٹھا چکا تھا اسکی پے منٹ کرنے کو کہا۔ امجد نے فوران جیب سے کچھ نوٹ نکالے اور اس سکھ دکاندار کو دیے وہ اب بل بنا رہا تھا اور ساتھ ساتھ کہ رہا تھا گرو جی اینا دہشت گرداں نو سیدھا رستہ وکھاوے کیڑے پاسے ٹرگئے نے اے لوکی۔ نال ایک کڑی وی لئی پھردے نے۔ اسکی بات سن کر امجد نے بھی کہا بس بھاجی پیسے دی کھیڈ ہے ساری۔ پیسے دے پچھے غلط کم کردے نے لوکی تے دشمن تے کہے تے چلدے نے۔ 

امجد کی آواز میں واضح گھبراہٹ موجود تھی کیونکہ یہ لوگ ابھی تک اسی سوزوکی ماروتی پر سوار تھے جسکا نمبر ابھی ابھی ٹی وی پر بتایا گیا تھا اور گاڑی میں تانیہ بھی موجود تھی۔ مگر اچھی بات یہ تھی کہ اس ٹک شاپ اور گاڑی کے درمیان میں پمپ موجود تھا اسلیے گاڑی واضح نظر نہں آرہی تھی اور اسکا نمبر بھی واضح نہیں تھا۔ اس چیز کو میجر دانش نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا اس لیے اسکے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نہیں تھے مگر اسکو یہاں سے نکلنے کی جلدی ضرور تھی۔ خبروں میں مزید بتایا جا رہا تھا کہ دہشت گرد اپنا ٹھکانا چھوڑ کر بیدی روڈ سے بیدی پورٹ کی طرف گئے ہیں اور راستے میں انکا موبائل بھی ملا ہے۔

Quote

یہ خبر سنتے ہی میجر دانش کو تھوڑا اطمینان ہوا کیونکہ یہاں پر بھی اسکے شاطر ذہن نے کرنل وشال کو غلط راستے کی طرف بھیج دیا تھا۔ اپنے ٹھکانے سے آگے بیدی روڈ کی طرف گاڑی لیجا کر راستے میں موبائل پھینکنا اور پھر واپسی کی طرف سفر کرنے کا مقصد میجر دانش کا یہی تھا کہ جب کرنل وشال کے لوگ یہاں پہنچیں گے تو وہ یہی اندازہ لگائیں گے کہ میجر انش اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسی راستے پر آگے گیا ہے اور چلتی گاڑی سے اپنا موبائل یہاں پھینک دیا۔ جبکہ میجر دانش نے موبائل پھینکنے کے بعد واپسی کا سفر کیا تھا اور اب وہ بیدی روڈ اور بیدی پورٹ سے بہت دور ہائی وے نمبر 6 پر ریلائینس گیس سٹیشن پر کھڑا تھا۔ میجر دانش کی ٹرک کام کر گئی تھی اور اسے تھوڑا ٹائم مل گیا تھا آگے کا پلان کرنے کا۔ مگر وہ جانتا تھا کہ کرنل وشال جلد ہی دوبارا اسکا سراغ لگا لے گا لہذا سب سے پہلے اس سوزوکی ماروتی سے پیچھا چھڑوانا تھا۔ 

پیسے دینے کے بعد میجر دانش اور امجد جلدی سے واپس گاڑی میں آئے پمپ والے کو بھی پٹرول کے پیسے دیے اور اب کی بار میجر دانش پیچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور امجد ڈرائیو کرنے لگا۔ گاڑی میں بیٹھ کر میجر دانش نے سب سے پہلے سرمد کاشف اور تانیہ کو تازہ ترین خبر سنائی کہ انکے پہلے ٹھکانے پر فورس نے حملہ کر دیا اور اسلحہ وغیر قبضے میں لے لیا، اسکے ساتھ ساتھ انکو ہماری گاڑی اور اس پر لگی نمبر پلیٹ کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایک لڑکی بھی ہے۔ 

یہ خبر سنانے کے بعد میجر دانش نے امجد کی طرف دیکھا جو گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور اس سے پوچھا کہ اب ہم کہاں جارہے ہیں؟ تو امجد نے بتایا کہ اب ہمارا رخ جونا گڑھ کی طرف ہے۔ یہ بھی ریاست گجرات کا ہی ایک شہر ہے اور جامنگر سے کوئی 3 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ میجر دانش نے کہا کہ جونا گڑھ تک بہت سے چھوٹے چھوٹے شہر آئیں گے راستے میں، اور ہمیں کسی بھی جگہ پر پولیس روک سکتی ہے لہذا سب سے پہلے اس گاڑی سے چھٹکارا حاصل کرو اور دوسری بات ہم سب کے سب اکٹھے نہیں جائیں گے بلکہ علیحدہ علیحدہ جائیں گے تاکہ کسی کو شک نہ ہو ہم پر۔ 

امجد نے کچھ دور جا کر گاڑی روک لی اور نیچے اتر کر ڈگی کھولی اس میں سے ایک نئی نمبر پلیٹ نکال کر گاڑی پر لگانے لگا، جبکہ اس نے تانیہ کو کہا کہ وہ بھی گاڑی سے اپنے کپڑے نکالے اور اپنا حلیہ تبدیل کر لے۔ تانیہ نے پیچھے پڑے بیگ سے کپڑے نکالے اور اندھیرے میں جاکر اپنے کپڑے بدل لیے۔ واپس آئی تو اس نے ایک ٹائٹ جینز پہن رکھی تھی اور ساتھ میں ایک فٹنگ والی شرٹ تھی جس سے اسکے جسم کے ابھار کافی واضح ہورہے تھے۔ میجر دانش نے ایک نظر اس پر ڈالی اور دل ہی دل میں اسکی خوبصورتی کی تعریفیں کرنے لگا۔ 

امجد نمبر پلیٹ تبدیل کر چکا تھا۔ نمبر پلیٹ تبدیل کرنے کے بعد وہ بولا کہ اس گاڑی کو تم لوگ مجھ پر چھوڑ دو۔ میں یہی گاڑی لیکر جونا گڑھ تک جاونگا۔ جبکہ سرمد اور رانا کاشف بس کے ذریعے جونا گڑھ پہنچیں گے۔ اور تانیہ تم میجر دانش کے ساتھ جاو، تم بھی بس میں جاو گے مگر رانا کاشف اور سرمد علیحدہ بس میں ہونگے اور میجر دانش اور تم علیحدہ بس میں۔ اور جونا گڑھ پہنچ کر تم میجر دانش کو گائیڈ کرو گی کہ ہمارے ٹھکانے تک کیسے پہنچنا ہے جبکہ کاشف اور سرمد دونوں خود ہی پہنچ جائیں گے۔

اب سب لوگ دوبارہ سے گاڑی میں بیٹھے اور کچھ ہی دور ایک بس سٹاپ پر گاڑی روک لی۔ وہاں امجد نے رانا کاشف اور سرمد کو گاڑی سے اتارا اور انکو ساتھ میں کچھ سامان لیجانے کو کہا جو میجر دانش نے پٹرول پمپ سے خریدا تھا۔ انہوں نے وہ سامان اٹھایا اور سامنے کھڑی بس میں بیٹھ گئے جو چلنے کے لیے تیار تھی۔ جب بس چل پڑی تو بس کے پیچھے پیچھے امجد نے گاڑی چلانا شروع کردی اور اگلے بس سٹاپ پر پہنچ کر بس سٹاپ سے کچھ پہلے گاڑی روک لی۔ 

یہاں میجر دانش نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جیب سے ایک موبائل فون نکالا۔ امجد نے میجر کے ہاتھ میں فون دیکھا تو فورا بولا یہ کہاں سے ملا؟؟؟ تو میجر دانش نے بتایا تمہارے سکھ بھائی کا اٹھایا ہے پٹرول پمپ سے ۔ یہ کہ کر میجر دانش نے موبائل میں ایک نمبر سیو کیا اور وٹس ایپ کے زریعے ایک کال ملائی۔ یہ نمبر پاکستان کا تھا ۔ کچھ دیر کے بعد آگے سے ایک خاتون کی آواز آئی تو میجر دانش نے پوچھا کیسی ہو علینہ؟؟؟ آگے سے علینہ کی آواز آئی تم کون بول رہے ہو؟؟؟ تو میجر دانش نے کہا ارے واہ، اتنی جلدی بھول گئی اپنے عاشق کو؟؟؟ ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھا کر اب پوچھ رہی ہو تم کون؟؟؟ علینہ نے دوبارہ کہا سیدھی طرح اپنا نام بتاو نہیں تو میں فون بند کر رہی ہوں۔۔۔ میجر دانش اب کی بار بولا سنو تو جانِ من، اپنی ایک تصویر ہی وٹس ایپ کر دو عرصہ ہوا تمہیں دیکھے ہوئے۔ 

Quote






desi blouse cleavagemaa beta sex story hindiindiansex stories hinditamil insects storiesDidichavatlatest kathalubur ki chataipornfilmnepalidesi urdu storyelder sister brother sexdesi aunties exbiihindi xxx kahaniyaphoto of shakeelaक्योंजी मल और कैसै कैसै लियाpopular pornstar namesxxxy storywww.sexstoreis.comlactating sex storiessex video free tamilமாமாவின் பால் வெறிlatest tamil sex kathaikaldesi fckinghot desi aunties pictureshot bengali wivessaree strippeddesi girl fantasydesi sexxymast sexy storieshindi maa beta sex storyblu felmssex hindi desimadhvi tarak mehtawww.sex storiybhabhixxx school giral videoshakeela hot picscrowded bus sex storiesrani nudehairy armpits of indian actressestelugu hot kadalupictures of 10 inch dicksek wil jou naaifree incest porn comictelugu hard corehindi front sex storyxxx aunty with boytamil sex stories tamil languagekajal agarwal sex storygand lund storiesindiansex storeissex stores urdulatest tamilsex storyindian baltkarmasala kathalu telugukamsin ladki ke sharirik vikas ki kahaniaunties boobs pictureladke ka lundgirls dressed and undressed picschoti gandtamil swx storiesinsects sex stories10 பேருடன் ஓத்த கதைsex tales indianbhabhi stories in hindixxx urdu sex storiesmeena nudesantarvashna hindi sex storieshairy armpit girl picsmysex gamebollywood act nudehinde sexy storieurdu incent storiestarak mehta madhavidesi sex stories hindi